برداشت کی فضا کو پروان چڑھایا جائے
عدم برداشت کے اس عارضے کی سب بڑی وجہ ہمارا قانونی اور معاشی نظام ہے جو اشرافیہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے
سیاسی اختلافات جمہوریت کا حسن ہیں لیکن سیاسی مخالفت میں نفرت اور رویے میں شدت پسندی نے سیاست میں عدم برداشت کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔
سیاسی رہنماؤں کو جلسے جلوسوں کے دوران تقریر کرتے ہوئے یا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیاسی مخالفت میں منفی رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، جس سے عوام میں اشتعال اور عدم برداشت کی سوچ جنم لے۔ انسانی نفسیات کے ماہرین کے خیال میں عدم برداشت دراصل ہمارے اندر چھپی ہوئی مایوسی سے جنم لیتا ہے اور یہ مایوسی ہمارے ناتمام ارادوں اور نا آسودہ خواہشات کا نتیجہ ہوتی ہے۔ معاشرتی اصولوں یا تربیت کے باعث ہم بہت سے ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
سیاست ہو یا مذہب ، ہم اختلافات یا مخالفت برداشت کرنے کو تیار ہی نہیں ، اور فوری ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے حد سے گزر جاتے ہیں۔ یہ صورت حال ہمیں اکثر دیکھنے کو ملتی ہے کہ عدم برداشت کی وجہ سے لوگوں کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے جارہے ہیں اور ہمارا معاشرہ اس وقت ایک ایسے موڑ کی طرف رواں دواں ہے جہاں اپنی بات کو سچ اور دوسرے کی بات کو جھوٹ سمجھا جاتا ہے جس کی روشن دلیل موجودہ سیاسی بحران ہے جس کی بنا پر کس کس طرح کے الزامات اور زبان استعمال کی جارہی ہے جس کا اثر براہ راست ہماری نوجوان نسل پر پڑتا ہے۔
سیاسی ٹاک شوز میں شرکت کرنے والے لوگ بھی اپنی پارٹی اور لیڈر کے نقش قدم پر چلتے ہیں جب کہ اینکرز کی سیاسی ، معاشرتی، اقتصادی اور قانونی ایشوز پر گرفت انتہائی کمزور اور سطحی نوعیت کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے عوام ہی نہیں بلکہ سیاسی کارکنوں میں ابہام اور کنفیوژن پھیل رہی ہے اور وہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور برُا بھلا کہنے کو ہی سیاست اور جمہوریت سمجھتے ہیں۔ اس طرز عمل کے مناظر روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اسی لیے ہمارے ہاں لوگ معاشرتی و اخلاقی اقدار کی پروا نہیں کرتے اور مخالف نقطہ نظر رکھنے والے کو نشانہ بناتے ہوئے گھٹیا پن کی آخری حدوںکو چھوتے نظر آتے ہیں۔ مذہبی طور پر بھی ہماری حالت سب کے سامنے ہے جہاں مذہبی رہنماء ایک دوسرے کے فرقے کے بارے میں عدم برداشت کا درس دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی حال اب ہمیں اقلیتوں کے حوالے سے بھی دیکھنے کو ملتا ہے، دیگر مذاہب کے خلاف عدم برداشت اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، حالانکہ ہمارا مذہب اسلام تو امن کا دین ہے اور سب سے بڑھ کر اسلام ہمیں صبر و تحمل برداشت و رواداری کا درس دیتا ہے۔ تشدد ، عدم برداشت اور انتہا پسند رویوں نے ہماری پوری دنیاکے سامنے رسوائی کا سامان کیا ہے۔
شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو، جب آپ سڑک پر سفر کے دوران ایسا کوئی جذباتی مظاہرہ نہ دیکھیں، ہرگاڑی اور موٹر سائیکل سوار ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتا نظر آتا ہے۔ اگر اس کوشش میں کوئی دوسری گاڑی چھو بھی جائے، تو دونوں افراد بیچ سڑک پر رک کر تہذیب کا جنازہ نکالنا شروع کر دیں گے،کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں نوے فیصد موٹر سائیکل سواروں کو ٹریفک قوانین کا پتہ ہی نہیں ہے، انھیں لائن اور لین کا فرق معلوم نہیں ، زیبرا کراسنگ کا مطلب کیا ہوتا، اس کا پتہ نہیں، دائیں اور بائیں موڑ مڑنے کے ٹریفک سائنز کا بھی پتہ نہیں ہوتا ، یہی حال رکشہ، مسافر بسیں ، ویگنز اور چنگ چی ڈرائیورز کا ہے،کاریں اورلگژری وہیکلز چلانے والے تو ٹریفک قوانین کی پروا کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
بے وسیلہ ، کمزور اور غریب طبقے کے افراد نام نہاد مہذب طبقے کے افراد کے ظلم ، نفرت اور بے حس رویے کا شکار ہوتے ہیں۔ریستوران میں خدمات انجام دینے والے افراد ہوں یا کسی ورکشاپ میں کام کرنے والا بچہ، کوئی سیکیورٹی گارڈ ہو یا کسی اسٹور کا سیلز مین، بگڑے رئیس زادوں کے برے رویے کو سہتے نظر آتے ہیں جو یقیناً ان کے اندر بھی منفی اور نفرت کے جذبات کو جنم دیتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ معاشرے میں عزت سے سر اٹھا کر جینے کا یہی طریقہ ہے کہ دوسرے کی عزت روند دی جائے۔
دراصل ہمارا پورا معاشرہ اور ہماری پوری سیاسی قیادت عدمِ برداشت کی نفسیات کا شکار ہو گئی ہے۔ مخالف کوگالی دینا اور تھپڑ مارنا ملکی سیاست کا کلچر بن چکا ہے، خود کو اہل علم کہلانے والاطبقہ بھی نظریاتی ابہام کا شکار ہے اور دوسروں کو بھی ابہام میں مبتلا کرنے میں دن رات جتا ہوا ہے۔ بلحاظ مجموعی اگر دیکھیں تو ہمارے سرکاری اداروں میں بھی عدمِ برداشت کا منفی رویہ ہے ۔ ہر بیورو کریٹ ذہنی طور پرخود کو ارسطوسمجھتا ہے لیکن اپنے عمل میں کمزور کے لیے انتہائی متکبر اور ظالم ہوتا جب کہ اپنے باس اور طاقتور کے سامنے انتہائی مودب ہوتا ہے۔
عدم برداشت کے اس عارضے کی سب بڑی وجہ ہمارا قانونی اور معاشی نظام ہے جو اشرافیہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور نوکرشاہی کو بے جا اختیارات دیتا ہے اور انھیں احتساب سے باہر رکھتا ہے۔ جب آئین اور قانون میں ہی ناانصافی ہوگی تو معاشرتی، معاشی مساوات اور سیاسی استحکام کیسے پیدا ہوسکتا ہے ۔ مثبت روایات اور اقدار جب تعصب اور امتیازی قوانین کی دھول میں دب جاتی ہیں تو پھر بھلائی، راست گوئی کا جنم لینا ناممکن ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں پچھلی سات دہائیوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔
اب تو حالات سیاسی و معاشی اشرافیہ اور نوکر شاہی کے کنٹرول سے بھی باہر نکلنے کے خدشات جنم لیتے نظر آرہے ہیں۔ ملک کا سیاسی ہی نہیں معاشی ڈھانچہ بھی زمین بوس ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اشیائے خورونوش اور ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، طبی سہولیات کا فقدان اورنظریاتی ابہام سے لتھڑا ہوئے تعلیمی نصاب نے ہمارے معاشرے کی اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ رشوت اور سفارش کا دور دورہ، نشہ آور اشیاء کا کھلے عام استعمال اور ریاستی مشینری تماشائی ،ایسے دوسرے کئی پہلو ہیں جو اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ہماری اخلاقی اور سماجی اقدار نہ صرف یکسر بدل گئی ہیں اور ان کی جگہ نفرت، حسد، کینہ پروری ، مکاری جیسے زہریلے جذبات اور رویوں نے لے لی ہے۔
کچھ سنجیدہ حلقے یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ ہماری سیاسی کلاس میں سیاسی شعور ختم ہو چکا ہے جس سے مسائل میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف صوبائی ،گروہی، نسلی اور لسانی سیاست ہی سیاسی قیادت کا منشور ہونا چاہیے یا پاکستان میں بسنے والے ہر شہری کو روزگار کے یکساں مواقعے فراہم کرنے کے لیے ابہام سے پاک قوانین بنانا ،ہر شہری کو بلاامیتاز قوم، قومیت، لسانیت اور برادری کے جان ومال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے نظام انصاف اور آئین میں موجود مبہم، نامکمل اور عدل کے اصولوں کے خلاف قوانین کو تبدیل کرنا اور ریاست کے نام پر سرکاری مشینری اور محکموں کے افسروں اور اہلکاروںکو حاصل بے جا اختیارات کا خاتمہ کرنا سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کا منشور ہونا چاہیے ۔
پاکستان کو منظم طریقے سے نااہل اورموقع پرست حکمران طبقے کے ذریعے بند گلی میں داخل کیا گیا ہے۔ گراس روٹ لیول پرسیاسی شعور بہت زیادہ ہے، مسئلہ حکمران طبقے کی سوچ اور فکر ہے جو مسائل کی جڑ ہے کیونکہ ریاست کی پالیسی سازی اور معیشت پر انھی کا کنٹرول ہے۔ ہماری نسل میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے، عدم برداشت ہے ، سیاسی بحث مباحثے میں جس طرح کی زبان استعمال کی جارہی ہے اور جس طرح کے بغیر کوئی ثبوت الزامات کی بوچھاڑ کی جارہی ہے ، یہ رویے ملک کو خطرناک سمت میں لے جارہے ہیں۔
اس وقت پوری دینا کے سامنے ملک کی جگ ہنسائی کرائی جارہی ہے، پاکستان کو انتہا پسندی کی دلدل میں پھنسا دیا گیا۔ اس تشویشناک صورتحال میں بھی ملک کے پالیسی ساز اور حکمران طبقات ہوش کے ناخن لیتے نظر نہیں آرہے ۔ جب تک حکمران اشرافیہ اپنا محاسبہ خود نہیں کرتی ، اس وقت تک ریاست درست سمت میں نہیں چل سکتی ۔ جب تک انتہاپسندی پر مبنی تعلیمی نصاب میں تبدیلی نہیں لائی جاتی ، تعمیری سوچ فروغ نہیں پاسکتی ہے ۔
ملک میں سیاسی اور اخلاقی برتری کی ذمے داری حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر ملک میں سیاسی بلوغت اور برداشت کی فضا کو پروان چڑھانا اور قائم کرنا چاہیے جب کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت کریں، انھیں سیاسی رہنماؤں کے عشق میں اندھا اور بہرا نہ ہونے دیں۔ اپنی گفتگو میں غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے کے بجائے بہتر الفاظ کا چناؤ کر کے بھی سیاسی مخالفت کی جا سکتی ہے۔
کسی بھی فرد سے سیاسی اختلافات یا کسی بھی جماعت کی پالیسی کے خلاف اپنے جذبات کے اظہار کے لیے بہت سارے مہذب طریقے ہیں۔ کسی بھی جماعت کی جانب سے اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کو سیاسی مخالفین کے خلاف غیر اخلاقی گفتگو اور غیر شائستہ عمل کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
سیاسی رہنماؤں کو جلسے جلوسوں کے دوران تقریر کرتے ہوئے یا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیاسی مخالفت میں منفی رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، جس سے عوام میں اشتعال اور عدم برداشت کی سوچ جنم لے۔ انسانی نفسیات کے ماہرین کے خیال میں عدم برداشت دراصل ہمارے اندر چھپی ہوئی مایوسی سے جنم لیتا ہے اور یہ مایوسی ہمارے ناتمام ارادوں اور نا آسودہ خواہشات کا نتیجہ ہوتی ہے۔ معاشرتی اصولوں یا تربیت کے باعث ہم بہت سے ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
سیاست ہو یا مذہب ، ہم اختلافات یا مخالفت برداشت کرنے کو تیار ہی نہیں ، اور فوری ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے حد سے گزر جاتے ہیں۔ یہ صورت حال ہمیں اکثر دیکھنے کو ملتی ہے کہ عدم برداشت کی وجہ سے لوگوں کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے جارہے ہیں اور ہمارا معاشرہ اس وقت ایک ایسے موڑ کی طرف رواں دواں ہے جہاں اپنی بات کو سچ اور دوسرے کی بات کو جھوٹ سمجھا جاتا ہے جس کی روشن دلیل موجودہ سیاسی بحران ہے جس کی بنا پر کس کس طرح کے الزامات اور زبان استعمال کی جارہی ہے جس کا اثر براہ راست ہماری نوجوان نسل پر پڑتا ہے۔
سیاسی ٹاک شوز میں شرکت کرنے والے لوگ بھی اپنی پارٹی اور لیڈر کے نقش قدم پر چلتے ہیں جب کہ اینکرز کی سیاسی ، معاشرتی، اقتصادی اور قانونی ایشوز پر گرفت انتہائی کمزور اور سطحی نوعیت کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے عوام ہی نہیں بلکہ سیاسی کارکنوں میں ابہام اور کنفیوژن پھیل رہی ہے اور وہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور برُا بھلا کہنے کو ہی سیاست اور جمہوریت سمجھتے ہیں۔ اس طرز عمل کے مناظر روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اسی لیے ہمارے ہاں لوگ معاشرتی و اخلاقی اقدار کی پروا نہیں کرتے اور مخالف نقطہ نظر رکھنے والے کو نشانہ بناتے ہوئے گھٹیا پن کی آخری حدوںکو چھوتے نظر آتے ہیں۔ مذہبی طور پر بھی ہماری حالت سب کے سامنے ہے جہاں مذہبی رہنماء ایک دوسرے کے فرقے کے بارے میں عدم برداشت کا درس دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی حال اب ہمیں اقلیتوں کے حوالے سے بھی دیکھنے کو ملتا ہے، دیگر مذاہب کے خلاف عدم برداشت اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، حالانکہ ہمارا مذہب اسلام تو امن کا دین ہے اور سب سے بڑھ کر اسلام ہمیں صبر و تحمل برداشت و رواداری کا درس دیتا ہے۔ تشدد ، عدم برداشت اور انتہا پسند رویوں نے ہماری پوری دنیاکے سامنے رسوائی کا سامان کیا ہے۔
شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو، جب آپ سڑک پر سفر کے دوران ایسا کوئی جذباتی مظاہرہ نہ دیکھیں، ہرگاڑی اور موٹر سائیکل سوار ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتا نظر آتا ہے۔ اگر اس کوشش میں کوئی دوسری گاڑی چھو بھی جائے، تو دونوں افراد بیچ سڑک پر رک کر تہذیب کا جنازہ نکالنا شروع کر دیں گے،کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں نوے فیصد موٹر سائیکل سواروں کو ٹریفک قوانین کا پتہ ہی نہیں ہے، انھیں لائن اور لین کا فرق معلوم نہیں ، زیبرا کراسنگ کا مطلب کیا ہوتا، اس کا پتہ نہیں، دائیں اور بائیں موڑ مڑنے کے ٹریفک سائنز کا بھی پتہ نہیں ہوتا ، یہی حال رکشہ، مسافر بسیں ، ویگنز اور چنگ چی ڈرائیورز کا ہے،کاریں اورلگژری وہیکلز چلانے والے تو ٹریفک قوانین کی پروا کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
بے وسیلہ ، کمزور اور غریب طبقے کے افراد نام نہاد مہذب طبقے کے افراد کے ظلم ، نفرت اور بے حس رویے کا شکار ہوتے ہیں۔ریستوران میں خدمات انجام دینے والے افراد ہوں یا کسی ورکشاپ میں کام کرنے والا بچہ، کوئی سیکیورٹی گارڈ ہو یا کسی اسٹور کا سیلز مین، بگڑے رئیس زادوں کے برے رویے کو سہتے نظر آتے ہیں جو یقیناً ان کے اندر بھی منفی اور نفرت کے جذبات کو جنم دیتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ معاشرے میں عزت سے سر اٹھا کر جینے کا یہی طریقہ ہے کہ دوسرے کی عزت روند دی جائے۔
دراصل ہمارا پورا معاشرہ اور ہماری پوری سیاسی قیادت عدمِ برداشت کی نفسیات کا شکار ہو گئی ہے۔ مخالف کوگالی دینا اور تھپڑ مارنا ملکی سیاست کا کلچر بن چکا ہے، خود کو اہل علم کہلانے والاطبقہ بھی نظریاتی ابہام کا شکار ہے اور دوسروں کو بھی ابہام میں مبتلا کرنے میں دن رات جتا ہوا ہے۔ بلحاظ مجموعی اگر دیکھیں تو ہمارے سرکاری اداروں میں بھی عدمِ برداشت کا منفی رویہ ہے ۔ ہر بیورو کریٹ ذہنی طور پرخود کو ارسطوسمجھتا ہے لیکن اپنے عمل میں کمزور کے لیے انتہائی متکبر اور ظالم ہوتا جب کہ اپنے باس اور طاقتور کے سامنے انتہائی مودب ہوتا ہے۔
عدم برداشت کے اس عارضے کی سب بڑی وجہ ہمارا قانونی اور معاشی نظام ہے جو اشرافیہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور نوکرشاہی کو بے جا اختیارات دیتا ہے اور انھیں احتساب سے باہر رکھتا ہے۔ جب آئین اور قانون میں ہی ناانصافی ہوگی تو معاشرتی، معاشی مساوات اور سیاسی استحکام کیسے پیدا ہوسکتا ہے ۔ مثبت روایات اور اقدار جب تعصب اور امتیازی قوانین کی دھول میں دب جاتی ہیں تو پھر بھلائی، راست گوئی کا جنم لینا ناممکن ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں پچھلی سات دہائیوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔
اب تو حالات سیاسی و معاشی اشرافیہ اور نوکر شاہی کے کنٹرول سے بھی باہر نکلنے کے خدشات جنم لیتے نظر آرہے ہیں۔ ملک کا سیاسی ہی نہیں معاشی ڈھانچہ بھی زمین بوس ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اشیائے خورونوش اور ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، طبی سہولیات کا فقدان اورنظریاتی ابہام سے لتھڑا ہوئے تعلیمی نصاب نے ہمارے معاشرے کی اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ رشوت اور سفارش کا دور دورہ، نشہ آور اشیاء کا کھلے عام استعمال اور ریاستی مشینری تماشائی ،ایسے دوسرے کئی پہلو ہیں جو اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ہماری اخلاقی اور سماجی اقدار نہ صرف یکسر بدل گئی ہیں اور ان کی جگہ نفرت، حسد، کینہ پروری ، مکاری جیسے زہریلے جذبات اور رویوں نے لے لی ہے۔
کچھ سنجیدہ حلقے یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ ہماری سیاسی کلاس میں سیاسی شعور ختم ہو چکا ہے جس سے مسائل میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف صوبائی ،گروہی، نسلی اور لسانی سیاست ہی سیاسی قیادت کا منشور ہونا چاہیے یا پاکستان میں بسنے والے ہر شہری کو روزگار کے یکساں مواقعے فراہم کرنے کے لیے ابہام سے پاک قوانین بنانا ،ہر شہری کو بلاامیتاز قوم، قومیت، لسانیت اور برادری کے جان ومال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے نظام انصاف اور آئین میں موجود مبہم، نامکمل اور عدل کے اصولوں کے خلاف قوانین کو تبدیل کرنا اور ریاست کے نام پر سرکاری مشینری اور محکموں کے افسروں اور اہلکاروںکو حاصل بے جا اختیارات کا خاتمہ کرنا سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کا منشور ہونا چاہیے ۔
پاکستان کو منظم طریقے سے نااہل اورموقع پرست حکمران طبقے کے ذریعے بند گلی میں داخل کیا گیا ہے۔ گراس روٹ لیول پرسیاسی شعور بہت زیادہ ہے، مسئلہ حکمران طبقے کی سوچ اور فکر ہے جو مسائل کی جڑ ہے کیونکہ ریاست کی پالیسی سازی اور معیشت پر انھی کا کنٹرول ہے۔ ہماری نسل میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے، عدم برداشت ہے ، سیاسی بحث مباحثے میں جس طرح کی زبان استعمال کی جارہی ہے اور جس طرح کے بغیر کوئی ثبوت الزامات کی بوچھاڑ کی جارہی ہے ، یہ رویے ملک کو خطرناک سمت میں لے جارہے ہیں۔
اس وقت پوری دینا کے سامنے ملک کی جگ ہنسائی کرائی جارہی ہے، پاکستان کو انتہا پسندی کی دلدل میں پھنسا دیا گیا۔ اس تشویشناک صورتحال میں بھی ملک کے پالیسی ساز اور حکمران طبقات ہوش کے ناخن لیتے نظر نہیں آرہے ۔ جب تک حکمران اشرافیہ اپنا محاسبہ خود نہیں کرتی ، اس وقت تک ریاست درست سمت میں نہیں چل سکتی ۔ جب تک انتہاپسندی پر مبنی تعلیمی نصاب میں تبدیلی نہیں لائی جاتی ، تعمیری سوچ فروغ نہیں پاسکتی ہے ۔
ملک میں سیاسی اور اخلاقی برتری کی ذمے داری حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر ملک میں سیاسی بلوغت اور برداشت کی فضا کو پروان چڑھانا اور قائم کرنا چاہیے جب کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت کریں، انھیں سیاسی رہنماؤں کے عشق میں اندھا اور بہرا نہ ہونے دیں۔ اپنی گفتگو میں غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے کے بجائے بہتر الفاظ کا چناؤ کر کے بھی سیاسی مخالفت کی جا سکتی ہے۔
کسی بھی فرد سے سیاسی اختلافات یا کسی بھی جماعت کی پالیسی کے خلاف اپنے جذبات کے اظہار کے لیے بہت سارے مہذب طریقے ہیں۔ کسی بھی جماعت کی جانب سے اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کو سیاسی مخالفین کے خلاف غیر اخلاقی گفتگو اور غیر شائستہ عمل کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔