لمحہ فکریہ
ہمیں ٹھنڈے دل سے زندگی کے اِن بنیادی سوالوں پر ضرور غور کرنا چاہیے
ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا کہ ''اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے'' تو وزیر نے نہایت عاجزی سے کہا کہ'' حضور آپ دنیا کی خوبصورت ترین سلطنت کے مالک ہیں میرے پاس اِس کا دسواں حصہ بھی ہوتا تو میں دنیا کا خوش نصیب ترین انسان ہوتا۔''بادشاہ نے اسے اپنی آدھی سلطنت کا مالک بنانے کے لیے کہا تو وزیر حیرت اور عاجزی سے بولا کہ'' یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟'' بادشاہ نے فورا احکامات لکھنے کا حکم دیا۔
پہلے حکم کے نتیجہ میں وزیر بادشاہ کی آدھی سلطنت کا مالک بن جائے گا اور دوسرے حکم کے مطابق وزیر کو بادشاہ کے صرف تین سوالوں کا جواب تیس دن میں دینا ہو گا اور اگر وزیر اِن سوالات کا جواب نہ دے سکا تو اُس کا سر قلم کردیا جائے گا۔بادشاہ نے اُس کے بعد پوچھا کہ بتاؤ:
انسان کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟
انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے؟
انسان کی زندگی کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے؟
وزیر نے ملک بھر کے دانشوروں اور ذہین لوگوں کو جمع کیا اور اُن کے سامنے تینوں سوال رکھے لیکن کوئی بھی تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔چناچہ وہ ان تین سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لیے نکل پڑا۔ در در کی خاک چھاننے کے بعد اُس کی ملاقات ایک درویش سے ہوئی جو روٹی پانی میں ڈبو ڈبو کر کھا رہا تھا اُس کے ساتھ ہی اس کا کتا ایک پیالے میں دودھ پی رہا تھا۔ درویش نے اس سے کہا کہ وہ اس کے تینوں سوالوں کا جواب جانتا ہے جس پر وزیر حیران و پریشان ہو گیا کہ اُسے کیسے معلوم ہوا کہ وزیر کو ان سوالات کا جواب مقصود ہے۔
درویش نے کہا '' کبھی میں بھی اسی سلطنت کا وزیر تھا اور مجھ سے بھی یہی تین سوالات پوچھے گئے تھے اورمجھے اِن تینوں سوالوں کے جواب بھی معلوم ہوگئے تھے۔ میں نے بادشاہ کو جواب بتائے، آدھی سلطنت کا پروانہ پھاڑا اور اِس کُٹیا میں آکر بیٹھ گیا۔ الحمد للہ میں اور میرا کتا مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔''
درویش نے اُس کے سوالوں کا جواب دینے پر رضامندی ظاہر کی اور کہا کہ اس کے تیسرے سوال کے جواب سے قبل اُسے اُس کی ایک شرط ماننی ہوگی۔ وزیر نے اُس سے شرط کے بارے میں پوچھا تو درویش نے کہا کہ تمہیں اِس کتے کا جھوٹا دودھ پینا ہوگا، جس پر وزیر نے منہ بنا کر حقارت سے کتے کو دیکھا لیکن پھر فوراً ہی اُسے بادشاہ کے حکم کے مطابق اُس کا سر قلم کرنے کے حکم کا خیال آیا۔چناچہ درویش نے اپنے وعدے کی مطابق پہلے دو سوالوں کا مفت جواب دیا اور کہا '' دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے۔ درویش نے تیسرے سوال کا جواب دینے سے پہلے اُسے دودھ کا جھوٹا پیالہ پکڑا دیا، وزیر نے پیالہ نفرت سے زمین پر رکھ دیا۔ درویش نے کہا ''تمہارے پاس دو راستے ہیں، تم انکار کردو اور شاہی جلاد تمہارا سر اُتار دے یا پھر یہ دودھ پی کر اپنی جان بھی بچا لو اور آدھی سلطنت کے مالک بھی بن جاؤ۔''وزیر سوچتا رہا یہاں تک کہ عزتِ نفس ہار گئی، وزیر نے پیالہ اٹھایا اور ایک ہی سانس میں سارا دودھ پی گیا۔
درویش نے قہقہ لگایا اور بولا ''میرے بچے انسان کی سب سے بڑی کمزوری غرض ہے جو اُسے کتے کا جھوٹا دودھ پینے پر مجبور کر دیتی ہے اور یہ وہ سچ ہے جس نے مجھے سلطنت کا پروانہ پھاڑ کر اِس کُٹیا میں بیٹھنے پر مجبور کردیا تھا، میں جان گیا تھا، میں جوں جوں زندگی کے دھوکامیں آؤں گا میں موت کی سچائی کو فراموش کرتا جاؤں گا اور میں موت کو جتنا فراموش کرتا رہوں گا، میں اتنا ہی غرض کے دلدل میں دھنستا چلا جاؤں گا، اور مجھے روز اس دلدل میں سانس لینے کے لیے غرض کا غلیظ دودھ پینا پڑے گا۔
لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ زندگی کی اِن تین حقیقتوں کو جان لو، تمہاری زندگی اچھی گزرے گی'' وزیر شرمندگی اور خود ترسی کا تحفہ لے کر درویش کی جھونپڑی سے نکلا اور محل کی طرف چل پڑا، وہ جوں جوں محل کے قریب پہنچ رہا تھا، اُس کے احساس اور شرمندگی میں اضافہ ہورہا تھا، اُس کے اندر ذلت کا احساس بڑھ رہا تھا، وہ اِس احساس کے ساتھ محل کے دروازے پر پہنچا، اُس کے سینے میں خوفناک ٹِیس اٹھی، وہ گھوڑے سے گرا، لمبی ہچکی لی اور اُس کی روح دنیا سے پرواز کر گئی۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ موت ایک دن ضرور آنی ہے اور اِسے ٹالا نہیں جا سکتا۔ دنیا کے تمام مذاہب اِس بات پر قطعی متفق ہیں حتی کہ جن کا کوئی مذہب نہیں وہ بھی اِس حقیقت کو ماننے پر مجبور ہیں۔
شاعرِ بینظیر نظیر ؔ اکبر آبادی نے اِس حقیقت کو نہایت سادگی سے اپنے اِن الفاظ میں کمال خوبصورتی سے ڈھالا ہے:
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
لیکن اِس کے باوجود غفلت کا مارا ہوا انسان دن رات اِسی چکر میں پڑا ہوا ہے کہ کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹ لے۔ اِس طمع نے جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی تمیز ختم کردی ہے جس کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان کو لوٹنے اور قتل و غارت گری پر تُلا ہوا ہے۔ دنیا کی ساری ہنگامہ آرائی اِسی وجہ سے ہے اور دنگا و فساد کی جڑ بھی یہی ہے۔ خوفِ خدا کے بجائے انسانوں کی غالب اکثریت خوفِ مرگ میں مبتلا ہے جسے ڈیتھ فوبیا کہا جاتا ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ صورتحال خالقِ حقیقی کو فراموش کردینے کے ناقابلِ معافی جرم کی سزا کے سوا اور کچھ نہیں۔
عیش و عشرت اور حرص و ہوس کا مارا ہوا انسان انسانیت کے جامہ سے باہر ہو جاتا ہے اور پھر جب اُس پر کڑا وقت آن پڑتا ہے تو تب اُسے خدا یاد آتا ہے اور وہ روتا پیٹتا اور دُھائی دیتا ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ بھگت کبیر نے اِس نکتہ کو اپنے درجِ ذیل سادہ سے دوہے میںکس عمدگی سے بیان کیا ہے:
دکھ میں سُمرِن سب کریں
سُکھ میں کرے نہ کوئے
جو سُکھ میں سُمرِن کرے
دکھ کا ہے کو ہوئے
مطلب: عیش و آرام میں تو خدا کو بھول جاتے ہیں لیکن اگر دکھ میں خدا کو یاد کریں تو دکھ بھلا کیوں ہوگا؟
تو اُس درویش نے بالکل بجا فرمایا تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے۔درویش کے دوسرے سوال کا جواب ہم سب کے لیے غور سے سوچنے کی بات ہے۔ ہم سچ مچ اِس خود فریبی کا شکار ہیں کہ ہمارا دائمی ٹھکانہ یہ دنیا ہی ہے اور ہمیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے ہماری یہی خام خیالی ہم سے برے سے برا کام کرواتی ہے اور ہمیں اِس حقیقت سے بے خبر اور ناآشنا کراتی ہے کہ یہ دنیا سرائے فانی ہے۔درویش کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ انسان کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے۔
مرزا غالبؔ نے کیا خوب کہا ہے:
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسدؔ
عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا میں صرف دو ہی قسم کے امراض ہیں، ایک ذہنی اور دوسرا جسمانی لیکن اِس خام خیالی میں مبتلا ہوکر ہم سب یہ بھول جاتے ہیں کہ اِن دونوں امراض سے قطع نظر تیسرا بڑا مرض روحانی ہوتا ہے جس میں غرض سرِفہرست ہے۔ مادیت پرستی کی وباء نے پوری دنیا کو اپنے نرغہ میں لے رکھا ہے اور اپنے شکنجہ میں جکڑا ہوا ہے۔
یہ وباکورونا سے بھی زیادہ خطرناک اور مہلک ہے۔ہمیں ٹھنڈے دل سے زندگی کے اِن بنیادی سوالوں پر ضرور غور کرنا چاہیے، ہمیں یہ سوچنا چاہیے، ہم لوگ کہیں زندگی کے دھوکا میں آکر غرض کے پیچھے تو نہیں بھاگ رہے، ہم لوگ کہیں موت کو فراموش تو نہیں کر بیٹھے۔