آخری حد
ایک تو ہم چاہے جس طرح بھی رہ رہے ہیں اسی محمد علی جناح قائداعظم کے بنائے ہوئے ملک میں رہ رہے ہیں۔۔۔
ہمارا ملک اب ایک ایسا ملک بن چکا ہے جس کے اندر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے جس کا نہ تو تصور کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ایسا کچھ دنیاکے کسی ملک میں کبھی ہوا ہے اور نہ ہی شاید ہوگا۔ اس واقعہ سے ہر پاکستانی کا سر شرم سے جُھک گیا ہے۔ یہاں مجھے فوری طور پر اپنی تصحیح کرلینی چاہیے کیونکہ ظاہر ہے ہر پاکستانی میں وہ لوگ ہر گز شامل نہیں ہیں جو اس گھناؤنے غلیظ مکروہ اور انتہائی قابل نفرت جرم میں شریک ہیں یا رہے ہیں۔
خداوند تعالیٰ اپنی عظیم کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ''احسان کا بدلہ سوائے احسان کے کچھ بھی نہیں''۔ احسان دراصل آدمی کی آدمی کے ساتھ اُس نیکی کو کہتے ہیں جس سے اس آدمی کو فائدہ ہوتا ہے یا اس کی کوئی مشکل حل ہوتی ہے یا اس کی کسی تکلیف میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
پرسوں شام ایک ٹیلی ویژن چینل پر بار بار یہ خبر نشر ہوئی جس پر گورنر سندھ جناب عشرت العباد کی طرف سے باقاعدہ اور فوری طور پر نوٹس بھی لیا گیا لیکن پھر اس کے بعد کسی بھی چینل نے نہ خبر کو نشر کیا اور کسی اخبار نے بھی اس خبر کو نہیں چھاپا ۔ اگر یہ خبر صحیح طور پر چھاپی گئی ہوتی تو آج پورے ملک میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہوتا۔
خبر کے مطابق شہر قائد میں عین قائد اعظم کے مزار کے احاطے کے اندر واقع ہے جس کے لیے مزار کے دائیں جانب سے نیچے کی طرف سیڑھیاں جاتی ہیں۔ مزار قائد کے کنٹرولر اور دیگر کرتا دھرتا اہلکار مبینہّ طور پر قبر والے کمرے کو خواہش مند نوجوان جوڑوں کو چند گھنٹوں کے لیے روزانہ کرائے پر دیتے ہیں اور یہ سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے۔ خبر نشر کرنے والے ٹی وی چینل کی ٹیم نے موقع پر پہنچ کر چھاپہ مارا اور رنگے ہاتھوں مزار قائد کے کنٹرولر کو پکڑنے کی کوشش کی جسے اہل کاروں نے بھگا دیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اوپر سے لے کر نیچے تک سبھی ملازمین اور اہل کار ملے ہوئے ہیں اور اس کاروبار میں شامل ہیں۔
قبرستانوں میں کالے دھندے والوں کے بارے میں تو خبریں اکثر آیا کرتی ہیں اور اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بے شمار نشئی اور منشیات کے بیوپاری بے نقاب ہوتے رہے ہیں۔ مزاروں پر بھنگ وچرس پینے اور افیم کھانے والو ں کے قصوں کہانیوں سے ہم سب واقف ہیں لیکن کسی محترم ومعزز شخصیت کی قبر والے کمرے کو منافع بخش کاروبار کے طور پر اسی مزار کے رکھوالوں کا استعمال ایک ایسا انتہائی شرمناک واقعہ ہے جس کی مثال نہیں دی جاسکتی۔
جس شخص نے مسلمانو ں کو دن رات ایک کرکے انتہائی خلوص سچے دل اور حلال کی کمائی سے برصغیر کے مسلمانوں کا ایک علیحدہ وطن حاصل کرکے دیا اس کا احسان اس طر ح اتارا جائے یہ کوئی انسان کہلانے والا سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن پستی کی یہ وہ اتھاہ گہرائی ہے جہاں مزار قائد کے رکھوالوں نے اتر کر دکھلا دیا ہے کہ دو پیروں پر چلنے والا جانور کچھ بھی کرسکتا ہے۔
ایک تو ہم چاہے جس طرح بھی رہ رہے ہیں اسی محمد علی جناح قائداعظم کے بنائے ہوئے ملک میں رہ رہے ہیں اس ملک میں رہنے والے کیا تھے اور کیا بن گئے ہیں کہاں تھے اور کہاں پہنچ گئے ہیں کیا یہ اس کے احسان کا بدلہ ہے؟ ہمارا ملک دنیا کا سب سے زیادہ کرپٹ ملک بن گیا ہے، جس مقصد کے لیے لوگ کرپشن کرتے ہیں وہ نوٹوں کا حصول ہوتا ہے ان نوٹوں کا حصول جن پر قائداعظم کی تصویر ہوتی ہے ہم اس تصویر والے نوٹوں کے لیے یا ان کے ذریعے کرپشن کرتے ہیں کیا یہ احسان کا بدلہ احسان ہے؟ کیا یہ سب کچھ کم نہیں تھا کہ اب اسی قائد کے مزار کو اسی کی تصویر والے نوٹوں کے حصول کے لیے اسی کے مزار کے عین نیچے اس کی اصل قبر والے کمرے کو کوٹھے میں تبدیل کرنے سے بھی نہیں چُوکے۔ خدا کا قہر نازل ہو ان لوگوں پر جو اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ ان بدبخت اور ملعون جوڑوں پر جنھیں منہ کالا کرنے کے لیے دنیا کے چھٹے سب سے بڑے شہرمیں اور کوئی جگہ نہیں ملی جہاں وہ اپنی آخرت کو غارت کرسکیں ۔ کیا اس کو احسان کا بدلہ احسان کہتے ہیں؟
ایک طرف ملک کے اندر بپا دہشت گردی فرقہ واریت صوبائیت اور لسانیت کے جھگڑوں نے قومی اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے جس سے دشمنوں کو شہ ملتی جا رہی ہے اور دوسری طرف بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اب سارے ملک اور ساری قوم پر احسان کرنے والے کی آخری آرام گا ہ کو بھی نہیں بخشا جارہا شاید ہم اللہ کے عذاب کو خود دعوت دہے رہے ہیں۔
لگتا یوں ہے کہ اس خبر کو قصداً دبا دیا گیاہے اس کی مزید تشہیر قصداً روک دی گئی ہے۔ گورنر سندھ کے نوٹس کے بعد کسی بھی قسم کی کوئی بھی کارروائی یا اس کا اعلان سامنے نہیں آیا کسی مجرم اہلکار کے خلاف تادیبی یا انتظامی کارروائی کا اشارہ نہیں ملا ۔گمان ہے کچھ بھی نہیں ہوگا اور ہم اسی طرح عظیم لوگوں کے احسان کا بدلہ چکاتے جائیں گے۔ اور اسی لیے ذلیل ورسواء ہوتے رہیں گے یہی ہماری آخری حد ہے۔
اے قائد ہمیں معاف کردینا ہم انتہائی احسان فراموش لوگ ہیں۔
خدا ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین
خداوند تعالیٰ اپنی عظیم کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ''احسان کا بدلہ سوائے احسان کے کچھ بھی نہیں''۔ احسان دراصل آدمی کی آدمی کے ساتھ اُس نیکی کو کہتے ہیں جس سے اس آدمی کو فائدہ ہوتا ہے یا اس کی کوئی مشکل حل ہوتی ہے یا اس کی کسی تکلیف میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
پرسوں شام ایک ٹیلی ویژن چینل پر بار بار یہ خبر نشر ہوئی جس پر گورنر سندھ جناب عشرت العباد کی طرف سے باقاعدہ اور فوری طور پر نوٹس بھی لیا گیا لیکن پھر اس کے بعد کسی بھی چینل نے نہ خبر کو نشر کیا اور کسی اخبار نے بھی اس خبر کو نہیں چھاپا ۔ اگر یہ خبر صحیح طور پر چھاپی گئی ہوتی تو آج پورے ملک میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہوتا۔
خبر کے مطابق شہر قائد میں عین قائد اعظم کے مزار کے احاطے کے اندر واقع ہے جس کے لیے مزار کے دائیں جانب سے نیچے کی طرف سیڑھیاں جاتی ہیں۔ مزار قائد کے کنٹرولر اور دیگر کرتا دھرتا اہلکار مبینہّ طور پر قبر والے کمرے کو خواہش مند نوجوان جوڑوں کو چند گھنٹوں کے لیے روزانہ کرائے پر دیتے ہیں اور یہ سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے۔ خبر نشر کرنے والے ٹی وی چینل کی ٹیم نے موقع پر پہنچ کر چھاپہ مارا اور رنگے ہاتھوں مزار قائد کے کنٹرولر کو پکڑنے کی کوشش کی جسے اہل کاروں نے بھگا دیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اوپر سے لے کر نیچے تک سبھی ملازمین اور اہل کار ملے ہوئے ہیں اور اس کاروبار میں شامل ہیں۔
قبرستانوں میں کالے دھندے والوں کے بارے میں تو خبریں اکثر آیا کرتی ہیں اور اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بے شمار نشئی اور منشیات کے بیوپاری بے نقاب ہوتے رہے ہیں۔ مزاروں پر بھنگ وچرس پینے اور افیم کھانے والو ں کے قصوں کہانیوں سے ہم سب واقف ہیں لیکن کسی محترم ومعزز شخصیت کی قبر والے کمرے کو منافع بخش کاروبار کے طور پر اسی مزار کے رکھوالوں کا استعمال ایک ایسا انتہائی شرمناک واقعہ ہے جس کی مثال نہیں دی جاسکتی۔
جس شخص نے مسلمانو ں کو دن رات ایک کرکے انتہائی خلوص سچے دل اور حلال کی کمائی سے برصغیر کے مسلمانوں کا ایک علیحدہ وطن حاصل کرکے دیا اس کا احسان اس طر ح اتارا جائے یہ کوئی انسان کہلانے والا سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن پستی کی یہ وہ اتھاہ گہرائی ہے جہاں مزار قائد کے رکھوالوں نے اتر کر دکھلا دیا ہے کہ دو پیروں پر چلنے والا جانور کچھ بھی کرسکتا ہے۔
ایک تو ہم چاہے جس طرح بھی رہ رہے ہیں اسی محمد علی جناح قائداعظم کے بنائے ہوئے ملک میں رہ رہے ہیں اس ملک میں رہنے والے کیا تھے اور کیا بن گئے ہیں کہاں تھے اور کہاں پہنچ گئے ہیں کیا یہ اس کے احسان کا بدلہ ہے؟ ہمارا ملک دنیا کا سب سے زیادہ کرپٹ ملک بن گیا ہے، جس مقصد کے لیے لوگ کرپشن کرتے ہیں وہ نوٹوں کا حصول ہوتا ہے ان نوٹوں کا حصول جن پر قائداعظم کی تصویر ہوتی ہے ہم اس تصویر والے نوٹوں کے لیے یا ان کے ذریعے کرپشن کرتے ہیں کیا یہ احسان کا بدلہ احسان ہے؟ کیا یہ سب کچھ کم نہیں تھا کہ اب اسی قائد کے مزار کو اسی کی تصویر والے نوٹوں کے حصول کے لیے اسی کے مزار کے عین نیچے اس کی اصل قبر والے کمرے کو کوٹھے میں تبدیل کرنے سے بھی نہیں چُوکے۔ خدا کا قہر نازل ہو ان لوگوں پر جو اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ ان بدبخت اور ملعون جوڑوں پر جنھیں منہ کالا کرنے کے لیے دنیا کے چھٹے سب سے بڑے شہرمیں اور کوئی جگہ نہیں ملی جہاں وہ اپنی آخرت کو غارت کرسکیں ۔ کیا اس کو احسان کا بدلہ احسان کہتے ہیں؟
ایک طرف ملک کے اندر بپا دہشت گردی فرقہ واریت صوبائیت اور لسانیت کے جھگڑوں نے قومی اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے جس سے دشمنوں کو شہ ملتی جا رہی ہے اور دوسری طرف بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اب سارے ملک اور ساری قوم پر احسان کرنے والے کی آخری آرام گا ہ کو بھی نہیں بخشا جارہا شاید ہم اللہ کے عذاب کو خود دعوت دہے رہے ہیں۔
لگتا یوں ہے کہ اس خبر کو قصداً دبا دیا گیاہے اس کی مزید تشہیر قصداً روک دی گئی ہے۔ گورنر سندھ کے نوٹس کے بعد کسی بھی قسم کی کوئی بھی کارروائی یا اس کا اعلان سامنے نہیں آیا کسی مجرم اہلکار کے خلاف تادیبی یا انتظامی کارروائی کا اشارہ نہیں ملا ۔گمان ہے کچھ بھی نہیں ہوگا اور ہم اسی طرح عظیم لوگوں کے احسان کا بدلہ چکاتے جائیں گے۔ اور اسی لیے ذلیل ورسواء ہوتے رہیں گے یہی ہماری آخری حد ہے۔
اے قائد ہمیں معاف کردینا ہم انتہائی احسان فراموش لوگ ہیں۔
خدا ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین