ایرانی سرحدی محافظین کا اغوا
ایرانی حکومت بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کی خواہاں ہے...
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ایران کے سفیر علی رضا حقیقیان نے جمعہ کو ملاقات کی۔ وزارت داخلہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق ایرانی سفیر سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات مشترکہ تاریخی، ثقافتی، مذہبی، اقتصادی اور علاقائی روابط کی بنیاد پر استوار ہیں ۔ پاکستان اور ایران نے بلوچستان سے ملحقہ پاک ایران سرحد پر شرپسندوں کی کارروائیوں پر نظر رکھنے کے لیے مشترکہ کمیٹی تشکیل دے دی ۔ پاکستان ایران کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے لیے پرعزم ہے اور ہم اپنی دوستی کو پورے خطے کے لیے مثال بنانا چاہتے ہیں ۔ وزیر داخلہ نے یہ بیان دے کر در حقیقت ان عناصر کے مکروہ عزائم سے دونوں برادر ملکوں کو خبردار کیا ہے جنھوںنے ایرانی سرحدی گارڈز کے اغوا کے ذریعے پاک ایران تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی سازش کی ہے، یہ شرانگیزی اور اشتعال انگیز کارروائی ہے جس کے لیے مشترکہ کمیٹی کا قیام بر وقت ہے۔ چوہدری نثار کا یہ مشورہ بھی صائب ہے کہ میڈیا کے ذریعے اپنے خیالات پھیلانے کی بجائے زیادہ بہتر ہو گا کہ معاملات میز پر بیٹھ کر طے کیے جائیں ۔اس وقت خطے کی صورتحال گمبھیر ہے، دونوں ممالک اور ان کی سلامتی کے اداروں کو پاک ایران سرحد ''ریموٹ ریجن'' کو عام شہریوں کے لیے محفوظ اور عسکریت پسندوں کے لیے نوگو ایریا بنانے کے لیے بلاشبہ مل کر کام کرنے کا ہمہ وقتی میکنزم وضع کرنا چاہیے اور پاکستان ،ایران اور افغانستان کے درمیان نو مینز لینڈ کو تخریب کاری اور باغیانہ سرگرمیوں سے بچانے کے لیے سیکیورٹی زون بنایا جائے ۔
ایرانی سفیر نے کہا کہ ایرانی حکومت بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کی خواہاں ہے۔ ایرانی حکومت وزیراعظم نواز شریف کے ایران کے دورے کی منتظر ہے جس سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو مزید مستحکم بنانے میں مدد ملے گی ۔ دونوں ممالک نے مکران میں نئے تجارتی گیٹ کھولنے، قیدیوںکی حوالگی کے معاہدے پر عملدرآمد اور باہمی تعلقات سمیت تجارتی روابط بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے ۔اصل میں یہ تناؤ ایرانی وزیر داخلہ عبدالرزاق رحمانی کے اس انتباہ سے پیداہوا جس میں انھوں نے سرحدی محافظین کی بازیابی کے لیے پاکستان کے اندر آپریشن کی دھمکی دی۔اس پر پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی تشویش کا اظہار کیا۔ ادھر کوئٹہ میں پاک ایران مشترکہ بارڈر کمیشن کے اجلاس کے اختتام پر ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے ڈپٹی گورنر علی اصغر میر شکاری اور چیف سیکریٹری بلوچستان بابر یعقوب فتح محمد نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اجلاس کی تفصیل بتائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت اور عوام کو پانچ اہلکاروں کے اغوا پر سخت تشویش ہے، ایسے واقعات نہیں ہونے چاہئیں،ایرانی مغوی اہلکاروں کو فوری بازیاب کرایا جائے۔ چیف سیکریٹری بلوچستان کے مطابق ایرانی حکام کو یقین دلایا گیا ہے کہ ایرانی اہلکاروں کی بازیابی کے لیے مکمل تعاون کریں گے ۔ تاہمایرانی حکام کا یہ کہنا کہ پاکستان ایران سے ملنے والے سرحدی علاقوں پر مکمل کنٹرول نہیں رکھتا، تمام کنٹرول القاعدہ کے پاس ہے، زمینی حقائق سے مناسبت نہیں رکھتا۔ پاکستان خود داخلی طور پر مائل بہ تشدد اور قانون شکن عناصر سے نبرد آزما ہے ۔
گذشتہ روز ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ایرانی گارڈز کے اغوا کے معاملے پر پاکستانی اور ایرانی حکام دوبارہ کوئٹہ میں ملاقات کریںگے جہاں 5 گارڈز کے اغوا سے متعلق تفصیلی بات کی جائے گی ۔توقع کی جانی چاہیے کہ پاک ایران قیادت معاملات کو دوطرفہ پر امن بات چیت سے سلجھائے گی ۔ حال ہی میں چیئرمین سینیٹ سید نیئرحسین بخاری نے اپنے وفد کے ہمراہ ایران کے صدرحسن روحانی سے ملاقات کی ۔ یہ خیر سگالی دورہ باہمی اعتماد اورتعاون کو مزیدوسعت دینے اورمسائل کے حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوگا ۔ ایران نے پاکستان کو تین ہزار میگاواٹ بجلی برآمد کرنے کی پیش کش کی ہے ،تاہم وزارت پانی و بجلی کا کہنا ہے حکومت سے ابتدائی طور پر ایک ہزار میگاواٹ بجلی درآمد کرنے کی منظوری لی جارہی ہے۔ ایران سے پہلے ہی ساٹھ میگاواٹ بجلی درآمد کی جارہی ہے۔ضرورت اس امر کی کہ پاک ایران بھائی چارے،دوطرفہ مصالحت ،برادرانہ تعلقات اور باہمی اعتماد و اشتراک عمل کو مزید مستحکم کرنے پر توجہ دی جائے۔
ایرانی سفیر نے کہا کہ ایرانی حکومت بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کی خواہاں ہے۔ ایرانی حکومت وزیراعظم نواز شریف کے ایران کے دورے کی منتظر ہے جس سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو مزید مستحکم بنانے میں مدد ملے گی ۔ دونوں ممالک نے مکران میں نئے تجارتی گیٹ کھولنے، قیدیوںکی حوالگی کے معاہدے پر عملدرآمد اور باہمی تعلقات سمیت تجارتی روابط بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے ۔اصل میں یہ تناؤ ایرانی وزیر داخلہ عبدالرزاق رحمانی کے اس انتباہ سے پیداہوا جس میں انھوں نے سرحدی محافظین کی بازیابی کے لیے پاکستان کے اندر آپریشن کی دھمکی دی۔اس پر پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی تشویش کا اظہار کیا۔ ادھر کوئٹہ میں پاک ایران مشترکہ بارڈر کمیشن کے اجلاس کے اختتام پر ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے ڈپٹی گورنر علی اصغر میر شکاری اور چیف سیکریٹری بلوچستان بابر یعقوب فتح محمد نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اجلاس کی تفصیل بتائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت اور عوام کو پانچ اہلکاروں کے اغوا پر سخت تشویش ہے، ایسے واقعات نہیں ہونے چاہئیں،ایرانی مغوی اہلکاروں کو فوری بازیاب کرایا جائے۔ چیف سیکریٹری بلوچستان کے مطابق ایرانی حکام کو یقین دلایا گیا ہے کہ ایرانی اہلکاروں کی بازیابی کے لیے مکمل تعاون کریں گے ۔ تاہمایرانی حکام کا یہ کہنا کہ پاکستان ایران سے ملنے والے سرحدی علاقوں پر مکمل کنٹرول نہیں رکھتا، تمام کنٹرول القاعدہ کے پاس ہے، زمینی حقائق سے مناسبت نہیں رکھتا۔ پاکستان خود داخلی طور پر مائل بہ تشدد اور قانون شکن عناصر سے نبرد آزما ہے ۔
گذشتہ روز ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ایرانی گارڈز کے اغوا کے معاملے پر پاکستانی اور ایرانی حکام دوبارہ کوئٹہ میں ملاقات کریںگے جہاں 5 گارڈز کے اغوا سے متعلق تفصیلی بات کی جائے گی ۔توقع کی جانی چاہیے کہ پاک ایران قیادت معاملات کو دوطرفہ پر امن بات چیت سے سلجھائے گی ۔ حال ہی میں چیئرمین سینیٹ سید نیئرحسین بخاری نے اپنے وفد کے ہمراہ ایران کے صدرحسن روحانی سے ملاقات کی ۔ یہ خیر سگالی دورہ باہمی اعتماد اورتعاون کو مزیدوسعت دینے اورمسائل کے حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوگا ۔ ایران نے پاکستان کو تین ہزار میگاواٹ بجلی برآمد کرنے کی پیش کش کی ہے ،تاہم وزارت پانی و بجلی کا کہنا ہے حکومت سے ابتدائی طور پر ایک ہزار میگاواٹ بجلی درآمد کرنے کی منظوری لی جارہی ہے۔ ایران سے پہلے ہی ساٹھ میگاواٹ بجلی درآمد کی جارہی ہے۔ضرورت اس امر کی کہ پاک ایران بھائی چارے،دوطرفہ مصالحت ،برادرانہ تعلقات اور باہمی اعتماد و اشتراک عمل کو مزید مستحکم کرنے پر توجہ دی جائے۔