سیاست میں غیر شائستگی
جب وزیراعظم کا خود پر کنٹرول نہیں ہوگا تو وہ اپنی کابینہ کے ارکان کو کیسے غیر شائستہ گفتگو سے روک سکیں گے؟
RIYADH:
موجودہ ملکی سیاست میں صبر، شائستگی، اخلاق کا دامن چھوڑ دیا گیا ہے۔ حکومتی ارکان ہوں یا اپوزیشن، روزانہ میڈیا پر آکر فضولیات اور زہر اگلا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان خود بھی آپے سے باہر ہوگئے ہیں۔ ایک دوسرے کے ناموں کو بگاڑا جارہا ہے۔
وزیراعظم پوری قوم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے کہے گئے الفاظ قوم کی ترجمانی ہوتے ہیں۔ وزیراعظم کا خود پر کنٹرول نہیں ہوگا تو وہ اپنی کابینہ کے ارکان کو کیسے غیر شائستہ گفتگو سے روکیں گے؟ اگر کوئی بھی وزیراعظم ایسا لب و لہجہ استعمال کرے جو آج کل استعمال کیا جارہا ہے تو اس سے بین الاقوامی سطح پر مثبت پیغام نہیں جائے گا۔ اختلاف رائے ہونا چاہیے لیکن حکومتی شخصیات ہوں یا اپوزیشن، کسی کو بھی شائستگی اور اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
ایک گھر میں جس طرح بچوں کو ادب سکھانے کےلیے بڑوں کو احتیاط سے کام لینا ہوتا ہے، 'تو' کی جگہ 'آپ' کا لفظ استعمال کرنا، بڑوں کا احترام اور عزت کرنا سکھایا جاتا ہے، اسی طرح اگر ایوانوں میں بیٹھے ارکان اسمبلی، حکومتی اور اپوزیشن کی شخصیات ایسی زبان استعمال کریں گے تو ہم آئندہ آنے والی نسلوں کو کیا سکھائیں گے؟ مولانا فضل الرحمان قابل احترام شخصیت ہیں۔ سیاسی اور مذہبی حلقوں میں ان کا احترام ہے۔ اگر ان کا احترام نہیں کیا جائے گا تو پھر ہم کیسے اپنے چھوٹوں کو احترام کا درس دیں گے؟ عمران خان ہو یا مولانا فضل الرحمان، آصف زرداری ہو یا شہباز شریف، یہ قومی لیڈرشپ ہے، ان ہی سے نئی نسلوں نے سیکھنا ہے۔
ہم جو آج بوتے ہیں وہی کل کاٹتے ہیں۔ ایک دوسرے کو چور چور کہنے کا سلسلہ آج سے نہیں ہر جمہوری دور میں یہی ہوتا رہتا ہے۔ جو بھی حکومت آئے اس کی مخالف جماعت آرام سے بیٹھتی ہے اور نہ حکومتی جماعت کو بیٹھنے دیتی ہے۔ نوازلیگ کے خلاف جب تحریک انصاف نے تحریک شروع کی، ڈی چوک میں طویل دھرنا دیا گیا، ملک بھر میں احتجاجی جلسے کیے گئے تو اس وقت بھی سیاسی حلقوں میں یہ موضوع زیر بحث رہا کہ کل اگر عمران خان اقتدار میں آئے تو ان کے خلاف بھی یہ اپوزیشن جماعتیں آرام سے نہیں بیٹھیں گی۔ اور آج تحریک انصاف حکومت کے خلاف بھی یہی ہورہا ہے۔ تمام اپوزیشن جماعتیں عمران خان حکومت کے خلاف نبردآزما ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کی کہانی آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ تحریک انصاف کی اتحادی جماعتیں اپوزیشن کو تعاون کی یقین دہانیاں کرارہی ہیں۔ اب تحریک انصاف کی حکومت ق لیگ اور ایم کیو ایم کے سہارے زندہ ہے۔ جس لمحے بھی یہ دو جماعتیں پی ٹی آئی سے الگ ہوجاتی ہیں تحریک انصاف کی حکومت خطرے سے دوچار ہوجائے گی اور اپوزیشن کی تحریک کی کامیابی کا دارومدار ان ہی دو جماعتوں پر ہے۔
اب تک کی صورتحال کے مطابق متحدہ اپوزیشن یقین دہانیوں پر اپنا نمبر آف گیم مکمل کرچکی ہے۔ اس سے پہلے کی تحریر میں، میں نے یہ لکھا تھا کہ جب تک اپوزیشن تحریک عدم اعماد کو کامیاب بنانے کےلیے مطلوبہ تعداد پوری نہیں کرتی، تحریک جمع نہیں کرائی جائے گی۔ مطلوبہ تعداد کے پورے ہونے پر اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی اور اپوزیشن رہنما اس بار زیادہ پراعتماد نظر آرہے ہیں۔ اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے تحریک پر ضابطہ کی کارروائی مکمل کرلی گئی ہے۔ جتنے ارکان کے بھی دستخط تھے ان کی تصدیق کردی گئی ہے۔ اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے اجلاس بلانے کےلیے فائل اسپیکر قومی اسمبلی کو بھجوادی گئی ہے۔ اب 14 روز میں اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس طلب کرنا ہے۔ دو روز تحریک پر بحث کی جائے گی اور تیسرے روز تحریک پر ووٹنگ کی جائے گی۔
اپوزیشن کی تحریک اعتماد پر یقیناً حکومت بھی گھبراہٹ کا شکار ہے۔ اپنے اتحادیوں سے پے درپے رابطے کیے جارہے ہیں۔ ایم کیو ایم کو منانے کےلیے گورنر سندھ کو ٹاسک سونپا گیا ہے۔ گورنر سندھ ایم کیو ایم کے مرکز بھی گئے اور لیکن کوئی بات بنتی نطر نہیں آرہی۔ گورنر سندھ نے علیم خان کو منانے کی کوشش کی لیکن وہاں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ پنجاب میں چوہدری برادران کو بھی منانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ چوہدری پرویزالہٰی کی جانب سے بیان دیا گیا ہے کہ ق لیگ اپنا فیصلہ کرچکی ہے۔ اور دکھائی یہی دے رہا ہے ق لیگ پی ٹی آئی کی ڈوبتی نیا سے چھلانگ لگانے کےلیے تیار ہے۔ پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کی جانب سے کوشش کی جارہی ہے کہ چوہدری برادران کی آخری ملاقات وزیراعظم سے کرادی جائے۔ اگر چوہدری پرویزالہٰی مان جاتے ہیں تو کسی بھی لمحے یہ اہم ملاقات ہوسکتی ہے۔
تحریک انصاف بھی اپوزیشن کا بھرپور مقابلے کرنے کےلیے تیار ہے۔ تحریک انصاف سے جو خبریں موصول ہورہی ہیں تحریک انصاف اپنے ارکان کو نااہلی سے ڈرا رہی ہے۔ جبکہ یہ بھی خبریں سامنے آرہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے ارکان سے رابطے کے ثبوت عمران خان کے ہاتھ لگے ہیں اور کچھ ایسی ویڈیوز کی بھی اطلاعات ہیں کہ اپوزیشن کے کچھ رہنما جن جن غیر سیاسی لوگوں سے رابطے میں ہیں، ان کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کو ثبوت ملے ہیں۔ اسی لیے تحریک انصاف کے حلقوں سے یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ وقت پڑنے پر یہ ثبوت عوام کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد سے ایک روز قبل ڈی چوک میں جلسے کے انعقاد کا اعلان کر رکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے تشہیر کی جارہی ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ اس روز ہونے والے جلسے میں عمران خان یہ تمام ثبوت عوام کے سامنے پیش کریں گے۔ واقعی عمران خان کے ہاتھ ثبوت لگے ہیں یا اپوزیشن کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے، اس حوالے سے کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن پی ٹی آئی کے حلقوں میں یہ اطلاعات زیر بحث ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے یا عمران خان اپنی آئینی مدت پوری کر بھی لیتے ہیں تو کیا اپوزیشن میں آکر وہ حکومتی جماعت کے خلاف اپنی زبان بندی کریں گے یا ان کے خلاف سڑکوں پر نہیں آئیں گے؟ آگے یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ اس لیے غیر جمہوری قوتوں کو موقع دینے کے بجائے ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا۔ تب ہی پاکستان میں کوئی منتخب حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرسکے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
موجودہ ملکی سیاست میں صبر، شائستگی، اخلاق کا دامن چھوڑ دیا گیا ہے۔ حکومتی ارکان ہوں یا اپوزیشن، روزانہ میڈیا پر آکر فضولیات اور زہر اگلا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان خود بھی آپے سے باہر ہوگئے ہیں۔ ایک دوسرے کے ناموں کو بگاڑا جارہا ہے۔
وزیراعظم پوری قوم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے کہے گئے الفاظ قوم کی ترجمانی ہوتے ہیں۔ وزیراعظم کا خود پر کنٹرول نہیں ہوگا تو وہ اپنی کابینہ کے ارکان کو کیسے غیر شائستہ گفتگو سے روکیں گے؟ اگر کوئی بھی وزیراعظم ایسا لب و لہجہ استعمال کرے جو آج کل استعمال کیا جارہا ہے تو اس سے بین الاقوامی سطح پر مثبت پیغام نہیں جائے گا۔ اختلاف رائے ہونا چاہیے لیکن حکومتی شخصیات ہوں یا اپوزیشن، کسی کو بھی شائستگی اور اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
ایک گھر میں جس طرح بچوں کو ادب سکھانے کےلیے بڑوں کو احتیاط سے کام لینا ہوتا ہے، 'تو' کی جگہ 'آپ' کا لفظ استعمال کرنا، بڑوں کا احترام اور عزت کرنا سکھایا جاتا ہے، اسی طرح اگر ایوانوں میں بیٹھے ارکان اسمبلی، حکومتی اور اپوزیشن کی شخصیات ایسی زبان استعمال کریں گے تو ہم آئندہ آنے والی نسلوں کو کیا سکھائیں گے؟ مولانا فضل الرحمان قابل احترام شخصیت ہیں۔ سیاسی اور مذہبی حلقوں میں ان کا احترام ہے۔ اگر ان کا احترام نہیں کیا جائے گا تو پھر ہم کیسے اپنے چھوٹوں کو احترام کا درس دیں گے؟ عمران خان ہو یا مولانا فضل الرحمان، آصف زرداری ہو یا شہباز شریف، یہ قومی لیڈرشپ ہے، ان ہی سے نئی نسلوں نے سیکھنا ہے۔
ہم جو آج بوتے ہیں وہی کل کاٹتے ہیں۔ ایک دوسرے کو چور چور کہنے کا سلسلہ آج سے نہیں ہر جمہوری دور میں یہی ہوتا رہتا ہے۔ جو بھی حکومت آئے اس کی مخالف جماعت آرام سے بیٹھتی ہے اور نہ حکومتی جماعت کو بیٹھنے دیتی ہے۔ نوازلیگ کے خلاف جب تحریک انصاف نے تحریک شروع کی، ڈی چوک میں طویل دھرنا دیا گیا، ملک بھر میں احتجاجی جلسے کیے گئے تو اس وقت بھی سیاسی حلقوں میں یہ موضوع زیر بحث رہا کہ کل اگر عمران خان اقتدار میں آئے تو ان کے خلاف بھی یہ اپوزیشن جماعتیں آرام سے نہیں بیٹھیں گی۔ اور آج تحریک انصاف حکومت کے خلاف بھی یہی ہورہا ہے۔ تمام اپوزیشن جماعتیں عمران خان حکومت کے خلاف نبردآزما ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کی کہانی آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ تحریک انصاف کی اتحادی جماعتیں اپوزیشن کو تعاون کی یقین دہانیاں کرارہی ہیں۔ اب تحریک انصاف کی حکومت ق لیگ اور ایم کیو ایم کے سہارے زندہ ہے۔ جس لمحے بھی یہ دو جماعتیں پی ٹی آئی سے الگ ہوجاتی ہیں تحریک انصاف کی حکومت خطرے سے دوچار ہوجائے گی اور اپوزیشن کی تحریک کی کامیابی کا دارومدار ان ہی دو جماعتوں پر ہے۔
اب تک کی صورتحال کے مطابق متحدہ اپوزیشن یقین دہانیوں پر اپنا نمبر آف گیم مکمل کرچکی ہے۔ اس سے پہلے کی تحریر میں، میں نے یہ لکھا تھا کہ جب تک اپوزیشن تحریک عدم اعماد کو کامیاب بنانے کےلیے مطلوبہ تعداد پوری نہیں کرتی، تحریک جمع نہیں کرائی جائے گی۔ مطلوبہ تعداد کے پورے ہونے پر اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی اور اپوزیشن رہنما اس بار زیادہ پراعتماد نظر آرہے ہیں۔ اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے تحریک پر ضابطہ کی کارروائی مکمل کرلی گئی ہے۔ جتنے ارکان کے بھی دستخط تھے ان کی تصدیق کردی گئی ہے۔ اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے اجلاس بلانے کےلیے فائل اسپیکر قومی اسمبلی کو بھجوادی گئی ہے۔ اب 14 روز میں اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس طلب کرنا ہے۔ دو روز تحریک پر بحث کی جائے گی اور تیسرے روز تحریک پر ووٹنگ کی جائے گی۔
اپوزیشن کی تحریک اعتماد پر یقیناً حکومت بھی گھبراہٹ کا شکار ہے۔ اپنے اتحادیوں سے پے درپے رابطے کیے جارہے ہیں۔ ایم کیو ایم کو منانے کےلیے گورنر سندھ کو ٹاسک سونپا گیا ہے۔ گورنر سندھ ایم کیو ایم کے مرکز بھی گئے اور لیکن کوئی بات بنتی نطر نہیں آرہی۔ گورنر سندھ نے علیم خان کو منانے کی کوشش کی لیکن وہاں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ پنجاب میں چوہدری برادران کو بھی منانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ چوہدری پرویزالہٰی کی جانب سے بیان دیا گیا ہے کہ ق لیگ اپنا فیصلہ کرچکی ہے۔ اور دکھائی یہی دے رہا ہے ق لیگ پی ٹی آئی کی ڈوبتی نیا سے چھلانگ لگانے کےلیے تیار ہے۔ پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کی جانب سے کوشش کی جارہی ہے کہ چوہدری برادران کی آخری ملاقات وزیراعظم سے کرادی جائے۔ اگر چوہدری پرویزالہٰی مان جاتے ہیں تو کسی بھی لمحے یہ اہم ملاقات ہوسکتی ہے۔
تحریک انصاف بھی اپوزیشن کا بھرپور مقابلے کرنے کےلیے تیار ہے۔ تحریک انصاف سے جو خبریں موصول ہورہی ہیں تحریک انصاف اپنے ارکان کو نااہلی سے ڈرا رہی ہے۔ جبکہ یہ بھی خبریں سامنے آرہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے ارکان سے رابطے کے ثبوت عمران خان کے ہاتھ لگے ہیں اور کچھ ایسی ویڈیوز کی بھی اطلاعات ہیں کہ اپوزیشن کے کچھ رہنما جن جن غیر سیاسی لوگوں سے رابطے میں ہیں، ان کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کو ثبوت ملے ہیں۔ اسی لیے تحریک انصاف کے حلقوں سے یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ وقت پڑنے پر یہ ثبوت عوام کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد سے ایک روز قبل ڈی چوک میں جلسے کے انعقاد کا اعلان کر رکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے تشہیر کی جارہی ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ اس روز ہونے والے جلسے میں عمران خان یہ تمام ثبوت عوام کے سامنے پیش کریں گے۔ واقعی عمران خان کے ہاتھ ثبوت لگے ہیں یا اپوزیشن کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے، اس حوالے سے کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن پی ٹی آئی کے حلقوں میں یہ اطلاعات زیر بحث ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے یا عمران خان اپنی آئینی مدت پوری کر بھی لیتے ہیں تو کیا اپوزیشن میں آکر وہ حکومتی جماعت کے خلاف اپنی زبان بندی کریں گے یا ان کے خلاف سڑکوں پر نہیں آئیں گے؟ آگے یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ اس لیے غیر جمہوری قوتوں کو موقع دینے کے بجائے ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا۔ تب ہی پاکستان میں کوئی منتخب حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرسکے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔