معیشت ایک سنجیدہ مسئلہ ہے

ملک کے اندر صنعتوں کو فروغ دیا جائے اور بہتر حالات پیدا کیے جائیں، اسی طرح ملک سست رفتاری سے باہر آسکے گا


Editorial March 16, 2022
ملک کے اندر صنعتوں کو فروغ دیا جائے اور بہتر حالات پیدا کیے جائیں، اسی طرح ملک سست رفتاری سے باہر آسکے گا (فوٹو : فائل)

لاہو ر: وزیر خزانہ و محصولات شوکت ترین نے کہا ہے کہ چیلنجوں کے باوجود طویل عرصے سے زیر التوا ڈھانچہ جاتی مسائل سے نمٹنے اور پائیدار اور جامع نو کے حصول کے لیے حکومت مختلف شعبوں میں اصلاحات متعارف کرانے کے لیے پرعزم ہے۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے نائب صدر سے ملاقات میں کیا۔

دوسری جانب آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان جار ی عملے کی سطح پر نظرثانی کے مذاکرات طول پکڑنے کے امکانات پیدا ہوچکے ہیں ، اس کی بنیادی وجہ تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے ملک کے سیاسی افق پر غیر یقینی صورتحال کا برقرار رہنا ہے۔

ادھر ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ بھارت نے واہگہ ، اٹاری سرحد کے راستے سفر کرنے والے مسافروں کے لیے بھارتی وزارت داخلہ سے خصوصی اجازت لینے کی پابندی ختم کردی ہے، گزشتہ روز بھارتی شہریوں کا پچاس رکنی وفد لاہور پہنچا ہے۔

ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان کی معیشت کو سہ جہتی چیلنجز کا ہے، بین الاقوامی سطح پر ملک کو تیل، گیس، گندم اور چینی جیسی ضروری اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور غیر ملکی تجارت پر زیادہ شپنگ چارجز کا سامنا ہے۔ حکومت مقامی طور پر، روپے کی گرتی ہوئی قدر اور بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے وسائل کی کمی کے ساتھ اسے گرفت میں لانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ مہنگی بجلی اور گردشی قرضے بھی حکومت کے لیے وبال جان بنے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے اپنی مدت کا زیادہ تر حصہ اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوشش میں صرف کیا ہے، جس کی وجہ سے حقیقی ترقی کا عمل سست رفتار رہا ہے ۔ معاشی ماہرین کے مطابق فری ڈالر مارکیٹ دراصل منی لانڈرنگ کا ذریعہ بھی ہے۔ غیر ضروری درآمدات کو بند کرکے اور ڈالر کو فکس کرکے حکومت معاشی بحران پر اب بھی قابو پا سکتی ہے، اگر ہم آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر ان کی شرائط پر عمل کرنے کی روش ترک کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے تو اس کے ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

کیونکہ اس سے ملک کی جی ڈی پی مزید گرسکتی ہے ، سرمایہ کاری کم اور قیمتیں بہت بڑھ جائیں گی۔ اس طرح لوگوں میں بھی بے چینی بڑھے گی۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہمارے بیرونی قرضوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ اب ہمیں ہر سال بجٹ میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے زیادہ رقم رکھنی پڑے گی۔ اس طرح بجٹ خسارہ مزید بڑھ جائے گا اور اس کے لیے ہمیں مزید ٹیکس لگانے پڑیں گے۔ یہ ایک Vicious Circle ہے جو ملک کی معیشت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔

روپے کی قدر میںکمی کے باوجود ہماری برآمدات اس تک فائدہ نہیں رہیں جن کا اندازہ لگایا گیا تھا، اگر درآمدات میں کمی کرنا ہے تو ان کی درآمدر پابندی لگا دی جائے یا اس پر بہت زیادہ درآمدی ڈیوٹی لگا دی جائے۔ اس طرح حکومت کے ٹیکس ریونیو میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش اور بھارت کی کرنسی ہم سے زیادہ مضبوط ہے لیکن ان کی برآمدات میں ہر سال 10سے 15 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ دراصل برآمدات بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ملکی پیداوار بڑھائیں اور پیداواری لاگت میں کمی کریں تاکہ یہ بیرون ملک مقابلہ کرسکیں، بیرون ملک سفارت کاروں کو برآمدی ٹارگٹ دیے جائیں۔

آئی ایم ایف تو بین الاقوامی برادری نے مل کر بنایا ہے، یہ کسی ایک ملک کا ادارہ نہیں ہے، اس میں امریکا کا حصہ زیادہ ہے ، اور یقیناً اس کا ایک اثر ہے، لیکن دیگر ممالک کا بھی اثر ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ سب کچھ امریکا کے اختیار میں ہے۔ آئی ایم ایف کا ایک کردار تو ہے اور اس سے فائدہ اٹھا کر جلد سے جلد فارغ ہوجانا چاہیے، بجائے اس کے کہ ہم بار بار اس کے در پر جائیں، ہمیں قرض لینے کی عادت کو ختم کرنے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ ہمیں پیسے بھی اس دفعہ کم ملے ہیں، لیکن اس کے باوجود بے شمار بوجھ عوام کے سر پر لاد دیا ہے۔

مجبوری تھی لہٰذا حکومت نے قبول کرلیا۔ مالیاتی خسارہ معیشت کے لیے خطرناک ہے۔ جب صوبوں کو ہم اُن کا حصہ ادا کردیتے ہیں اُس کے بعد جو وفاق کے پاس اس کے مکمل محاصل، ہر طرح کے ٹیکس اس قابل بھی نہیں کہ ڈیٹ سروسنگ (قرضوں کی ادائیگی کے بوجھ کو اٹھا سکیں۔ باقی ساری حکومت، ڈیفنس سے لے کر ڈیولپمنٹ تک سب کے سب قرضے پر چل رہے ہیں، اگر ہم خود کو سمیٹ لیں اور اپنی خواہشیں کم کردیں تو صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔ ٹیکس کے نظام کو درست کرنا چاہیے۔

ملک کے ہر فرد کو ٹیکس ادا کرنا چاہیے، لیکن عوام ٹیکس اُسی وقت ادا کریں گے جب انھیں یہ اعتماد ہو کہ ٹیکس اتھارٹیز ہماری چمڑی نہیں ادھیڑیں گی، ہمارے ٹیکس کی رقم ہمارے اوپر خرچ ہوتی ہے، سہولیات ہوتی ہیں، ہمارا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہاں کیا خیال رکھا جاتا ہے عوام کا؟ چوری چکاری ہوتی ہے، اس کے باوجود کوئی داد رسی نہیں ہوتی۔ عدالت چلے جائیں، وہاں بھی مسائل حل نہیں ہوتے۔ عوام یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ جو ٹیکس کا بوجھ ہم پر لادا جارہا ہے تو جواباً ہمیں کیا مل رہا ہے؟ تو ان سوالات کے جواب حکومت کو تلاش کرنے ہوں گے۔

حکومت اور اس کے حامی یقینی طور پر کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس اور مثبت نمو کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ معیشت صحیح راستے پر ہے۔ اس سفر کا آغاز توانائی کے شعبے میں اصلاحات سے ہونا چاہیے۔ کوئی بھی ملک قرضوں، سرمایہ کاری کی کمی اور درآمدات پر بڑھتے ہوئے انحصار سے دوچار توانائی کے شعبے کے ساتھ پائیدار ترقی اور اپنی پوری صلاحیت کو پورا نہیں کر سکتا۔

ہمارے ملک میں خواتین اپنی جہد مسلسل پر گامزن ہیں اور آج بھی انھیں لاتعداد مسائل و مشکلات کا سامنا ہے۔ افرادی قوت میں پاکستانی خواتین کی شمولیت 23 فیصد ہے اور اس لحاظ سے پاکستان دنیا کے 181 ممالک میں 167 ویں نمبر پر آتا ہے۔ خواتین کے آگے بڑھنے میں صرف نقل و حرکت کی پابندیاں ہی حائل نہیں بلکہ انھیں اجرتوں کے شدید فرق کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ ملک میں ایک اور بڑا مسئلہ سرکاری اداروں کا خسارہ ہے۔ افسوس ابھی تک کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔ اسٹیل مل اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں خسارے میں ہیں۔

ان تمام اداروں کو فوری طور پر بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک کو اچھی تنخواہ والی لاکھوں نوکریاں پیدا کرنی ہوں گی جو شہریوں کی قوت خرید کو بڑھا سکیں۔ کمزور اقتصادی ترقی اور ملازمتوں کی کمی ایسے حالات پیدا کرتی ہے جس سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، اقتصادی ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے کیے گئے اقدامات میں بنیادی ڈھانچے کے اخراجات، ڈی ریگولیشن، ٹیکس میں کٹوتیاں اور ٹیکس چھوٹ شامل ہیں۔

ملک کے اندر صنعتوں کو فروغ دیا جائے اور بہتر حالات پیدا کیے جائیں، اسی طرح ملک سست رفتاری سے باہر آسکے گا۔ ملک میں صرف پیداواری منصوبہ بندی کی جائے اگر ملک میں معاشی ڈسپلن ہو جائے تو پاکستان میں کثیر بیرونی سرمایہ کاری ممکن ہے کیونکہ پاکستان 22 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ ہے اور یہاں منافع کمانے کے حد درجہ مواقعے موجود ہیں۔ عوام میں شعور پیدا کیا جائے کہ صرف ملک کی بنی ہوئی اشیا خریدیں۔ آج ملک میں تیار ہونے والی اشیاء کی لاگت اور قیمت درآمدی قیمت سے زیادہ ہے اس کی وجہ غیر ضروری ٹیکس اور توانائی کی قیمت ہے۔ ایسے حالات میں کوئی بھی ملک میں صنعت نہیں لگائے گا۔

بھارت کے ساتھ تجارت کھول کر ملک میں مہنگائی کی لہر کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے ، اگر دونوں ممالک سندھ میں کھوکھرا پارکی سرحد کو تجارت کے لیے کھولنے کے اقدامات کر کریں توکراچی اور اندرون سندھ اور بلوچستان میں ادویات اور اشیاء خورونوش کی قمیتوں میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

معیشت ایک سنجیدہ مسئلہ ہے ، اسے سیاسی طریقے سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان ایشیا میں تیزی سے ترقی کرنے والی اور جنوبی ایشیا کی امیر ترین معیشت رہا ہے لیکن غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج تباہ حال معیشت کا حامل ہے، اگر ہم نے اپنی معیشت کو سنجیدگی سے اور زیرکی سے نہ چلایا تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی ملک ایسے حالات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آج بنگلہ دیش اور ویت نام بھی پاکستان سے آگے ہیں۔ کل اور بہت سے ممالک بھی ترقی کی دوڑ میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں، اس لیے معاشی سنجیدگی کی اشد ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں