مذاکرات کہانی تہذیب روایات برداشت اخلاقیات سے جُڑے مذاکرات
دنیا میں غلووتعصب سے بھرے مسائل اور ہر دم پھیلی نااتفاقیوں میں اضافہ وقت کے ساتھ بڑھتا چلا جارہا ہے
انسانی تاریخ میں سب سے درخشندہ باب امن کے زمانوں کو کہا جاسکتا ہے۔تاہم، تمام تر تیکنیکی ترقی اور علم و شعور کی آگہی کے باوجود آج بھی انسان امن کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
دنیا میں غلووتعصب سے بھرے مسائل اور ہر دم پھیلی نااتفاقیوں میں اضافہ وقت کے ساتھ بڑھتا چلا جارہا ہے اور ہر گزرتا لمحہ مسائل کی گھٹڑی کے حجم میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کا باعث بن رہا ہے، لیکن رقابت، تنازعات، جھگڑے اور ہوس سے شروع ہونے والے ان مسائل کے آگے ہمیشہ بات چیت، تبادلۂ خیال اور مذاکرات ہی ڈھال بنے ہیں۔ بگڑتے حالات کو سنورتے معاملات میں تبدیل کرنے والا یہ عمل انسانی ذہن کی پختگی کی معراج ہے، کیوں کہ صرف حضرت انسان ہی وہ مخلوق ہے جو الجھے معاملات کو گفت و شنید اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جانور اس صلاحیت سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو اقوام اپنے تنازعات کو گفتگو اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے سے محروم رہتی ہیں وہ محکوم بن جاتی ہیں یا پھر جنگ کی ذلت میں ہمیشہ لتھڑی رہتی ہیں۔ اس کے برعکس وہ اقوام جو محاذ جنگ کو پس پشت ڈال کر مذاکرات کی میز سجاتی ہیں دیرپا خوشیاں اور امن ان کے دروازے پر ضرور دستک دیتے ہیں لیکن یہ خوشیاں اورامن اس وقت گلے ملتی ہیں جب مذاکرات کے عمل میں نہ صرف خلوص نیت سے امن کی خواہش شامل ہو، بل کہ مذاکرات کے دوران رواداری، تہذیب، روایات، برداشت اور اخلاقیات کے پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھا جائے۔
مذاکرات
انگریزی زبان میں مذاکرات کے لیے لفظ ''Negotiation" استعمال کیا جاتا ہے، جو لاطینی زبان کے لفظ ''Negotiatus" سے لیا گیا ہے۔ لاطینی زبان میں اس لفظ کے معنی ''کسی کام خصوصاً کاروبار وغیرہ کو جاری رکھنا'' کے ہیں۔
مذاکرات کی اقسام
بنیادی طور پر ہر مذاکرات کے پیچھے دو قسم کے مقاصد ہوتے ہیں اور ان ہی کی بنیاد پر عمرانی علوم کے ماہرین نے مذاکرات کی دو عمومی اقسام بیان کی ہیں:
اول: منقسم یا ''ڈسٹری بیٹو'' مذاکرات
وہ مذاکرات جو ایک مخصوص ہدف ہی کو حاصل کرنے کے لئے انجام دیئے جاتے ہیں ''ڈسٹری بیٹو مذاکرات'' کہلاتے ہیں۔ یہ مذاکرات ایک مخصوص حد تک کیے جاتے ہیں اور جیسے ہی وہ حد یا ہدف حاصل ہوجاتا ہے مذاکرات کا اختتام کردیا جاتا ہے۔ تاہم اس دوران فریقین ایک دوسرے کو کم سے کم فوائد دینے کے لیے نامناسب یا غیرروایتی طریقے بھی استعمال کرتے ہیں اور انہی مختلف حربوں کے استعمال کے باعث انہیں ''تقسیم درتقسیم یا پھیلے ہوئے مذاکرات'' کہا جاتا ہے۔ ایسے مذاکرات روزمرہ کے معاملات میں گھر یا کار وغیرہ کی خرید و فروخت کے دوران دکھائی دیتے ہیں، جب فروخت کرنے والا زیادہ رقم کے لیے اپنے مال کو بیش قیمت اور خریدنے والا اسی شے کو عام سا ظاہر کرنے میں اپنی ساری صلاحیت لگا دیتا ہے اور اپنے موقف سے دست بردار ہونے پر بھی تیار نہیں ہوتا۔ ماہرین ا س مذاکراتی عمل کو نفع اور نقصان پر مشتمل مذاکرات بھی کہتے ہیں، جس میں ایک فریق کا فائدہ درحقیقت دوسرے فریق کا نقصان ہوتا ہے۔
دوئم: مجموعی یا''اینٹی گریٹو'' مذاکرات
مذاکرات کی دوسری قسم ''اینٹی گریٹو مذاکرات '' کہلاتی ہے یہ مذاکرات فریقین کے باہمی فوائد پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان مذاکرات کے نتائج و فوائد مجموعی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ شیئرز بھی کئے جاتے ہیں ان مذاکرات کے نتائج عموماً باہمی رضامندی، تعاون اور بھروسے پر منتج ہوتے ہیں اسی لیے ان مذاکرات کو ''فتح مندی کا کھیل'' بھی قرار دیا جاتا ہے۔
سیاسی مذاکرات کے طریقۂ کار:
کسی بھی سیاسی یا غیرسیاسی مسئلے کے حل کے لیے متعدد طریقے اپنائے جاسکتے ہیں جو مسئلے کی نوعیت پر منحصر کرتے ہیں۔ تاہم دو یا دو سے زاید نقطۂ نظر رکھنے والے گروہوں یا قوموں کے درمیان مذاکرات جن بنیادی طریقوں سے انجام دیے جاسکتے ہیں وہ کچھ اس طرح بیان کیے جاسکتے ہیں۔
براہ راست مذاکرات
علم سیاسیات کے ماہرین کے مطابق کسی بھی مسئلے کے حل کا سب سے مناسب اور سرفہرست طریقہ متاثرہ فریقوں کا دو بدو بیٹھ کر مذاکرات کرنے کا عمل ہے، جسے براہ راست مذاکرات کا عمل کہا جاتا ہے۔ یہ ایک فطری اور جلد نتائج دینے والا طریقۂ کار ہے، کیوں کہ مسئلے کی شدت اور مضمرات سے فریقین سے زیادہ کوئی آگاہ نہیں ہوتا۔ چناں چہ عموماً ایسے طریقۂ کار سے انجام دیے جانے والے مذاکرات کے نتائج دیرپا اور قابل قبول ہوتے ہیں۔
بالواسطہ مذاکرات
بالواسط مذاکرات عموماً اس وقت مناسب سمجھے جاتے ہیں جب فریقین ایک دوسرے کے خیالات اور مقاصد کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور حالات انہیں کسی تنازعے میں الجھا دیتے ہیں۔ اس صورت حال میں دویا اس سے زاید فریق اپنے اپنے موقف کو اپنے اپنے رابطہ کار کے ذریعے ایک دوسر ے کو پہنچاکر معاملات کی تہہ تک پہنچے کی کوشش کرتے ہیں۔ عموماً ایسے مذاکرات طویل عمل کے متقاضی ہوتے ہیں، کیوں کہ رابطہ کار کے تعاون کے بغیر یہ عمل احسن طریقے سے انجام نہیں پاتا، جب کہ بعض مراحل میں رابطہ کار کی عدم دست یابی مذاکرات کے عمل کو طول دینے کا باعث بن جاتی ہے۔ ایسے مذاکرات میں بعض اوقات رابط کار دورانِ مذاکرات ساتھ بھی چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ مذاکرات کے دوران رابطہ کار کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی وہ صرف پیغام رساں کا کردار ادا کررہا ہوتا ہے۔
مصالحت کاریا ثالثی
مذاکرات کی انجام دہی کا تیسرا رائج طریقہ کار مصالحت کار یا ثالثی کی خدمات کا ہے۔ اس طریقۂ کار میں فریقین کے درمیان کوئی ایسا شخص یا گروہ خدمات انجام دیتا ہے جس کی حیثیت فریقین کی نظر میں غیرجانب دار مگر اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور وہ دورانِ مذاکرات فریقین کو مناسب حل کی جانب پیش قدمی کے لیے نہ صرف اپنی رائے دینے کے اہل ہوتا ہے، بل کہ بعض صورتوں میں کام یاب مذاکرات کے بعد ان پر عمل درآمد کرانے کا ضامن بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مذاکرات کے ضمن میں منظور کیے جانے والے عہد وپیمان بھی وہی مرتب کرتا ہے۔
ماہرین پر مشتمل گروپ یا ٹیم
جیسا کہ ہم سب مانتے ہیں کہ دنیا اب ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس مناسبت سے بہت سے ایسے مسائل یا تنازعات جو بظاہر سادہ سے یا صرف ایک پہلو پر مشتمل دکھائی دیتے ہیں، جب مذاکرات کی میز پر لائے جاتے ہیں تو آکٹوپس کے بازوؤں کی مانند ان کے ان گنت پہلو دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ دیتے یہ تنازعات حل کرنے کے لیے ٹیم ورک کی صورت میں مذاکراتی ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں۔ ان ٹیموں میں اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین شامل ہوتے ہیں جو مرکزی مذاکراتی ٹیم کو بروقت مفید مشورے دیتے ہیں اس عمل کے باعث عموماً ایسے مذاکرات کے نتائج نقائص سے پاک اور فریقین کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
انسانی تاریخ کے اہم مذاکرات
یوں تو انسانی تاریخ مذاکرات کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ تاہم کچھ ایسے اہم مذاکرات جن کے اثرات نے دنیا پردیرپا نقوش چھوڑے ان کی تفصیل کچھ اس طر ح ہے:
جنگ کادش
Battle of Kadesh
بارہ سو چوہتر قبل مسیح میں لڑی جانے والی یہ جنگ مصری فرعون ''رمسیس دوئم'' اور حیتین شہنشاہ ''موا تالی دوئم'' کے مابین شروع ہوئی تھی۔ یہ جنگ پندرہ برس تک کادش کے علاقے میں لڑی گئی۔ یہ علاقہ اس وقت ملک شام میں شامل ہے۔ کثیر تعداد میں گھوڑوں کے رتھوں پر لڑی جانے والی اس جنگ کے فریقین کی جانب سے اپنی اپنی فتح کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے بعد ایک اور جنگ کا خطرہ پیش آنے پر مصری فرماں رواں رمسیس دوئم نے مذاکرات کے ذریعے تمام تنازعات کو حل کیا اس دوران حیتین کی شہنشاہیت کا تاج ''ہتوسیلی سوئم'' کے سر پر سجایا جاچکا تھا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں ترتیب پانے والا معاہدہ جو قدیم مصری تصویری رسم الخط میں تحریر کیا گیا تھا خوش قسمتی سے آج بھی محفوظ ہے اور ماہرین آثار قدیمہ کی اس نادر دریافت کی نقل اس وقت اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں آویزاں ہے، جسے بین بین لااقوامی تعلقات عامہ کے حوالے سے ماضی میں کیے جانے والے مذاکرات کی اہم ترین دستاویز کا درجہ حاصل ہے۔ لگ بھگ تین ہزار تین سو سال قبل کیے گئے ان مذاکرات کی اٹھارہ نکات پر مشتمل اس دستاویز میں امن کے قیام، انسانی حقوق اور معاہدے کی پاسداری پر زو ر دیا گیا ہے۔
مذاکرات اور معاہد ہ امن مونٹریال
Great Peace of Montreal
چار اگست سترہ سو ایک کو سابق نیوفرانس اور شمالی امریکا میں ''ایبوریجنل'' نسل کے آبائی باشندوں پر مشتمل چالیس قوموں کے درمیان یہ معاہدہ امن کی نوید لے کر آیا تھا۔ طویل عرصے تک جاری رہنے والی یہ جنگ تجارتی مسائل پر موجودہ کینیڈا کے صوبے کیوبک سے شروع ہوئی تھی، جو اس وقت نیوفرانس کہلاتا تھا۔ طویل مذاکرات کے بعد طے پانے والے معاہدے کے اہم نکات میں امن، ثقافت کا تحفظ، ہر ایک کی عزت اور تجارتی مواقع کی مساوی سطح پر فراہمی شامل تھے۔ معاہدے کے ضامن نیوفرانس کے گورنر ''لوئیس ہیکٹر ڈی کیلری'' اور شمالی امریکا کے قبائل کے اکابرین تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس معاہدے کو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں شمالی امریکا کے قدیم قبائل ضرورت پڑنے پر استعمال کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ سن دوہزار ایک میں اس امن معاہدے کی تین سوویں سال گرہ کے موقع پر کیوبک اور مونٹریال میں تقریبات کا اہتمام کرکے معاہدے کی یاد تازہ کی گئی تھی۔
مذاکرات اور معاہدہ بلقان
Balkan Pact
پہلی جنگ عظیم کے بعد براعظم یورپ کے جنوب مشرقی حصے میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات کا طویل دور چلا یہ مذاکرات کوہِ بلقان کی پہاڑیوں میں جنگی نقطہ نظر سے اہم حیثیت رکھنے والی ریاستوں کے مابین امن کے قیام کے لیے منعقد کیے گئے تھے۔ ان ریاستوں میں یونان، ترکی، یوگوسلاویہ اور رومانیہ شامل تھے، جنہوں نے نو فروری انیس سو چونتیس کو امن قائم رکھنے کا معاہدہ کیا۔ یہ مذاکرات یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں منعقد کیے گئے تھے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر تشکیل پانے والی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بھی امن اور جغرافیائی حدود کی پاس دار ی کو یقینی بنایا گیا تھا۔
مذاکرات اور معاہدۂ پیرس اور ویانا
Treaty of Paris (1815)
اٹھارہ سو پندرہ میں کیا جانے والا یہ معاہدہ ان مذاکرات کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا جب فرانس کے فرماں رواں نپولین بونا پارٹ کو برطانیہ، آسٹریا، پورشیا، رشیا اور سوئٹزرلینڈ کی اتحادی افواج کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔ تاہم نپولین فرار ہوکر جزیرہ ایلبا پہنچا اور پھر دوبارہ فرانس میں داخل ہوکر سو دنوں تک دوبارہ حکومت حاصل کرلی۔ تاہم اسے اتحادیوں کے ہاتھوںواٹرلو کے مقام پر شکست ہوئی۔ اس شکست کے بعد ماسوائے ترکی کے تمام یورپی ممالک نے ویانا میں جمع ہوکر تبادلۂ خیال کیا اور فرانسیسی نوآبادیات کو آپس میں تقسیم کرنے کا عمل شروع کیا گیا مذاکرات کے لیے منعقد کی گئی اس کانگریس کے نتیجے میں یورپ کے جغرافیائی حالات میں بہت دور رس نتائج سامنے آئے جو آج بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں تشکیل پانے والے معاہدے کی رو سے نپولین کے سو دن کے اقتدار کی حمایت کے جرم میں فرانسیسی عوام اور حکومت کو اتحادی ممالک کو مختلف شکلوں میں ایک ارب ستر کروڑ فرانک کی ادائیگی کرنی پڑی جسے وسیع معنوں میں تاوان جنگ کہا جاسکتا ہے۔
مذاکرات اور معاہدہ ورسائے
Treaty of Versailles
پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کا خمیازہ کئی برسوں تک آنی والی نسلوں کو برادشت کرنا پڑا۔ جرمنی اور اتحادی افواج کے مابین پھیلی ہوئی یہ جنگ اس وقت اختتام پذیر ہوئی تھی جب گیارہ نومبر انیس سو اٹھارہ کو متحارب ممالک کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ تاہم جرمنی چھے ماہ کی گفت و شنید اور طویل مذاکرات کے بعد اس معاہدۂ امن پر اٹھائیس جون انیس سو انیس میں دست خط کرنے پر راضی ہوا اور تقریباً چھے ماہ بعد دس جنوری انیس سو بیس کو بین الااقوامی تنظیم ''لیگ آف نیشن '' نے معاہدے کی منظوری دی اگرچہ اس معاہدے کے لیے کیے گئے۔ مذاکرات کے نتیجے میں جرمنی کو جنگ کے آغاز کی ذمے داری اور تاوان جنگ کی صورت میں اکتیس اعشاریہ پانچ ارب ڈالر ادا کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔ تاہم جرمنی نے مذاکرات اور معاہدے کی پاس داری نہیں کی یہی وجہ ہے کہ جرمنی کے اس غیر ذمہ دارانہ عمل کو بہت سے مورخین دوسری جنگ عظیم برپا ہونے کی وجوہات میں شامل کرتے ہیں۔ تاہم ایک مکتبۂ فکر کا یہ بھی خیال ہے کہ ورسائے شہر میں واقع شاہی محل میں کیے گئے۔ یہ مذاکرات درحقیقت جرمنی کے پھیلتے اثرورسوخ کو روکنے اور اسے ذلت آمیز طریقے سے یورپ میں تنہا کرنے کے لیے تشکیل دیے گئے تھے جنہیںجرمن عوام نے کبھی بھی دل سے قبول نہیں کیا تھا، جس کا بدلہ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر نے پورے یورپ سے لیا۔ یاد رہے کہ معاہدے ورسائے کے تحت منعقد کیے گئے مذاکرات میں سیاسی شرائط، معاشی شرائط، فوجی شرائط اور سماجی شرائط پر بحث و مباحثہ کیا گیا تھا۔
مذاکرات اور معاہدہ ویسٹ فیلیا
Peace of Westphalia
سہولویں صدی عیسویں میں بیشتر پورپی ممالک مذہبی او رسیاسی جنگوں اور معرکوں میں ایک دوسرے سے برسرپیکار رہے ہیں۔ اس دوران اسی برس (پندرہ سو اڑسٹھ سے سولہ سو اڑتالیس) تک ہالینڈ کے علاقے جن پر اسپین کے شہنشاہ نے قبضہ کیا ہوا تھا۔ اپنی آزادی کے لیے جنگ لڑتے رہے، جب کہ اسی دوران تیس برس (سولہ سو اٹھارہ سے سولہ سو اڑتالیس) تک یورپی ممالک مقدس رومن سلطنت میں مذہبی جنگ میں بھی مبتلا رہے۔ ان دونوں خوں ریز جنگوں کا اختتام بھی طویل ترین ''ویسٹ فیلیا مذاکرات'' ہی کے باعث ممکن ہوا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مذاکرات کے دوران جنگ بھی جاری رہی اور مذاکرات بھی چلتے رہے۔ فرڈیننڈ ثانی جو جرمنی کا شہنشاہ تھا اس تیس سالہ جنگ کی ابتدا کا ذمہ دار تھا۔ عیسائیوں کے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے مابین لڑی جانے والی اس جنگ کی تباہ کاریاں پورے یورپ کے طول وعرض پر بھوک، غربت، بیماری، افلاس، قانون شکنی اور ایسی ہی متعدد تکلیفوں کا باعث بنی تھیں۔ ایسے وقت میں امن کی اہمیت سمجھتے ہوئے یورپی اکابرین نے مذہبی اور سیاسی جنگوں کے جنون کو روکنے کے لیے امن مذاکرات کا دور شروع کرنے کا عندیہ دیا اور اس علاقے کو جہاں مذاکرات ہونے تھے غیرفوجی علاقہ قرار دیا گیا۔ اس علاقے میں تمام اہم جنگی قوتوں کے نمائندے جمع ہوتے آپس میں بات چیت کرتے اور پھر اپنے اپنے راہ نماؤں کو اس بات چیت سے آگاہ کرتے۔
اس طرح مذاکرات کا سلسلہ سال ہا سال چلتا رہا۔ مذاکرات کی وسعت اور اثرپذیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان مذاکرات میں سولہ یورپی ریاستیں، چھیاسٹھ شاہی نمائندے جو ایک سوچالیس شاہی ریاستوں کی نمائندگی کررہے تھے، جب کہ اڑتیس مختلف گروہوں کے ستائیس نمائندوں نے حصہ لیا۔ یہ مذاکرات یورپ کے وسطی علاقے اونس برگ اور شمالی شہر میونسٹر میں منعقد ہوئے، جہاں سے اٹھارہ دن کی مسافت کے بعد نمائندے اپنے اپنے نکات اور مذاکرات اپنے راہ نماؤں کو پیش کرتے اور واپسی میں بھی اتنا ہی سفر طے کرتے۔ بعدازاں چوبیس اکتوبر سولہ سو اڑتالیس کو ''ویسٹ فیلیا'' کے مقام پر معاہدے پر دست خط ہوئے یہ مقام موجودہ دور میں جرمنی میں واقع ہیں۔ مذاکرات کے بعد طے پانے والے معاہدے میں عبادات میں آزادی، تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک، نئے سرے سے علاقوں کی حد بندی، تجارتی آزادی اور نقل حمل کی آزادی دی گئی چار صدیاں گزرنے کے باوجود آج یورپی یونین کا موجودہ خاکہ درحقیقت معاہد ہ ویسٹ فیلیا کی ہی ایک جدید شکل ہے۔
مذاکرات اور کورین جنگ بندی کا معاہدہ
Korean Armistice Agreement
شمالی اور جنوبی کوریا میں انیس سو پچاس سے انیس سو ترپن تک جنگ پورے زوروشور سے جاری رہی اور دونوں ممالک گذشتہ چھے دہائیوں سے مستقل حالت جنگ میں ہیں۔ تاہم ستائیس جولائی انیس سو ترپن میں امریکا کے لیفٹیننٹ جرنل ولیم ہیریسن جونئیر نمائندہ اقوام متحدہ کی ''یونائٹڈڈ نیشن کمانڈ''، شمالی کوریا کے جنرل ''نیام دوئم'' اور چین کی ''والینٹرآرمی'' اور جنوبی کوریا کے نمائندوں کے درمیان کام یاب مذاکرات کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا۔ انتہائی اہمیت کے حامل اس معاہدے کے لیے مذاکرات دس جولائی انیس سو اکیاون میں شروع ہوئے اور تقریباً دو سال بعد پایہ تکمیل کو پہنچے۔ اگرچہ مذاکرات جنگ ختم کرانے یا مسئلے کو پرامن حل تک لے جانے میں ناکام رہے، تاہم مذاکرات کے نتیجے میں دو بڑی قوتوں کے درمیان فی الحال جنگ بندی قائم ہے۔
کوریا کے علاوہ وہ بڑی جنگیں اور تنازعات جو مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی اور بعد ازاں پرامن معاہدوں میں تبدیل ہوئے ان میں پندرہ سو سینتیس میں ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں ''ڈینش وار'' اور سولہ سو پینتیس میں پرتگال اور سوئیڈن کے مابین ہونے والی جنگ، انیس ستمبر انیس سو چوالیس میں فن لینڈ اور سوویت یونین کے مابین جنگ، بیس جولائی انیس سو چون میں فرانس اور ویت من کے درمیان پہلی انڈو چائنا جنگ اور انیس سو چونسٹھ میں الجزائر میں ہونے والی جنگوں کا اختتام مذاکرات کی کوکھ ہی سے جنم لینے والے پرامن معاہدوں کے باعث تاریخ کے صفحوں میں محفوظ ہیں۔ ایسے ہی معاہدے اسرائیل اور اس کے پڑوسی ممالک، مصر، اردن، شام اور لبنان کے مابین انیس سو انچاس میں طے پاچکے تھے لیکن امریکا اور اس کے بغل بچے اسرائیل کی ہٹ دھرمیوں کے باعث جنگ بندی اور امن معاہدے ہوا میں تحلیل ہوتے رہتے ہیں۔
جنوبی افریقہ امن مذاکرات
Negotiations to end apartheid in South Africa
جنوبی افریقہ کی سفید فام حکومت انیس سو اڑتالیس سے سیاہ فام افراد سے نسلی امتیاز کی پالیسی پر گامزن تھی اس پالیسی کے تحت سیاہ فام افراد کو جنوبی افریقہ کے سیاسی معاملات سے لے کر روزمرہ کے معاملات میں حصہ لینے پر پابندی تھی۔ اس پابندی کے تحت انیس سو ساٹھ سے انیس سو نوے تک سیاہ فام افراد کی سیاسی تنظیم ''افریقن نیشنل کانگریس'' سمیت دیگر سیاہ فام جماعتوں کا سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا ممنوع تھا۔ تاہم ستائیس برس تک قید گزارنے والے عظیم راہ نما نیلسن منڈیلا کی ولولہ انگیز قیادت کے باعث چار مئی انیس سو نوے کو جنوبی افریقہ کے سفید فام صدر ایف ڈبلیو ڈی کلرک اور نیلسن میڈیلا کی قیادت میں افریقن نیشنل کانگریس کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے۔ اٹھارہ نومبر انیس سو ترانوے کو مختلف نشیب وفراز کے بعد کام یابی سے ہم کنار ہونے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں ستائیس اپریل انیس سو چورانوے کو عام انتخابات ہوئے، جن میں افریقن نیشنل کانگریس نے باسٹھ فی صد ووٹ لے کر نیلسن منڈیلا کی قیادت میں حکومت قائم کی۔ بعدازاں اگلے سال جنوبی افریقہ نے متفقہ آئین بھی تشکیل دیا اور مذاکرات میں طے پانے والے نکات کے تحت نسل کشی اور نسلی امتیاز کے بارے میں حقائق جاننے کے لیے کمیشن قائم کیا گیا، جس کی سفارشات کی روشنی میں نسلی امتیاز اور نسل کشی کے مجرموں کو سزائیں دی گئیں۔
روس جاپان جنگ مذاکرات او ر معاہدہ
Treaty of Portsmouth
آٹھ فروری انیس سو چار سے پانچ ستمبر انیس سو پانچ تک جاری رہنے والی یہ جنگ جو روس اور جاپان کے مابین سمندری رقبے کے حصول کے لیے لڑی جارہی تھی۔ امریکی صدر تھیوڈور روز ویلٹ کی کوششوں سے اختتام پذیر ہوئی۔ وہ دونوں ممالک کے چیدہ چیدہ راہ نماؤں جن میں روس کے''سر جیو وٹ'' اور ''رومانوچ روزن'' اور جاپان کے ''کومارا جتومارا ''اور ''تاخیرا کوگورہ''، شامل تھے، کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کام یاب رہے۔ یہ مذاکرات امریکی ریاست نیوہیمپشائر کے علاقے پورٹس ماؤتھ میں ہوئے۔ اسی نسبت سے انہیں ''مذاکرات پورٹس ماؤتھ'' کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ان مذاکرات کے بعد روز ویلٹ کو امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔
جناح گاندھی مذاکرات 1944
دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے قریب انیس سو چوالیس میں یہ مذاکرات قائداعظم کی ممبئی کی رہائش گاہ مالا بار ہل میں منعقد ہوئے نو ستمبر سے ستائیس ستمبر انیس سو چوالیس میں انیس دن تک جاری رہنے والے ان مذاکرات کا ایجنڈا تقسیم ہند کے بعد کی صورت حال پر یکسو ہو کر کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنی تھی بنیادی طور پر یہ مذاکرات گاندھی جی کے دست راست اور تقسیم ہند کے بعد بھارت کے پہلے گورنر جنرل چکرورتی راج گوپال اچاریہ کی تجویز پر منعقد کیے گئے تھے۔
انہوں نے گاندھی جی کی جانب سے حمایت حاصل کرنے کے بعد اپنے مذاکراتی نکات اٹھارہ اپریل انیس سو چوالیس کو قائداعظم کو بھیجے بعدازاں نو ستمبرسے ستائیس ستمبر تک یہ مذاکرات ہوئے جس کے دوران دونوں راہ نماؤں کے درمیان چودہ ملاقاتیں اور اکیس خطوط کا تبادلہ بھی ہوا۔ تاہم مفاہمت کے نام پر شروع کیے گئے۔ گاندھی جی کی مذاکرات میں ذاتی حیثیت میں شرکت، انگریزوں کے انخلا کے بعد اقلیتوں کے تحفظ کے بارے میں کسی واضح شق کا نہ ہونا، مسلمانوں کوجداگانہ قوم نہ ماننا اور ان نکات پر عمل درآمد کو انگریزوں کے انخلاء سے مشروط کرنے کے باعث یہ مذاکرات ناکام ہوگئے تھے۔
مذاکرات اور امریکا کی جنگ آزادی
American Revolutionary War
امریکا طویل عرصے تک برطانیہ کی نوآبادی رہا ہے۔ اس دوران جب برطانیہ کی جانب سے امریکی نوآبادیوں پر مختلف تجارتی محصول اور روز مرہ کے معاملات میں دخل اندازی میں اضافہ ہوتا گیا تو برطانوی حکم رانوں کے خلاف ردعمل شروع ہوگیا اور امریکی ریاستوں کے باشندوں نے برطانوی افواج کے خلاف جنگ شروع کردی اور اس طرح امریکا کی جنگ آزادی انیس اپریل سترہ سو پچھتر کو شروع ہوئی اور اس کا اختتام تین ستمبر سترہ سو تیراسی کو اس وقت ہوا جب امریکی ریاستوں کے چار نمائندوں جان ایڈم، بینجمن فرینکلن جان جے اور ہنری لیورنس نے برطانیہ عظمی کے بادشاہ جارج سوئم کے نمائندے ڈیوڈ ہیرٹلے اور رچرڈ اوسولڈ سے اپنی شرائط منوانے کے لیے پیر س میں مذاکرات شروع کیے۔ ان مذاکرات کو ''معاہدۂ پیرس سترہ سو تیراسی'' بھی کہا جاتا ہے۔ درحقیقت مذاکرات کے دوران پیش کیے گئے نکات ہی نے امریکا کو دنیا میں پنپنے کا موقع دیا، کیوں کہ اس دوران نہ صرف تجارتی سہولیات حاصل کی گئیں بل کہ امریکا کی اس وقت کی تیرہ ریاستوں پر سے تاج برطانیہ کا ہر حق اور قانون ختم کردیا گیا۔ اس کے علاوہ اس بات کی توثیق کی گئی کہ امریکا اپنی مغربی سرحدوں کو پھیلانے میں خود مختار ہوگا۔
اس کے علاوہ ماہی گیری کے حقوق، دریائے مسی سپی میں جہاز رانی کے حقوق اور ضبط شدہ جائیدادیں واگزار کرانے کی شقیں بھی منوائی گئیں۔ واضح رہے کہ برطانیہ نے اکتوبر سترہ سو اکیاسی کو ہتھیا ر ڈالنے کے باوجود مذاکرات کی میز پر آنے میں ڈیڑھ سال کا عرصہ لیا، لیکن اس کے باوجود امریکا کی آزادی کو نہ روک سکا۔ یہاں اس امر کا بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ امریکا کا اعلان آزادی اگرچہ چار جولائی سترہ سو چھتر کو کردیا گیا تھا لیکن اس اعلان نامے کی عالمی سطح پر توثیق تین ستمبر سترہ سو تیراسی کو مذکورہ مذاکرات کے بعد ہی ملی۔
دنیا کے اہم مذاکرات کار
یوں تو دنیا میں مختلف سیاسی تنازعات کے حل کے لیے مختلف سطحوں پر سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ تاہم کچھ افراد مذاکرات کاری کے شعبے میں اپنی کام یابیوں کے باعث بطور حوالہ استعمال کیے جاتے ہیں۔
ان افراد میں روس کے سابق وزیر اعظم نکیتا خروشیف، امریکا کے صدور جان ایف کینیڈی، فرییکلن ڈی روز ویلٹ، سیکرٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر، آٹھویں صدی عیسوی سے تعلق رکھنے والے انگلستان کے بادشاہ کنگ ایلفریڈ دی گریٹ، قدیم مصر کے انیسویں خاندان کا تیسرا فرماں رواں رمسیس دوئم، فرانس کے مدبر صدر چارلس ڈی گال اور ترکی کے انقلابی رہنما مصطفی کمال اتاترک قابل ذکر ہیں۔
دنیا میں غلووتعصب سے بھرے مسائل اور ہر دم پھیلی نااتفاقیوں میں اضافہ وقت کے ساتھ بڑھتا چلا جارہا ہے اور ہر گزرتا لمحہ مسائل کی گھٹڑی کے حجم میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کا باعث بن رہا ہے، لیکن رقابت، تنازعات، جھگڑے اور ہوس سے شروع ہونے والے ان مسائل کے آگے ہمیشہ بات چیت، تبادلۂ خیال اور مذاکرات ہی ڈھال بنے ہیں۔ بگڑتے حالات کو سنورتے معاملات میں تبدیل کرنے والا یہ عمل انسانی ذہن کی پختگی کی معراج ہے، کیوں کہ صرف حضرت انسان ہی وہ مخلوق ہے جو الجھے معاملات کو گفت و شنید اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جانور اس صلاحیت سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو اقوام اپنے تنازعات کو گفتگو اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے سے محروم رہتی ہیں وہ محکوم بن جاتی ہیں یا پھر جنگ کی ذلت میں ہمیشہ لتھڑی رہتی ہیں۔ اس کے برعکس وہ اقوام جو محاذ جنگ کو پس پشت ڈال کر مذاکرات کی میز سجاتی ہیں دیرپا خوشیاں اور امن ان کے دروازے پر ضرور دستک دیتے ہیں لیکن یہ خوشیاں اورامن اس وقت گلے ملتی ہیں جب مذاکرات کے عمل میں نہ صرف خلوص نیت سے امن کی خواہش شامل ہو، بل کہ مذاکرات کے دوران رواداری، تہذیب، روایات، برداشت اور اخلاقیات کے پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھا جائے۔
مذاکرات
انگریزی زبان میں مذاکرات کے لیے لفظ ''Negotiation" استعمال کیا جاتا ہے، جو لاطینی زبان کے لفظ ''Negotiatus" سے لیا گیا ہے۔ لاطینی زبان میں اس لفظ کے معنی ''کسی کام خصوصاً کاروبار وغیرہ کو جاری رکھنا'' کے ہیں۔
مذاکرات کی اقسام
بنیادی طور پر ہر مذاکرات کے پیچھے دو قسم کے مقاصد ہوتے ہیں اور ان ہی کی بنیاد پر عمرانی علوم کے ماہرین نے مذاکرات کی دو عمومی اقسام بیان کی ہیں:
اول: منقسم یا ''ڈسٹری بیٹو'' مذاکرات
وہ مذاکرات جو ایک مخصوص ہدف ہی کو حاصل کرنے کے لئے انجام دیئے جاتے ہیں ''ڈسٹری بیٹو مذاکرات'' کہلاتے ہیں۔ یہ مذاکرات ایک مخصوص حد تک کیے جاتے ہیں اور جیسے ہی وہ حد یا ہدف حاصل ہوجاتا ہے مذاکرات کا اختتام کردیا جاتا ہے۔ تاہم اس دوران فریقین ایک دوسرے کو کم سے کم فوائد دینے کے لیے نامناسب یا غیرروایتی طریقے بھی استعمال کرتے ہیں اور انہی مختلف حربوں کے استعمال کے باعث انہیں ''تقسیم درتقسیم یا پھیلے ہوئے مذاکرات'' کہا جاتا ہے۔ ایسے مذاکرات روزمرہ کے معاملات میں گھر یا کار وغیرہ کی خرید و فروخت کے دوران دکھائی دیتے ہیں، جب فروخت کرنے والا زیادہ رقم کے لیے اپنے مال کو بیش قیمت اور خریدنے والا اسی شے کو عام سا ظاہر کرنے میں اپنی ساری صلاحیت لگا دیتا ہے اور اپنے موقف سے دست بردار ہونے پر بھی تیار نہیں ہوتا۔ ماہرین ا س مذاکراتی عمل کو نفع اور نقصان پر مشتمل مذاکرات بھی کہتے ہیں، جس میں ایک فریق کا فائدہ درحقیقت دوسرے فریق کا نقصان ہوتا ہے۔
دوئم: مجموعی یا''اینٹی گریٹو'' مذاکرات
مذاکرات کی دوسری قسم ''اینٹی گریٹو مذاکرات '' کہلاتی ہے یہ مذاکرات فریقین کے باہمی فوائد پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان مذاکرات کے نتائج و فوائد مجموعی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ شیئرز بھی کئے جاتے ہیں ان مذاکرات کے نتائج عموماً باہمی رضامندی، تعاون اور بھروسے پر منتج ہوتے ہیں اسی لیے ان مذاکرات کو ''فتح مندی کا کھیل'' بھی قرار دیا جاتا ہے۔
سیاسی مذاکرات کے طریقۂ کار:
کسی بھی سیاسی یا غیرسیاسی مسئلے کے حل کے لیے متعدد طریقے اپنائے جاسکتے ہیں جو مسئلے کی نوعیت پر منحصر کرتے ہیں۔ تاہم دو یا دو سے زاید نقطۂ نظر رکھنے والے گروہوں یا قوموں کے درمیان مذاکرات جن بنیادی طریقوں سے انجام دیے جاسکتے ہیں وہ کچھ اس طرح بیان کیے جاسکتے ہیں۔
براہ راست مذاکرات
علم سیاسیات کے ماہرین کے مطابق کسی بھی مسئلے کے حل کا سب سے مناسب اور سرفہرست طریقہ متاثرہ فریقوں کا دو بدو بیٹھ کر مذاکرات کرنے کا عمل ہے، جسے براہ راست مذاکرات کا عمل کہا جاتا ہے۔ یہ ایک فطری اور جلد نتائج دینے والا طریقۂ کار ہے، کیوں کہ مسئلے کی شدت اور مضمرات سے فریقین سے زیادہ کوئی آگاہ نہیں ہوتا۔ چناں چہ عموماً ایسے طریقۂ کار سے انجام دیے جانے والے مذاکرات کے نتائج دیرپا اور قابل قبول ہوتے ہیں۔
بالواسطہ مذاکرات
بالواسط مذاکرات عموماً اس وقت مناسب سمجھے جاتے ہیں جب فریقین ایک دوسرے کے خیالات اور مقاصد کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور حالات انہیں کسی تنازعے میں الجھا دیتے ہیں۔ اس صورت حال میں دویا اس سے زاید فریق اپنے اپنے موقف کو اپنے اپنے رابطہ کار کے ذریعے ایک دوسر ے کو پہنچاکر معاملات کی تہہ تک پہنچے کی کوشش کرتے ہیں۔ عموماً ایسے مذاکرات طویل عمل کے متقاضی ہوتے ہیں، کیوں کہ رابطہ کار کے تعاون کے بغیر یہ عمل احسن طریقے سے انجام نہیں پاتا، جب کہ بعض مراحل میں رابطہ کار کی عدم دست یابی مذاکرات کے عمل کو طول دینے کا باعث بن جاتی ہے۔ ایسے مذاکرات میں بعض اوقات رابط کار دورانِ مذاکرات ساتھ بھی چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ مذاکرات کے دوران رابطہ کار کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی وہ صرف پیغام رساں کا کردار ادا کررہا ہوتا ہے۔
مصالحت کاریا ثالثی
مذاکرات کی انجام دہی کا تیسرا رائج طریقہ کار مصالحت کار یا ثالثی کی خدمات کا ہے۔ اس طریقۂ کار میں فریقین کے درمیان کوئی ایسا شخص یا گروہ خدمات انجام دیتا ہے جس کی حیثیت فریقین کی نظر میں غیرجانب دار مگر اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور وہ دورانِ مذاکرات فریقین کو مناسب حل کی جانب پیش قدمی کے لیے نہ صرف اپنی رائے دینے کے اہل ہوتا ہے، بل کہ بعض صورتوں میں کام یاب مذاکرات کے بعد ان پر عمل درآمد کرانے کا ضامن بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مذاکرات کے ضمن میں منظور کیے جانے والے عہد وپیمان بھی وہی مرتب کرتا ہے۔
ماہرین پر مشتمل گروپ یا ٹیم
جیسا کہ ہم سب مانتے ہیں کہ دنیا اب ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس مناسبت سے بہت سے ایسے مسائل یا تنازعات جو بظاہر سادہ سے یا صرف ایک پہلو پر مشتمل دکھائی دیتے ہیں، جب مذاکرات کی میز پر لائے جاتے ہیں تو آکٹوپس کے بازوؤں کی مانند ان کے ان گنت پہلو دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ دیتے یہ تنازعات حل کرنے کے لیے ٹیم ورک کی صورت میں مذاکراتی ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں۔ ان ٹیموں میں اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین شامل ہوتے ہیں جو مرکزی مذاکراتی ٹیم کو بروقت مفید مشورے دیتے ہیں اس عمل کے باعث عموماً ایسے مذاکرات کے نتائج نقائص سے پاک اور فریقین کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
انسانی تاریخ کے اہم مذاکرات
یوں تو انسانی تاریخ مذاکرات کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ تاہم کچھ ایسے اہم مذاکرات جن کے اثرات نے دنیا پردیرپا نقوش چھوڑے ان کی تفصیل کچھ اس طر ح ہے:
جنگ کادش
Battle of Kadesh
بارہ سو چوہتر قبل مسیح میں لڑی جانے والی یہ جنگ مصری فرعون ''رمسیس دوئم'' اور حیتین شہنشاہ ''موا تالی دوئم'' کے مابین شروع ہوئی تھی۔ یہ جنگ پندرہ برس تک کادش کے علاقے میں لڑی گئی۔ یہ علاقہ اس وقت ملک شام میں شامل ہے۔ کثیر تعداد میں گھوڑوں کے رتھوں پر لڑی جانے والی اس جنگ کے فریقین کی جانب سے اپنی اپنی فتح کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے بعد ایک اور جنگ کا خطرہ پیش آنے پر مصری فرماں رواں رمسیس دوئم نے مذاکرات کے ذریعے تمام تنازعات کو حل کیا اس دوران حیتین کی شہنشاہیت کا تاج ''ہتوسیلی سوئم'' کے سر پر سجایا جاچکا تھا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں ترتیب پانے والا معاہدہ جو قدیم مصری تصویری رسم الخط میں تحریر کیا گیا تھا خوش قسمتی سے آج بھی محفوظ ہے اور ماہرین آثار قدیمہ کی اس نادر دریافت کی نقل اس وقت اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں آویزاں ہے، جسے بین بین لااقوامی تعلقات عامہ کے حوالے سے ماضی میں کیے جانے والے مذاکرات کی اہم ترین دستاویز کا درجہ حاصل ہے۔ لگ بھگ تین ہزار تین سو سال قبل کیے گئے ان مذاکرات کی اٹھارہ نکات پر مشتمل اس دستاویز میں امن کے قیام، انسانی حقوق اور معاہدے کی پاسداری پر زو ر دیا گیا ہے۔
مذاکرات اور معاہد ہ امن مونٹریال
Great Peace of Montreal
چار اگست سترہ سو ایک کو سابق نیوفرانس اور شمالی امریکا میں ''ایبوریجنل'' نسل کے آبائی باشندوں پر مشتمل چالیس قوموں کے درمیان یہ معاہدہ امن کی نوید لے کر آیا تھا۔ طویل عرصے تک جاری رہنے والی یہ جنگ تجارتی مسائل پر موجودہ کینیڈا کے صوبے کیوبک سے شروع ہوئی تھی، جو اس وقت نیوفرانس کہلاتا تھا۔ طویل مذاکرات کے بعد طے پانے والے معاہدے کے اہم نکات میں امن، ثقافت کا تحفظ، ہر ایک کی عزت اور تجارتی مواقع کی مساوی سطح پر فراہمی شامل تھے۔ معاہدے کے ضامن نیوفرانس کے گورنر ''لوئیس ہیکٹر ڈی کیلری'' اور شمالی امریکا کے قبائل کے اکابرین تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس معاہدے کو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں شمالی امریکا کے قدیم قبائل ضرورت پڑنے پر استعمال کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ سن دوہزار ایک میں اس امن معاہدے کی تین سوویں سال گرہ کے موقع پر کیوبک اور مونٹریال میں تقریبات کا اہتمام کرکے معاہدے کی یاد تازہ کی گئی تھی۔
مذاکرات اور معاہدہ بلقان
Balkan Pact
پہلی جنگ عظیم کے بعد براعظم یورپ کے جنوب مشرقی حصے میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات کا طویل دور چلا یہ مذاکرات کوہِ بلقان کی پہاڑیوں میں جنگی نقطہ نظر سے اہم حیثیت رکھنے والی ریاستوں کے مابین امن کے قیام کے لیے منعقد کیے گئے تھے۔ ان ریاستوں میں یونان، ترکی، یوگوسلاویہ اور رومانیہ شامل تھے، جنہوں نے نو فروری انیس سو چونتیس کو امن قائم رکھنے کا معاہدہ کیا۔ یہ مذاکرات یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں منعقد کیے گئے تھے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر تشکیل پانے والی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بھی امن اور جغرافیائی حدود کی پاس دار ی کو یقینی بنایا گیا تھا۔
مذاکرات اور معاہدۂ پیرس اور ویانا
Treaty of Paris (1815)
اٹھارہ سو پندرہ میں کیا جانے والا یہ معاہدہ ان مذاکرات کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا جب فرانس کے فرماں رواں نپولین بونا پارٹ کو برطانیہ، آسٹریا، پورشیا، رشیا اور سوئٹزرلینڈ کی اتحادی افواج کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔ تاہم نپولین فرار ہوکر جزیرہ ایلبا پہنچا اور پھر دوبارہ فرانس میں داخل ہوکر سو دنوں تک دوبارہ حکومت حاصل کرلی۔ تاہم اسے اتحادیوں کے ہاتھوںواٹرلو کے مقام پر شکست ہوئی۔ اس شکست کے بعد ماسوائے ترکی کے تمام یورپی ممالک نے ویانا میں جمع ہوکر تبادلۂ خیال کیا اور فرانسیسی نوآبادیات کو آپس میں تقسیم کرنے کا عمل شروع کیا گیا مذاکرات کے لیے منعقد کی گئی اس کانگریس کے نتیجے میں یورپ کے جغرافیائی حالات میں بہت دور رس نتائج سامنے آئے جو آج بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں تشکیل پانے والے معاہدے کی رو سے نپولین کے سو دن کے اقتدار کی حمایت کے جرم میں فرانسیسی عوام اور حکومت کو اتحادی ممالک کو مختلف شکلوں میں ایک ارب ستر کروڑ فرانک کی ادائیگی کرنی پڑی جسے وسیع معنوں میں تاوان جنگ کہا جاسکتا ہے۔
مذاکرات اور معاہدہ ورسائے
Treaty of Versailles
پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کا خمیازہ کئی برسوں تک آنی والی نسلوں کو برادشت کرنا پڑا۔ جرمنی اور اتحادی افواج کے مابین پھیلی ہوئی یہ جنگ اس وقت اختتام پذیر ہوئی تھی جب گیارہ نومبر انیس سو اٹھارہ کو متحارب ممالک کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ تاہم جرمنی چھے ماہ کی گفت و شنید اور طویل مذاکرات کے بعد اس معاہدۂ امن پر اٹھائیس جون انیس سو انیس میں دست خط کرنے پر راضی ہوا اور تقریباً چھے ماہ بعد دس جنوری انیس سو بیس کو بین الااقوامی تنظیم ''لیگ آف نیشن '' نے معاہدے کی منظوری دی اگرچہ اس معاہدے کے لیے کیے گئے۔ مذاکرات کے نتیجے میں جرمنی کو جنگ کے آغاز کی ذمے داری اور تاوان جنگ کی صورت میں اکتیس اعشاریہ پانچ ارب ڈالر ادا کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔ تاہم جرمنی نے مذاکرات اور معاہدے کی پاس داری نہیں کی یہی وجہ ہے کہ جرمنی کے اس غیر ذمہ دارانہ عمل کو بہت سے مورخین دوسری جنگ عظیم برپا ہونے کی وجوہات میں شامل کرتے ہیں۔ تاہم ایک مکتبۂ فکر کا یہ بھی خیال ہے کہ ورسائے شہر میں واقع شاہی محل میں کیے گئے۔ یہ مذاکرات درحقیقت جرمنی کے پھیلتے اثرورسوخ کو روکنے اور اسے ذلت آمیز طریقے سے یورپ میں تنہا کرنے کے لیے تشکیل دیے گئے تھے جنہیںجرمن عوام نے کبھی بھی دل سے قبول نہیں کیا تھا، جس کا بدلہ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر نے پورے یورپ سے لیا۔ یاد رہے کہ معاہدے ورسائے کے تحت منعقد کیے گئے مذاکرات میں سیاسی شرائط، معاشی شرائط، فوجی شرائط اور سماجی شرائط پر بحث و مباحثہ کیا گیا تھا۔
مذاکرات اور معاہدہ ویسٹ فیلیا
Peace of Westphalia
سہولویں صدی عیسویں میں بیشتر پورپی ممالک مذہبی او رسیاسی جنگوں اور معرکوں میں ایک دوسرے سے برسرپیکار رہے ہیں۔ اس دوران اسی برس (پندرہ سو اڑسٹھ سے سولہ سو اڑتالیس) تک ہالینڈ کے علاقے جن پر اسپین کے شہنشاہ نے قبضہ کیا ہوا تھا۔ اپنی آزادی کے لیے جنگ لڑتے رہے، جب کہ اسی دوران تیس برس (سولہ سو اٹھارہ سے سولہ سو اڑتالیس) تک یورپی ممالک مقدس رومن سلطنت میں مذہبی جنگ میں بھی مبتلا رہے۔ ان دونوں خوں ریز جنگوں کا اختتام بھی طویل ترین ''ویسٹ فیلیا مذاکرات'' ہی کے باعث ممکن ہوا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مذاکرات کے دوران جنگ بھی جاری رہی اور مذاکرات بھی چلتے رہے۔ فرڈیننڈ ثانی جو جرمنی کا شہنشاہ تھا اس تیس سالہ جنگ کی ابتدا کا ذمہ دار تھا۔ عیسائیوں کے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے مابین لڑی جانے والی اس جنگ کی تباہ کاریاں پورے یورپ کے طول وعرض پر بھوک، غربت، بیماری، افلاس، قانون شکنی اور ایسی ہی متعدد تکلیفوں کا باعث بنی تھیں۔ ایسے وقت میں امن کی اہمیت سمجھتے ہوئے یورپی اکابرین نے مذہبی اور سیاسی جنگوں کے جنون کو روکنے کے لیے امن مذاکرات کا دور شروع کرنے کا عندیہ دیا اور اس علاقے کو جہاں مذاکرات ہونے تھے غیرفوجی علاقہ قرار دیا گیا۔ اس علاقے میں تمام اہم جنگی قوتوں کے نمائندے جمع ہوتے آپس میں بات چیت کرتے اور پھر اپنے اپنے راہ نماؤں کو اس بات چیت سے آگاہ کرتے۔
اس طرح مذاکرات کا سلسلہ سال ہا سال چلتا رہا۔ مذاکرات کی وسعت اور اثرپذیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان مذاکرات میں سولہ یورپی ریاستیں، چھیاسٹھ شاہی نمائندے جو ایک سوچالیس شاہی ریاستوں کی نمائندگی کررہے تھے، جب کہ اڑتیس مختلف گروہوں کے ستائیس نمائندوں نے حصہ لیا۔ یہ مذاکرات یورپ کے وسطی علاقے اونس برگ اور شمالی شہر میونسٹر میں منعقد ہوئے، جہاں سے اٹھارہ دن کی مسافت کے بعد نمائندے اپنے اپنے نکات اور مذاکرات اپنے راہ نماؤں کو پیش کرتے اور واپسی میں بھی اتنا ہی سفر طے کرتے۔ بعدازاں چوبیس اکتوبر سولہ سو اڑتالیس کو ''ویسٹ فیلیا'' کے مقام پر معاہدے پر دست خط ہوئے یہ مقام موجودہ دور میں جرمنی میں واقع ہیں۔ مذاکرات کے بعد طے پانے والے معاہدے میں عبادات میں آزادی، تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک، نئے سرے سے علاقوں کی حد بندی، تجارتی آزادی اور نقل حمل کی آزادی دی گئی چار صدیاں گزرنے کے باوجود آج یورپی یونین کا موجودہ خاکہ درحقیقت معاہد ہ ویسٹ فیلیا کی ہی ایک جدید شکل ہے۔
مذاکرات اور کورین جنگ بندی کا معاہدہ
Korean Armistice Agreement
شمالی اور جنوبی کوریا میں انیس سو پچاس سے انیس سو ترپن تک جنگ پورے زوروشور سے جاری رہی اور دونوں ممالک گذشتہ چھے دہائیوں سے مستقل حالت جنگ میں ہیں۔ تاہم ستائیس جولائی انیس سو ترپن میں امریکا کے لیفٹیننٹ جرنل ولیم ہیریسن جونئیر نمائندہ اقوام متحدہ کی ''یونائٹڈڈ نیشن کمانڈ''، شمالی کوریا کے جنرل ''نیام دوئم'' اور چین کی ''والینٹرآرمی'' اور جنوبی کوریا کے نمائندوں کے درمیان کام یاب مذاکرات کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا۔ انتہائی اہمیت کے حامل اس معاہدے کے لیے مذاکرات دس جولائی انیس سو اکیاون میں شروع ہوئے اور تقریباً دو سال بعد پایہ تکمیل کو پہنچے۔ اگرچہ مذاکرات جنگ ختم کرانے یا مسئلے کو پرامن حل تک لے جانے میں ناکام رہے، تاہم مذاکرات کے نتیجے میں دو بڑی قوتوں کے درمیان فی الحال جنگ بندی قائم ہے۔
کوریا کے علاوہ وہ بڑی جنگیں اور تنازعات جو مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی اور بعد ازاں پرامن معاہدوں میں تبدیل ہوئے ان میں پندرہ سو سینتیس میں ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں ''ڈینش وار'' اور سولہ سو پینتیس میں پرتگال اور سوئیڈن کے مابین ہونے والی جنگ، انیس ستمبر انیس سو چوالیس میں فن لینڈ اور سوویت یونین کے مابین جنگ، بیس جولائی انیس سو چون میں فرانس اور ویت من کے درمیان پہلی انڈو چائنا جنگ اور انیس سو چونسٹھ میں الجزائر میں ہونے والی جنگوں کا اختتام مذاکرات کی کوکھ ہی سے جنم لینے والے پرامن معاہدوں کے باعث تاریخ کے صفحوں میں محفوظ ہیں۔ ایسے ہی معاہدے اسرائیل اور اس کے پڑوسی ممالک، مصر، اردن، شام اور لبنان کے مابین انیس سو انچاس میں طے پاچکے تھے لیکن امریکا اور اس کے بغل بچے اسرائیل کی ہٹ دھرمیوں کے باعث جنگ بندی اور امن معاہدے ہوا میں تحلیل ہوتے رہتے ہیں۔
جنوبی افریقہ امن مذاکرات
Negotiations to end apartheid in South Africa
جنوبی افریقہ کی سفید فام حکومت انیس سو اڑتالیس سے سیاہ فام افراد سے نسلی امتیاز کی پالیسی پر گامزن تھی اس پالیسی کے تحت سیاہ فام افراد کو جنوبی افریقہ کے سیاسی معاملات سے لے کر روزمرہ کے معاملات میں حصہ لینے پر پابندی تھی۔ اس پابندی کے تحت انیس سو ساٹھ سے انیس سو نوے تک سیاہ فام افراد کی سیاسی تنظیم ''افریقن نیشنل کانگریس'' سمیت دیگر سیاہ فام جماعتوں کا سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا ممنوع تھا۔ تاہم ستائیس برس تک قید گزارنے والے عظیم راہ نما نیلسن منڈیلا کی ولولہ انگیز قیادت کے باعث چار مئی انیس سو نوے کو جنوبی افریقہ کے سفید فام صدر ایف ڈبلیو ڈی کلرک اور نیلسن میڈیلا کی قیادت میں افریقن نیشنل کانگریس کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے۔ اٹھارہ نومبر انیس سو ترانوے کو مختلف نشیب وفراز کے بعد کام یابی سے ہم کنار ہونے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں ستائیس اپریل انیس سو چورانوے کو عام انتخابات ہوئے، جن میں افریقن نیشنل کانگریس نے باسٹھ فی صد ووٹ لے کر نیلسن منڈیلا کی قیادت میں حکومت قائم کی۔ بعدازاں اگلے سال جنوبی افریقہ نے متفقہ آئین بھی تشکیل دیا اور مذاکرات میں طے پانے والے نکات کے تحت نسل کشی اور نسلی امتیاز کے بارے میں حقائق جاننے کے لیے کمیشن قائم کیا گیا، جس کی سفارشات کی روشنی میں نسلی امتیاز اور نسل کشی کے مجرموں کو سزائیں دی گئیں۔
روس جاپان جنگ مذاکرات او ر معاہدہ
Treaty of Portsmouth
آٹھ فروری انیس سو چار سے پانچ ستمبر انیس سو پانچ تک جاری رہنے والی یہ جنگ جو روس اور جاپان کے مابین سمندری رقبے کے حصول کے لیے لڑی جارہی تھی۔ امریکی صدر تھیوڈور روز ویلٹ کی کوششوں سے اختتام پذیر ہوئی۔ وہ دونوں ممالک کے چیدہ چیدہ راہ نماؤں جن میں روس کے''سر جیو وٹ'' اور ''رومانوچ روزن'' اور جاپان کے ''کومارا جتومارا ''اور ''تاخیرا کوگورہ''، شامل تھے، کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کام یاب رہے۔ یہ مذاکرات امریکی ریاست نیوہیمپشائر کے علاقے پورٹس ماؤتھ میں ہوئے۔ اسی نسبت سے انہیں ''مذاکرات پورٹس ماؤتھ'' کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ان مذاکرات کے بعد روز ویلٹ کو امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔
جناح گاندھی مذاکرات 1944
دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے قریب انیس سو چوالیس میں یہ مذاکرات قائداعظم کی ممبئی کی رہائش گاہ مالا بار ہل میں منعقد ہوئے نو ستمبر سے ستائیس ستمبر انیس سو چوالیس میں انیس دن تک جاری رہنے والے ان مذاکرات کا ایجنڈا تقسیم ہند کے بعد کی صورت حال پر یکسو ہو کر کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنی تھی بنیادی طور پر یہ مذاکرات گاندھی جی کے دست راست اور تقسیم ہند کے بعد بھارت کے پہلے گورنر جنرل چکرورتی راج گوپال اچاریہ کی تجویز پر منعقد کیے گئے تھے۔
انہوں نے گاندھی جی کی جانب سے حمایت حاصل کرنے کے بعد اپنے مذاکراتی نکات اٹھارہ اپریل انیس سو چوالیس کو قائداعظم کو بھیجے بعدازاں نو ستمبرسے ستائیس ستمبر تک یہ مذاکرات ہوئے جس کے دوران دونوں راہ نماؤں کے درمیان چودہ ملاقاتیں اور اکیس خطوط کا تبادلہ بھی ہوا۔ تاہم مفاہمت کے نام پر شروع کیے گئے۔ گاندھی جی کی مذاکرات میں ذاتی حیثیت میں شرکت، انگریزوں کے انخلا کے بعد اقلیتوں کے تحفظ کے بارے میں کسی واضح شق کا نہ ہونا، مسلمانوں کوجداگانہ قوم نہ ماننا اور ان نکات پر عمل درآمد کو انگریزوں کے انخلاء سے مشروط کرنے کے باعث یہ مذاکرات ناکام ہوگئے تھے۔
مذاکرات اور امریکا کی جنگ آزادی
American Revolutionary War
امریکا طویل عرصے تک برطانیہ کی نوآبادی رہا ہے۔ اس دوران جب برطانیہ کی جانب سے امریکی نوآبادیوں پر مختلف تجارتی محصول اور روز مرہ کے معاملات میں دخل اندازی میں اضافہ ہوتا گیا تو برطانوی حکم رانوں کے خلاف ردعمل شروع ہوگیا اور امریکی ریاستوں کے باشندوں نے برطانوی افواج کے خلاف جنگ شروع کردی اور اس طرح امریکا کی جنگ آزادی انیس اپریل سترہ سو پچھتر کو شروع ہوئی اور اس کا اختتام تین ستمبر سترہ سو تیراسی کو اس وقت ہوا جب امریکی ریاستوں کے چار نمائندوں جان ایڈم، بینجمن فرینکلن جان جے اور ہنری لیورنس نے برطانیہ عظمی کے بادشاہ جارج سوئم کے نمائندے ڈیوڈ ہیرٹلے اور رچرڈ اوسولڈ سے اپنی شرائط منوانے کے لیے پیر س میں مذاکرات شروع کیے۔ ان مذاکرات کو ''معاہدۂ پیرس سترہ سو تیراسی'' بھی کہا جاتا ہے۔ درحقیقت مذاکرات کے دوران پیش کیے گئے نکات ہی نے امریکا کو دنیا میں پنپنے کا موقع دیا، کیوں کہ اس دوران نہ صرف تجارتی سہولیات حاصل کی گئیں بل کہ امریکا کی اس وقت کی تیرہ ریاستوں پر سے تاج برطانیہ کا ہر حق اور قانون ختم کردیا گیا۔ اس کے علاوہ اس بات کی توثیق کی گئی کہ امریکا اپنی مغربی سرحدوں کو پھیلانے میں خود مختار ہوگا۔
اس کے علاوہ ماہی گیری کے حقوق، دریائے مسی سپی میں جہاز رانی کے حقوق اور ضبط شدہ جائیدادیں واگزار کرانے کی شقیں بھی منوائی گئیں۔ واضح رہے کہ برطانیہ نے اکتوبر سترہ سو اکیاسی کو ہتھیا ر ڈالنے کے باوجود مذاکرات کی میز پر آنے میں ڈیڑھ سال کا عرصہ لیا، لیکن اس کے باوجود امریکا کی آزادی کو نہ روک سکا۔ یہاں اس امر کا بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ امریکا کا اعلان آزادی اگرچہ چار جولائی سترہ سو چھتر کو کردیا گیا تھا لیکن اس اعلان نامے کی عالمی سطح پر توثیق تین ستمبر سترہ سو تیراسی کو مذکورہ مذاکرات کے بعد ہی ملی۔
دنیا کے اہم مذاکرات کار
یوں تو دنیا میں مختلف سیاسی تنازعات کے حل کے لیے مختلف سطحوں پر سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ تاہم کچھ افراد مذاکرات کاری کے شعبے میں اپنی کام یابیوں کے باعث بطور حوالہ استعمال کیے جاتے ہیں۔
ان افراد میں روس کے سابق وزیر اعظم نکیتا خروشیف، امریکا کے صدور جان ایف کینیڈی، فرییکلن ڈی روز ویلٹ، سیکرٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر، آٹھویں صدی عیسوی سے تعلق رکھنے والے انگلستان کے بادشاہ کنگ ایلفریڈ دی گریٹ، قدیم مصر کے انیسویں خاندان کا تیسرا فرماں رواں رمسیس دوئم، فرانس کے مدبر صدر چارلس ڈی گال اور ترکی کے انقلابی رہنما مصطفی کمال اتاترک قابل ذکر ہیں۔