وہ دن ضرور آئے گا
چلی میں سفاکانہ انداز میں جنرل آگسٹو پنوشے نے سلوا ڈور آلندے کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا
یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں تو ٹیلی ویژن کے ہر چینل پر بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے چوتھے ڈکٹیٹر جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیلوں کی یہ درخواست مسترد کر دی گئی کہ ان کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جائے۔ ان کی اگلی پیشی 11 مارچ کو قرار پائی ہے۔ ان کے وکیلوں نے اس فیصلے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ یہ غلط اور تعصب پر مبنی ہے۔ ایک جمہوری ملک میں ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے، جسے سلب نہیں کیا جا سکتا۔ بات اتنی سی ہے کہ وہ لوگ جو کسی آمر سے محبت کرتے ہیں، وہ آمر سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ان لوگوں کی کمی نہیں جو مختلف آمروں سے اپنی غیر مشروط وابستگی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ مصر کے کئی ادیبوں نے آمروں کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شاہ فاروق کی بادشاہی سے نجات کے بعد ان پر یکے بعد دیگرے فوجی آمر مسلط ہوتے رہے اور ملک کی بُنت اور وحدت کو پارہ پارہ کرتے رہے۔ ان میں حالیہ مثال حسنی مبارک کی ہے کہ انھوں نے جب بھی صدارتی ریفرنڈم کرایا انھیں 90 یا 95 فی صد سے کم ووٹ نہ مل سکے۔ اتنی عظیم الشان حمایت رکھنے کے باوجود جب وہ اقتدار سے رخصت کیے گئے اور ان پر مقدمہ چلنا شروع ہوا تو وہ کمرۂ عدالت میں پنجرے کے اندر کھڑے کیے جاتے رہے۔
یہ تمام باتیں اس لیے یاد آ رہی ہیں کہ اکتوبر 1958ء سے اکتوبر 1999ء تک ہم نے چار آمروں کی آمریت برداشت کی۔ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف۔ یہ لوگ ملک کو جن اندھیروں میں دھکیل گئے ان سے ہمیں آج تک نجات نہیں مل سکی ہے۔ 2008ء سے جمہوریت کا آغاز ہوا ہے لیکن یہ پودا ابھی اتنا نرم و نازک ہے کہ ذرا سی باد سموم بھی ہمیں دہلا دیتی ہے۔ اس موقعے پر ہمیں ایک مصری دانش ور کی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں جہاں بھی آمریت ہوتی ہے وہاں نجات کا دن ضرور آتا ہے اور لوگ یک زبان ہو کر یہ عالمی گیت گاتے ہیں کہ الوداع جناب آمرِ مطلق الوداع۔ یہ عالمی قانون ہے۔ اسی عالمی قانون کے تحت ہم نے بھی آمریت کو الوداع کہا ہے۔ اس موقع پر کچھ لوگ بار بار اس بات سے ڈراتے ہیں کہ اب ایک اور مشفق مہربان آئے گا اور ہمیں تمام مصائب سے نجات دلا دے گا۔ ایسے لوگوں سے دلی ہمدردی رکھتے ہوئے جنوبی امریکا کے ایک مرد آہن آگسٹو پنوشے کی یاد آتی ہے جو صرف 40 برس پہلے چلی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوا تھا اور جس نے بیسویں صدی کے بدترین آمروں میں ممتاز مقام حاصل کیا تھا۔
آج لوگوں کو شاید یاد نہیں کہ ریاست چلی میں آلندے کا تختہ کس خونیں انداز میں الٹا گیا تھا اور سیاسی طور پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کے ساتھ کس قدر بہیمانہ سلوک کیا گیا تھا۔ میں نے اپنی ایک کہانی ''جسم و زباں کی موت سے پہلے'' میں اس کا بیان یوں کیا تھا ''سان تیاگو کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہزاروں جوتے رہ گئے تھے۔ ان کے پہننے والے چلے گئے تھے۔ ہر سائز کے ہر رنگ کے جوتے، ان کے پہننے والوں میں آٹھ اور نو سال کے بچے تھے، بوڑھے کلرک تھے، مزدور اور شاعر تھے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے کارکن تھے، صحافی اور ادیب اور ان میں واکٹر جارا تھا۔ چلی کا مقبول ترین گلوکار۔ بستیوں اور شہروں کی حفاظت کرنے والوں اور اس حفاظت کی کمائی کھانے والوں نے اپنے شہروں اور نہتے شہریوں کو جب فتح کیا تو وہ ہزاروں کو کھدیڑ کر اسٹیڈیم میں لے آئے۔ وہ اسٹیڈیم جس میں کھلاڑیوں کی ہنر مندی دیکھی جاتی تھی اور جہاں فاتحوں پر پھول پھینکے جاتے تھے، اسی میں نہتوں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ پھر وہ وکٹر جارا کو گھسیٹتے ہوئے اور سنگین چبھوتے ہوئے لائے۔ وکٹر کو لانے والے اپنی مدح سننا چاہتے تھے تا کہ اسے معاف کر سکیں۔ لیکن جب اس کے گلے سے ان کے لیے کوئی آواز نہ نکلی تو انھوں نے اسے مارا، اس پر تھوکا، اس کی انگلیاں توڑیں اور پھر بھی جب وہ گونگا رہا تو ایک میز لائی گئی جس پر سفید میز پوش پھڑپھڑا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میز پر رکھے گئے اور ٹوٹی ہوئی انگلیوں کو چاپر کی ایک ضرب سے کاٹ دیا گیا۔ جیسے بڑے ہوٹلوں کے باورچی خانوں میں گاجریں، مولیاں اور ککڑیاں کاٹی جاتی ہیں۔
اپنی ایک دوسری کہانی ''ہُوا پھر سے حکم صادر'' میں جنرل پنوشے کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سان تیا گو پر اور اس کے شہریوں پر جو گزری اسے یوں بیان کیا تھا: ''مشین گن کا برسٹ، چوڑی سڑکوں پر گشت کرنے والے ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ، گلیوں اور بازاروں سے اٹھتی ہوئی خون اور گوشت کی سڑاند۔ جنرل پنوشے کے اقتدار پر قبضے کے تیسرے دن وہ شخص ختم ہوا جس کی شاعری پر چلی کے اور دنیا جہان کے لوگ فدا تھے۔ وہ پابلو نرودا جو اپنی نظموں کی ہر سطر سبز روشنائی سے لکھتا تھا۔ سبز رنگ جو بہار کا، امید اور زندگی کا رنگ تھا۔ جس کی نظمیں ہمارے فیضؔ نے اردو کے قالب میں ڈھالی تھیں۔ اس کے شاندار گھر کو میری آنکھوں نے اس حال میں دیکھا کہ دروازے فوجی بوٹوں کی ٹھوکروں اور رائفلوں کے کندوں سے توڑ دیے گئے تھے۔ کھڑکیوں کا کوئی شیشہ سلامت نہ تھا، وہ کینوس جس پر پکا سونے رنگوں اور لکیروں کی مدد سے ایک شاہکار بنایا تھا اسے سنگین کی نوک سے چاک کر دیا گیا تھا۔ پابلو کی تحریریں اور اس کی کتابیں راکھ کا ڈھیر تھیں۔ صوفے ادھیڑ دیے گئے تھے پھر انھوں نے اس گھر میں پانی چھوڑ دیا۔ پانی جو حیات کی اصل ہے اور جس میں پہلا ذی حیات خلیہ کلبلایا تھا۔ اسی حیات آفریں پانی سے زندہ چیزوں پر موت مسلط کر دی گئی تھی... پابلو کا جنازہ اٹھا۔ دنیا بھر کے اخبار نویسوں کا ایک ہجوم تھا۔ شہر میںکرفیو تھا، اس کے باوجود میں نے شہر کے ہزاروں لوگوں کو اکٹھے ہوتے ہوئے دیکھا۔ میں نے دیکھا عوام کے شاعر کی برات کس شان سے اٹھتی ہے۔''
چلی میں سفاکانہ انداز میں جنرل آگسٹو پنوشے نے سلوا ڈور آلندے کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا، اس کے چند دنوں کے اندر لگ بھگ 3000 لوگ قتل کیے گئے۔ 30 ہزار لوگوں کو ان کی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ملک بھر میں 80 ہزار لوگ حراستی کیمپوں میں رکھے گئے جن میں سے 80 مراکز صرف دارالحکومت سان تیاگو میں تھے۔ اس زمانے کے بارے میں ہیومن رائٹس کمیشن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹیں پڑھیے تو فوجی قبضے کے دوران ہونے والی حقوق انسانی کی ایسی سنگین خلاف ورزیاں سامنے آتی ہیں جو رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔ پنوشے نے اپنے آپ کو ہر طرح کے مقدموں سے استثنیٰ دینے کے لیے جو قوانین بنائے تھے وہ سب دھرے رہ گئے۔ چلی کے دارالحکومت سان تیاگو اور جنرل پنوشے کی یاد اس لیے آ رہی ہے کہ آج ہی ایک معروف صحافی راجر کوہن کی یادداشتیں نظر سے گزری ہیں۔ کوہن نے لکھا ہے کہ 7 ستمبر 1986ء کو بائیں بازو کے گوریلا لڑاکوں نے جب جنرل پنوشے کی مرسی ڈیز پر حملہ کیا تو جنرل کے 5 محافظ مارے گئے اور جنرل صاحب اس لیے ہلاکت سے بچ گئے کہ ایک میزائل پھٹ نہیں سکا تھا۔ اس کے بعد شہر پر اور شہر والوں پر کیسے بھیانک عذاب اور اذیتیں نازل ہوئیں کوہن ان کا چشم دید گواہ تھا۔
پچھلے دنوں 25 برس بعد راجر کوہن نے ایک بار پھر سان تیاگو کا چکر لگایا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پنوشے اور اس کی مطلق العنان حکومت کے لگائے ہوئے زخم بھر گئے ہیں۔ وہاں کے باشندے اب آزاد ہیں اور گلوبل ولیج کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایک خوش حال شہر اور اس کے خوش و خرم لوگ۔ کوہن کو افسوس اس بات کا ہے کہ پنوشے کو انسانیت کے خلاف اس کے جرائم کی سزا نہ مل سکی۔ خوشی ہے تو اس بات کی کہ چلی اب ایک جمہوریہ ہے اور جنوبی امریکا کے دوسرے ملکوں کی نسبت وہاں معاشی استحکام ہے، خوش حالی ہے۔ وہ لوگ جنھوں نے ستمبر 1973ء کے سیاہ دن دیکھے اور جھیلے تھے، وہ لوگ جو اقتدار پر خونیں قبضے کا نوالہ بن گئے وہ اگر آج زندہ ہوکر آ جائیں تو انھیں یقین نہیں آئے گا کہ وہ واقعی چلی میں ہیں اور سان تیاگو کے بھرے پُرے بازاروں سے گزر رہے ہیں اور ان کے چہروں سے خوف کے سائے معدوم ہو چکے ہیں۔ اب وہاں شاداں و فرحاں لوگ ہیں جو اپنی آزادی پر نازاں ہیں۔
ان یادداشتوں کو پڑھ کر میں یہی سوچتی رہی کہ ہم خوف و خطر کے جن سیاہ دنوں میں زندہ ہیں، یہ دن رخصت ہونے والے ہیں۔ وہ دن آنے والے ہیں جب ہماری نئی نسل کے لیے جمہوریت ایک ایسی حقیقت ہو گی جو انھیں اپنے ثمرات سے مالا مال کرے گی۔ سنگین کی نوک سے اقتدار پر قبضہ کرنے کے دن بھلائے جا چکے ہوں گے اور لوگ آزادی اور خوش خیالی سے زندگی بسر کریں گے اور اپنے بچوں کو آمروں کی کہانی سنائیں گے کہ جب آمر آتے تھے تو انسانوں پر زندگی کی ہر خوشی کس طرح حرام ہو جاتی تھی۔
یہ تمام باتیں اس لیے یاد آ رہی ہیں کہ اکتوبر 1958ء سے اکتوبر 1999ء تک ہم نے چار آمروں کی آمریت برداشت کی۔ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف۔ یہ لوگ ملک کو جن اندھیروں میں دھکیل گئے ان سے ہمیں آج تک نجات نہیں مل سکی ہے۔ 2008ء سے جمہوریت کا آغاز ہوا ہے لیکن یہ پودا ابھی اتنا نرم و نازک ہے کہ ذرا سی باد سموم بھی ہمیں دہلا دیتی ہے۔ اس موقعے پر ہمیں ایک مصری دانش ور کی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں جہاں بھی آمریت ہوتی ہے وہاں نجات کا دن ضرور آتا ہے اور لوگ یک زبان ہو کر یہ عالمی گیت گاتے ہیں کہ الوداع جناب آمرِ مطلق الوداع۔ یہ عالمی قانون ہے۔ اسی عالمی قانون کے تحت ہم نے بھی آمریت کو الوداع کہا ہے۔ اس موقع پر کچھ لوگ بار بار اس بات سے ڈراتے ہیں کہ اب ایک اور مشفق مہربان آئے گا اور ہمیں تمام مصائب سے نجات دلا دے گا۔ ایسے لوگوں سے دلی ہمدردی رکھتے ہوئے جنوبی امریکا کے ایک مرد آہن آگسٹو پنوشے کی یاد آتی ہے جو صرف 40 برس پہلے چلی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوا تھا اور جس نے بیسویں صدی کے بدترین آمروں میں ممتاز مقام حاصل کیا تھا۔
آج لوگوں کو شاید یاد نہیں کہ ریاست چلی میں آلندے کا تختہ کس خونیں انداز میں الٹا گیا تھا اور سیاسی طور پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کے ساتھ کس قدر بہیمانہ سلوک کیا گیا تھا۔ میں نے اپنی ایک کہانی ''جسم و زباں کی موت سے پہلے'' میں اس کا بیان یوں کیا تھا ''سان تیاگو کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہزاروں جوتے رہ گئے تھے۔ ان کے پہننے والے چلے گئے تھے۔ ہر سائز کے ہر رنگ کے جوتے، ان کے پہننے والوں میں آٹھ اور نو سال کے بچے تھے، بوڑھے کلرک تھے، مزدور اور شاعر تھے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے کارکن تھے، صحافی اور ادیب اور ان میں واکٹر جارا تھا۔ چلی کا مقبول ترین گلوکار۔ بستیوں اور شہروں کی حفاظت کرنے والوں اور اس حفاظت کی کمائی کھانے والوں نے اپنے شہروں اور نہتے شہریوں کو جب فتح کیا تو وہ ہزاروں کو کھدیڑ کر اسٹیڈیم میں لے آئے۔ وہ اسٹیڈیم جس میں کھلاڑیوں کی ہنر مندی دیکھی جاتی تھی اور جہاں فاتحوں پر پھول پھینکے جاتے تھے، اسی میں نہتوں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ پھر وہ وکٹر جارا کو گھسیٹتے ہوئے اور سنگین چبھوتے ہوئے لائے۔ وکٹر کو لانے والے اپنی مدح سننا چاہتے تھے تا کہ اسے معاف کر سکیں۔ لیکن جب اس کے گلے سے ان کے لیے کوئی آواز نہ نکلی تو انھوں نے اسے مارا، اس پر تھوکا، اس کی انگلیاں توڑیں اور پھر بھی جب وہ گونگا رہا تو ایک میز لائی گئی جس پر سفید میز پوش پھڑپھڑا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میز پر رکھے گئے اور ٹوٹی ہوئی انگلیوں کو چاپر کی ایک ضرب سے کاٹ دیا گیا۔ جیسے بڑے ہوٹلوں کے باورچی خانوں میں گاجریں، مولیاں اور ککڑیاں کاٹی جاتی ہیں۔
اپنی ایک دوسری کہانی ''ہُوا پھر سے حکم صادر'' میں جنرل پنوشے کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سان تیا گو پر اور اس کے شہریوں پر جو گزری اسے یوں بیان کیا تھا: ''مشین گن کا برسٹ، چوڑی سڑکوں پر گشت کرنے والے ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ، گلیوں اور بازاروں سے اٹھتی ہوئی خون اور گوشت کی سڑاند۔ جنرل پنوشے کے اقتدار پر قبضے کے تیسرے دن وہ شخص ختم ہوا جس کی شاعری پر چلی کے اور دنیا جہان کے لوگ فدا تھے۔ وہ پابلو نرودا جو اپنی نظموں کی ہر سطر سبز روشنائی سے لکھتا تھا۔ سبز رنگ جو بہار کا، امید اور زندگی کا رنگ تھا۔ جس کی نظمیں ہمارے فیضؔ نے اردو کے قالب میں ڈھالی تھیں۔ اس کے شاندار گھر کو میری آنکھوں نے اس حال میں دیکھا کہ دروازے فوجی بوٹوں کی ٹھوکروں اور رائفلوں کے کندوں سے توڑ دیے گئے تھے۔ کھڑکیوں کا کوئی شیشہ سلامت نہ تھا، وہ کینوس جس پر پکا سونے رنگوں اور لکیروں کی مدد سے ایک شاہکار بنایا تھا اسے سنگین کی نوک سے چاک کر دیا گیا تھا۔ پابلو کی تحریریں اور اس کی کتابیں راکھ کا ڈھیر تھیں۔ صوفے ادھیڑ دیے گئے تھے پھر انھوں نے اس گھر میں پانی چھوڑ دیا۔ پانی جو حیات کی اصل ہے اور جس میں پہلا ذی حیات خلیہ کلبلایا تھا۔ اسی حیات آفریں پانی سے زندہ چیزوں پر موت مسلط کر دی گئی تھی... پابلو کا جنازہ اٹھا۔ دنیا بھر کے اخبار نویسوں کا ایک ہجوم تھا۔ شہر میںکرفیو تھا، اس کے باوجود میں نے شہر کے ہزاروں لوگوں کو اکٹھے ہوتے ہوئے دیکھا۔ میں نے دیکھا عوام کے شاعر کی برات کس شان سے اٹھتی ہے۔''
چلی میں سفاکانہ انداز میں جنرل آگسٹو پنوشے نے سلوا ڈور آلندے کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا، اس کے چند دنوں کے اندر لگ بھگ 3000 لوگ قتل کیے گئے۔ 30 ہزار لوگوں کو ان کی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ملک بھر میں 80 ہزار لوگ حراستی کیمپوں میں رکھے گئے جن میں سے 80 مراکز صرف دارالحکومت سان تیاگو میں تھے۔ اس زمانے کے بارے میں ہیومن رائٹس کمیشن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹیں پڑھیے تو فوجی قبضے کے دوران ہونے والی حقوق انسانی کی ایسی سنگین خلاف ورزیاں سامنے آتی ہیں جو رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔ پنوشے نے اپنے آپ کو ہر طرح کے مقدموں سے استثنیٰ دینے کے لیے جو قوانین بنائے تھے وہ سب دھرے رہ گئے۔ چلی کے دارالحکومت سان تیاگو اور جنرل پنوشے کی یاد اس لیے آ رہی ہے کہ آج ہی ایک معروف صحافی راجر کوہن کی یادداشتیں نظر سے گزری ہیں۔ کوہن نے لکھا ہے کہ 7 ستمبر 1986ء کو بائیں بازو کے گوریلا لڑاکوں نے جب جنرل پنوشے کی مرسی ڈیز پر حملہ کیا تو جنرل کے 5 محافظ مارے گئے اور جنرل صاحب اس لیے ہلاکت سے بچ گئے کہ ایک میزائل پھٹ نہیں سکا تھا۔ اس کے بعد شہر پر اور شہر والوں پر کیسے بھیانک عذاب اور اذیتیں نازل ہوئیں کوہن ان کا چشم دید گواہ تھا۔
پچھلے دنوں 25 برس بعد راجر کوہن نے ایک بار پھر سان تیاگو کا چکر لگایا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پنوشے اور اس کی مطلق العنان حکومت کے لگائے ہوئے زخم بھر گئے ہیں۔ وہاں کے باشندے اب آزاد ہیں اور گلوبل ولیج کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایک خوش حال شہر اور اس کے خوش و خرم لوگ۔ کوہن کو افسوس اس بات کا ہے کہ پنوشے کو انسانیت کے خلاف اس کے جرائم کی سزا نہ مل سکی۔ خوشی ہے تو اس بات کی کہ چلی اب ایک جمہوریہ ہے اور جنوبی امریکا کے دوسرے ملکوں کی نسبت وہاں معاشی استحکام ہے، خوش حالی ہے۔ وہ لوگ جنھوں نے ستمبر 1973ء کے سیاہ دن دیکھے اور جھیلے تھے، وہ لوگ جو اقتدار پر خونیں قبضے کا نوالہ بن گئے وہ اگر آج زندہ ہوکر آ جائیں تو انھیں یقین نہیں آئے گا کہ وہ واقعی چلی میں ہیں اور سان تیاگو کے بھرے پُرے بازاروں سے گزر رہے ہیں اور ان کے چہروں سے خوف کے سائے معدوم ہو چکے ہیں۔ اب وہاں شاداں و فرحاں لوگ ہیں جو اپنی آزادی پر نازاں ہیں۔
ان یادداشتوں کو پڑھ کر میں یہی سوچتی رہی کہ ہم خوف و خطر کے جن سیاہ دنوں میں زندہ ہیں، یہ دن رخصت ہونے والے ہیں۔ وہ دن آنے والے ہیں جب ہماری نئی نسل کے لیے جمہوریت ایک ایسی حقیقت ہو گی جو انھیں اپنے ثمرات سے مالا مال کرے گی۔ سنگین کی نوک سے اقتدار پر قبضہ کرنے کے دن بھلائے جا چکے ہوں گے اور لوگ آزادی اور خوش خیالی سے زندگی بسر کریں گے اور اپنے بچوں کو آمروں کی کہانی سنائیں گے کہ جب آمر آتے تھے تو انسانوں پر زندگی کی ہر خوشی کس طرح حرام ہو جاتی تھی۔