کے الیکٹرک سے سبسڈی واپس لینے کے خلاف درخواستیں خارج

حکومت کس قانون اور پالیسی کے مطابق سبسڈی دیتی ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ کا استفسار

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ فائل : فوٹو

سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے کے الیکٹرک سے سبسڈی واپس لینے کے خلاف درخواستیں خارج کر دیں۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکومت کی جانب سے سبسڈی دینے پر اعتراض نہیں تو واپس لینے پر کیوں ہے، نیپرا کو سبسڈی دیتے وقت شامل نہیں کیا گیا اس پر صنعتوں اور کے الیکٹرک کو کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ حکومت کس قانون اور پالیسی کے مطابق سبسڈی دیتی ہے؟ سیکریٹری پاور ڈویژن نے عدالت کو بتایا کہ سبسڈی بجٹ کے مطابق ہوتی ہے اور پارلیمنٹ سے منظوری لی جاتی ہے جبکہ بعض اوقات سپلیمنٹری گرانٹ بھی جاری کی جاتی ہے۔

سیکریٹری پاور ڈویژن نے بتایا کہ حکومت نے کے الیکٹرک کے لیے 330 ملین روپے کا حصہ رکھا تھا۔


موقف اپنایاکہ بجلی صارفین کو سات سے آٹھ کیٹیگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے اور صارفین کی کیٹیگریز کے مطابق ٹیرف کا تعین ہوتا ہے، کے ای کا ٹیرف نیشنل ٹریف سے کم تھا۔ حکومت نے 2019 میں تین ارب روپے کا ریلیف دیا اور اگر نیپرا کی منظوری سے سبسڈی ہوتی تو بھی نتیجہ یہی ہوتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریگولیٹر کو کام کرنے دینا چاہیے، جو ہوگیا سو ہوگیا آئندہ وزارت خیال کرے۔

سیکریٹری پاور ڈویژن نے تبایا کہ وزیراعظم نے بھی ابھی پانچ روپے بجلی سستی کی اور وزیراعظم نے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت کی، جس کا نیپرا ٹیرف سے کوئی تعلق نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سبسڈی ضرور دیں عوام کو ریلیف ملنا چاہیے لیکن کس قانون کے تحت سبسڈی دی جاتی ہے۔ سیکریٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ وفاقی کابینہ اپنا اختیار استعمال کرکے سبسڈی دیتی ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وفاقی کابینہ بھی تو قانون کے مطابق کام کرتی ہے۔

سیکریٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ سبسڈی بلکل ایسے ہی دی جاتی ہے جیسے یوٹیلیٹی اسٹورز پر، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ وزارت ریگولیٹر کے کام میں مداخلت کرتی ہے، آئندہ ریگولیٹر کو بائی پاس نہ کیا جائے۔

سیکریٹری پاور ڈویژن نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ کے ای انڈسٹریل صارفین سے چارجز وصول کرے، اگر سبسڈی کی رقم وزارت سے وصول ہوئی تو عام صارفین پر مزید بوجھ پڑے گا۔
Load Next Story