موجودہ سیاسی صورتحال
عوام ماضی کی حکمرانی سے بے زار تھے اور سمجھ رہے تھے کہ انھیں ایک مسیحا مل گیا ہے
2018ء میں تحریک انصاف کو اقتدار ملا تو پارٹی کے ذمے داران 2028ء تک اقتدار میں رہنے کے جو دعوے کر رہے تھے وہ قابل یقین اس لیے بھی تھے کہ عمران خان کے ساتھ بڑی امیدیں اور اچھی توقعات وابستہ تھیں۔
عوام ماضی کی حکمرانی سے بے زار تھے اور سمجھ رہے تھے کہ انھیں ایک مسیحا مل گیا ہے جو انھیں ماضی کی حکومتوں کے دیے گئے مسائل سے نجات دلا دے گا اورتحریک انصاف کی قیادت کے دعوے بھی ایسے ہی تھے۔ ان کے بقول ان کے پاس بہترین حکومتی ٹیم تھی جو ملک کو معاشی بدحالی سے نکال دے گی اور ملک ہی نہیں عوام میں بھی اچھی تبدیلی آئے گی۔
مولانا فضل الرحمن تو حکومت اور اسمبلیوں کو مان ہی نہیں رہے تھے مگر ملک میں جمہوریت کی خاطر دو بڑی اپوزیشن پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی حکومت کو تسلیم کرکے انھیں اپنی 5 سالہ مدت پوری کرنے کا عندیہ ہی نہیں دیا تھا بلکہ حکومت کو میثاق معیشت کی بھی پیشکش کی تھی مگر حکومت کا خیال تھا کہ اپوزیشن رہنما احتساب سے بچنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف نے آتے ہی کوشش کی کہ میاں شہباز شریف اپوزیشن لیڈر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نہ بنیں مگر اپوزیشن نے ایسا نہ ہونے دیا اور وہ ہوگیا جو حکومت نہیں چاہتی تھی۔ اپوزیشن لیڈر سے وفاقی وزیروں نے مستعفی ہونے کے مطالبے بھی شروع کردیے۔ حکومت نے اپوزیشن کی پیشکش ٹھکرا کر جب جارحانہ رویہ اختیارکیا تو اپوزیشن نے بھی حکومت کے خلاف محاذ کھولدیا جو اسے برا لگا اور حکومت نے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔
جواب میں اپوزیشن نے جو عددی طور پر حکومت سے کچھ ہی کم تھی اسے آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا ۔ پہلے سال ہی حکومت اور اپوزیشن میں جو کشیدگی شروع ہوئی تھی ، وہ دو سالوں میں عروج پر پہنچ گئی اور اپوزیشن پی ڈی ایم کی صورت میں حکومت کے خلاف متحد ہوگئی مگر حکومت نے بگڑتی سیاسی صورت حال کو سنجیدگی سے نہیں لیا جس کے ڈیڑھ سال بعد منتشر اپوزیشن نے ٹوٹنے کے بعد پارلیمانی طور پر خود کو پھر متحد کرلیا اور آخر کار اپوزیشن نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی۔
اپوزیشن نے پہلے تحریک عدم اعتماد کا عندیہ دیا تو وزیروں نے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے تند وتیز بیانات سے اپوزیشن کو اتنا مشتعل کیا کہ اسے 8 مارچ کو قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانا ہی پڑی۔ بعض وفاقی وزرا کو اندازہ تھا کہ حکومت کو اپنے چار اتحادیوں کے 20 ووٹوں کے باعث ہی ایوان میں اکثریت حاصل ہے مگر ساڑھے تین سالوں میں وفاقی وزرا مسلسل اپوزیشن کے خلاف بیان بازی کرتے رہے۔
شاید وزیروں کواس امر سے زیادہ دلچسپی تھی کہ تحریک عدم اعتماد جلد پیش ہو۔ وفاقی وزرا اپنے بیانات سے یہ تاثر دیتے رہے کہ حکومت ملک میں ریکارڈ مہنگائی، بے روزگاری اور کشیدہ سیاسی صورت حال کے باوجود مقبولیت میں عروج پر اور اپوزیشن عوام میں غیر مقبول اور کمزور ہے جو حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔
وفاقی وزیروں کے بیانات اور بلند و بالا دعوؤں سے یہ تاثر دیا کہ وزیر اعظم عالمی سطح پر بھی مقبول ہیں ان کے سوا عوام کسی کے ساتھ نہیں۔اور وزیر اعظم کو ملنے والی حمایت کی مثال نہیں ملتی۔ وفاقی وزراء حقائق کے خلاف بیانات دیتے رہے کہ تمام اتحادی حکومت کے ساتھ ہیں۔
وزیر اعظم کو یہ تاثر دیا گیا کہ وہ اتحادیوں کے پاس جانے پر مجبور تو ہوئے مگر انھوں نے اتحادیوں سے عدم اعتماد پر مدد تک کو نہیں کہا اور وزیروں نے خود بیان داغ دیے کہ اتحادیوں نے حمایت کی وزیر اعظم کو یقین دہانی کرادی ہے جبکہ وزیر اعظم نے کسی اتحادی سے مدد مانگی ہی نہیں اور سمجھ لیا کہ ان کا اتحادیوں کے پاس چلے جانا ہی کافی ہے۔
بعض وفاقی وزراء نے تو اتحادیوں پر الزامات لگانے سے بھی پرہیز نہیں کیا جس نے صورت حال کو مزید خراب کردیا اور حکومت سے پہلے سے ہی غیر مطمئن اتحادیوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ وزیر اعظم کے دیر کے جلسے کی تقریر میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں پر تابڑ توڑ حملے کیے گئے۔
نیوٹرل ہو جانے والوں کو جانور کہہ دیا اور حافظ آباد میں کہہ دیا کہ ریاست، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری اچھائی کے ساتھ کھڑا ہونے کی ہے۔ ایک طرف اپوزیشن رہنما... پی ٹی آئی رہنما اور ارکان اسمبلی کی ایک تعداد کے اپنے حمایتی ہونے کا اعلان کر رہے ہیں، ٹکٹ نہ لینے کے اعلانات کر رہے ہیں تو حکومت ڈی چوک پر ہجوم جمع کرنے اور آئین کے برعکس اقدامات کا اعلان کرچکی ہے۔ کیا اس ساری صورت حال کی ذمہ دار خود حکومت ہے جو اب بھی حقائق تسلیم نہیں کر رہی اور حکومت وزراء کے اعلانات سے اپوزیشن فائدے اٹھا رہی ہے۔