عمران خان اپوزیشن اور مزاحتمی سیاست
اگر قومی اسمبلی کا فوری اجلاس بلا لیا جاتا تو شاید اپوزیشن کو حکومتی اتحادیوں کو منانے کا اتنا وقت نہیں ملتا
تحریک عدم اعتماد کا کھیل آخری راؤنڈ میں داخل ہو گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں غیر ضروری تاخیر کی ہے جس کا فائدہ ہونے کے بجائے انھیں نقصان ہوا ہے۔
اپوزیشن کو حکومتی اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کا موقع مل گیا ہے۔ اگر قومی اسمبلی کا فوری اجلاس بلا لیا جاتا تو شاید اپوزیشن کو حکومتی اتحادیوں کو منانے کا اتنا وقت نہیں ملتا۔اب ہر گزرتا دن عمران خان کی سیاسی طاقت کو کمزورکر رہا ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ حکومتی اتحاد ی' اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کرنے جا رہے ہیں۔ سچائی یہی ہے کہ اتحادیوں اور عمران خان کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس وقت تمام ا شارے عمران خان کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کی طرف ہی نظر آرہے ہیں۔ باقی وقت بتائے گا کہ کیا وہ کوئی سرپرائز دینے کی پوزیشن میں ہیں کہ نہیں۔
عمران خان ملک کا سیاسی درجہ حرات بڑھانے کی ایک حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔ ان کی زبان اپوزیشن کی زبان نظر آرہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ انھیں بھی یقین ہو گیا ہے کہ وہ اب اپنے اقتدار کو قائم نہیں رہ سکتے۔ وہ اقتدار کا کھیل ہار گئے ہیں، انھیں شہ مات ہو گئی ہے۔ وہ اقتدار کے ایوانوں میں ضروری حمایت سے بھی محروم نظر آرہے ہیں۔ جس حمایت کی مدد سے وہ ہر محاذ پر کامیاب نظر آتے تھے، وہ اب اپوزیشن کے پاس نظر آرہی ہے۔
اقتدار میں رہتے ہوئے عوامی جلسہ کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب عمران خان اپوزیشن میں آئیں گے تو کیا وہ عوامی جلسوں کا یہ تسلسل برقرار رکھ سکیں گے ۔ لوگ جانتے ہیں کہ مینار پاکستان کے پہلے جلسے کے لیے فنڈز بھی ان لوگوں نے دیے تھے جن کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے بعد انھیں احتجاجی سیاست کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اے ٹی ایم دیے گئے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ جب عمران خان اپوزیشن میں آئیں گے تو ان کے پاس کوئی سپورٹ اور سہولت نہیں ہوگی اور بغیر اے ٹی ایم عمران خان کو سیاست کرنی نہیں آتی، اس لیے ان کی اپوزیشن کی سیاست پر سوالیہ نشان ہیں۔
عمران خان کی تقاریر مزاحمتی ہو سکتی ہیں۔ لیکن ان کی سیاسی جماعت مزاحمتی نہیں ہے' جیل جانے اور سختی برداشت کرنے والے نظر نہیں آتے ہیں۔ ذرا تلاش کیجیے، کتنے ایسے ہیں جو جیل جا سکتے ہیں' نیب اور ایف آئی اے گرفتاریاں برداشت کر سکیں گے۔ عمران خان خود بھی ابھی تک جیل نہیں گئے۔ کیا عمران خان مزاحتمی سیاست کر سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ کوئی بھی سیاسی لوگ نہیں ہیں، سب چوری کھانے والے مجنوں ہیں۔ ان سب نے عمران خان کو تب جوائن کیا تھا سب کو معلوم ہوگیا تھا کہ اگلی باری عمران خان کی ہے۔
یہ سب وہ لوگ ہیں جو اسٹبلشمنٹ کی ہر حکومت میں جگہ بناتے ہیں۔ انھوں نے کبھی مزاحمتی سیاست نہیں کی ہے اور نہ ہی ان کا کوئی سیاسی نظریہ ہے۔ اقتدار میں گورا ہو، کالا ہو، گندمی ہو، داڑھی والا ہو یا کلین شیو ہو، یہ لوگ تو اس کا ساتھ بھی فوراً سے پہلے دیں گے کیونکہ ان کی تربیت ہی ان خطوط پر ہوئی ہے کہ ہمیشہ چڑھتے سورج کو سلام کرنا اور وہ نسل در نسل یہی سیاست کرتے چلے آرہے ہیں، اس لیے اقتدار ختم ہونے کے بعد عمران خان کا ساتھ دینا ان کے منشور کے خلاف ہے ۔اسی لیے میرا خیال ہے کہ عمران خان کے لیے اس اپنے سیاسی درجہ حرات کو قائم رکھنا مشکل ہوگا۔
اس بار جب عمران خان اقتدارسے باہر ہوئے تو ان کے لیے کوئی خفیہ مدد نہیں ہوگی، مقدمات بھی بنیں گے، ریفرنس بھی بنیں گے۔ فارن فنڈنگ کا بھی فیصلہ ہوگا اور نئے مقدمات بھی ہوںگے۔ انھیں سیاست کے ایسے مراحل سے گزرنا ہے جہاں سے گزرنا آسان نہیں ہے۔ عمران خان نے اپوزیشن میں جانے کی تیاری تو کر لی ہے، انھوں نے اپنا لہجہ بھی اپوزیشن والا بنا لیا ہے۔ لیکن ان کی جماعت کا ڈھانچہ اپوزیشن والا نظر نہیں آرہا۔
پاکستان کی پاپولر سیاسی جماعتیں بڑے ووٹ بینک کے باوجود مزاحمتی سیاست کرنے میں ناکام نظر آئی ہیں۔ ووٹر ان کے امیدواروں کو ووٹ تو ڈال دیتے ہیں لیکن لڑنے، مار کھانے اور گرفتار ہونے کے لیے سڑکوں پر نہیں آتے۔ عمران خان کو یہ مسئلہ اپنے آزادی مارچ کے دوران بھی تھا۔ طاہر القادری کے لوگوں کی تعداد ان سے زیادہ تھی، وہ دن رات دھرنے میں بیٹھے رہتے تھے،عمران خان کے لوگ ان کے جلسے میں شام ڈھلنے کے بعد آتے تھے ، دھرنے میں دن رات بیٹھے رہنے والے لوگ تب بھی عمران خان کے پاس نہیں تھے،آج بھی نہیں ہیں۔ تب ایک آشیر باد تھا جس نے بہت سی کمی کوتاہی پر پردہ رکھ دیا، اب وہ بھی نہیں ہے۔
اس لیے خامیاں اور کوتاہیاں بہت واضح ہو کر سامنے آئیں گی۔ اس لیے ایک رائے یہ بھی ہے کہ جب عمران خان کو صحیح معنوں میں اپوزیشن کرنا پڑی تو انھیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے گا۔ جب اقتدار میں آرہے ہوں تو آپ سے ٹکٹ مانگنے والوں کی لائنیں لگ جاتی ہیں اور جب سب کو یقین ہو کہ آپ نے اقتدار میں نہیں آنا تو قریبی لوگ بھی ٹکٹ لینے سے گھبراتے ہیں۔ لیکن شاید عمران خان کو اس حقیقت کا ابھی ادراک نہیں ہوا ہے۔
عمران خان کی جماعت میں تقسیم در تقسیم ان کے لیے کسی زہر قاتل سے کم نہیں ۔ انھوں نے اقتدار میں تو اس تقسیم کا بہت فائدہ اٹھایا ہے لیکن اپوزیشن میں یہ بہت نقصان دہ ہو جائے گی۔ جنھیں آج آرٹیکل 63سے ڈرایا جا رہا ہے، ان حلقوں میں پی ٹی آئی کے متبادل امیدوار کہاں سے آئیں گے؟ ان کی واپسی کی بھی کوئی امید نہیں ہے۔ جیتنے والے سیاسی گھوڑے ان کے ٹکٹ کے گاہک نہیں ہیں۔ وہ اپوزیشن کے بھی گاہک نہیں ہیں، انھوں نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ سورج کدھر سے طلوع ہوگا۔
عمران خان کو اقتدار سے جاتے ہوئے اقتدار میں واپس آنے کے راستے بھی کھلے رکھنا ہوںگے۔ وہ اپنے لوگوں کو اتنا نہ ڈرائیں کہ ان کی واپسی کے راستے مکمل بند ہوجائیں۔ خان صاحب کے پاس تو اپنا سیاسی وارث بھی نہیں ہے، اس لیے ان کی جماعت میں تو سیاسی وراثت پر بھی لڑائی ہونی ہے۔ اس لیے عمران خان کو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے۔