ہماری ترجیحات کب تبدیل ہوں گی

کیا ہم ہمیشہ سیاست، حکومت، اقتدار، اپوزیشن، کرائم اور معاشرتی مسائل میں ہی الجھے رہیں گے؟

مثبت اور تعمیری سرگرمیاں من حیث القوم ہماری ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں رہیں۔ (فوٹو: فائل)

MANCHESTER:
کسی اہم خبر اور اس کی فوٹیج کی تلاش میں اسکائی نیوز، اے بی سی نیوز، یورو نیوز، بلومبرگ نیوز اور دیگر مغربی نیوز چینلز کے بلیٹن دیکھنے میں مصروف تھا۔ میں نے نوٹ کیا کہ تقریباً تمام نیوز چینلز کے بلیٹنز میں ایک چیز مشترک تھی.

تمام بلیٹنز اسپورٹس، انٹرٹینمنٹ، فیسٹیولز، موسم یا ٹیکنالوجیز سے متعلقہ خبروں سے شروع ہوئے۔ کسی جگہ فٹبال کی خبر نظر آئی تو کسی جگہ مشہورہالی ووڈ اسٹار بینی ڈکٹ کمبربیچ جنہوں نے مارول موویز کا مشہور کردار ڈاکٹر اسٹرینج ادا کیا تھا، کا انٹرویو نظر آیا (بینی ڈکٹ، شوٹنگ اور پوسٹ پروڈکشن کے دوران استعمال ہونے والے جدید آلات پر بات کررہے تھے، کسی دوسرے فنکار کو برتھ ڈے کی مبارکباد نہیں دے رہے تھے)۔ ایک بلیٹن میں لٹریری فیسٹیول اور موسم کی خبر نظر آئی جبکہ ایک جگہ میٹاورس کےلیے قدیم جانوروں کے تھری ڈی 'ورچوئل ماڈلز' کی تیاری کی خبر دیکھنے کو ملی۔ واضح رہے میں بلیٹن کے آغاز کی بات کررہا ہوں نہ کہ درمیان یا اختتام کی۔

میں بے اختیار سوچنے لگا کہ کیا کبھی ہماری خبریں بھی ایسی ہی ہیڈلائنز سے شروع ہوپائیں گی یا ہم ہمیشہ سیاست، حکومت، اقتدار، اپوزیشن، کرائم اور معاشرتی مسائل میں ہی الجھے رہیں گے؟ ہم اگر کبھی اسپورٹس کی خبر بھی دیں تو وہ سیاست کی خبر ہی محسوس ہوتی ہے، مثلاً 'جاوید میانداد، پی سی بی چیئرمین پر برس پڑے، فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا'۔ انٹرٹینمنٹ کے نام پر ہمارے پاس دکھانے کو صرف بالی ووڈ اداکاراؤں کے ٹھمکے ہی بچے ہیں، کیونکہ ان کے برتھ ڈیز صرف ہمارے میڈیا کو ہی یاد ہیں۔ فیسٹیولز اور موسم کی خبریں ہم فِلر کے طور پر دیتے ہیں کہ اگر سیاسی محاذ پر کوئی گرما گرمی دکھانے کو نہ ملی تو چلو فیسٹیولز اور موسم ہی سہی۔ اور ٹیکنالوجیز کےلیے تو ہم نے آج تک کبھی کوئی رپورٹر ہی ہائر نہیں کیا تو اس کی خبر کیسی؟ کیونکہ ہمارا سائنس اور ٹیکنالوجی سے کیا لینا دینا؟ ہم تو تماش بین قوم ہیں۔ ہمیں روزانہ بڑے انہماک سے سیاستدانوں کے ڈرامے دیکھنے سے ہی فرصت نہیں۔ ہم یہی سیاسی ڈرامے دیکھ کر ہی خوش ہیں۔ مزے کی بات تعلیم، صحت، اسپورٹس (علاوہ کرکٹ)، موسم یا انٹرٹینمنٹ میں سے کسی بھی ایک بیٹ کی میڈیا اور من حیث القوم ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ہمارا سارا فوکس سیاست اور حکومت ہے۔

چند دن قبل کھیلوں کی کچھ خبریں پڑھنے کو ملیں جو ملک کے تقریباً تمام بڑے پرنٹ اور آن لائن اخبارات میں چھپی تھیں۔ خبریں کچھ یوں تھیں 'پاکستان نے ورلڈ اسنوکر چیمپئن شپ جیت لی' اور 'یؤر ٹاسکر فٹبال چیمپئن شپ نے جڑواں شہروں میں فٹبال کے کھیل کو فروغ دیا'۔ یہ خبریں شیئر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کاش ہمارا رجحان صرف ان چیزوں سے ہٹ جائے جو پاکستان یا پاکستانیوں کےلیے ہیں یا ان میں مشہور ہیں، بلکہ ہمارا رجحان اور ہماری سوچ وقت کی ضرورت کے مطابق ہونی چاہیے۔ ہمیں اس کےلیے ترقی یافتہ ملکوں اور قوموں کی جانب دیکھنے اور ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے، تبھی ہم ترقی کرسکتے ہیں۔


ثمرقند، بخارا، بغداد اور قاہرہ جس زمانے میں دنیا کے جدید علوم کا منبع تھے، اس زمانے میں مغربی ممالک کے طلبا اور اسکالرز یہاں پائے جاتے تھے اور وہ یہاں آکر ان علوم کو حاصل کر گئے اور ہم سے آگے نکل گئے، جبکہ ہمارا سارا زور ابھی تک مسلمان سائنسدانوں کے پرانے کارناموں پر ہی ہے۔ ہمیں نئی ٹیکنالوجیز، تعلیم، صحت، کرکٹ کے علاوہ دیگر اسپورٹس جیسے فٹبال وغیرہ اور صحیح معنوں میں انٹرٹینمنٹ کو بھی اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ ان ہی چیزوں کی بنیاد پر آپ ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑے ہوپائیں گے۔ ورنہ ملکی سیاست اور مار دھاڑ میں ہی الجھے رہیں گے۔

اب تو پاکستان میں فٹبال پر فیفا کی پابندیاں بھی ختم ہونے کا امکان روشن ہوگیا ہے۔ پاکستان کو اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے اور پی ایس ایل کی طرز پر پاکستان میں بھی عالمی فٹبالرز کو لے کر آنا چاہیے تاکہ پاکستان بھی فٹبال کے حوالے سے دنیا میں جانا جائے۔ دنیا میں فٹبال کے شائقین، کرکٹ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ کرکٹ کے شائقین 2 بلین جبکہ شائقین فٹبال 3.5 بلین ہیں۔ کچھ بھارت سے ہی سیکھ لیجئے۔ بھارت ہر اس بین الاقوامی چیز میں ٹانگ اڑا دیتا ہے جو عالمی دنیا میں بِکتی ہو، چاہے بھارت کا اس چیز سے کوئی لینا دینا نہ بھی ہو، تب بھی وہ صرف اپنے ملک کی مارکیٹنگ کےلیے جدید رجحانات، کھیلوں، فلموں اور دیگر چیزوں میں صرف اپنا نام بنانے کےلیے گھس جاتا ہے جبکہ ہم سے تو یہ بھی نہیں ہوتا۔

مذکورہ بالا دو خبروں کو اگر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں پوٹینشل کی کمی نہیں ہے بلکہ صرف ان چیزوں پر حکومتی سطح پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہونے والی ورلڈ اسنوکر چیمپئن شپ میں پاکستان کے 16 سالہ احسن رمضان نے سیمی فائنل میں اپنے ہم وطن اور دفاعی چیمپئن محمد آصف کو شکست دی۔ کیا یہ پوٹینشل کم ہے کہ چیمپئن اور دفاعی چیمپئن دونوں پاکستانی ہیں؟ اسی طرح مذکورہ بالا دوسری خبر کی تفصیلات میں بالکل پی ایس ایل کی طرز پر فٹبال کی ٹیمز بنائی گئی تھیں، جن میں سے کچھ کے نام یہ ہیں: ڈیجیٹل اسکواڈ، جہلم اسٹالیئن، پنڈی بادشاہ، نیو یارکرز، بلیک پینتھرز، دی مارخور، یؤر ٹاسکر ہاکس اور یؤر ٹاسکر یونائٹیڈ۔ کیا ایسے ہی ناموں کے ساتھ ہم عالمی فٹبالرز کو پی ایس ایل کی طرز پر اپنے ملک بلا کر فٹبال کے کھیل کو پاکستان میں فروغ نہیں دے سکتے؟ شاید نہیں، کیونکہ ہمارے لیے سیاست، حکومت، اقتدار اور اپوزیشن کے معاملات زیادہ ضروری ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story