ڈی چوک… دس اور بیس لاکھ کے درمیان

اقتدار ان کی جماعت پر پھر دستک دے رہا ہے اس لیے وہاں لوگ جیتا ہوا میچ کھیلنے آسکتے ہیں


مزمل سہروردی March 16, 2022
[email protected]

لاہو ر: حکومت نے پہلے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ والے دن ڈی چوک میں دس لاکھ لوگ لانے کا اعلان کیا۔

اب تحریک انصاف کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اس روز نہ صرف دس لاکھ لوگ ڈی چوک لائے جائیں گے بلکہ ارکان اسمبلی کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے اس اجتماع میں سے گزر کر جانا ہوگا۔ اپوزیشن بالخصوص پی ڈی ایم نے اس کے جواب میں 23مارچ کو اسلام آباد کی طرف مارچ اور24مارچ کو ڈی چوک میں جلسہ کرنے اور دھرنا دینے کا اعلان کر دیا ہے۔

اپوزیشن کے اعلان کے مطابق عدم اعتماد پر ووٹنگ تک ڈی چوک میں دھرنا دیا جائے گا اور ایم این ایز کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی تک جانے کے لیے خصوصی کور فراہم کیا جا ئے گا۔

اپوزیشن نے حکومت کے دس لاکھ لوگوں کو لانے کے اعلان کے مقابلے میں ڈی چوک میں بیس لاکھ لوگ لانے کا اعلان کیا ہے یوں ڈی چوک میں اب دس لاکھ اور بیس لاکھ لوگ لانے کا اعلان ہو گیا ہے۔

اپوزیشن کے اعلان سے صاف ظاہرہے کہ وہ عوامی جلسوں اور بالخصوص ڈی چوک کا میدان عمران خان کو کھلا نہیں دینا چاہتے۔ ایک طرف تو اپوزیشن نے عمران خان کو قومی اسمبلی میں عدم اعتماد پیش کر کے چیلنج کیا ہوا ہے۔ اب وہ عمران خان کو ڈی چوک میں بھی چیلنج کرنے کو تیار نظر آرہے ہیں۔

عمران خان تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ والے دن ڈی چوک پر بڑا عوامی شو لگانا چاہتے ہیں جب کہ اپوزیشن اس سے چند دن پہلے ہی ڈی چوک پر قبضہ کر کے دھرنا دینا چاہتی ہے تاکہ عدم اعتماد والے دن عمران خان کو حکومت میں ہونے کے باجود ڈی چوک نہ مل سکے۔

جب اپوزیشن نے 24مارچ سے ہی ڈی چوک پرقبضہ کر لیا ہوگا تو عمران خان اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ والے دن اپنے لوگ ڈی چوک کیسے لائیں گے۔ انھیں یقیناً اپنا مقام بدلنا ہوگا۔ ورنہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خطرناک تصادم کا خطرہ ہوگا۔ یہ تصادم کس کے حق اور کس کے خلاف ہوگا، یہ دیکھنے کی بات ہے۔

ویسے تو ڈی چوک میں د س لاکھ لوگوں کو لانے کی بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔ جہاں دس لاکھ لانے کی جگہ نہیں ہے وہاں اپوزیشن بیس لاکھ کیسے لے آئے گی۔ اس لیے ڈی چوک کو بھرنے کے لیے چند ہزار لوگ ہی کافی ہیں۔ ویسے بھی جب جگہ بھر جائے تو یہ آپ کی مرضی ہے کہ جتنے مرضی لوگ ہونے کا دعویٰ کر دیں۔

کسی نے گنتی نہیں کرنی عمران خان دس لاکھ لوگ لائے ہیں یا اپوزیشن واقعی بیس لاکھ لوگ لائی ہے۔دونوں ہی چند ہزار لوگ لا کر اپنااپنا دعویٰ سچ ثابت کرنے کی کوشش کریںگے۔ اس لیے اس کا نہ تو ماضی میں کبھی فیصلہ ہوا ہے اور نہ ہی اب ہوگا۔ جب جگہ بھر جاتی ہے تو جلسہ اور دھرنا کامیا ب ہوجاتا ہے۔ یہی عوامی جلسوں کی سائنس ہے، آپ نے ایسی جگہ منتخب کرنا ہوتی ہے جس کو آپ بھر سکیں۔

بہر حال یہ کھیل عمران خان نے شروع کیا ہے اور اپوزیشن نے تو بس جواب دیا ہے۔ اب اگر اپوزیشن کی جوابی حکمت عملی عمران خان کی حکمت عملی سے بہتر نظر آرہی ہے تو یہ اور بات ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن دھرنا دینے کی صلاحیت تو رکھتے ہیں، ویسے تو عمران خان نے بھی ڈی چوک پر 126دن تک دھرنا دیا ہوا ہے۔

انھوں نے 126دن تک ڈی چوک پر اپنا کنٹینر کھڑا کیے رکھا۔ چاہے لوگ تھے یا نہیں لیکن کنٹینر ڈی چوک پر موجود رہا۔ شام کو رونق لگ جاتی تھی لیکن شرکاء کی کبھی بھی اتنی تعداد نہیں ہوئی جو اس وقت کی حکومت کے لیے کوئی خطرہ بن سکے۔

اس لیے عمران خان کو بخوبی اندازہ ہے کہ لوگ ایک دن کے جلسے کے لیے تو آجاتے ہیں لیکن انھیں لمبے دھرنے کے لیے لانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے انھوں نے ایک دن کے جلسے کی ہی بات کی تھی تا ہم اپوزیشن نے جواب میں پہلے دھرنا دینے کا اعلان کر دیا ہے۔

عمران خان کی اخلاقی اور قانونی پوزیشن دو وجوہات کی بنا پر کمزور ہے۔ پہلی بات تحریک عدم اعتماد کے موقع پر عوامی طاقت کا مظاہر ہ کرنے کا کھیل خود عمران خان نے شروع کیا ہے۔ اب وہ اپوزیشن کو کیسے روک سکتے ہیں۔ عمران خان کا یہ موقف کون مانے گا کہ انھیں تو ڈی چوک میں جلسہ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے لیکن اپوزیشن کو ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

یہ دلیل یا جوازکون مانے گا۔ جہاں تک دھرنے کی بات ہے تو عمران خان خود ڈی چوک میں 126دن تک دھرنا دے چکے ہیں۔ اب وہ جب خود حکومت میں ہیں تو وہ اپنی اپوزیشن کو ڈی چوک میں دھرنا دینے سے کیسے روک سکتے ہیں۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جب اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی اپنے حامی اور کارکن اسلام آباد ڈی چوک میں لے آئیں گے تو کیا ہوگا؟ تصادم ،فساد اور خون خرابے کا کتنا چانس ہے؟ کیا سڑکوں پر لڑائی ہوگی؟ میں نے پہلے بھی لکھا ہے اور میں اب بھی اس بات پر قائم ہوں کہ عمران خان کے پاس سڑکوں پر لڑنے والی فورس نہیں ہے۔

ان کے حامی کسی ایک دن ایسے جلسے میں آسکتے ہیں۔ جہاں کوئی خطرہ نہ ہو۔ کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ ڈیک پرگانے چلیں اور ایک تفریح کا سماں ہو، لیکن مزاحمتی سیاست کے جراثیم ان کی جماعت میں نہیں ہیں۔ ان کے مقابلے میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو بھی یہی مسئلہ ہے۔ ان کے پاس بھی ووٹ بینک ہے لیکن مزاحمتی فورس نہیں ہے۔ لیکن دینی سیاسی جماعتوں کے پاس مزاحتمی فورس ہوتی ہے۔ وہ دھرنے بھی دے سکتی ہیں اور ان کے پاس مزاحمت کرنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں۔

اس لیے مولانا فضل الرحمان کی اس طاقت سے کسی کوکوئی انکار نہیں ہے۔ عمران خان کے ساتھ کوئی دینی سیاسی جماعت بھی نہیں ہے جو مزاحمت میں ان کا ساتھ دے سکے۔ سیاسی کارکن کی نفسیاتی حالت بھی بہت اہم ہوتی ہے۔ جب کارکن کو پتہ ہو کہ وہ ایک جیتی ہوئیجنگ لڑنے جا رہا ہے تو اس کا جذبہ جوان ہوتا ہے۔ لیکن جب کارکن کو پتہ ہو کہ وہ ہاری ہوئی جنگ لڑنے جا رہا ہے تو اس کا جذبہ بھی پست ہوتا ہے۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان کے کارکنوں پر یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ ان کے لیڈر کے اقتدار کا سورج غروب ہو رہا ہے۔ اس لیے ان کے کارکن کا جذبہ جوان نہیں ہو سکتا۔ عمران خان کو بھی اس بات کا احساس ہے، اسی لیے وہ اقتدار میں ہی جلسے کر رہے ہیں۔ اقتدار جانے کے بعد عوامی جلسے کرنا مشکل سے مشکل ہوتا جائے گا۔ لوگ اسلام آباد تب ہی آئیں گے جب انھیں جیت کا یقین ہوگا۔ ہارا ہوا میچ دیکھنے یا کھیلنے کون آتا ہے۔ جب کہ دوسری طرف اپوزیشن کے کارکن کو یہ احساس ہورہا ہے کہ ان کی جیت قریب ہے۔

اقتدار ان کی جماعت پر پھر دستک دے رہا ہے۔ اس لیے وہاں لوگ جیتا ہوا میچ کھیلنے آسکتے ہیں۔ اس لیے ڈی چوک والا میچ عمران خان نہیں جیت سکتے۔ انھیں ایسا راستہ نکالنا چاہیے کہ کوئی بھی جلسہ نہ کرے۔ اس وقت پیچھے ہٹنا بھی عمران خان کی ہار ہوگی۔ اس میں زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ اس لیے اس سے پہلے کہ ایمپائر کوئی راستہ نکالے، عمران خان کو خود راستہ نکالنا چاہیے، کیونکہ ایمپائر کا راستہ نکالنا بھی عمران خان کی ہار ہی ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں