کراچی کے دگرگوں حالات
قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو انتہاء پسند عناصر اور طالبانائزشن سے تعلق رکھنے والوں نے تواتر سے نشانے پر رکھا ہوا ہے
PESHAWAR:
کراچی کو جو روشنیوں کا شہرکہلاتا تھا اور پوری دنیا میں مشہور تھا لیکن نہ جانے کن دشمنوں اور مفاد پرستوں کی نظر اس شہر کو لگ گئی ہے کہ یہ شہر دنیا میں مشہور تو آج بھی ہے لیکن اب اس کا نام دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ ، قبضہ گیری ، بھتہ خوری ، بم دھماکوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور دہشت و وحشت کے مہیب سائے اس شہر کے گرد منڈلاتے نظر آتے ہیں کچھ تو درندہ صفت لٹیروں قاتلوں کی اجارہ داری اس شہر پر قائم ہے جو آئے دن معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیتے ہیں اور کچھ حکومت کے سیاسی مفادات ہیں جو اس شہر میں امن قائم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔امید کی جا رہی تھی کہ موجودہ حکومت میں حالات پرُ امن ہوجائیں گے اور جرائم پیشہ افراد کو قانون و آئین کے مطابق سزا دی جائے گی لیکن جب قانون نافذ کرنے والے قانون کے نفاذ کی بجائے حکومتی ایماء پر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کی بجائے پسند نا پسند کی راہ پر چل نکلے تو انصاف کی توقع رکھنا بے معنیٰ ہے۔
کراچی میں گورنر ہاؤس میں وزیراعظم کی سربراہی میں بتاریخ 3ستمبر2013کو آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی تھی ا س اجلاس میں ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے شرکت کی تھی جس میں اچھی شہرت رکھنے والے غیر سیاسی سویلین افراد پر مشتمل ایک مانیٹرنگ کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا جو وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں کام کرے گی اور اس آپریشن کا وزیر اعلیٰ سندھ کو براہ راست کپتان بنایاگیا تھا۔ اس آپریشن کے سلسلے میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بر ملا اظہار کیا کہ یہ آپریشن کسی جماعت کے خلاف نہیں ہوگا ۔جو ریکارڈ پر موجود ہے لیکن گزشتہ دو دہائی پہلے بھی 1992 میں بھی اسی طرز کا آپریشن شروع کیا گیا تھا جو کہ پتھاریداروں، اغوا برائے تاوان ، 72بڑی مچھلیوں اور دیگر جرائم میں ملوث افراد کے خلاف کیا گیا تھا لیکن اس آپریشن کا رُخ ایم کیو ایم کی جانب موڑ دیا گیا اور ایم کیو ایم کے خلاف حکومتی مشینری کا بھر پوراستعمال کیا گیا تھا۔ماضی میں بھی کیے گئے آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کے28کارکنان لا پتہ ہوئے تھے جنکی اب تک کوئی اطلاع نہیں کہ وہ کہاں ہیں ۔
آخرکیا وجوہات ہیں کہ سندھ میں ملک بھرکی سیاسی ومذہبی جماعتیں موجود ہیں لیکن صرف ایم کیو ایم ہی کو تختہ مشق کیوں بنایا جاتا ہے؟ تمام جماعتیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اُن کے ساتھ اس قسم کا رویہ حکومت کی جانب سے کیوں روا نہیں رکھاجاتا۔ ایم کیو ایم کا وجود سیاسی سطح پر تسلیم تو ضرور کیا جاتا ہے لیکن دوسری جانب کراچی پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے منفی حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔حالیہ دنوں سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی مہم گزشتہ دو مہینوں سے زورو شور سے سلسلہ جاری تھی یہاں تک کے بھاری تعداد میں اُمیدواروں نے کاغذات نامزدگی بھی جمع کروادیے تھے لیکن حسب سابق سیاسی حربے استعمال کرکے سندھ حکومت نے الیکشن کو التواء میں ڈال دیا ۔ بحرحال یہ تو تاریخ کا حصہ ہے کہ ملک کی کسی بھی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے لیکن یہاں بلوچستان حکومت کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے کہ ایسے دگرگوں حالات میں بھی انھوں نے سب سے پہلے عوام کو ریلیف دینے کے لیے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد عمل میں لا کر عوام کی فلاح و بہبود کی جانب عملی قدم اُٹھایا ہے ۔اس کے برعکس ملک کے باقی صوبوں میں بلدیاتی انتخابات ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئے ہیں۔ عوامی حقوق کے دعویدار عوام کو ہر سطح پر محروم رکھنے کی نہ صرف کھلی سازش کررہے ہیں بلکہ خواب بھی دیکھا گیا ہے کہ میئر پی پی پی کا ہوگا۔جو عناصر خواب میں بھی دعویٰ کریں سچ کو تسلیم نہ کریں تو ایسے جاگیردار طبقہ سے کس طرح مظلوم عوام کی بھلائی کی توقع کی جاسکتی ہے اور یہ کس طرح عوام کو متحد کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں جن کا ایمان ہی دھن دولت ہے۔
یہ عناصر جو پانچ دہائیوں سے اقتدار کے مزے لوٹتے آرہے ہیں لیکن سندھ کی حالت زار پر اگر نظر ڈالی جائے تو وہ موئن جودڑو کا منظر پیش کرتا ہے شہر کراچی پر قابض ہوکر اسے بھی کھنڈرات بنانے کی کھلی سازش کی جارہی ہے۔
قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو انتہاء پسند عناصر، مختلف کالعدم تنظیمیں اور طالبانائزشن سے تعلق رکھنے والوں نے تواتر سے نشانے پر رکھا ہوا ہے اور آئے دن قومی اداروں سے تعلق رکھنے والے لاء اینڈ انفورسمنٹ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو بھی بے دردی کے ساتھ شہید کیا جارہا ہے اور ان کارروائیوں کی ذمے داری بھی دیدہ دلیری کے ساتھ قبول کی جارہی ہے کہ ہم نے اپنے ساتھیوں کا بدلہ لے لیا ہے اور ان کی ویڈیوز بھی جاری کی جارہی ہیں جو کہ ہماری قومی غیرت کو للکارنے کے مترادف ہے ۔اس سے ساری دنیا میں ہمارا کیا امیج جا رہا ہے یہ ہر محب وطن جو ملک کا درد رکھتا ہے وہ محسوس کرکے خون کے آنسو رو رہا ہے ، اس قسم کا عمل کسی بھی اعتبار سے مثبت نہیں بلکہ اس کے نتائج منفی ہی برآمد ہوتے ہیں اور دوسری جانب حساس اداروں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے یوں سمجھ لیں کہ قومی اداروں اور معصوم شہریوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑی جا رہی ہے جس کا خمیازہ شہر کراچی کی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ صوبۂ پختونخواہ اور بلوچستان میں بھی ان کی کارروائیاں شدت کی ساتھ جاری ہیں لیکن یہ سب کو یاد ہونا چاہیے کہ شہر کراچی کی تباہی کا مقصد پورے پاکستان کی تباہی ہے۔اب بھی وقت ہے کہ حکومت سندھ اور وفاقی حکومت کراچی میں امن و امان کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نا انصافیوں کا ازالہ کرے اور ایسی کاروائیوں سے اجتناب کیا جائے جس سے کراچی کے شہریوں میں احساس محرومی پیدا ہو کیوں کہ جب احساس محرومی جنم لیتا ہے تو اس کے نتائج بہت بھیانک نکلتے ہیں۔ لہٰذا ماضی کے تلخ حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ارباب اختیار ہوش کے ناخن لیں اور اپنا قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے ملک میں قومی یکجہتی کو فروغ دیں۔
لہٰذا ارباب اختیار کو اس مسئلے پر غوروخوض کرتے ہوئے شہر کراچی کے معصوم شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے دوست نُما دشمنوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ آخر وہ کونسی قوت ہے جو محب وطن شہریوں کو قتل کرنے سے بھی باز نہیں آرہی ؟
کراچی کو جو روشنیوں کا شہرکہلاتا تھا اور پوری دنیا میں مشہور تھا لیکن نہ جانے کن دشمنوں اور مفاد پرستوں کی نظر اس شہر کو لگ گئی ہے کہ یہ شہر دنیا میں مشہور تو آج بھی ہے لیکن اب اس کا نام دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ ، قبضہ گیری ، بھتہ خوری ، بم دھماکوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور دہشت و وحشت کے مہیب سائے اس شہر کے گرد منڈلاتے نظر آتے ہیں کچھ تو درندہ صفت لٹیروں قاتلوں کی اجارہ داری اس شہر پر قائم ہے جو آئے دن معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیتے ہیں اور کچھ حکومت کے سیاسی مفادات ہیں جو اس شہر میں امن قائم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔امید کی جا رہی تھی کہ موجودہ حکومت میں حالات پرُ امن ہوجائیں گے اور جرائم پیشہ افراد کو قانون و آئین کے مطابق سزا دی جائے گی لیکن جب قانون نافذ کرنے والے قانون کے نفاذ کی بجائے حکومتی ایماء پر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کی بجائے پسند نا پسند کی راہ پر چل نکلے تو انصاف کی توقع رکھنا بے معنیٰ ہے۔
کراچی میں گورنر ہاؤس میں وزیراعظم کی سربراہی میں بتاریخ 3ستمبر2013کو آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی تھی ا س اجلاس میں ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے شرکت کی تھی جس میں اچھی شہرت رکھنے والے غیر سیاسی سویلین افراد پر مشتمل ایک مانیٹرنگ کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا جو وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں کام کرے گی اور اس آپریشن کا وزیر اعلیٰ سندھ کو براہ راست کپتان بنایاگیا تھا۔ اس آپریشن کے سلسلے میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بر ملا اظہار کیا کہ یہ آپریشن کسی جماعت کے خلاف نہیں ہوگا ۔جو ریکارڈ پر موجود ہے لیکن گزشتہ دو دہائی پہلے بھی 1992 میں بھی اسی طرز کا آپریشن شروع کیا گیا تھا جو کہ پتھاریداروں، اغوا برائے تاوان ، 72بڑی مچھلیوں اور دیگر جرائم میں ملوث افراد کے خلاف کیا گیا تھا لیکن اس آپریشن کا رُخ ایم کیو ایم کی جانب موڑ دیا گیا اور ایم کیو ایم کے خلاف حکومتی مشینری کا بھر پوراستعمال کیا گیا تھا۔ماضی میں بھی کیے گئے آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کے28کارکنان لا پتہ ہوئے تھے جنکی اب تک کوئی اطلاع نہیں کہ وہ کہاں ہیں ۔
آخرکیا وجوہات ہیں کہ سندھ میں ملک بھرکی سیاسی ومذہبی جماعتیں موجود ہیں لیکن صرف ایم کیو ایم ہی کو تختہ مشق کیوں بنایا جاتا ہے؟ تمام جماعتیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اُن کے ساتھ اس قسم کا رویہ حکومت کی جانب سے کیوں روا نہیں رکھاجاتا۔ ایم کیو ایم کا وجود سیاسی سطح پر تسلیم تو ضرور کیا جاتا ہے لیکن دوسری جانب کراچی پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے منفی حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔حالیہ دنوں سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی مہم گزشتہ دو مہینوں سے زورو شور سے سلسلہ جاری تھی یہاں تک کے بھاری تعداد میں اُمیدواروں نے کاغذات نامزدگی بھی جمع کروادیے تھے لیکن حسب سابق سیاسی حربے استعمال کرکے سندھ حکومت نے الیکشن کو التواء میں ڈال دیا ۔ بحرحال یہ تو تاریخ کا حصہ ہے کہ ملک کی کسی بھی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے لیکن یہاں بلوچستان حکومت کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے کہ ایسے دگرگوں حالات میں بھی انھوں نے سب سے پہلے عوام کو ریلیف دینے کے لیے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد عمل میں لا کر عوام کی فلاح و بہبود کی جانب عملی قدم اُٹھایا ہے ۔اس کے برعکس ملک کے باقی صوبوں میں بلدیاتی انتخابات ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئے ہیں۔ عوامی حقوق کے دعویدار عوام کو ہر سطح پر محروم رکھنے کی نہ صرف کھلی سازش کررہے ہیں بلکہ خواب بھی دیکھا گیا ہے کہ میئر پی پی پی کا ہوگا۔جو عناصر خواب میں بھی دعویٰ کریں سچ کو تسلیم نہ کریں تو ایسے جاگیردار طبقہ سے کس طرح مظلوم عوام کی بھلائی کی توقع کی جاسکتی ہے اور یہ کس طرح عوام کو متحد کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں جن کا ایمان ہی دھن دولت ہے۔
یہ عناصر جو پانچ دہائیوں سے اقتدار کے مزے لوٹتے آرہے ہیں لیکن سندھ کی حالت زار پر اگر نظر ڈالی جائے تو وہ موئن جودڑو کا منظر پیش کرتا ہے شہر کراچی پر قابض ہوکر اسے بھی کھنڈرات بنانے کی کھلی سازش کی جارہی ہے۔
قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو انتہاء پسند عناصر، مختلف کالعدم تنظیمیں اور طالبانائزشن سے تعلق رکھنے والوں نے تواتر سے نشانے پر رکھا ہوا ہے اور آئے دن قومی اداروں سے تعلق رکھنے والے لاء اینڈ انفورسمنٹ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو بھی بے دردی کے ساتھ شہید کیا جارہا ہے اور ان کارروائیوں کی ذمے داری بھی دیدہ دلیری کے ساتھ قبول کی جارہی ہے کہ ہم نے اپنے ساتھیوں کا بدلہ لے لیا ہے اور ان کی ویڈیوز بھی جاری کی جارہی ہیں جو کہ ہماری قومی غیرت کو للکارنے کے مترادف ہے ۔اس سے ساری دنیا میں ہمارا کیا امیج جا رہا ہے یہ ہر محب وطن جو ملک کا درد رکھتا ہے وہ محسوس کرکے خون کے آنسو رو رہا ہے ، اس قسم کا عمل کسی بھی اعتبار سے مثبت نہیں بلکہ اس کے نتائج منفی ہی برآمد ہوتے ہیں اور دوسری جانب حساس اداروں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے یوں سمجھ لیں کہ قومی اداروں اور معصوم شہریوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑی جا رہی ہے جس کا خمیازہ شہر کراچی کی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ صوبۂ پختونخواہ اور بلوچستان میں بھی ان کی کارروائیاں شدت کی ساتھ جاری ہیں لیکن یہ سب کو یاد ہونا چاہیے کہ شہر کراچی کی تباہی کا مقصد پورے پاکستان کی تباہی ہے۔اب بھی وقت ہے کہ حکومت سندھ اور وفاقی حکومت کراچی میں امن و امان کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نا انصافیوں کا ازالہ کرے اور ایسی کاروائیوں سے اجتناب کیا جائے جس سے کراچی کے شہریوں میں احساس محرومی پیدا ہو کیوں کہ جب احساس محرومی جنم لیتا ہے تو اس کے نتائج بہت بھیانک نکلتے ہیں۔ لہٰذا ماضی کے تلخ حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ارباب اختیار ہوش کے ناخن لیں اور اپنا قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے ملک میں قومی یکجہتی کو فروغ دیں۔
لہٰذا ارباب اختیار کو اس مسئلے پر غوروخوض کرتے ہوئے شہر کراچی کے معصوم شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے دوست نُما دشمنوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ آخر وہ کونسی قوت ہے جو محب وطن شہریوں کو قتل کرنے سے بھی باز نہیں آرہی ؟