عدم اعتماد کے ہنگامے میں ایک حسینہ کی یاد
تحریک عدم اعتماد کے ہنگامے میں مانسہرہ کی چائے کے باغات اور بردر کی یہ خاتون مجھے بے طرح یاد آئے
ترک خوب صورت ہوتے ہیں لیکن وہ کچھ زیادہ خوب صورت تھی۔ قد میانہ سے کچھ زاید، بھرا بھرا جسم۔ مزاج میں خاموشی اور انداز میں پھرتی۔ بلوند بالوں کی ایک لٹ مستقل حرکت میں رہتی۔ تیزی سے چلتے ہوئے جب گردن کو جھٹکا دے کر انھیں آنکھوں سے ہٹاتی تو بجلی سی کوند جاتی۔ لٹ لہراتی ضرور لیکن واپس پلٹ آتی۔
کہیں ہم عورت مارچ میں تو نہیں آگئے؟
اس خوبرو کو دیکھتا پا کر حضرت سعادت سعید نے مجھے ٹہوکا دیا اور چائے کی پیالی ہونٹوں سے لگا لی۔ یونس قاسمی نے یہ دیکھا اور مسکرا کر سر جھکا لیا جب کہ ڈاکٹر محمد کامران نے میری پیروی کی۔ چائے کی ایک اور پیالی منگوا لی۔
ترک چائے بھی خوب ہوتی ہے۔ اس کی پتی ہوتی تو بالکل اسی طرح کی ہے جیسی ہم استعمال کرتے ہیں لیکن اس میں ایک فرق ہے۔ ہمارے ہاں یہ کینیا سے آتی ہے یا سری لنکا سے۔ یوں اس پر بہت سا زر مبادلہ صرف ہو جاتا ہے۔ ہمارے مقابلے میں ترک زیادہ خود اعتماد ہیں۔ اپنی سرزمین پر پیدا ہونے والی چائے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔کئی برس ہوتے ہیں، مانسہرہ جانا ہوا جہاں برادرم منظور علی مہر نے چائے کے باغات کی سیر کرائی۔ بتایا کہ اس چائے کا معیار دنیا کے کسی خطے میں پیدا ہونے والی کسی بہترین چائے سے بہتر نہیں تو کم بھی نہیں۔ تجربات کامیاب ہو چکے۔ توقع ہے کہ جلد ہی اس کی بھرپور پیداوار شروع ہو جائے گی۔
''کوئی دن جاتا ہے کہ ہم چائے کی نعمت میں خود کفیل ہوں گے۔''
یوں ہی سرشاری کے عالم میں؛ میں نے خیال آرائی کی۔
ان شاء اللہ '۔ منظور علی مہر نے پر جوش تائید کی۔ کوئی پندرہ برس ہوتے ہیں، یہ انتظار ابھی جاری ہے۔ ممکن ہے کسی روز ایسی خوش خبری سننے کو مل ہی جائے۔ اس طرح کے کام کچھ ایسے مشکل نہیں ہوتے۔ مشکل بس ایک ہی ہوتی ہے کہ ایسا کوئی خیال آپ کی ترجیحات میں جگہ پاتا ہے یا نہیں ؟ ترجیحات فقط یہی ہوں کہ جن کے چہرے پسند نہیں ہیں، انھیں لٹکانا ہے اور رلانا ہے تو پھر اس قسم کے معمولی کاموں کے لیے مہلت کم ہی ملتی ہے۔خیر، یہ موضوع الگ ہے۔ بات چائے کی ہو رہی تھی۔ ہمارے ترک بھائی چائے باہر سے نہیں منگواتے لیکن اپنی چائے کو اس ڈھنگ سے بناتے ہیں کہ ملکہ نور جہاں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
برعظیم پاک و ہند میں دال چاول تو ہمیشہ سے پکتے آئے ہیں لیکن چاول سے پلاؤ بنانے کی ترکیب ہماری ملکہ عالم نے ایجاد کی اور ایسی ایجاد کی کہ سبحان اللہ۔ انگلیاں چاٹنے کا محاورہ اسی کی شان میں ایجاد ہوا ہو گا۔ یہ پلاؤ بنانے کی نازک ترکیب اور طریقہ ہی ہے جو اس پکوان میں خوشبو اور ذائقہ بھر دیتا ہے۔
ترکوں نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ہے۔ترک ہماری طرح کسی پتیلی یا کیتلی میں چائے نہیں بناتے بلکہ عثمانی تہذیب میں اس کے لیے ایک خصوصی برتن ایجاد کیا گیا۔ دو منزلہ کیتلی کہہ لیں۔ نچلی کیتلی میں جوش کے لیے پانی رکھ دیا جاتا ہے اور اوپری کیتلی خالی رکھی جاتی ہے۔ جیسے ہی نچلی کیتلی میں جوش آنے کے بعد اوپر کی چھوٹی کیتلی گرم ہونے لگتی ہے، اس میں پتی ڈال دی جاتی ہے۔ کچھ دیر میں پانی کے جوش سے پتی گرم ہو جاتی ہے تو نچلی کیتلی سے کچھ پانی اوپری کیتلی میں ڈال دیا جاتا ہے۔
یوں نچلی کیتلی کی بھاپ سے اوپر کی کیتلی میں جوش آنے لگتا ہے ، کچھ دیر میں چائے تیار ہو جاتی ہے۔ اس سادہ سے کیمیائی عمل کا جادو یہ ہے کہ چائے جب تیار ہوتی تو پتی ازخود نیچے بیٹھ جاتی ہے ۔
وہ بھی اس خوبی سے کہ استعمال کے لیے چھلنی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس چائے کا ذائقہ، سبحان اللہ۔ ہمارے پلاؤ کی طرح منفرد اور شاندار۔ جامن اور چائے کے ذائقے میں کوئی مماثلت نہیں ہو سکتی لیکن اس ذائقے کا ایک تعلق جامن کی تاثیر سے بھی ہے۔ جامن کھانے کے بعد اس کے ذائقے کی ایک بے نام سی کیفیت دانتوں پر اثر یوں چھوڑ جاتی ہے جیسے خوشبو کا جھونکا۔ کچھ ایسی ہی تاثیر اس ترکیب سے بننے والی چائے کی بھی ہے۔ ترک چائے کا جرعہ لینے کے بعد دانت چائے کے ذائقے کا ایک اثر محسوس کرتے ہیں جو نہ تلخ ہوتا ہے ، نہ ترش، یہ کچھ ایسا ذائقہ ہے جو ترک چائے کے لیے مخصوص ہے۔
یہ اسی ذائقے کا چسکا تھا کہ میں یہ چائے بار بار پیتا۔ ہر بار جب وہ حسینہ چائے لے کر آتی تو پلٹتے وقت گری ہوئی لٹ کو حرکت دیتی اور لٹ وہ عورت مارچ کے پرچم کی طرح جھٹکے سے لہرا کر عجب شان پیدا کرتی۔ حضرت سعادت سعید دیکھتے تو شرارت سے مسکراتے اور کہتے کہ چائے تو محض بہانہ ہے۔ ڈاکٹر سعادت سعید کی چھیڑ چھاڑ اپنی جگہ لیکن وہ چھلاوہ دراصل ہوٹل لے ونٹا ٹاپسی کی ویٹرس تھی۔ لے ونٹا ترک زبان کا لفظ ہے۔ اس کا اردو متبادل تو جانے کیا ہو گا، انگریزی میں اسے لونڈر کہتے ہیں۔ ترکی کا یہ خطہ جسے بردر کہتے ہیں، لے ونٹا کی فصل کے لیے مشہور ہے۔ گرمیوں میں جب اس کی فصل عروج پر ہوتی ہے، یہ خطہ لیونڈر کی من موہ لینے والی خوشبو سے بھر جاتا ہے اور سرزمین کاسنی رنگ میں رنگ جاتی ہے۔
کاسنی بہار سے مجھے اپنی سرسوں کی یاد آئی اور میں نے اپنے بردر کے دوست دال کو بتایا کہ ہمارے دیس میں پھولنے والی سرسوں کا پیلا رنگ اور اس کی خوشبو فضا کو کیسے رومانی بنا دیتی ہے۔ کاش کوئی لے ونٹا کی طرح ہماری سرسوں کی خوشبو سے بھی پرفیوم بناتا۔ خوشبو کے معاملے میں بردر کا معاملہ بھی بالکل ایسے ہی ہے جیسے سرد موسموں میں گنے اور کنوں کی خوشبو سے ہمارا سرگودھا مہک اٹھتا ہے۔
رہ گیا لفظ ٹاپسی تو ٹھیٹ اردو میں اس کا متبادل ٹیلا ہے، پنجابی میں جسے ٹبہ کہتے ہیں۔ یہ ہوٹل کوئی کاروباری ادارہ نہیں، محمد عاکف ایرسوئے یونیورسٹی کا ذیلی ادارہ ہے۔ محمد عاکف ایرسوئے ترک قومی ترانے کے خالق اور ہمارے علامہ اقبال کے ہم عصر ہیں۔
ان دونوں بزرگوں کا تعارف کہیں آخری عمر میں ہوا۔ یوں یہ جان کر وہ حیران رہ گئے کہ ان دونوں کی فکر کے سوتے ایک ہی چشمے یعنی قرآن حکیم سے پھوٹتے ہیں۔ موجودہ ترک حکومت نے حضرت عاکف ایرسوئے کے افکار پر تحقیق و جستجو کے لیے یونیورسٹی قائم کی تو مہمانوں کے ٹھہرانے کے لیے اس کے اندر ہی ایک ہوٹل بھی بنا دیا۔ یہ علاقہ ہمارے پوٹھوہار کی طرح چونکہ اونچا نیچا ہے، اس لیے ہوٹل کے نام میں ٹاپسی شامل کر کے خطے کا تعارف بھی کرا دیا گیا۔
سیاحت کو فروغ دینے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔ نام کی انفرادیت کی وجہ سے ہوٹل خود بخود یاد رہ جاتا ہے اور ہوٹل کے نام سے علاقے کا تعارف ازخود دور دور تک پہنچتا ہے۔ مغربی زبانوں سے مستعار لیے ہوئے نام کسے یاد رہ سکتے ہیں۔ لے ونٹا ٹاپسی کے ذکر سے بات پھر دور جا نکلی، ذکر اس پری وش کا تھا۔ اس ہوٹل میں ویٹر اور کارکن اور بھی بہت سے تھے لیکن اس میں ایک خاص بات تھی۔ تھک کر لحظے بھر کو کہیں بیٹھتی نہ تھی۔ ادھر کسی میز پر اس نے چائے کی پیالی رکھی، واپس پہنچی اور پلٹ کر کسی دوسری میز سے خالی برتن اٹھانے لگی۔ یہ مصروفیت نہیں تو کوئی بات نہیں۔ وہ چائے کی خالی کیتلی میں پانی بھرنے لگے گی۔ یہ کر لیا تو اچھا ہے کہ خالی پیالیوں کی ٹرے میں نئی پیالیاں سجا دی جائیں۔
ٹرے بالکل ہی خالی ہو جائے تو اس میں گرنے والی چائے کے قطروں اور گری ہوئی چینی کو صاف کر دیا جائے۔ سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ کیسے کام سے کام نکال لیتی تھی حالانکہ عورتیں تو بات سے بات نکالنے کی شہرت رکھتی ہیں۔ وہ سیدھا چلتی، دائیں بائیں نظر اٹھا کرنہ دیکھتی۔ کسی ہرنی کی طرح کلانچ بھرتی اور چیتے کی طرح کام پر جھپٹتی۔ اسے دیکھ کر سمجھ میں آتا کہ یک سو اور فوکسڈ جیسے الفاظ کی روح کیا ہوتی ہے۔ اس غیرت ناہید کی یاد شاید نہ آتی لیکن جانے کیا بات ہوئی کہ تحریک عدم اعتماد کے ہنگامے میں مانسہرہ کی چائے کے باغات اور بردر کی یہ خاتون مجھے بے طرح یاد آئے۔
کہیں ہم عورت مارچ میں تو نہیں آگئے؟
اس خوبرو کو دیکھتا پا کر حضرت سعادت سعید نے مجھے ٹہوکا دیا اور چائے کی پیالی ہونٹوں سے لگا لی۔ یونس قاسمی نے یہ دیکھا اور مسکرا کر سر جھکا لیا جب کہ ڈاکٹر محمد کامران نے میری پیروی کی۔ چائے کی ایک اور پیالی منگوا لی۔
ترک چائے بھی خوب ہوتی ہے۔ اس کی پتی ہوتی تو بالکل اسی طرح کی ہے جیسی ہم استعمال کرتے ہیں لیکن اس میں ایک فرق ہے۔ ہمارے ہاں یہ کینیا سے آتی ہے یا سری لنکا سے۔ یوں اس پر بہت سا زر مبادلہ صرف ہو جاتا ہے۔ ہمارے مقابلے میں ترک زیادہ خود اعتماد ہیں۔ اپنی سرزمین پر پیدا ہونے والی چائے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔کئی برس ہوتے ہیں، مانسہرہ جانا ہوا جہاں برادرم منظور علی مہر نے چائے کے باغات کی سیر کرائی۔ بتایا کہ اس چائے کا معیار دنیا کے کسی خطے میں پیدا ہونے والی کسی بہترین چائے سے بہتر نہیں تو کم بھی نہیں۔ تجربات کامیاب ہو چکے۔ توقع ہے کہ جلد ہی اس کی بھرپور پیداوار شروع ہو جائے گی۔
''کوئی دن جاتا ہے کہ ہم چائے کی نعمت میں خود کفیل ہوں گے۔''
یوں ہی سرشاری کے عالم میں؛ میں نے خیال آرائی کی۔
ان شاء اللہ '۔ منظور علی مہر نے پر جوش تائید کی۔ کوئی پندرہ برس ہوتے ہیں، یہ انتظار ابھی جاری ہے۔ ممکن ہے کسی روز ایسی خوش خبری سننے کو مل ہی جائے۔ اس طرح کے کام کچھ ایسے مشکل نہیں ہوتے۔ مشکل بس ایک ہی ہوتی ہے کہ ایسا کوئی خیال آپ کی ترجیحات میں جگہ پاتا ہے یا نہیں ؟ ترجیحات فقط یہی ہوں کہ جن کے چہرے پسند نہیں ہیں، انھیں لٹکانا ہے اور رلانا ہے تو پھر اس قسم کے معمولی کاموں کے لیے مہلت کم ہی ملتی ہے۔خیر، یہ موضوع الگ ہے۔ بات چائے کی ہو رہی تھی۔ ہمارے ترک بھائی چائے باہر سے نہیں منگواتے لیکن اپنی چائے کو اس ڈھنگ سے بناتے ہیں کہ ملکہ نور جہاں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
برعظیم پاک و ہند میں دال چاول تو ہمیشہ سے پکتے آئے ہیں لیکن چاول سے پلاؤ بنانے کی ترکیب ہماری ملکہ عالم نے ایجاد کی اور ایسی ایجاد کی کہ سبحان اللہ۔ انگلیاں چاٹنے کا محاورہ اسی کی شان میں ایجاد ہوا ہو گا۔ یہ پلاؤ بنانے کی نازک ترکیب اور طریقہ ہی ہے جو اس پکوان میں خوشبو اور ذائقہ بھر دیتا ہے۔
ترکوں نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ہے۔ترک ہماری طرح کسی پتیلی یا کیتلی میں چائے نہیں بناتے بلکہ عثمانی تہذیب میں اس کے لیے ایک خصوصی برتن ایجاد کیا گیا۔ دو منزلہ کیتلی کہہ لیں۔ نچلی کیتلی میں جوش کے لیے پانی رکھ دیا جاتا ہے اور اوپری کیتلی خالی رکھی جاتی ہے۔ جیسے ہی نچلی کیتلی میں جوش آنے کے بعد اوپر کی چھوٹی کیتلی گرم ہونے لگتی ہے، اس میں پتی ڈال دی جاتی ہے۔ کچھ دیر میں پانی کے جوش سے پتی گرم ہو جاتی ہے تو نچلی کیتلی سے کچھ پانی اوپری کیتلی میں ڈال دیا جاتا ہے۔
یوں نچلی کیتلی کی بھاپ سے اوپر کی کیتلی میں جوش آنے لگتا ہے ، کچھ دیر میں چائے تیار ہو جاتی ہے۔ اس سادہ سے کیمیائی عمل کا جادو یہ ہے کہ چائے جب تیار ہوتی تو پتی ازخود نیچے بیٹھ جاتی ہے ۔
وہ بھی اس خوبی سے کہ استعمال کے لیے چھلنی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس چائے کا ذائقہ، سبحان اللہ۔ ہمارے پلاؤ کی طرح منفرد اور شاندار۔ جامن اور چائے کے ذائقے میں کوئی مماثلت نہیں ہو سکتی لیکن اس ذائقے کا ایک تعلق جامن کی تاثیر سے بھی ہے۔ جامن کھانے کے بعد اس کے ذائقے کی ایک بے نام سی کیفیت دانتوں پر اثر یوں چھوڑ جاتی ہے جیسے خوشبو کا جھونکا۔ کچھ ایسی ہی تاثیر اس ترکیب سے بننے والی چائے کی بھی ہے۔ ترک چائے کا جرعہ لینے کے بعد دانت چائے کے ذائقے کا ایک اثر محسوس کرتے ہیں جو نہ تلخ ہوتا ہے ، نہ ترش، یہ کچھ ایسا ذائقہ ہے جو ترک چائے کے لیے مخصوص ہے۔
یہ اسی ذائقے کا چسکا تھا کہ میں یہ چائے بار بار پیتا۔ ہر بار جب وہ حسینہ چائے لے کر آتی تو پلٹتے وقت گری ہوئی لٹ کو حرکت دیتی اور لٹ وہ عورت مارچ کے پرچم کی طرح جھٹکے سے لہرا کر عجب شان پیدا کرتی۔ حضرت سعادت سعید دیکھتے تو شرارت سے مسکراتے اور کہتے کہ چائے تو محض بہانہ ہے۔ ڈاکٹر سعادت سعید کی چھیڑ چھاڑ اپنی جگہ لیکن وہ چھلاوہ دراصل ہوٹل لے ونٹا ٹاپسی کی ویٹرس تھی۔ لے ونٹا ترک زبان کا لفظ ہے۔ اس کا اردو متبادل تو جانے کیا ہو گا، انگریزی میں اسے لونڈر کہتے ہیں۔ ترکی کا یہ خطہ جسے بردر کہتے ہیں، لے ونٹا کی فصل کے لیے مشہور ہے۔ گرمیوں میں جب اس کی فصل عروج پر ہوتی ہے، یہ خطہ لیونڈر کی من موہ لینے والی خوشبو سے بھر جاتا ہے اور سرزمین کاسنی رنگ میں رنگ جاتی ہے۔
کاسنی بہار سے مجھے اپنی سرسوں کی یاد آئی اور میں نے اپنے بردر کے دوست دال کو بتایا کہ ہمارے دیس میں پھولنے والی سرسوں کا پیلا رنگ اور اس کی خوشبو فضا کو کیسے رومانی بنا دیتی ہے۔ کاش کوئی لے ونٹا کی طرح ہماری سرسوں کی خوشبو سے بھی پرفیوم بناتا۔ خوشبو کے معاملے میں بردر کا معاملہ بھی بالکل ایسے ہی ہے جیسے سرد موسموں میں گنے اور کنوں کی خوشبو سے ہمارا سرگودھا مہک اٹھتا ہے۔
رہ گیا لفظ ٹاپسی تو ٹھیٹ اردو میں اس کا متبادل ٹیلا ہے، پنجابی میں جسے ٹبہ کہتے ہیں۔ یہ ہوٹل کوئی کاروباری ادارہ نہیں، محمد عاکف ایرسوئے یونیورسٹی کا ذیلی ادارہ ہے۔ محمد عاکف ایرسوئے ترک قومی ترانے کے خالق اور ہمارے علامہ اقبال کے ہم عصر ہیں۔
ان دونوں بزرگوں کا تعارف کہیں آخری عمر میں ہوا۔ یوں یہ جان کر وہ حیران رہ گئے کہ ان دونوں کی فکر کے سوتے ایک ہی چشمے یعنی قرآن حکیم سے پھوٹتے ہیں۔ موجودہ ترک حکومت نے حضرت عاکف ایرسوئے کے افکار پر تحقیق و جستجو کے لیے یونیورسٹی قائم کی تو مہمانوں کے ٹھہرانے کے لیے اس کے اندر ہی ایک ہوٹل بھی بنا دیا۔ یہ علاقہ ہمارے پوٹھوہار کی طرح چونکہ اونچا نیچا ہے، اس لیے ہوٹل کے نام میں ٹاپسی شامل کر کے خطے کا تعارف بھی کرا دیا گیا۔
سیاحت کو فروغ دینے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔ نام کی انفرادیت کی وجہ سے ہوٹل خود بخود یاد رہ جاتا ہے اور ہوٹل کے نام سے علاقے کا تعارف ازخود دور دور تک پہنچتا ہے۔ مغربی زبانوں سے مستعار لیے ہوئے نام کسے یاد رہ سکتے ہیں۔ لے ونٹا ٹاپسی کے ذکر سے بات پھر دور جا نکلی، ذکر اس پری وش کا تھا۔ اس ہوٹل میں ویٹر اور کارکن اور بھی بہت سے تھے لیکن اس میں ایک خاص بات تھی۔ تھک کر لحظے بھر کو کہیں بیٹھتی نہ تھی۔ ادھر کسی میز پر اس نے چائے کی پیالی رکھی، واپس پہنچی اور پلٹ کر کسی دوسری میز سے خالی برتن اٹھانے لگی۔ یہ مصروفیت نہیں تو کوئی بات نہیں۔ وہ چائے کی خالی کیتلی میں پانی بھرنے لگے گی۔ یہ کر لیا تو اچھا ہے کہ خالی پیالیوں کی ٹرے میں نئی پیالیاں سجا دی جائیں۔
ٹرے بالکل ہی خالی ہو جائے تو اس میں گرنے والی چائے کے قطروں اور گری ہوئی چینی کو صاف کر دیا جائے۔ سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ کیسے کام سے کام نکال لیتی تھی حالانکہ عورتیں تو بات سے بات نکالنے کی شہرت رکھتی ہیں۔ وہ سیدھا چلتی، دائیں بائیں نظر اٹھا کرنہ دیکھتی۔ کسی ہرنی کی طرح کلانچ بھرتی اور چیتے کی طرح کام پر جھپٹتی۔ اسے دیکھ کر سمجھ میں آتا کہ یک سو اور فوکسڈ جیسے الفاظ کی روح کیا ہوتی ہے۔ اس غیرت ناہید کی یاد شاید نہ آتی لیکن جانے کیا بات ہوئی کہ تحریک عدم اعتماد کے ہنگامے میں مانسہرہ کی چائے کے باغات اور بردر کی یہ خاتون مجھے بے طرح یاد آئے۔