سیاسی بحران … آئینی راستہ اختیار کرنے کی ضرورت
ہمارے پڑوس میں ہندوستان ہمہ وقت پاکستان کے خلاف کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے تیار رہتا ہے
ISLAMABAD:
غالباً یہ 1994 کے اوائل کا قصہ ہے اس وقت کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پیر صابر شاہ کے خلاف پیپلز پارٹی نے آفتاب شیرپاؤ کی قیادت میں تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تھی۔ پیر صابر شاہ 1993 میں نواز شریف کی حکومت ختم کیے جانے کے بعد ہونے والے انتخابات میں صوبے کے وزیراعلیٰ بنے تھے۔
ان کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا اور عوامی نیشنل پارٹی ان کی اتحادی جماعت تھی۔مرکز میں شہید بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں وہ صوبے میں اپنی جماعت کی حکومت قائم کرنے کی خواہشمند تھیں ۔ایسا مشہور ہے کہ پیر صابر شاہ کا نام خود بیگم نسیم ولی خان نے تجویز کیا۔ اے این پی سے تعلق رکھنے والے مشہور وکیل ہدایت اللہ چمکنی مرحوم اسپیکر تھے۔
چمکنی صاحب کو اللہ نے وجود منحنی دیا تھا لیکن شخصیت دبنگ دی تھی جب وہ اسمبلی میں بولتے تو کئی بڑی سیاسی شخصیات تک خاموش ہو جاتیں۔ جب عدم اعتماد پر اسمبلی کی کارروائی شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ مسلم لیگ ن کے اور عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ایک ممبر اسمبلی نے صابر شاہ کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے جب یہ دونوں ممبران اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے ایوان کے اندر آئے تو اسپیکر ہدایت اللہ چمکنی نے انھیں ایوان میں اجنبی قرار دے کر باہر نکال دیا اور انھیں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی۔
پھر کافی ہلہ گلہ ہوا ایوان کے اندر بھی اور ایوان کے باہر بھی۔ جس وقت اسپیکر ہدایت اللہ چمکنی نے ان دو ممبران کو پارٹی وفاداری بدلنے پر ووٹ سے روکا تو اس وقت آئین میں وفاداری سے متعلق شق معطل تھی۔ اس کے باوجود ہدایت اللہ چمکنی نے جرات کا مظاہرہ کیا اور اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اگرچہ آفتاب شیرپاؤ، پیر صابر شاہ کو ہٹانے میں کامیاب ہو گئے اور انھوں نے اسپیکر ہدایت اللہ چمکنی کو بھی عبدالاکبر خان مرحوم جیسے پارلیمینٹرین سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تبدیل کر دیا۔
اب یہ تاریخ کا حصہ ہے اور اسمبلی کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ یہ قصہ آج کل قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو پیش آنے والی صورتحال پر ذہن میں آیا۔ ان کو بھی ہدایت اللہ چمکنی مرحوم کی طرح پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کا سامنا ہے۔ ایسی اطلاعات آ رہی ہیں کہ منحرفین کو روکنے کے لیے اسپیکر کے عہدے کا بھرپور استعمال کیا جائے گا اور اسپیکر ایسے ممبران کو ووٹ ڈالنے نہیں دیں گے۔
ان سطور کے لکھنے تک ایسی چیزیں گردش میں ہیں کہ عنقریب مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم سمیت ایک اور اتحادی جماعت پی ٹی آئی کی حکومت چھوڑ کر اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کر دے گی۔ ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر کے ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی ضمانت دیں تو وہ حکومت کا ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔پہلے سے ناراض چوہدریوں کو شیخ رشید کے بیانات نے غصہ بھی دلا دیا ہے اگرچہ گجرات کے چوہدری نرم مزاج کے حامل ہیں اور وضع داری پر یقین رکھتے ہیں۔ زرداری اور چوہدریوں کے تعلقات کافی پرانے ہیں۔
جب آصف زرداری جیل میں تھے تو چوہدری شجاعت وزیر داخلہ تھے اور انھوں نے دباؤ کے باوجود صدر زرداری کو جیل میں سہولیات پہنچائیں۔ آصف زرداری نے چوہدری پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ دیا۔ اسی لیے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شیخ رشید نے چوہدریوں کو باقاعدہ سوچ سمجھ کر نشانہ بنایا۔ معاملہ کچھ بھی ہو لیکن ایک نازک وقت میں ایک اہم اتحادی کو بلیک میلنگ کے طعنے دینے کو کسی طور پر بھی دانشمندانہ اقدام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جب اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کی بات شروع کی تو حکومت پہلے دنوں کافی مضبوط نظر آ رہی تھی لیکن جوں جوں اپوزیشن اپنی سنجیدگی دکھاتی گئی حکومتی پریشانی میں اضافہ ہوا۔
اس پریشانی کی وجہ سے اتحادیوں میں بھی بے چینی پھیلی۔ خود پی ٹی آئی کی صفوں سے ایسی آوازیں آئیں کہ شاید پارٹی کا ایک بڑا گروپ اپوزیشن کی حمایت کر دے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان کے دو بڑے گروپ تو سامنے آ چکے ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ بھی کچھ لوگوں پر شک کیا جا رہا ہے کہ وہ آیندہ انتخابات میں ٹکٹ ملنے کی پیش کش یا لالچ میں پارٹی کے خلاف جا سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کا عندیہ دے کر خود پی ٹی آئی نے اپنی کمزوری نہ صرف اپوزیشن بلکہ اتحادیوں پر بھی آشکارہ کردی ۔
اب ذرا سوچیں کہ جب خود ایک شخص اپنے آپ کا ساتھ نہیں دے رہا تو پرائے کا کیا خاک ساتھ دے گا۔ دوسری جانب اپنے ممبران پر کام کرنے کے بجائے حکومت نے اپوزیشن کے خلاف بدزبانی کا سلسلہ شروع کر دیا اور پھر یہ سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ فوجی ترجمان کی سیاست میںمداخلت کے حوالے سے بیان پر نیوٹرل کی جیسی تشریح کی گئی اس نے بالکل واضح کر دیا کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور ایسے میں کوئی بھی اقدام اٹھا سکتی ہے اس کی ایک مثال ہم نے پارلیمنٹ لاجز میں ہونے والی کارروائی کی شکل میں بھی دیکھ لی ہے۔ جے یو آئی کے ممبران اور اسلام آباد پولیس کے مابین جو کچھ ہوا اور جس طرح مولانا کی ایک کال پر ردعمل سامنے آیا اس سے بھی حکومت کو ایک اور دھچکہ لگا۔ حکومتی وزیر ایک دن دھمکیاں دیتے اور دوسرے دن صلح صفائی کی پیش کش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
لگتا ہے کہ حکومت کی اپنی کوئی حکمت عملی ہی نہیں۔ ممبران سے ملنے کے بجائے عوام سے ملنا کیا معنی رکھتا ہے کہ کیا عمران خان اگلے انتخابات کے لیے تیاری کر رہے ہیں؟ یا پھر کسی پر دباؤ بڑھانا مقصود ہے؟ عمران خان نے ایک بار پھر جارحانہ پالیسی اختیار کر لی ہے لیکن وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ اس وقت وہ اپوزیشن نہیں خود حکومت ہیں اور اس ملک کے وزیراعظم ہیں۔ اگر اپوزیشن ایک آئینی راستہ اختیار کر رہی ہے اور آپ کے اتحادی آپ کو چھوڑ رہے ہیں تو اس کا مقابلہ آئینی اور سیاسی طور پر کیا جاناچاہیے۔ تحریک عدم اعتماد والے دن اپنے کارکنوں کو ڈی چوک بلانے کا مطلب تصادم ہے۔ اگر اس آئینی کام میں رکاوٹ پیدا کی گئی تو انارکی پھیلے گی۔ عام لوگ مہنگی بجلی، گیس اور پٹرول خریدتے خریدتے تھک چکے ہیں۔ خطے کی صورتحال بھی تیزی سے بدل رہی ہے یورپی یونین کے بعد برطانیہ جیسے دوست ملک نے بھی یوکرائن پر روسی حملے کی باقاعدہ مذمت کا مطالبہ کر دیا ہے۔
ہمارے دوست کم ہو رہے ہیں۔ آئی ایم ایف مزید اقدامات کا مطالبہ کر رہا ہے۔ تو امریکی کانگریس افغانستان میں اپنی شکست کی خفت مٹانے کے لیے پاکستان کے خلاف پابندیوں کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہے افغانستان ابھی تک مستحکم نہیں ہوا وہاں پر کسی بھی وقت انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
سب سے بڑے خطرے کی بات یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں ہندوستان ہمہ وقت پاکستان کے خلاف کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ ابھی چند دنوں پہلے ایک سپر سانک میزائل ہمارے ملک پر مار چکا ہے اگرچہ بھارت نے اسے غلطی قرار دیا لیکن دفاعی ماہرین کے مطابق یہ میزائل ہمارے ایئر ڈیفنس سسٹم کو چیک کرنے کے لیے تھا۔ گزشتہ ماہ ایک بھارتی سب میرین ہمارے پانیوں میں نظر آئی تھی۔ مطلب دشمن ہماری ہوائی اور بحری دفاعی نظام کو چیک کر رہا ہے پتہ نہیں ان کے کیا مذموم مقاصد ہوں گے۔ اس تمام صورتحال میں انتشار اور عدم استحکام کسی بھی صورت پاکستان کے مفاد میں نہیں اگر حکومت تبدیلی کے دوران آئینی اور قانونی راستے سے انحراف کیا گیا تو یہ کسی طور ملک کے مفاد میں نہیں ہو گا۔
غالباً یہ 1994 کے اوائل کا قصہ ہے اس وقت کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پیر صابر شاہ کے خلاف پیپلز پارٹی نے آفتاب شیرپاؤ کی قیادت میں تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تھی۔ پیر صابر شاہ 1993 میں نواز شریف کی حکومت ختم کیے جانے کے بعد ہونے والے انتخابات میں صوبے کے وزیراعلیٰ بنے تھے۔
ان کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا اور عوامی نیشنل پارٹی ان کی اتحادی جماعت تھی۔مرکز میں شہید بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں وہ صوبے میں اپنی جماعت کی حکومت قائم کرنے کی خواہشمند تھیں ۔ایسا مشہور ہے کہ پیر صابر شاہ کا نام خود بیگم نسیم ولی خان نے تجویز کیا۔ اے این پی سے تعلق رکھنے والے مشہور وکیل ہدایت اللہ چمکنی مرحوم اسپیکر تھے۔
چمکنی صاحب کو اللہ نے وجود منحنی دیا تھا لیکن شخصیت دبنگ دی تھی جب وہ اسمبلی میں بولتے تو کئی بڑی سیاسی شخصیات تک خاموش ہو جاتیں۔ جب عدم اعتماد پر اسمبلی کی کارروائی شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ مسلم لیگ ن کے اور عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ایک ممبر اسمبلی نے صابر شاہ کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے جب یہ دونوں ممبران اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے ایوان کے اندر آئے تو اسپیکر ہدایت اللہ چمکنی نے انھیں ایوان میں اجنبی قرار دے کر باہر نکال دیا اور انھیں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی۔
پھر کافی ہلہ گلہ ہوا ایوان کے اندر بھی اور ایوان کے باہر بھی۔ جس وقت اسپیکر ہدایت اللہ چمکنی نے ان دو ممبران کو پارٹی وفاداری بدلنے پر ووٹ سے روکا تو اس وقت آئین میں وفاداری سے متعلق شق معطل تھی۔ اس کے باوجود ہدایت اللہ چمکنی نے جرات کا مظاہرہ کیا اور اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اگرچہ آفتاب شیرپاؤ، پیر صابر شاہ کو ہٹانے میں کامیاب ہو گئے اور انھوں نے اسپیکر ہدایت اللہ چمکنی کو بھی عبدالاکبر خان مرحوم جیسے پارلیمینٹرین سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تبدیل کر دیا۔
اب یہ تاریخ کا حصہ ہے اور اسمبلی کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ یہ قصہ آج کل قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو پیش آنے والی صورتحال پر ذہن میں آیا۔ ان کو بھی ہدایت اللہ چمکنی مرحوم کی طرح پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کا سامنا ہے۔ ایسی اطلاعات آ رہی ہیں کہ منحرفین کو روکنے کے لیے اسپیکر کے عہدے کا بھرپور استعمال کیا جائے گا اور اسپیکر ایسے ممبران کو ووٹ ڈالنے نہیں دیں گے۔
ان سطور کے لکھنے تک ایسی چیزیں گردش میں ہیں کہ عنقریب مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم سمیت ایک اور اتحادی جماعت پی ٹی آئی کی حکومت چھوڑ کر اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کر دے گی۔ ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر کے ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی ضمانت دیں تو وہ حکومت کا ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔پہلے سے ناراض چوہدریوں کو شیخ رشید کے بیانات نے غصہ بھی دلا دیا ہے اگرچہ گجرات کے چوہدری نرم مزاج کے حامل ہیں اور وضع داری پر یقین رکھتے ہیں۔ زرداری اور چوہدریوں کے تعلقات کافی پرانے ہیں۔
جب آصف زرداری جیل میں تھے تو چوہدری شجاعت وزیر داخلہ تھے اور انھوں نے دباؤ کے باوجود صدر زرداری کو جیل میں سہولیات پہنچائیں۔ آصف زرداری نے چوہدری پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ دیا۔ اسی لیے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شیخ رشید نے چوہدریوں کو باقاعدہ سوچ سمجھ کر نشانہ بنایا۔ معاملہ کچھ بھی ہو لیکن ایک نازک وقت میں ایک اہم اتحادی کو بلیک میلنگ کے طعنے دینے کو کسی طور پر بھی دانشمندانہ اقدام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جب اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کی بات شروع کی تو حکومت پہلے دنوں کافی مضبوط نظر آ رہی تھی لیکن جوں جوں اپوزیشن اپنی سنجیدگی دکھاتی گئی حکومتی پریشانی میں اضافہ ہوا۔
اس پریشانی کی وجہ سے اتحادیوں میں بھی بے چینی پھیلی۔ خود پی ٹی آئی کی صفوں سے ایسی آوازیں آئیں کہ شاید پارٹی کا ایک بڑا گروپ اپوزیشن کی حمایت کر دے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان کے دو بڑے گروپ تو سامنے آ چکے ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ بھی کچھ لوگوں پر شک کیا جا رہا ہے کہ وہ آیندہ انتخابات میں ٹکٹ ملنے کی پیش کش یا لالچ میں پارٹی کے خلاف جا سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کا عندیہ دے کر خود پی ٹی آئی نے اپنی کمزوری نہ صرف اپوزیشن بلکہ اتحادیوں پر بھی آشکارہ کردی ۔
اب ذرا سوچیں کہ جب خود ایک شخص اپنے آپ کا ساتھ نہیں دے رہا تو پرائے کا کیا خاک ساتھ دے گا۔ دوسری جانب اپنے ممبران پر کام کرنے کے بجائے حکومت نے اپوزیشن کے خلاف بدزبانی کا سلسلہ شروع کر دیا اور پھر یہ سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ فوجی ترجمان کی سیاست میںمداخلت کے حوالے سے بیان پر نیوٹرل کی جیسی تشریح کی گئی اس نے بالکل واضح کر دیا کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور ایسے میں کوئی بھی اقدام اٹھا سکتی ہے اس کی ایک مثال ہم نے پارلیمنٹ لاجز میں ہونے والی کارروائی کی شکل میں بھی دیکھ لی ہے۔ جے یو آئی کے ممبران اور اسلام آباد پولیس کے مابین جو کچھ ہوا اور جس طرح مولانا کی ایک کال پر ردعمل سامنے آیا اس سے بھی حکومت کو ایک اور دھچکہ لگا۔ حکومتی وزیر ایک دن دھمکیاں دیتے اور دوسرے دن صلح صفائی کی پیش کش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
لگتا ہے کہ حکومت کی اپنی کوئی حکمت عملی ہی نہیں۔ ممبران سے ملنے کے بجائے عوام سے ملنا کیا معنی رکھتا ہے کہ کیا عمران خان اگلے انتخابات کے لیے تیاری کر رہے ہیں؟ یا پھر کسی پر دباؤ بڑھانا مقصود ہے؟ عمران خان نے ایک بار پھر جارحانہ پالیسی اختیار کر لی ہے لیکن وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ اس وقت وہ اپوزیشن نہیں خود حکومت ہیں اور اس ملک کے وزیراعظم ہیں۔ اگر اپوزیشن ایک آئینی راستہ اختیار کر رہی ہے اور آپ کے اتحادی آپ کو چھوڑ رہے ہیں تو اس کا مقابلہ آئینی اور سیاسی طور پر کیا جاناچاہیے۔ تحریک عدم اعتماد والے دن اپنے کارکنوں کو ڈی چوک بلانے کا مطلب تصادم ہے۔ اگر اس آئینی کام میں رکاوٹ پیدا کی گئی تو انارکی پھیلے گی۔ عام لوگ مہنگی بجلی، گیس اور پٹرول خریدتے خریدتے تھک چکے ہیں۔ خطے کی صورتحال بھی تیزی سے بدل رہی ہے یورپی یونین کے بعد برطانیہ جیسے دوست ملک نے بھی یوکرائن پر روسی حملے کی باقاعدہ مذمت کا مطالبہ کر دیا ہے۔
ہمارے دوست کم ہو رہے ہیں۔ آئی ایم ایف مزید اقدامات کا مطالبہ کر رہا ہے۔ تو امریکی کانگریس افغانستان میں اپنی شکست کی خفت مٹانے کے لیے پاکستان کے خلاف پابندیوں کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہے افغانستان ابھی تک مستحکم نہیں ہوا وہاں پر کسی بھی وقت انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
سب سے بڑے خطرے کی بات یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں ہندوستان ہمہ وقت پاکستان کے خلاف کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ ابھی چند دنوں پہلے ایک سپر سانک میزائل ہمارے ملک پر مار چکا ہے اگرچہ بھارت نے اسے غلطی قرار دیا لیکن دفاعی ماہرین کے مطابق یہ میزائل ہمارے ایئر ڈیفنس سسٹم کو چیک کرنے کے لیے تھا۔ گزشتہ ماہ ایک بھارتی سب میرین ہمارے پانیوں میں نظر آئی تھی۔ مطلب دشمن ہماری ہوائی اور بحری دفاعی نظام کو چیک کر رہا ہے پتہ نہیں ان کے کیا مذموم مقاصد ہوں گے۔ اس تمام صورتحال میں انتشار اور عدم استحکام کسی بھی صورت پاکستان کے مفاد میں نہیں اگر حکومت تبدیلی کے دوران آئینی اور قانونی راستے سے انحراف کیا گیا تو یہ کسی طور ملک کے مفاد میں نہیں ہو گا۔