’’میری کمائی‘‘
اﷲ تعالیٰ نے آپ کے چند سال کام کرنے کے عوض آپ کو 60سال تک رزق دیا
ایک صاحب فرما رہے تھے کہ میں نے ساری عمر محنت کی، بچوں کو پالا، ان کی شادی کی،گھراور جائیدار بنائی۔ میری اولاد اب مجھے چھوڑ کر الگ ہو گئی ہے، میرا بنایا ہوا مکان جائیداد تقسیم کر لی ہے۔
میری ساری کمائی غارت کر دی، اب میں کیا کروں، میری عمر ساٹھ سال سے زائدہو گئی ہے، کام کرکر کے تھک گیا ہوں۔ ساتھ ہی ایک بزرگ بیٹھے تھے، بولے!بھئی آپ ذرا بتائیں کہ آپ نے کتنا کمایا؟ذرا حساب تو لگائو،ان ساٹھ برسوں میں تم نے کتنے عرصے کمایا، جب تم پیدا ہوئے تو تمھارے والدین نے تمھیں کھلایا پلایا، پھر اسکول میں داخل کرایا، تم کالج گئے، یونیورسٹی گئے، اکیس سال کی عمر میں تم نے ایم اے کیا ہو گا،پھر ملازمت ملی تو تمھاری کمائی شروع ہوئی، اس طرح 22سال کی عمر تک تم نے کچھ نہ کمایا، اب رہے باقی 38سال۔
38سال میں تم دن کو جاگے اور رات کو سوئے، سوتے ہوئے تم نے کچھ نہ کمایا ، اس طرح 24گھنٹے میں سے 12گھنٹے نکال دو تو 38سال کا نصف حصہ تو بغیر کچھ کمائے گزر گیا، یوں تم نے 19سال بغیر کچھ کمائے گزار دیے۔ان باقی برسوں میں تم نے ہر ہفتے ایک چھٹی بھی کی ہو گی، اس طرح ہر سال48اور 19برسوں میں 912چھٹیاں کیں یعنی 19سال میں سے اڑھائی سال اور کم ہو گئے۔بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی، دن کے بارہ گھنٹوں میں سے8گھنٹے تک ہی کام کیا ہو گا اور باقی 4گھنٹے بھی فارغ رہے ہو گے، ان کو بھی اگر جمع کریں تو پانچ سال اور دس ماہ اور کم ہو جائیں گے۔
اڑھائی سال اور پانچ سال دس ماہ ملا کر 19سال میں سے نکالیں تو آٹھ سال چار ماہ مزید کم ہوںگے۔ اس طرح تم نے کل دس سال آٹھ ماہ کام کیا۔اس عرصے میں آپ نے بیماری کی رخصت بھی لی ہو گی اور دوسری گھریلو مصروفیات کی بنا پر کام پر بھی نہ گئے ہو ں گے، ان کی اوسط مدت بھی تقریباً تین سال سے زائد بنے گی۔(ہر سال ایک ماہ کی Privilege Leaveاور پندرہ دن کی اتفاقیہ رخصت ہوتی ہے) یہ ساڑھے تین سال بھی ملازمت کے ایام سے نکالیں تو اوسطاً چھ سے سات سال کی مدت ایسی بنے گی کہ جب آپ یہ کہہ سکیں گے کہ آپ نے بہت کام کیا ہے۔اس طرح 60سال کی عمر میں آپ نے اگر چھ ، سات سال کام کیا تو باقی 53سال آپ کو بغیر کام کیے رزق ملا ۔ اس لیے یہ دعویٰ کرنا کہ میں نے ساٹھ سال کام کیا درست نہ ہو گا۔
اﷲ تعالیٰ نے آپ کے چند سال کام کرنے کے عوض آپ کو 60سال تک رزق دیا اور جب آپ ریٹائر ہو کر گھر بیٹھ جاتے ہیں تب بھی آپ کو بغیر کام کیے رزق ملتا ہے۔ہم اس بات پر نہیں اترا سکتے کہ ہم نے کام کر کے رزق کمایا اور خوشحالی حاصل کی، یہ سب اللہ تعالیٰ کی دین ہے، ہمیں ذات باری تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ پالن ہار بھی ہے اور رب کریم بھی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا کہ اگر ایک شخص کو ایک کمرے میں قید کر دیا جائے تو اسے رزق کہاں سے ملے گا۔ آپ نے فرمایا جہاں سے اس کی موت کمرے میں داخل ہو گی۔
انسان سمجھتا ہے کہ وہ ساری زندگی کام کرتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ انسان اپنی زندگی میں جب کوئی مقام و مرتبہ حاصل کر لیتا ہے تو یہ تب بھی یہی سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ اس نے اپنی محنت سے حاصل کیا لیکن اگر غور کیا جائے تو اس حقیقت کو سمجھنے سے آسان ہے کہ انسان کی ساری کامیابی کے پیچھے ایک غیبی مدد بھی ہوتی ہے۔ کامیاب لوگوں کی محنت بھی اس کی کامیابی میں لازم ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے والدین کی محنت و توجہ اور دعائیں بھی قدرت کو اس کے حق میں کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ اسی طرح اس کی بیوی اور بچے بھی اس کی کامیابی کے پیچھے ہوتے ہیں کیونکہ اگر ان کا ساتھ نہ ہو تو شاید وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔
کامیابی کے ساتھ ساتھ غیرمرئی مدد بھی کامیابی کا حصہ ہوتی ہے اور تھوڑا سا غور کرنے سے اس کی سمجھ بھی آ جاتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کر دیا ہے کہ حقیقی معنوں میں انسان ساری زندگی کام کرتا ہی نہیں ہے۔اس کی زندگی کے ابتدائی حصے اور اس کی زندگی کے بڑھاپے کے آخری حصے'کسی محنت و مشقت کے بغیر گزرتے ہیں۔ اسی طرح انسانی زندگی کا درمیانی حصہ ہوتا ہے جس میں وہ معاشی بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ اس میں بھی آدھی زندگی نیند کی نظر ہوتی ہے اور زندگی کا کچھ حصہ چھٹیوں 'بیکاری اور ہڈحرامی کی نظر بھی ہوتا ہے۔ جیسے کسی دفتر میں کوئی ملازم بظاہر 8گھنٹے کام کرتا ہے لیکن ان آٹھ گھنٹوں کے دوران وہ کچھ ٹائم کھانا کھانے میں اور کچھ ٹائم گپیں ہانکنے میں لگا دیتا ہے۔
میری ساری کمائی غارت کر دی، اب میں کیا کروں، میری عمر ساٹھ سال سے زائدہو گئی ہے، کام کرکر کے تھک گیا ہوں۔ ساتھ ہی ایک بزرگ بیٹھے تھے، بولے!بھئی آپ ذرا بتائیں کہ آپ نے کتنا کمایا؟ذرا حساب تو لگائو،ان ساٹھ برسوں میں تم نے کتنے عرصے کمایا، جب تم پیدا ہوئے تو تمھارے والدین نے تمھیں کھلایا پلایا، پھر اسکول میں داخل کرایا، تم کالج گئے، یونیورسٹی گئے، اکیس سال کی عمر میں تم نے ایم اے کیا ہو گا،پھر ملازمت ملی تو تمھاری کمائی شروع ہوئی، اس طرح 22سال کی عمر تک تم نے کچھ نہ کمایا، اب رہے باقی 38سال۔
38سال میں تم دن کو جاگے اور رات کو سوئے، سوتے ہوئے تم نے کچھ نہ کمایا ، اس طرح 24گھنٹے میں سے 12گھنٹے نکال دو تو 38سال کا نصف حصہ تو بغیر کچھ کمائے گزر گیا، یوں تم نے 19سال بغیر کچھ کمائے گزار دیے۔ان باقی برسوں میں تم نے ہر ہفتے ایک چھٹی بھی کی ہو گی، اس طرح ہر سال48اور 19برسوں میں 912چھٹیاں کیں یعنی 19سال میں سے اڑھائی سال اور کم ہو گئے۔بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی، دن کے بارہ گھنٹوں میں سے8گھنٹے تک ہی کام کیا ہو گا اور باقی 4گھنٹے بھی فارغ رہے ہو گے، ان کو بھی اگر جمع کریں تو پانچ سال اور دس ماہ اور کم ہو جائیں گے۔
اڑھائی سال اور پانچ سال دس ماہ ملا کر 19سال میں سے نکالیں تو آٹھ سال چار ماہ مزید کم ہوںگے۔ اس طرح تم نے کل دس سال آٹھ ماہ کام کیا۔اس عرصے میں آپ نے بیماری کی رخصت بھی لی ہو گی اور دوسری گھریلو مصروفیات کی بنا پر کام پر بھی نہ گئے ہو ں گے، ان کی اوسط مدت بھی تقریباً تین سال سے زائد بنے گی۔(ہر سال ایک ماہ کی Privilege Leaveاور پندرہ دن کی اتفاقیہ رخصت ہوتی ہے) یہ ساڑھے تین سال بھی ملازمت کے ایام سے نکالیں تو اوسطاً چھ سے سات سال کی مدت ایسی بنے گی کہ جب آپ یہ کہہ سکیں گے کہ آپ نے بہت کام کیا ہے۔اس طرح 60سال کی عمر میں آپ نے اگر چھ ، سات سال کام کیا تو باقی 53سال آپ کو بغیر کام کیے رزق ملا ۔ اس لیے یہ دعویٰ کرنا کہ میں نے ساٹھ سال کام کیا درست نہ ہو گا۔
اﷲ تعالیٰ نے آپ کے چند سال کام کرنے کے عوض آپ کو 60سال تک رزق دیا اور جب آپ ریٹائر ہو کر گھر بیٹھ جاتے ہیں تب بھی آپ کو بغیر کام کیے رزق ملتا ہے۔ہم اس بات پر نہیں اترا سکتے کہ ہم نے کام کر کے رزق کمایا اور خوشحالی حاصل کی، یہ سب اللہ تعالیٰ کی دین ہے، ہمیں ذات باری تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ پالن ہار بھی ہے اور رب کریم بھی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا کہ اگر ایک شخص کو ایک کمرے میں قید کر دیا جائے تو اسے رزق کہاں سے ملے گا۔ آپ نے فرمایا جہاں سے اس کی موت کمرے میں داخل ہو گی۔
انسان سمجھتا ہے کہ وہ ساری زندگی کام کرتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ انسان اپنی زندگی میں جب کوئی مقام و مرتبہ حاصل کر لیتا ہے تو یہ تب بھی یہی سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ اس نے اپنی محنت سے حاصل کیا لیکن اگر غور کیا جائے تو اس حقیقت کو سمجھنے سے آسان ہے کہ انسان کی ساری کامیابی کے پیچھے ایک غیبی مدد بھی ہوتی ہے۔ کامیاب لوگوں کی محنت بھی اس کی کامیابی میں لازم ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے والدین کی محنت و توجہ اور دعائیں بھی قدرت کو اس کے حق میں کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ اسی طرح اس کی بیوی اور بچے بھی اس کی کامیابی کے پیچھے ہوتے ہیں کیونکہ اگر ان کا ساتھ نہ ہو تو شاید وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔
کامیابی کے ساتھ ساتھ غیرمرئی مدد بھی کامیابی کا حصہ ہوتی ہے اور تھوڑا سا غور کرنے سے اس کی سمجھ بھی آ جاتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کر دیا ہے کہ حقیقی معنوں میں انسان ساری زندگی کام کرتا ہی نہیں ہے۔اس کی زندگی کے ابتدائی حصے اور اس کی زندگی کے بڑھاپے کے آخری حصے'کسی محنت و مشقت کے بغیر گزرتے ہیں۔ اسی طرح انسانی زندگی کا درمیانی حصہ ہوتا ہے جس میں وہ معاشی بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ اس میں بھی آدھی زندگی نیند کی نظر ہوتی ہے اور زندگی کا کچھ حصہ چھٹیوں 'بیکاری اور ہڈحرامی کی نظر بھی ہوتا ہے۔ جیسے کسی دفتر میں کوئی ملازم بظاہر 8گھنٹے کام کرتا ہے لیکن ان آٹھ گھنٹوں کے دوران وہ کچھ ٹائم کھانا کھانے میں اور کچھ ٹائم گپیں ہانکنے میں لگا دیتا ہے۔