عوامی مسائل کے حل کیلئے مضبوط بلدیاتی نظام اور اس کا تسلسل یقینی بنانا ہوگا

’’مقامی حکومتوں کے انتخابات اور سول سوسائٹی کا کردار ‘‘کے موضوع پرمنعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ

’’مقامی حکومتوں کے انتخابات اور سول سوسائٹی کا کردار ‘‘کے موضوع پرمنعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری اور ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔

اس نظام میں نچلی سطح تک مالی، سیاسی اور اختیارات منتقل کیے جاتے ہیں تاکہ عوامی مسائل مقامی سطح پر حل کیے جاسکیں۔ اس نظام کی آگاہی دینے ، امیدواروں اور منتخب نمائندوں کی تربیت کرنے میں سول سوسائٹی کا کردار انتہائی اہم ہے۔

اس کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے ''مقامی حکومتوں کے انتخابات اور سول سوسائٹی کا کردار ''کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت ، ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مسرت جمشید چیمہ
(چیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ پنجاب اسمبلی )

جہاں حقیقی جمہوریت ہو وہاں بلدیاتی نظام لوگوں کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل کرتا ہے، اس نظام کو لپیٹ دینا کسی بھی طور درست اقدام نہیں۔نظام کوئی بھی ہو، اس کا تسلسل برقرار رہے تو وقت کے ساتھ اس میں بہتری لازمی آتی ہے لہٰذا نظام کو چلنے دینا اور اس میں وقت اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملکی و قومی مفاد میں ترامیم کرلینا موثر ثابت ہوتا ہے اور یہی آئینی طریقہ بھی ہے۔ ہمارے ہاں بلدیاتی نظام کو ہمیشہ سے ہی مسائل درپیش رہے ہیں۔

نئی حکومت بننے کے 90 یا 120 روز میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی تجویز اچھی ہے، اگر اس پر عمل ہوجائے تو نہ صرف بلدیاتی نظام کا تسلسل قائم ہوگا بلکہ یہ نظام موثر و مضبوط ہوگا اور عوامی مسائل بھی بہتر انداز میں حل ہوجائیں گے۔ کرونا کی وجہ سے ہمارے ہاں بلدیاتی نظام میں تاخیر ہوئی تاہم تمام سٹیک ہولڈرز سے طویل مشاورت اور ترامیم کے بعد بلدیاتی نظام کا بل اسمبلی میں موجود ہے، اس پر 99 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے، جلد منظور کر لیا جائے گا۔جہاں جمہوریت ہو وہاں عام آدمی کے مسائل اس کے گھر کی دہلیز پر حل ہو جاتے ہیں۔

میرے نزدیک جمہوریت کے ثمرات کو عوام تک پہنچانے کیلئے لوکل گورنمنٹ سے بہتر کوئی نظام نہیں ہوسکتا۔ مقامی حکومتوں کا موثر نظام وزیراعظم عمران خان کا خواب ہے، خیبر پختونخوا کی طرح پنجاب میں بھی بہترین بلدیاتی نظام لایا جارہا ہے، اس نظام کو موثر بنانے کیلئے وزراء کو بھی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، قانون سازی کا عمل مکمل ہونے کے بعد اس کی تشہیر اور آگاہی مہم چلائی جائے گی۔

ہم سول سوسائٹی اور این جی اوز کے ساتھ مل کر بلدیاتی نمائندوں کی تربیت اور کپیسٹی بلڈنگ کیلئے کام کریں گے، وزیراعظم بھی چاہتے ہیں کہ اس حوالے سے کام کیا جائے۔ بلدیاتی انتخابات میں گراس روٹ لیول کے سیاسی کارکنان کی شمولیت اور شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے وزیراعظم عمران خان بطور پارٹی سربراہ خود ٹکٹ کے عمل کی نگرانی کریں گے اور قابل لوگوں کو آگے لایا جائے گا۔

اس بار جماعتی بنیادوں پر الیکشن ہے اور ایک پینل دینا ہوگا لہٰذا ہماری کوشش ہے کہ پینل میں ٹیکنوکریٹس کو بھی لازمی شامل کیا جائے۔ بلدیاتی انتخابات میں عام آدمی کی شمولیت کو یقینی اور موثر بنانا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ انتخابی اخراجات پر کڑی نظر رکھے تاکہ ہر آدمی کم اخراجات میں اپنی انتخابی مہم چلا سکے۔

پروفیسر ارشد مرزا
(نمائندہ سول سوسائٹی )

مقامی حکومتوں کے نظام کو سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر، تسلسل اور تواتر کے ساتھ موجود رہنا چاہیے۔ یہ ضروری نہیں کہ حکومت تبدیل ہو تو مقامی حکومتوں کی بساط بھی لپیٹ دی جائے۔ مقامی حکومتوں کے نظام میں تاخیر لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنا ہے۔

لوگوں کے مسائل مقامی نمائندے ہی حل کر سکتے ہیں، بلدیاتی نظام میں مقامی لوگ بھی شامل ہوتے ہیں اور بہتر انداز میں کام ہوتا ہے لہٰذا سول سوسائٹی کو نہ صرف اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے بلکہ یہ دباؤ بھی ڈالنا چاہیے کہ مقامی حکومتوں کا موثر نظام قائم کرکے اس کا تسلسل یقینی بنایا جائے۔ اس میں میڈیا کا کردار بھی اہم ہے، دیکھنا یہ ہے کہ بلدیاتی نظام کے حوالے سے کتنی بات ہورہی ہے؟ سول سوسائٹی نے اس پر توانا آواز اٹھائی ہے جس کی وجہ سے خاصی بہتری آئی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بلدیاتی نظام پر تجربات ہوتے ہیں۔

نظام ایسا ہونا چاہیے جو لوگوں کے مسائل حل کرے۔ ہر مرتبہ 'فارمیٹ' تبدیل کرنے سے سوالات اٹھتے ہیں کہ نظام بنانے والوں کے مقاصد کیا ہیں؟ اس نظام سے کیا توقعات کی جا رہی ہیں؟ یہ نظام کس طرح لوگوں کے مسائل حل کرے گا؟ لوگ اس میں کس حد تک شامل ہونگے؟ یہ کتنا بااختیار ہوگا؟ ہمیں اب تجربہ گاہ سے باہر نکل آنا چاہیے اور وسیع تر عوامی مفاد میں کسی ایک فارمیٹ پر اتفاق کر لینا چاہیے اور اسی کے تسلسل کو برقرار رکھنے پر کام کرنا چاہیے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اگر ہمارے ہاں مقامی حکومتوں کا نظام بن بھی جائے تو دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کی 'ان پٹ' کیا ہے، کیا ووٹر اپنے حق رائے دہی کا درست استعمال کرتے ہیں؟ اس وقت حالت یہ ہے کہ عام آدمی اور جنہوں نے انتخابات میں حصہ لینا ہے، انہیںا س نظام کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔

نئے نظام کے خدوخال سامنے آئے ہیں مگر ا س میں ابھی ترامیم باقی ہیں اور حتمی نظام سامنے نہیں آیا، اس کی باریکیوں کا ماہرین کو معلوم نہیں ہے تو عوام کو کیسے معلوم ہوگا لہٰذا اس حوالے سے لوگوںکو آگاہی دینے کیلئے وسیع پیمانے پر مہم چلائی جائے۔

لوگوں کو یہ شعور دینا چاہیے کہ وہ ایسے نمائندوں کو منتخب کریں جن میں ذمہ داریاں ادا کرنے کی صلاحیت ہو اور جو نظام کو سمجھتے ہوں، اس سے نظام اور ادارے مضبوط ہونگے بصورت دیگر مسائل پیدا ہوں گے۔ منتخب نمائندوں کی کپیسٹی بلڈنگ کون کے گا؟ اس حوالے سے حکومت کا کیا لائحہ عمل ہے؟ ہم نے بلدیاتی نمائندوں کی تربیت کیلئے منصوبہ بنا لیا ہے، منتخب نمائندوں کی تربیت اور کپیسٹی بلڈنگ کی جائے گی۔ جب تک بلدیاتی ادارے خود مختار نہیں ہونگے تب تک مسائل رہیں گے۔ میرے نزدیک سول سوسائٹی مزید مثبت کردار ادا کرے تو لوگل گورنمنٹ کا نظام مضبوط ہوجائے گا۔


سلمان عابد
(دانشور )

بدقسمتی سے پاکستان میں مقامی حکومتوں کے نظام کو ہر دور ہی بے شمار چیلنجز کا سامنا رہا ہے جس کی وجہ سے اب تک ہم ایسا خودمختار، شفاف، مضبوط اور مربوط نظام نہیں لاسکے جو عوام کی توقع کے مطابق ہو۔ ہمارے ہاں بلدیاتی نظام کا تسلسل نہیں رہا جس کی وجہ سے ہمارے مسائل بڑھتے گئے اور جمہوری نظام کی افادیت لوگوں تک نہیں پہنچ سکی۔ آئین کا آرٹیکل 140 (اے) بلدیاتی حکومت کو سیاسی، مالی اورانتظامی اختیارات دینے بات کرتا ہے مگر اس پر عملدرآمدنہیں ہوا اور نہ ہی کسی نے صحیح معنوں میںا س کیلئے کوشش کی۔

اسی طرح آرٹیکل 32 معاشرے کے محروم طبقات جن میں نوجوان، خواتین، کسان، خواجہ سراء، خصوصی افراد و دیگر شامل ہیں کو نمائندگی دینے کی بات کرتا ہے مگر اس پر بھی درست کام نہیں ہوا۔ افسوس ہے کہ ملک کو تجربہ گاہ بنا دیا گیا اور ہر آنے والی حکومت نے بلدیاتی نظام کے حوالے سے تجربات کیے جس کی وجہ سے عام آدمی اور گورننس کے مسائل بڑھتے گئے، اگر ملک میں بلدیاتی نظام مضبوط اور مستحکم ہوتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔

بدقسمتی سے اس وقت ملک میں بلدیاتی نظام اور حکومتیںموجود نہیں ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بھی صرف پہلے مرحلے کے انتخابات ہوئے ہیں، بہت سارا کام وہاں بھی باقی ہے۔ پنجاب کی بات کریں تو یہاں الیکشن کمیشن نے 29 مئی کو 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے جبکہ سندھ اور بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے شیڈول ابھی تک نہیں آیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کی صورتحال کیا ہے۔ ہمارے ہاں یہ افسوناک روایت ہے کہ الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ کی مداخلت پر ہی سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کرواتی ہیں اور ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے بلدیاتی نظام سے بچا جاسکے۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور کا بلدیاتی نظام بہترین تھا، اگر اسی کاتسلسل قائم رکھا جاتا تو 4-5 مرتبہ یہ نظام آنے سے خود بخود ہی اس میں بہتری آجاتی۔ہم لوکل باڈیز کے مقابلے میں لوکل گورنمنٹ کے حامی ہیں۔ بلدیاتی حکومت کو جمہوریت کے تیسرے درجے کی طرح صحیح معنوں میں قائم کیا جائے، آئینی تحفظ دیا جائے،ا س میں عورتوں، اقلیتوں، نوجوانوں ، کسانوں سمیت سب کونمائندگی دی جائے۔ اس وقت ملک میں آدھی جمہوریت ہے۔ وفاقی اور صوبائی نظام تو قائم ہے مگر بلدیاتی نظام نہیں ہے، 18 ویں ترمیم سے صوبوں کو تو اختیارات مل گئے مگر وہ نچلی سطح پر اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، ایم این ایز ، ایم پی ایز اور بیوروکریسی اس میں بڑی رکاوٹ ہے۔

نظام کی مضبوطی کے لیے اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اضلاع خود مختار ہونگے تو صوبے خودمختار ہونگے اور اس سے وفاق مضبوط ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے 2013ء کے بلدیاتی نظام کے مقابلے میں موجودہ حکومت کا بلدیاتی نظام بہتر ہے، اس میں منتخب نمائندوں اور اداروں کو با اختیار بنایا گیا ہے، اتھارٹیاں ان کے ماتحت ہیں، خواتین، کسان، نوجوان سمیت خصوصی افراد کو بھی نمائندگی دی گئی ہے۔

پنجاب میں نیا سٹیج سج رہا ہے۔ پہلی مرتبہ چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخابات براہ راست ہونگے۔ الیکشن کے وقت پورا پینل دینا ہوگا جس میں چیئر مین، وائس چیئرمین اور 5 مخصوص نشستیں خاتون، کسان، تاجر، نوجوان و دیگر شامل ہونگے جبکہ باقی کی 5 جنرل نشستوں کا فیصلہ متناسب نمائندگی کے فارمولے کے تحت ہوگا۔ آزاد امیدوار بھی پینل کی صورت میں ہی الیکشن لڑ سکیں گے۔ اس ایکٹ کے تحت بہت ساری چیزیں بہتر ہونگی ، دیکھنا یہ ہے کہ اسے کس حد تک موثر اور شفاف بنایا جائے گا۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ مضبوط بلدیاتی نظام لایا جائے، اسے آئینی تحفظ دیا جائے، وفاقی حکومت کواس میں کردار دیا جائے کہ وہ صوبوں سے بلدیاتی نظام کے حوالے سے وضاحت طلب کر سکے۔قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ہی مقامی حکومتوں کے انتخابات کرائے جائیں، اگر ممکن نہیں تو حکومت بننے کے بعد 120 روز میں بلدیاتی الیکشن لازمی کرائے جائیں تاکہ وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی نظام کی مدت ایک ساتھ ختم ہو، بصورت دیگر بلدیاتی نظام کو مسائل رہیں گے۔

میرے نزدیک یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ آرٹیکل 140 (اے) کے ساتھ ''بی'' بھی شامل کیا جائے جس میں بلدیاتی نظام کے تسلسل کیلئے حکومتوں کو یہ پابند کیا جائے کہ وہ 120 روز میں لازمی انتخابات کروائیں۔ پنجاب میں جو بلدیاتی نظام لایا جارہا ہے اس حوالے سے نہ تو عوام کو علم ہے اور نہ ہی ممکنہ امیدواروں کو۔ سول سوسائٹی کو چاہیے کہ اس حوالے سے لوگوں کو آگاہی دے اور ان کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔ یہ الیکشن براہ راست اور جماعتی بنیادوں پر ہونگے جس میں پینل ووٹ ہوگا۔

اس میں امیدوار کی عمر 21 برس کر دی گئی ہے جس میں نوجوان زیادہ سے زیادہ حصہ لے سکتے ہیں۔ اس میں پہلی مرتبہ خصوصی افراد کی نشست بھی رکھی گئی ہے جو خوش آئند ہے۔ اس میں اگرچہ خواتین کی نشست میںا ضافہ کیا گیا ہے مگر ضرورت یہ ہے کہ پولیٹکل پارٹیز ایکٹ میں ترمیم کرکے بلدیاتی حکومت کو بھی اس میں شامل کیا جائے اور جنرل نشستوں پر خواتین کو 5 فیصد ٹکٹ کا اجراء یقینی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ ایم پی ایز اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے کردار کو واضح کیا جائے، بیوروکریسی کے کردار کو بھی دیکھنا ہوگا۔

بلدیاتی نظام کے نقائص کو دور کرنے کیلئے جلد بلدیاتی ایکٹ لایاجائے اور 29 مئی کو وقت پر الیکشن کرایا جائے اور بلدیاتی نظام کے تسلسل کو یقینی بنایا جائے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ لوکل گورنمنٹ جتنی مضبوط ہوگی، اتنا ہی زیادہ لوگوں کو فائدہ ہوگا لہٰذاسیاسی جماعتیں، میڈیا، این جی اوز، سول سوسائٹی سمیت معاشرے کے دیگر سٹیک ہولڈرز مل کر بلدیاتی نظام کے قیام اور تسلسل کیلئے کام کریں۔

عرفان مفتی
(نمائندہ سول سوسائٹی)

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ گورننس کا بحران ہے جو گزشتہ 74 برسوں میں حل نہیں ہوسکا۔ ہمارے تمام مسائل جن میں غربت،مہنگائی، بیروزگاری،بیماری و دیگر مسائل شامل ہیں کا بوجھ عورت اٹھا رہی ہے جسے نظر انداز کیا جارہا ہے، جس نظام میں عورت و محروم طبقات کو شامل نہ کیا جائے وہ نظام ڈیلور نہیں کر سکتا۔ تبدیلی، ایک طبقے کی خواہش ہے جس کے پاس وسائل ہیںمگر دوسرے طبقے کی مجبوری ہے جسے مسائل درپیش ہیں۔

ضروری ہے کہ تبدیلی کے لیے اس مجبور طبقے کو مقامی حکومتوں کے نظام میں شامل کیا جائے اور اس کے مسائل حل کیے جائیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ خواتین جو ملکی آبادی کا نصف سے زائد حصہ ہیں، کو مقامی حکومتوں میں شامل نہ کرنے سے مسائل سنگین ہونگے، انہیں نظام سے دور رکھنے کے بجائے بہتر کردار ادا کرنے کیلئے مواقع فراہم کیے جائیں۔ سیاسی نظام میں خواتین کو مخصوص نشستوں کے تحت نمائندگی دی گئی ہے جس سے کچھ بہتری آئی ہیں، براہ راست الیکشن لڑنے کیلئے بھی ہمیں خواتین کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

مقامی حکومتوں کے نظام میں خواتین، اقلیتوں، خواجہ سرا، نوجوان اور خصوصی افراد کو قائل کرنا سول سوسائٹی کی ایک اہم ذمہ داری ہے، انہیں امیدوار اور ووٹر دونوں کردار ادا کرنے کیلئے راغب کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک ان طبقات کی شمولیت کے بغیر موثر نظام قائم نہیں ہوسکتا۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے امیدواروں کی تربیت اور کپیسٹی بلڈنگ اہم کام ہے، ہم خواتین کی تربیت کرکے انہیں بلدیاتی انتخابات کیلئے تیار کر رہے ہیں، امید ہے بہتری آئے گی۔ انہیں ویلیج سکیم، پلاننگ اور یونین کونسل کے بجٹ کے حوالے سے بھی تربیت دی جارہی ہے تاکہ منتخب ہونے کے بعد موثر کردار ادا کر سکیں۔

ہم خوش ہیں کہ بلدیاتی نظام کے حوالے سے ہمارے کچھ مطالبات تسلیم ہوئے ہیں تاہم ابھی بہت سارا کام باقی ہے، خواتین کو اس میں 33 فیصد نمائندگی دیکر بنیادی حق پورا کیا جائے، اس کے علاوہ کمیشن، کمیٹیوں و دیگر فیصلہ ساز باڈیز و مانیٹرنگ کے نظام میں بھی خواتین، اقلیتوں، نوجوانوں و دیگر کو شامل کیا جائے۔ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں خواتین کی اچھی تعداد سامنے آئی ہے، پنجاب میں بھی خواتین کو آگے آنا چاہیے اور ہم اس حوالے سے کام کر رہے ہیں۔

موثر اور بہتر نظام وہی ہوتا ہے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوں، اگر اسے صرف ایلیٹ کے حوالے کر دیا جائے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بلدیاتی نظام کی مضبوطی، لوگوں کی شمولیت اور اس کے تسلسل کو یقینی بنانے میں سول سوسائٹی کا کردار بھی انتہائی اہم ہوتا ہے، ہم پر بھاری ذمہ داری ہے، سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
Load Next Story