بڑھتی ہوئی سیاسی دھند
پاکستان بھلے غیر ذمے دار ملک قرار دیا جاتا، ان کو کوئی بھی فکر نہیں
میرا کالم شایع ہونے تک جھگڑا اور بھی بڑھ چکا ہوگا۔ اس بار یہ جھگڑا اس لیے بڑھا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اپنے منصب کے تقاضے پورے نہیں کیے، وہ کیا کرتے، ان کی پارٹی ان کو یہ سب بے احتیاتی کرنے کا کہا ہوا ہے۔ یہ
کام دوسرے اسپیکر زنے اب سے پہلے نہیں کیا، موجودہ اسپیکر وہ سب کچھ کرنے جارہے ہیں جس سے مجھے تو کم سے کم ہٹلر کے زمانے میں ان کی پارلیمنٹ کی بلڈنگ ریشٹاگ کو آگ لگ گئی تھی۔ اس کا پس منظر اور ہے اور ہماری قومی اسمبلی کا پس منظر اور ہے۔ جو خان صاحب کے دور میں ہوا، وہ آمریتوں کے زمانے میں ہوتا ہے اور اب کے شاید جو روایت پڑی ہے اس کی کوئی بھی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
وہ اسمبلی کا اجلاس بلوانے کے لیے تیار نہیں، عین اس وقت جب خان صاحب اکثریت کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں، وہ اب منفی حربے استعمال کررہے ہیں۔
خان صاحب اب یہ کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے جن لوگوں نے وفاداریاں تبدیل کی ہیں، ان پر آئین کا آرٹیکل 63(i)(a) لاگو ہوتا ہے۔ درست کہتے ہیں مگر ایسے شواہد کہاں ہیں کہ انھوں نے ایسی حرکت کی ہے؟ اس کے شواہد تب پیدا ہوں گے جب نتیجہ نکلے گا، نتیجہ تو ابھی تک نکلا نہیں۔ محض اس بات پر انھیں سزا دی جائے کہ وہ ارادہ یا نیت رکھتے ہیں۔ ایسی کوئی چھڑی دنیا کے کسی بھی قانون میں نہیں۔ روز کوئی نہ کوئی نئی تشریح اس حوالے سے حکومت کے لوگ کرتے رہتے ہیں۔
ہم نے دیکھا ہے جو لانے والے ہوتے ہیں وہ بھی چھوڑ جاتے ہیں ۔ بھٹو صاحب کے پیچھے بھی کچھ اداروں کی آشیرواد تھیں وہ اپنے مخالفین پرٹوٹ پڑے جب برا وقت آیا تو وہ ہم سب کو یاد ہوگا لیکن بھٹو صاحب کا موازنہ آج کے حکمرانوں سے بنتا ہی نہیں۔ چلیں نواز شریف کو لے لیں، وہ بھی اپنے زمانے میں مخالفین پر بہت اچھلے کودے، پھر ان کے ساتھ کیا ہوا۔
آج جو فصل، خان صاحب بو رہے ہیں، کیا وہ اس کو کاٹ سکیں گے؟ شاید یہ بھی آمروں کی طرح باہر رہنے کو ترجیح دیں۔ موصوف نے نہ جانے کسی کے مشورے پر روس کا دورہ کیا اور ہم سب کو مصیبت میں ڈال دیا۔ عین اس وقت جب پیوتن یوکرین پر حملہ کرنے جارہے تھے، ہمارے وزیراعظم اپنے مصاحبوں کے ساتھ ماسکو میں بیٹھے تھے۔
پاکستان بھلے غیر ذمے دار ملک قرار دیا جاتا، ان کو کوئی بھی فکر نہیں۔ اتنا کھل کے تو چین جیسی سپر طاقت روس کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی، یہ کھڑے ہوگئے اور اب اس خوش فہمی میں ہم نہ رہیں کہ ہم پر ان پابندیوں کا اثر نہیں آئے گا جو دنیا نے روس پر مسلط کی ہیں، اس کے پاس تو بے تحاشا بیرونی کرنسی کے ذخائر ہیں ۔ ہماری تو جان کے لالے پڑجائیں گے۔ ایسے وقتوں میں پھر کوئی متحرک ہوجاتا ہے جب کوئی سیدھے مروج راستے سے نہیں نکالا جاسکتا ہو تو پھر اسے دوسرے راستے سے نکلا جاتا ہے ، اس میں نقصان ہماراہوگا۔
ایسا ہوتا ہے آیا ہے،کوئی نئی بات نہیں، کنگز پارٹیوں میں ہوتے ہی موقع پرست ہیں، جب اقتدار سے ڈوریں ٹوٹنے لگتی ہیں، یہ نئی منزل کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔ کل نواز شریف کی پارٹی میں بھی یہی لوگ تھے،اس سے پہلے جونیجو صاحب تھے، جب ضیاء الحق نے انھیں رخصت کیا تو نواز شریف اسی طرح ان کو چھوڑ گئے تھے جیسے آج خان صاحب کو علیم خان چھوڑ گئے ہیں۔
ادھر صدراسحاق خان نے نواز شریف کو اتارا نہیں تھا تو پنجاب اسمبلی کے اسپیکر منظور وٹو ان کی پارٹی کے آدھے لوگ لے کے چل نکلے تھے اور بیچارے وزیر اعلیٰ وائیں، وہیں بیٹھ گئے جہاں اب عثمان بزدار بیٹھنے کو ہیں۔ اس بار پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہی نے ہوائوں کے رخ کو سمجھنے میں تاخیر کردی اور یوں وقت آگے نکل گیا ، وہ اب وقت کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔
خان صاحب اب بھی ادھر ادھرہاتھ پیر مارتے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن اسکور بہت بڑا ہے اور اوور کم رہ گئے ہیں۔ وقت ان کے ہاتھ سے نکل چلا ہے، ہاں بال کو اگر ٹیمپر کرتے ہیں تو شاید اس پوری آندھی سے کچھ نہ کچھ بچ نکلے گا۔ ایک سٹہ انھوں نے روس پر کھیلا تھا، اس کا تو جوس نکل گیا ۔ وہ سمجھے اور ایسے بہت سے ہیں جن کو یہ خیال تھا کہ اس مرتبہ ویسٹ پر روس بھاری پڑے گا اور یوں یہ جو دنیا کی نئی صف بندی ہے، وہ اپنے آپ کو اس صف میں کھڑا کرکے آئی ایم ایف، یورپی یونین، امریکا، ورلڈ بینک ،ایف اے ٹی ایف اور ایسے بہت سے پریشر جو اس مقروض ملک پر وہ ڈالتے رہتے ہیں، وہ بچ نکلیں گے ،مگران دس دنوں میں روس کا روبل چالیس سے پچاس فیصد ڈالر کے مقابلے میں گر چکا ہے۔
روس کی تمام بینکس جو وہ باہر سے چیزیں منگواتے ہیں یا جو چیزیں بیچتے ہیں، اس کی بینک سسٹم کے تحت ٹرانزیکشن نہیں ہوسکتی، ہاں مگر اپنے بحری جہازوں میں وہ ایسا سامان لاسکتا ہے اور بیچ سکتا ہے تو کیا پھر اس ایکسپورٹ اور امپورٹ کے مدمیں جو پیسے ہیں وہ انھیں بحری جہازوں میں کیش کی شکل میں آئیں گے ؟ یہ ناممکن ٹھہرا، یہاں تک کہ جو گیس اور پٹرول بیچتا تھا اور جو اس کے سب سے بڑے خریدار یورپ والے تھے وہ بھی کچھ دنوں میں پابندی کے زیر اثر آجائیں گے۔
امریکا اور یورپی یونین کی ملٹی نیشنل فوڈ چینز نے اپنی تما م اشیاء روس میں بند کردی ہیں۔ جو ان کے جہازوں کے اسپیئر پارٹ امریکا سے ملتے تھے ان پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ جو مغرب کے پاس پابندیوں والا ہتھیار ہے خان صاحب کیسے ان سے اپنے آپ کو بری کراسکتے ہیں ۔ یہ جو ان کی ماسکو یاترا تھی ، ایسے وقت میں تو ایران ، افغانستان اور شام کے حکمران روس کے قریب سے گزرتے بھی نا۔ اور ہم چلے ہیں وہاں اپنا کرکٹ کا بلا لے کر چھکا مارنے ۔ پتا تب چلا کہ بائونڈری پر یورپی یونین نے اس کا کیچ پکڑ لیا۔ جنھوں نے اس دورے پر سٹہ کھیلا تھا وہ اور ہم جیسے کروڑوں معصوم پاکستانی بھی بازی ہار گئے۔
حالت یہ ہے کہ ایک جلسہ عام میں کھڑے کھڑے یورپی یونین کو سنا دی، بغیر یہ جانے کہ اس کے نتائج سنگین ہوںگے۔ میری پچاس سالہ عمر کا خطرنک ترین وہ جملہ تھا جو میں نے خود اپنے کانوں سے لائیو ،ٹی وی پر سنا، جب خان صاحب نے آصف زرداری کو مخاطب کرکے بندوق کے نشانے پر رکھنے کا اعلان کیا ۔ خان صاحب نے چند ماہ پہلے یہ بھی کہا تھا کہ وہ آسانی سے نہیں جائیں گے،یوں دیکھا جائے تو اب بات عدم اعتماد کی بھی نہیں، اس کے نتائج تو آچکے۔
بات ہے تو آگے کی ہے، ویسے اب تو بیساکھیاں بغلوں سے نکلنے والی ہیں، وہ ہے پنجاب حکومت اور وہاں عدم اعتماد بالکل پک تیار ہے ۔ پارٹی ٹوٹ چلی ہے، اسٹبلشمنٹ روٹھ چلی ہے،روس کی طاقت پھوٹ چلی ہے اور خان صاحب! اب کے بار معجزہ ہو تو ان کی حکومت بچ سکتی ہے۔
کام دوسرے اسپیکر زنے اب سے پہلے نہیں کیا، موجودہ اسپیکر وہ سب کچھ کرنے جارہے ہیں جس سے مجھے تو کم سے کم ہٹلر کے زمانے میں ان کی پارلیمنٹ کی بلڈنگ ریشٹاگ کو آگ لگ گئی تھی۔ اس کا پس منظر اور ہے اور ہماری قومی اسمبلی کا پس منظر اور ہے۔ جو خان صاحب کے دور میں ہوا، وہ آمریتوں کے زمانے میں ہوتا ہے اور اب کے شاید جو روایت پڑی ہے اس کی کوئی بھی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
وہ اسمبلی کا اجلاس بلوانے کے لیے تیار نہیں، عین اس وقت جب خان صاحب اکثریت کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں، وہ اب منفی حربے استعمال کررہے ہیں۔
خان صاحب اب یہ کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے جن لوگوں نے وفاداریاں تبدیل کی ہیں، ان پر آئین کا آرٹیکل 63(i)(a) لاگو ہوتا ہے۔ درست کہتے ہیں مگر ایسے شواہد کہاں ہیں کہ انھوں نے ایسی حرکت کی ہے؟ اس کے شواہد تب پیدا ہوں گے جب نتیجہ نکلے گا، نتیجہ تو ابھی تک نکلا نہیں۔ محض اس بات پر انھیں سزا دی جائے کہ وہ ارادہ یا نیت رکھتے ہیں۔ ایسی کوئی چھڑی دنیا کے کسی بھی قانون میں نہیں۔ روز کوئی نہ کوئی نئی تشریح اس حوالے سے حکومت کے لوگ کرتے رہتے ہیں۔
ہم نے دیکھا ہے جو لانے والے ہوتے ہیں وہ بھی چھوڑ جاتے ہیں ۔ بھٹو صاحب کے پیچھے بھی کچھ اداروں کی آشیرواد تھیں وہ اپنے مخالفین پرٹوٹ پڑے جب برا وقت آیا تو وہ ہم سب کو یاد ہوگا لیکن بھٹو صاحب کا موازنہ آج کے حکمرانوں سے بنتا ہی نہیں۔ چلیں نواز شریف کو لے لیں، وہ بھی اپنے زمانے میں مخالفین پر بہت اچھلے کودے، پھر ان کے ساتھ کیا ہوا۔
آج جو فصل، خان صاحب بو رہے ہیں، کیا وہ اس کو کاٹ سکیں گے؟ شاید یہ بھی آمروں کی طرح باہر رہنے کو ترجیح دیں۔ موصوف نے نہ جانے کسی کے مشورے پر روس کا دورہ کیا اور ہم سب کو مصیبت میں ڈال دیا۔ عین اس وقت جب پیوتن یوکرین پر حملہ کرنے جارہے تھے، ہمارے وزیراعظم اپنے مصاحبوں کے ساتھ ماسکو میں بیٹھے تھے۔
پاکستان بھلے غیر ذمے دار ملک قرار دیا جاتا، ان کو کوئی بھی فکر نہیں۔ اتنا کھل کے تو چین جیسی سپر طاقت روس کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی، یہ کھڑے ہوگئے اور اب اس خوش فہمی میں ہم نہ رہیں کہ ہم پر ان پابندیوں کا اثر نہیں آئے گا جو دنیا نے روس پر مسلط کی ہیں، اس کے پاس تو بے تحاشا بیرونی کرنسی کے ذخائر ہیں ۔ ہماری تو جان کے لالے پڑجائیں گے۔ ایسے وقتوں میں پھر کوئی متحرک ہوجاتا ہے جب کوئی سیدھے مروج راستے سے نہیں نکالا جاسکتا ہو تو پھر اسے دوسرے راستے سے نکلا جاتا ہے ، اس میں نقصان ہماراہوگا۔
ایسا ہوتا ہے آیا ہے،کوئی نئی بات نہیں، کنگز پارٹیوں میں ہوتے ہی موقع پرست ہیں، جب اقتدار سے ڈوریں ٹوٹنے لگتی ہیں، یہ نئی منزل کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔ کل نواز شریف کی پارٹی میں بھی یہی لوگ تھے،اس سے پہلے جونیجو صاحب تھے، جب ضیاء الحق نے انھیں رخصت کیا تو نواز شریف اسی طرح ان کو چھوڑ گئے تھے جیسے آج خان صاحب کو علیم خان چھوڑ گئے ہیں۔
ادھر صدراسحاق خان نے نواز شریف کو اتارا نہیں تھا تو پنجاب اسمبلی کے اسپیکر منظور وٹو ان کی پارٹی کے آدھے لوگ لے کے چل نکلے تھے اور بیچارے وزیر اعلیٰ وائیں، وہیں بیٹھ گئے جہاں اب عثمان بزدار بیٹھنے کو ہیں۔ اس بار پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہی نے ہوائوں کے رخ کو سمجھنے میں تاخیر کردی اور یوں وقت آگے نکل گیا ، وہ اب وقت کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔
خان صاحب اب بھی ادھر ادھرہاتھ پیر مارتے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن اسکور بہت بڑا ہے اور اوور کم رہ گئے ہیں۔ وقت ان کے ہاتھ سے نکل چلا ہے، ہاں بال کو اگر ٹیمپر کرتے ہیں تو شاید اس پوری آندھی سے کچھ نہ کچھ بچ نکلے گا۔ ایک سٹہ انھوں نے روس پر کھیلا تھا، اس کا تو جوس نکل گیا ۔ وہ سمجھے اور ایسے بہت سے ہیں جن کو یہ خیال تھا کہ اس مرتبہ ویسٹ پر روس بھاری پڑے گا اور یوں یہ جو دنیا کی نئی صف بندی ہے، وہ اپنے آپ کو اس صف میں کھڑا کرکے آئی ایم ایف، یورپی یونین، امریکا، ورلڈ بینک ،ایف اے ٹی ایف اور ایسے بہت سے پریشر جو اس مقروض ملک پر وہ ڈالتے رہتے ہیں، وہ بچ نکلیں گے ،مگران دس دنوں میں روس کا روبل چالیس سے پچاس فیصد ڈالر کے مقابلے میں گر چکا ہے۔
روس کی تمام بینکس جو وہ باہر سے چیزیں منگواتے ہیں یا جو چیزیں بیچتے ہیں، اس کی بینک سسٹم کے تحت ٹرانزیکشن نہیں ہوسکتی، ہاں مگر اپنے بحری جہازوں میں وہ ایسا سامان لاسکتا ہے اور بیچ سکتا ہے تو کیا پھر اس ایکسپورٹ اور امپورٹ کے مدمیں جو پیسے ہیں وہ انھیں بحری جہازوں میں کیش کی شکل میں آئیں گے ؟ یہ ناممکن ٹھہرا، یہاں تک کہ جو گیس اور پٹرول بیچتا تھا اور جو اس کے سب سے بڑے خریدار یورپ والے تھے وہ بھی کچھ دنوں میں پابندی کے زیر اثر آجائیں گے۔
امریکا اور یورپی یونین کی ملٹی نیشنل فوڈ چینز نے اپنی تما م اشیاء روس میں بند کردی ہیں۔ جو ان کے جہازوں کے اسپیئر پارٹ امریکا سے ملتے تھے ان پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ جو مغرب کے پاس پابندیوں والا ہتھیار ہے خان صاحب کیسے ان سے اپنے آپ کو بری کراسکتے ہیں ۔ یہ جو ان کی ماسکو یاترا تھی ، ایسے وقت میں تو ایران ، افغانستان اور شام کے حکمران روس کے قریب سے گزرتے بھی نا۔ اور ہم چلے ہیں وہاں اپنا کرکٹ کا بلا لے کر چھکا مارنے ۔ پتا تب چلا کہ بائونڈری پر یورپی یونین نے اس کا کیچ پکڑ لیا۔ جنھوں نے اس دورے پر سٹہ کھیلا تھا وہ اور ہم جیسے کروڑوں معصوم پاکستانی بھی بازی ہار گئے۔
حالت یہ ہے کہ ایک جلسہ عام میں کھڑے کھڑے یورپی یونین کو سنا دی، بغیر یہ جانے کہ اس کے نتائج سنگین ہوںگے۔ میری پچاس سالہ عمر کا خطرنک ترین وہ جملہ تھا جو میں نے خود اپنے کانوں سے لائیو ،ٹی وی پر سنا، جب خان صاحب نے آصف زرداری کو مخاطب کرکے بندوق کے نشانے پر رکھنے کا اعلان کیا ۔ خان صاحب نے چند ماہ پہلے یہ بھی کہا تھا کہ وہ آسانی سے نہیں جائیں گے،یوں دیکھا جائے تو اب بات عدم اعتماد کی بھی نہیں، اس کے نتائج تو آچکے۔
بات ہے تو آگے کی ہے، ویسے اب تو بیساکھیاں بغلوں سے نکلنے والی ہیں، وہ ہے پنجاب حکومت اور وہاں عدم اعتماد بالکل پک تیار ہے ۔ پارٹی ٹوٹ چلی ہے، اسٹبلشمنٹ روٹھ چلی ہے،روس کی طاقت پھوٹ چلی ہے اور خان صاحب! اب کے بار معجزہ ہو تو ان کی حکومت بچ سکتی ہے۔