اسٹیٹ بینک کی حالیہ مانیٹری پالیسی پر تنقید

پٹرول، بجلی، افراطِ زر، ترسیلاتِ زر پر بدلتے موقف پر ناقدین نے بینک کو ہدف تنقید بنایا

مارکیٹ نے بینک کے دیے گئے اشاروں کے مطابق عمل نہ کیا تو مانیٹری پالیسی بے اثر ہو جائے گی (فائل فوٹو)

گذشتہ ہفتے اسٹیٹ بینک نے شرح سود 9.75 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔

مہنگائی اور بیرونی کھاتے کے دباؤ کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کیلیے اپنے اس اقدام کا دفاع کرنا آسان نہیں تھا، کیوں کہ بلند شرح سود کی وجہ سے پیٹرول کے نرخ کم نہیں ہوسکتے۔ اس امر کو تسلیم کرتے ہوئے کہ پچھلے دو سال کے دوران اسٹیٹ بینک کومشکل صورتحال کا سامنا رہا ہے، اس کے حالیہ اقدامات پر کڑی تنقید کی گئی ہے۔


حالیہ مانیٹری پالیسی نے ناقدین کو تنقید کے لیے مزید مواد فراہم کردیا ہے۔ جنوری میں مرکزی بینک نے پیٹرول اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کو احسن اقدام قرار دیا تھا اور مارچ میں پیٹرول اور بجلی پر سبسڈی کی تحسین کی ہے۔

اسی طرح دسمبر اور فروری میں ا فراطِ زر کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کے الگ الگ موقف پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے ترسیلاتِ زر میں کمی کا تاثر بھی مسترد کردیا۔ بینک کا کہنا تھا کہ جنوری میں ترسیلاتِ زر میں قدرے کمی آئی ہے مگر مالی سال کے لحاظ سے توقعات کے مطابق ہیں۔

اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ گذشتہ تین سال کے دوران اسٹیٹ بینک نے کئی بہترین اقدام کیے ہیں، بدقسمتی سے اس کی موجودہ کمیونی کیشن اسٹریٹجی مطلوبہ اثر قائم کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اگر مارکیٹ نے اسٹیٹ بینک کے دیے گئے اشارات کے مطابق عمل نہ کیا تو پھر مانیٹری پالیسی کا اثر تحلیل ہوجائے گا، اور پھر مرکزی بینک مارکیٹ کی رہنمائی کے بجائے اس کی تقلید کرنے پر مجبور ہوگا۔
Load Next Story