کب دیکھیں گے وہ دن جس کا وعدہ ہے

ایک مسافر بس سے اترتا ہے اور بس سے قلیوں کی مدد سے اپنا سامان اتارتا ہے اپنے سامنے ڈھیر کیے ہوئے۔۔۔


Saad Ulllah Jaan Baraq February 23, 2014
[email protected]

ہمارے نومولود چینل کب تک کا جو چینل ''ہیاں سے ہواں تک'' کا فرزند ارجمند ہر پروگرام ہٹ جا رہا ہے۔ ہمارے ماہرین نے سروے کیا ہے کہ اس وقت ملک بھر میں عوام کی زبان پر صرف ایک ہی لفظ ہے کب تک؟ کب تک؟ اور کب تک؟ ایک گیت بھی بڑا پاپولر ہو رہا ہے ، اس کا مکرر ہے!

''کب'' دیکھیں گے
لازم ہے مگر ''کب'' دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے

یہ کب تک جب تک اور تب تک کا خاندان بڑا بابرکت خاندان ہے اس لیے ہم نے بھی اس کے ایک رکن کو گھیر لیا ہے کمال اس میں یہ ہے کہ کبھی جب تلک تب تلک بھی ہو جاتے ہیں۔ چلیے باتیں ختم اور پروگرام شروع کرتے ہیں، پروگرام کا آغاز آدمیوں کی ایک دیوار سے ہوتا ہے بلکہ یہ ایک چار دیواری ہے جس کی دیواروں پر، انسان اینٹوں کی طرح چنے ہوئے ہیں،یہ سارے آدمی ننگ دھڑنگ ہیں اور ان کی ہڈیاں پسلیاں ابھری ہوئی ہیں، سب کی زبانیں باہر نکلی ہوئی ہیں، صاف لگتا ہے کہ ان لوگوں میں زبردست بھوک اور پیاس مسلط ہے، اب کیمرہ زوم کرتا ہے تو چار دیواری کے درمیان میں ایک شخص کھڑا ہوا ہے اس نے بھی اپنے اردگرد آدمی لپیٹ رکھے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے اس نے لباس کی جگہ آدمی پہنے ہوئے ہوں، کیمرہ زوم کر کے اس آدمی کی پیٹھ پر آتا ہے جس پر لکھا ہوا ہے محافظ اور پھر اسکرین پر الفاظ ابھرتے ہیں کب تک۔

اس منظر میں ایک آدمی کچھا بنیان پہنے کھڑا ہے سر بھی گنجا ہے اور پیروں میں جوتے بھی نہیں ہیں چار مسلح آدمی اس کی تلاشی لے رہے ہیں ایک کے ہاتھ میں اسٹیل ڈیٹکٹر ہے، ڈیٹیکٹر کو اچھی طرح اس شخص پر گھمانے کے بعد ایک محافظ اس کے منہ کے اندر جھانکتا ہے، منہ کی تلاشی کے بعد دوسرا محافظ اس کے کانوں کو کھنیچ کھنیچ اندر جھانکتا ہے کانوں کی تلاشی کے بعد ایک اور محافظ اس کی ناک اور نتھنوں کو اچھی طرح چیک کرتا ہے پھر اس کے پیٹ کو ٹٹولا جاتا ہے سارے جسم پر ہر جگہ ٹٹول کر چیک کیا جاتا ہے، یہ لوگ اس ننگ دھڑنگ شخص کی تلاشی میں مصروف ہوتے ہیں کہ پیچھے سے ایک آدمی ہر قسم کا اسلحہ اپنے اوپر لادے اور پیٹی کے ساتھ بم لٹکاتے ہوئے گزر جاتا ہے لیکن یہ اس پر ایک نگاہ غلط انداز بھی نہیں ڈالتے۔

اس منظر میں ایک چوراہا دکھایا جاتا ہے جہاں چاروں طرف بڑی بڑی ہنڈیاں چولہوں پر رکھی ہوئی ہیں آگ جل رہی ہے ہر ہنڈیا میں دو دو تین تین آدمی کفگیر ہلا رہے ہیں، کافی دیر تک پکنے کے بعد آگ بجھ جاتی ہے اور ہر ہنڈیا کے اردگرد لوگوں کا ہجوم ہو جاتا ہے ہر ہنڈیا سے دو چار لوگ چِمٹے ہوئے ہیں اور دوسرے کو دھکے دیکر ہنڈیا اپنی طرف کھنیچ رے ہیں پھر ایک ایک کر کے اس کھینچا تانی کے نتیجے میں ہانڈیاں گر جاتی ہیں اور ہانڈیاں چوراہے پر پھوٹ جاتی ہیں، وہ سارے لوگ ہانڈیوں کے ٹکڑے اٹھا کر چاٹنے لگتے ہیں کیمرہ کلوز ہوتا ہے تو ایک ہانڈی کے ٹکڑے پر اے این پی۔۔۔ دوسری ہانڈی کے ٹکڑے پر پی پی پی اور کچھ ٹکڑوں پر پی ٹی آئی لکھا ہوا نظر آتا ہے اور پھر کب تک کے الفاظ اوور لیپ ہو جاتے ہیں۔

ایک شکاری گھات لگائے بیٹھا ہے اس نے ایک بڑی سی بندوق سامنے تان رکھی ہے بندوق کے اوپر دوربین لگی ہوئی ہے اور وہ آدمی اس دوربین میں دیکھ کر شکار ڈھونڈ رہا ہے الفاظ ابھرتے ہیں ''آج میں اس کم بخت کرپشن کو ہر گز نہیں چھوڑوں گا ذرا سامنے تو آ جائے بھون کر رکھ دوں گا'' پتہ نہیں کہاں چھپی ہوئی ہے کم بخت، کیمرہ تھوڑا سا پیچھے ہوتا ہے تو اچانک ایک پرندہ دکھائی دیتا ہے جو شکاری کے کاندھے بیٹھا ہوا ہے پرندے کے اوپر الفاظ ابھرتے ہیں ''کرپشن'' کرپشن کا پرندہ شکاری کے سر پر ٹونگیں مار رہا ہے اور شکاری دوربین میں دیکھ رہا ہے، الفاظ ابھرتے ہیں کب تک۔

پہلے ایک بڑی سی میز دکھائی جاتی ہے اس میز پر رنگ برنگے گلاسوں میں رنگ برنگا پانی بھرا ہوا ہے میز کے قریب ایک کرسی رکھی ہوئی ہے کچھ فاصلے پر کچھ لوگ آپس میں گتھم گھتا ہو رہے ہیں ایک دوسرے کو دھکے دیے جا رہے ہیں پکڑم پکڑائی ہو رہی ہے آخر ان میں سے نیچے پیروں میں سے ایک آدمی رینگ کر نکلتا ہے اور جلدی سے جا کر اس کرسی پر بیٹھ جاتا ہے، باقی لوگ حیران ہو کر دھینگا مشتی چھوڑ دیتے ہیں اور اس شخص کو دیکھنے لگتے ہیں، وہ شخص کرسی پر بیٹھتے ہی سامنے والے رنگ برنگ گلاسوں کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھنے لگتا ہے پھر یہ کام تیزی سے ہوتا ہے جس طرح فلموں میں مداری لوگ کرتے ہیں پتہ نہیں چلتا کہ کس گلاس کو کہاں اور کس کو کہاں رکھا جا رہا ہے پھر یہ عمل فاسٹ ہو جاتا ہے، کیمرہ قریب جا کر فوکس ہو جاتا ہے گلاسوں پر ''ملازمین'' کے الفاظ لکھے ہوتے ہیں اور کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص کی پشت پر ''تبدیلیاں لائیں گے'' لکھا ہوتا ہے، پھر کب تک؟

ایک مسافر بس سے اترتا ہے اور بس سے قلیوں کی مدد سے اپنا سامان اتارتا ہے اپنے سامنے ڈھیر کیے ہوئے سامان کے قریب کھڑا ہو کر وہ اپنے سامان کو چیک کرتا ہے کہ اتنے میں رکشے والے اس پر ہلہ بول دیتے ہیں کوئی ایک نگ اٹھاتا ہے کوئی دوسرا تھوڑی دیر میں سامان رکشے والوں کے پاس ہوتا ہے کئی رکشے والے اس کے گرد کھڑے ہوئے ہیں اور ہر رکشے والے کے پاس اس کا کوئی نہ کوئی نگ ہے کسی کے پاس سوٹ کیس کسی کے پاس بستر کسی کے پاس بیگ کسی کے پاس شاپنگ بیگ، پھر یہ سب کے سب اسے اپنے اپنے رکشے کی طرف کھینچنے لگتے ہیں بے چارا ان رکشے والوں میں گھر کر رہ جاتا ہے تھوڑی دیر بعد رکشے والوں کے ہاتھوں میں اس کے لباس کے چتھڑے ہوتے اور بے چارا مسافر صرف ایک انڈر ویر میں ننگا ہو کر دکھائی دیتا ہے اور سامنے رکشوں کی قطار کو دیکھتا ہے جن پر مختلف پارٹیوں کے نام لکھے ہیں، مسلم لیگ، پی پی پی، جماعت اسلامی، جے یو آئی، تحریک انصاف اور کچھ پر صرف پارٹی لکھا ہوتا ہے، ننگے آدمی کی پشت پر عوام کے الفاظ ابھرتے ہیں اور پھر ایک بڑا سا کب تک؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔