ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
2001 میں مسیحی مذہب کے پیروکاروں کی شرح 71.7 فیصد تھی جو کم ہوکر 2011 تک 59.3 فیصد رہ گئی
دنیا بھر میں دین اسلام کی غیر معمولی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور حقانیت اپنی مثال آپ اور لازوال ہے اور یکے بعد دیگرے مسلسل اسلام کے مغرب و یورپ اور دیگر ممالک میں انتہائی تیزی کے ساتھ پھیلنے کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں اور اب تک غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد اسلام قبول کرچکی ہے ،اس ضمن میں سابق عالمی چیمپئن امریکی باکسر محمدعلی اور قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان یوسف یوحنا بھی چند سال پہلے اسلام قبول کرکے محمد یوسف ہوچکے ہیں قابل ذکر مثالیں ہیں۔
ہالینڈ میں 2008 میں وہاں کے ایک رکن پارلیمنٹ گیرٹ ولڈرز نے فتنہ کے نام سے ایک فلم ریلیز کی تھی اس فلم کا مقصد یورپ میں اسلام کی مقبولیت کو روکنا تھا جو حاصل تو نہ ہوسکا لیکن اسی سال مارچ کو گریٹ ولڈرز کی فریڈم پارٹی کا مرکزی رہنما اور فلم بنانے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے سابق رکن پارلیمنٹ ارنا ڈوارن ڈرون نے اسلام قبول کرلیا۔انتہائی نادم ہوا اور عہد کیا کہ اپنے اس گناہ کے ازالے کے طور پر حضرت محمدؐ کے پیغام امن کو دنیا میں عام کرے گا، خلیجی ممالک میں بھی دنیا بھر سے کام کاج کے لیے آنے والے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد کا قبول اسلام کا سلسلہ جاری ہے۔ دبئی میں قائم ایک ادارے البر سوسائٹی کے مطابق صرف ایک سال کے دوران ان کے مرکز میں 560 افراد مشرف بہ اسلام ہوئے اور اب تک مجموعی طور پر 18 ہزار افراد اسلام قبول کر چکے ہیں۔اسلام کی مقبولیت، سچائی اور حقانیت کا عالمی سطح پر اعتراف کا اندازہ برطانوی حکومت کی ماہانہ مردم شماری سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق وہاں عیسائیت کا تیزی سے خاتمہ ہو رہا ہے جب کہ اسلام مقبولیت میں سب سے آگے ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2001 میں مسیحی مذہب کے پیروکاروں کی شرح 71.7 فیصد تھی جو کم ہوکر 2011 تک 59.3 فیصد رہ گئی، اب برطانیہ میں مسیحی آبادی کی مجموعی تعداد 3 کروڑ 32 لاکھ جب کہ اسلام کے ماننے والوں کی تعداد 27 لاکھ ہے لیکن جس طرح اسلام کے ماننے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگلے چند ہی عشروں میں اسلام نہ صرف برطانیہ بلکہ پوری دنیا کا مقبول ترین مذہب بن جائے گا، اسلام کی شہرت بڑھتی جا رہی ہے اور ان ہی ممالک کے عوام اسلام میں غیر معمولی کشش محسوس کر رہے ہیں اور اس کی جانب کھنچتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
اس کا سادہ سا لیکن بڑا واضح جواب یہ ہے کہ اسلام دین ہے، نظام حیات ہے۔ دیگر جو کچھ ہے وہ مذہب ہے۔ اسلام رسمی عقیدوں اور عبادتوں کا مجموعہ نہیں نہ وہم و گمان، شگون، ٹونے ٹوٹکے، جھاڑ پھونک اور خواب و خیال کی میتھولوجی (Mythology) ہے۔ نہ ہی داستان، قصہ گوئی اور دل بہلانے کا سامان ہے۔ یہ دین اتنا سائنٹیفک ہے کہ ''اوسپنسکی'' (Ouspensky) جیسا مفکر کہہ گزرا کہ جو سائنس قرآن کو جھٹلائے وہ باطل ہوگی اورگوئٹے جیسا عظیم شاعر اور دانشور کہہ گیا ''اسلام کی تعلیم کبھی ناکام نہیں ہوسکتی۔ کوئی بھی انسان اور کوئی بھی نظام قرآن سے آگے نہیں جاسکتا'' اسی طرح سر ولیم میور لکھتے ہیں کہ ''میں نے تاریخ اسلام کا بھرپور مطالعہ کیا ہے میں اپنی پوری ذہنی توانائی اور دل کی گہرائیوں سے گواہی دیتا ہوں کہ قرآن محمدؐ کی زندگی سے آج تک ایک حرف برابر نہیں بدلا گیا ہے۔'' اس کے علاوہ فرانس کے ڈاکٹر مورس بکیلی کی کتاب ''بائبل، قرآن اور سائنس'' جوکہ دنیا بھر میں مستند کتاب مانی جاتی ہے اس کتاب میں ڈاکٹر مورس رقم طراز ہیں کہ ''تخلیق کائنات، ارتقائے عالم، ارضیات، زمین پر حیات، فلکیات، انسانی تاریخ، بچے کی شکم مادر میں تخلیق، پانی کا دوران (Water Cycle)، علم حیوانات (Zoology)، علم نباتات (Botany) کسی بھی سائنس کے بارے میں قرآن حکیم ایک جگہ بھی ایسی بات نہیں کہتا جو ثابت شدہ سائنسی تحقیق کے خلاف ہو۔''
فاش گویم آں کہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
(جو بات دل میں ہے وہ صاف کہتا ہوں آج کہ یہ کتاب ''القرآن'' چیز ہی کچھ اور ہے۔)
بے خبر تو جو ہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
قرآن کا اعزاز یہ ہے کہ خدا خود قرآن کے حق میں گواہی دیتا ہے کہ ''اس کتاب (القرآن) میں کچھ شک نہیں''۔ اسی طرح ایک مقام پر فرمایا گیا کہ ''اگر تمہیں اس کتاب پر شک ہے تو اس جیسی ایک آیت ہی بنا لاؤ'' آج قرآن حکیم کو نازل ہوئے چودہ سو برس ہوچکے ہیں اور یہ اکیسویں صدی کا دور سائنسی ترقی کا منہ بولتا دور ہے آج انسان نے سپرکمپیوٹر تک ایجاد کرلیے ہیں جس کی بدولت سائنسدان بڑے بڑے مسائل سیکنڈوں میں حل کرلیتے ہیں۔ تاہم قرآن حکیم کا یہ چیلنج آج بھی اپنی جگہ قائم ہے اور سر توڑ کوششوں کے باوجود اسلام دشمن قوتیں آج تک قرآن جیسی ایک آیت بھی نہ بناسکیں۔ حیرت ہے پھر بھی ایمان نہیں لاتے۔ حضرت موسیٰؑ کے زمانے کا فرعون 1300 ق۔م کے قریب بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے ہوئے ڈوب گیا تھا۔ اس فرعون نے موسیٰؑ کو نبی و رسول ماننے سے انکار کیا اور سرکشی میں اتنا بڑھ گیا کہ خدائی کا دعویٰ کر بیٹھا اور وحی الٰہی کا منکر ہوا قرآن نے اس فرعون کی بابت جو فرمایا اس نے ایک سو برس سے مغربی اسکالرز کو حیران کر رکھا ہے۔ 1898 کی بات ہے مصر میں بادشاہوں کی وادی Valley of Kings) میں ماہرین آثار قدیمہ نے ایک حنوط شدہ جسم یعنی ''ممی'' دریافت کی۔ یہ ممی آج بھی مصر کے عجائب گھر میں نشان عبرت بنی ہوئی ہے۔ یہ اسی سرکش خدائی دعوے دار فرعون کی ممی ہے جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن میں چودہ سو برس قبل فرمایا تھا کہ ''آج ہم تجھے تیرے جسم میں بچالیں گے تاکہ تو آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بن جائے'' (سورہ یونس۔ آیت 92) اب بتائیے یہ قرآن اللہ کا معجزہ ہے کہ نہیں۔ اسلام دین الٰہی ہے کہ نہیں؟
یہ بھی نوٹ کرلیجیے کہ قرآن حکیم کا دعویٰ ہے کہ اہل علم سب جان لیں گے کہ قرآن ''الحق'' ہے اور ''الکتاب'' کا نظام دنیا کے ہر نظام پر غالب آکے رہے گا۔ (سورۃ التوبہ۔ آیت33)، (سورۃ الفتح۔ آیت 28) ، (سورۃ الصف۔آیت9)
ایک بات اور بھی واضح کرتا چلوں کہ دین اسلام کی حقانیت اور دنیا بھر میں اس کی مقبولیت ایک اہم اور بڑی وجہ رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ اور اس کا مطالعہ بھی ہے جس کی بدولت اسلام مغرب و یورپ بلکہ پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے میں قربان جاؤں اس ہستی مقدسؐ کی رحمتوں، برکتوں اور عظمتوں پر جس کا ادنیٰ سا شعور اللہ رب العزت نے مجھے عطا فرمایا ہے کہ جن کے علم و حکمت، اخلاق حسنہ اور کمالات کے نزدیک تک تاریخ کا کوئی انسان پہنچتا نظر نہیں آتا، لیکن آج ہم سے نہیں مشرق و مغرب کے قدیم و جدید حکما اور فلاسفروں سے سنیے۔ تاریخ کے وہ بڑے دماغ جو تعصب اور تنگ نظری سے بلند ہوکر حق بات کہہ گئے، رحمۃ اللعالمینؐ کا مقام عالی غیروں کی زبان سے ملاحظہ فرمائیے، مقام ادب ہے، ادب سے ملاحظہ فرمائیے۔
٭عظیم مفکر، بلند پایہ خطیب، پیغمبر، قانون ساز، سپہ سالار، تصورات اور عقائد کا فاتح، سچے نظریہ حیات کو قائم کرنے والا، باطل خداؤں اور صنم پرستی اور وہم و گمان کو مٹانے والا بیس(20) دنیاوی سلطنتوں کا بانی اور ان پر ایک آسمانی روحانی بادشاہت کا نقیب یہ ہے محمدؐ۔ انسانی عظمت کو ناپنے کے جتنے پیمانے لاسکتے ہو لے آؤ اور پھر خود سے پوچھو کیا دنیا میں اس سے بڑا انسان بھی کوئی گزرا ہے؟ (ایلفونس لیمبرٹین، ہسٹوری ڈی لاٹر کی)
٭مذہبی شخصیات میں محمدؐ بلاشک و شبہ کامیاب ترین شخصیت تھے۔ (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا)
٭آپؐ کی عظمت دیکھیے جنھوں نے ایک جہاں کو بدل ڈالا لیکن اپنا مثالی طرز زندگی وہی رکھا۔ (آر۔وی۔سی بوڈلے، دی میسنجر)
٭وہ جو سمجھتے ہیں کہ اسلام قوت کے بل پر پھیلا ایسے احمق ہیں جو نہ اسلام کے طور طریقے جانتے ہیں نہ دنیا کے ڈھنگ اور رجحانات۔ (بلبیر سنگھ، نواں ہندوستان 1947)
٭محمدؐ کے اقوال مسلمانوں کے لیے ہی نہیں دنیا کے تمام انسانوں کے لیے علم و حکمت کا خزانہ ہیں۔ (موہن داس گاندھی، تعارف ارشادات نبویؐ سہروردی)
٭نسل انسانی پر محمدؐ کی قدآور ہستی نے ان منٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ (جان ولیم ڈریپر، ہسٹری آف دی انٹلیکچول ڈویلپمنٹ آف یورپ)
٭میں نے اس عظیم ہستی کا مطالعہ کیا ہے۔ حیران کن شخصیت، میری رائے میں محمدؐ کو انسانیت کا نجات دہندہ (Savior) ماننا چاہیے۔ (جارج برنارڈ شا، دی جینوئن اسلام)
٭کل کا یورپ (یوں کہیے مغرب) اسلام قبول کرے گا۔ یہ میری پیش گوئی ہے۔ (برنارڈشا، دی جینوئن اسلام)
کالم کی طوالت کے پیش نظر سلسلہ تحریر یہیں پر موقوف کرتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ دین اسلام کی حقانیت اور مقبولیت کی وجوہات آپ پر بخوبی واضح ہوگئی ہوں گی۔
نوع انسان را پیام آخریں
حامل اور رحمۃ اللعالمین
ہالینڈ میں 2008 میں وہاں کے ایک رکن پارلیمنٹ گیرٹ ولڈرز نے فتنہ کے نام سے ایک فلم ریلیز کی تھی اس فلم کا مقصد یورپ میں اسلام کی مقبولیت کو روکنا تھا جو حاصل تو نہ ہوسکا لیکن اسی سال مارچ کو گریٹ ولڈرز کی فریڈم پارٹی کا مرکزی رہنما اور فلم بنانے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے سابق رکن پارلیمنٹ ارنا ڈوارن ڈرون نے اسلام قبول کرلیا۔انتہائی نادم ہوا اور عہد کیا کہ اپنے اس گناہ کے ازالے کے طور پر حضرت محمدؐ کے پیغام امن کو دنیا میں عام کرے گا، خلیجی ممالک میں بھی دنیا بھر سے کام کاج کے لیے آنے والے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد کا قبول اسلام کا سلسلہ جاری ہے۔ دبئی میں قائم ایک ادارے البر سوسائٹی کے مطابق صرف ایک سال کے دوران ان کے مرکز میں 560 افراد مشرف بہ اسلام ہوئے اور اب تک مجموعی طور پر 18 ہزار افراد اسلام قبول کر چکے ہیں۔اسلام کی مقبولیت، سچائی اور حقانیت کا عالمی سطح پر اعتراف کا اندازہ برطانوی حکومت کی ماہانہ مردم شماری سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق وہاں عیسائیت کا تیزی سے خاتمہ ہو رہا ہے جب کہ اسلام مقبولیت میں سب سے آگے ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2001 میں مسیحی مذہب کے پیروکاروں کی شرح 71.7 فیصد تھی جو کم ہوکر 2011 تک 59.3 فیصد رہ گئی، اب برطانیہ میں مسیحی آبادی کی مجموعی تعداد 3 کروڑ 32 لاکھ جب کہ اسلام کے ماننے والوں کی تعداد 27 لاکھ ہے لیکن جس طرح اسلام کے ماننے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگلے چند ہی عشروں میں اسلام نہ صرف برطانیہ بلکہ پوری دنیا کا مقبول ترین مذہب بن جائے گا، اسلام کی شہرت بڑھتی جا رہی ہے اور ان ہی ممالک کے عوام اسلام میں غیر معمولی کشش محسوس کر رہے ہیں اور اس کی جانب کھنچتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
اس کا سادہ سا لیکن بڑا واضح جواب یہ ہے کہ اسلام دین ہے، نظام حیات ہے۔ دیگر جو کچھ ہے وہ مذہب ہے۔ اسلام رسمی عقیدوں اور عبادتوں کا مجموعہ نہیں نہ وہم و گمان، شگون، ٹونے ٹوٹکے، جھاڑ پھونک اور خواب و خیال کی میتھولوجی (Mythology) ہے۔ نہ ہی داستان، قصہ گوئی اور دل بہلانے کا سامان ہے۔ یہ دین اتنا سائنٹیفک ہے کہ ''اوسپنسکی'' (Ouspensky) جیسا مفکر کہہ گزرا کہ جو سائنس قرآن کو جھٹلائے وہ باطل ہوگی اورگوئٹے جیسا عظیم شاعر اور دانشور کہہ گیا ''اسلام کی تعلیم کبھی ناکام نہیں ہوسکتی۔ کوئی بھی انسان اور کوئی بھی نظام قرآن سے آگے نہیں جاسکتا'' اسی طرح سر ولیم میور لکھتے ہیں کہ ''میں نے تاریخ اسلام کا بھرپور مطالعہ کیا ہے میں اپنی پوری ذہنی توانائی اور دل کی گہرائیوں سے گواہی دیتا ہوں کہ قرآن محمدؐ کی زندگی سے آج تک ایک حرف برابر نہیں بدلا گیا ہے۔'' اس کے علاوہ فرانس کے ڈاکٹر مورس بکیلی کی کتاب ''بائبل، قرآن اور سائنس'' جوکہ دنیا بھر میں مستند کتاب مانی جاتی ہے اس کتاب میں ڈاکٹر مورس رقم طراز ہیں کہ ''تخلیق کائنات، ارتقائے عالم، ارضیات، زمین پر حیات، فلکیات، انسانی تاریخ، بچے کی شکم مادر میں تخلیق، پانی کا دوران (Water Cycle)، علم حیوانات (Zoology)، علم نباتات (Botany) کسی بھی سائنس کے بارے میں قرآن حکیم ایک جگہ بھی ایسی بات نہیں کہتا جو ثابت شدہ سائنسی تحقیق کے خلاف ہو۔''
فاش گویم آں کہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
(جو بات دل میں ہے وہ صاف کہتا ہوں آج کہ یہ کتاب ''القرآن'' چیز ہی کچھ اور ہے۔)
بے خبر تو جو ہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
قرآن کا اعزاز یہ ہے کہ خدا خود قرآن کے حق میں گواہی دیتا ہے کہ ''اس کتاب (القرآن) میں کچھ شک نہیں''۔ اسی طرح ایک مقام پر فرمایا گیا کہ ''اگر تمہیں اس کتاب پر شک ہے تو اس جیسی ایک آیت ہی بنا لاؤ'' آج قرآن حکیم کو نازل ہوئے چودہ سو برس ہوچکے ہیں اور یہ اکیسویں صدی کا دور سائنسی ترقی کا منہ بولتا دور ہے آج انسان نے سپرکمپیوٹر تک ایجاد کرلیے ہیں جس کی بدولت سائنسدان بڑے بڑے مسائل سیکنڈوں میں حل کرلیتے ہیں۔ تاہم قرآن حکیم کا یہ چیلنج آج بھی اپنی جگہ قائم ہے اور سر توڑ کوششوں کے باوجود اسلام دشمن قوتیں آج تک قرآن جیسی ایک آیت بھی نہ بناسکیں۔ حیرت ہے پھر بھی ایمان نہیں لاتے۔ حضرت موسیٰؑ کے زمانے کا فرعون 1300 ق۔م کے قریب بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے ہوئے ڈوب گیا تھا۔ اس فرعون نے موسیٰؑ کو نبی و رسول ماننے سے انکار کیا اور سرکشی میں اتنا بڑھ گیا کہ خدائی کا دعویٰ کر بیٹھا اور وحی الٰہی کا منکر ہوا قرآن نے اس فرعون کی بابت جو فرمایا اس نے ایک سو برس سے مغربی اسکالرز کو حیران کر رکھا ہے۔ 1898 کی بات ہے مصر میں بادشاہوں کی وادی Valley of Kings) میں ماہرین آثار قدیمہ نے ایک حنوط شدہ جسم یعنی ''ممی'' دریافت کی۔ یہ ممی آج بھی مصر کے عجائب گھر میں نشان عبرت بنی ہوئی ہے۔ یہ اسی سرکش خدائی دعوے دار فرعون کی ممی ہے جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن میں چودہ سو برس قبل فرمایا تھا کہ ''آج ہم تجھے تیرے جسم میں بچالیں گے تاکہ تو آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بن جائے'' (سورہ یونس۔ آیت 92) اب بتائیے یہ قرآن اللہ کا معجزہ ہے کہ نہیں۔ اسلام دین الٰہی ہے کہ نہیں؟
یہ بھی نوٹ کرلیجیے کہ قرآن حکیم کا دعویٰ ہے کہ اہل علم سب جان لیں گے کہ قرآن ''الحق'' ہے اور ''الکتاب'' کا نظام دنیا کے ہر نظام پر غالب آکے رہے گا۔ (سورۃ التوبہ۔ آیت33)، (سورۃ الفتح۔ آیت 28) ، (سورۃ الصف۔آیت9)
ایک بات اور بھی واضح کرتا چلوں کہ دین اسلام کی حقانیت اور دنیا بھر میں اس کی مقبولیت ایک اہم اور بڑی وجہ رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ اور اس کا مطالعہ بھی ہے جس کی بدولت اسلام مغرب و یورپ بلکہ پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے میں قربان جاؤں اس ہستی مقدسؐ کی رحمتوں، برکتوں اور عظمتوں پر جس کا ادنیٰ سا شعور اللہ رب العزت نے مجھے عطا فرمایا ہے کہ جن کے علم و حکمت، اخلاق حسنہ اور کمالات کے نزدیک تک تاریخ کا کوئی انسان پہنچتا نظر نہیں آتا، لیکن آج ہم سے نہیں مشرق و مغرب کے قدیم و جدید حکما اور فلاسفروں سے سنیے۔ تاریخ کے وہ بڑے دماغ جو تعصب اور تنگ نظری سے بلند ہوکر حق بات کہہ گئے، رحمۃ اللعالمینؐ کا مقام عالی غیروں کی زبان سے ملاحظہ فرمائیے، مقام ادب ہے، ادب سے ملاحظہ فرمائیے۔
٭عظیم مفکر، بلند پایہ خطیب، پیغمبر، قانون ساز، سپہ سالار، تصورات اور عقائد کا فاتح، سچے نظریہ حیات کو قائم کرنے والا، باطل خداؤں اور صنم پرستی اور وہم و گمان کو مٹانے والا بیس(20) دنیاوی سلطنتوں کا بانی اور ان پر ایک آسمانی روحانی بادشاہت کا نقیب یہ ہے محمدؐ۔ انسانی عظمت کو ناپنے کے جتنے پیمانے لاسکتے ہو لے آؤ اور پھر خود سے پوچھو کیا دنیا میں اس سے بڑا انسان بھی کوئی گزرا ہے؟ (ایلفونس لیمبرٹین، ہسٹوری ڈی لاٹر کی)
٭مذہبی شخصیات میں محمدؐ بلاشک و شبہ کامیاب ترین شخصیت تھے۔ (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا)
٭آپؐ کی عظمت دیکھیے جنھوں نے ایک جہاں کو بدل ڈالا لیکن اپنا مثالی طرز زندگی وہی رکھا۔ (آر۔وی۔سی بوڈلے، دی میسنجر)
٭وہ جو سمجھتے ہیں کہ اسلام قوت کے بل پر پھیلا ایسے احمق ہیں جو نہ اسلام کے طور طریقے جانتے ہیں نہ دنیا کے ڈھنگ اور رجحانات۔ (بلبیر سنگھ، نواں ہندوستان 1947)
٭محمدؐ کے اقوال مسلمانوں کے لیے ہی نہیں دنیا کے تمام انسانوں کے لیے علم و حکمت کا خزانہ ہیں۔ (موہن داس گاندھی، تعارف ارشادات نبویؐ سہروردی)
٭نسل انسانی پر محمدؐ کی قدآور ہستی نے ان منٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ (جان ولیم ڈریپر، ہسٹری آف دی انٹلیکچول ڈویلپمنٹ آف یورپ)
٭میں نے اس عظیم ہستی کا مطالعہ کیا ہے۔ حیران کن شخصیت، میری رائے میں محمدؐ کو انسانیت کا نجات دہندہ (Savior) ماننا چاہیے۔ (جارج برنارڈ شا، دی جینوئن اسلام)
٭کل کا یورپ (یوں کہیے مغرب) اسلام قبول کرے گا۔ یہ میری پیش گوئی ہے۔ (برنارڈشا، دی جینوئن اسلام)
کالم کی طوالت کے پیش نظر سلسلہ تحریر یہیں پر موقوف کرتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ دین اسلام کی حقانیت اور مقبولیت کی وجوہات آپ پر بخوبی واضح ہوگئی ہوں گی۔
نوع انسان را پیام آخریں
حامل اور رحمۃ اللعالمین