بچپن کے حادثات
کیا ڈالتے ہیں ازدواجی زندگی پر اثرات
''یہ تو شروع سے ہی ایسا ہے۔ اس کی تو بچپن سے ہی یہ عادت ہے۔'' یہ وہ چند جملے ہیں جو اکثر آپ میاں بیوی کے درمیان سنتے ہیں یا والدین اپنے بچوں کے بارے میں کہتے ہیں۔
یہ الفاظ بہت حد تک ہماری شخصیت کے بارے میں کچھ پہلوؤں کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ بھی کہ ہمارے دوسرے انسانوں کے ساتھ رویے اور ہماری ازدواجی زندگی کے سفر کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہیں۔ لیکن یہ اس سے بڑھ کر ہمارے بچپن کے بارے میں بھی بتاتے ہیں کہ ہم نے کس ماحول میں پرورش پائی ہے۔ ہمارا بچپن کیسا تھا اور ہماری موجودہ شخصیت اور کردار میں بچپن کے ماحول اور تربیت کا گہرا اثر ہوتا ہے۔
اسی لیے مذہبی تعلیمات کے مطابق بچوں کی ابتدائی تعلیم وتربیت پر خصوصی زور دیا جاتا ہے جسے جدید ریسرچ اور نفسیات نے بھی ثابت کردیا ہے کہ بچوں کی زندگی، شخصیت اور کردار میں بچپن کا بہت نمایاں اثر ہوتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچوں کی ابتدائی تعلیم وتربیت کرنے والوں کی جدید دور کے مطابق تعلیم وتربیت کا کوئی مناسب بندوبست نہیں ہے۔ آج کا دور گذشتہ 20 سالوں کی نسبت بہت بدل چکا ہے۔ آج کے دور میں بچوں کی پرورش ایک فل ٹائم جاب ہے جس کے لیے ٹریننگ اور کوچنگ کی بہت ضرورت ہے۔ آج ہم اپنے بچوں کی پرورش اُس انداز میں نہیں کرسکتے جس طرح ہمارے والدین نے ہماری پرورش کی تھی۔
ہمارے معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان کا سب سے اہم جز ازدواجی زندگی ہے لیکن اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ جس طرح سے اس پاک بندھن کو رسوا کیا جارہا ہے یا نوجوان نسل اس کی اہمیت کو کھو چکی ہے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس میں ان نوجوانوں کا شاید اتنا قصور نہ ہو جتنا اُن کی تعلیم وتربیت اور دیکھ بھال کرنے والے افراد کی غفلت اور لاعلمی کا ہے۔
حال ہی میں معروف میگزین ''سیکالوجی ٹوڈے'' میں ایک ریسرچ شائع ہوئی ہے جس میں ازدواجی زندگی میں مشکلات کا شکار ہونے والے افراد کی زندگی کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کی زندگی پر بچپن کے صدمے اور منفی حالات کا اثر تھا جو ان کی زندگی کو جوانی میں متاثر کررہا تھا۔ ایسے بچے جن کی ابتدائی زندگی میں عدم توجہ، مشکلات، خدشات اور مایوسی کا شکار رہی ہو ان کی زندگی میں یہ 10علامات پائی جاتی ہیں جو ان کی زندگی اور رویوں پر اثر انداز ہوتی ہیں:
1: رد اور ترک کئے جانے کا خوف :وہ بچے جنہیں ان کے والدین نے بچپن میں نظرانداز کیا ہو یا چھوڑ دیا ہو وہ اکثر جوانی تک چھوڑے جانے کے خوف کے ساتھ جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اکثر وہ اس سطح کے خدشات سے بے خبر بھی ہوں تو بھی یہ خوف ان کے اندر موجود ہوتا ہے۔
اگرچہ ان کا بنیادی خوف یہ ہوتا ہے کہ اُن کا ساتھی بالآخر اُنہیں چھوڑ دے گا۔ وہ ان خیالات کو اکثر روزمرہ کے حالات میں ظاہر کرتے ہیں۔ مثلاً جیسے کہ جب اُن کا ساتھی اکیلا باہر جاتا ہے تو وہ خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ اگر ساتھی کے ساتھ بحث کے دوران وہ کمرے سے باہر چلا جاتا ہے تو وہ خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ یہ خوف اکثر حسد یا جدائی جیسی انتہائی صورتوں میں ان کی شخصیت سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔
2:دوسروں کی موجودگی سے بیزاری اور جلد ہی ناراض ہوجانا: جب ہم ایسے ماحول میں بڑے ہوتے ہیں جہاں ہم پر کثرت سے تنقید کی جائے یا ہم دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھتے ہیں، تو ہم سمجھتے ہیں کہ تعلقات میں اپنی ناراضی کا اظہار کرنے کا یہ ایک فطری طریقہ ہے کہ دوسروں پر تنقید کی جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری خامیاں اور ناکامیاں ناقابلِ برداشت ہیں۔ ہمارے پارٹنرز یا ہمارے آس پاس موجود لوگ اس کو برداشت نہیں کریں گے، اس لیے ہم دوسروں کی موجودگی سے جلد ہی بیزار ی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔
3:اپنی ذات کے لیے بہت زیادہ وقت اور جگہ درکار ہونا: افراتفری اور غیرمتوقع ماحول میں پروان چڑھنا بہت زیادہ تناؤ پیدا کرتا ہے اور اکثر بچوں کے مرکزی اعصابی نظام کو مسلسل ذہنی کوفت کی حالت میں چھوڑ دیتا ہے۔
جب وہ بالغ ہو بھی جاتے ہیں تو بھی اُنہیں بے چینی، گھبراہٹ اور خوف کی ان علامات کو پرسکون کرنے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ وہ گھر میں رہنا محفوظ محسوس کرتے ہیں جہاں وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اور خود کو مناسب وقت اور آرام کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ایسی انتہائی صورت حال میں کچھ لوگوں میں سماجی اضطراب یا پیپلزفوبیا کا بھی گہرا اثر پایا جاتا ہے۔
4 : مالی اور گھریلو ذمے داریوں میں متوازن اشتراک نہ کرنا: بعض اوقات ایسے لوگ کسی دوسرے شخص پر انحصار کرنے کے خوف کی وجہ سے کسی بھی ساتھی پر بھروسا کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ آئندہ شراکت داری میں متوازن مالی اور گھریلو ذمے داری لینے سے گریز کرتے ہیں یا تو ایسے لوگ دوسرے شخص کا اس مقام تک مکمل خیال رکھتے ہیں یا اس کے برعکس اس مقام تک دوسروں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں کہ وہ آپ کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک رویہ ہے جو اکثر مسائل کا سبب بنتا ہے۔
5:رشتوں کی افادیت اور تعلق ختم ہونے کے باوجود رشتوں سے جُڑے رہنا: جب ہم غیرمستحکم ماحول میں پرورش پاتے ہیں تو اکثر ایسے والدین یا دیکھ بھال کرنے والوں کے ساتھ رہتے ہیں جو منشیات کی لت، دماغی بیماری، جسمانی بیماری یا موت کے ساتھ جدوجہد کررہے ہوتے ہیں، تو بچوں میں اکثر احساس جرم پیدا ہوتا ہے جو کہ تعلقات کو ختم کرنے کی خواہش سے پیدا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم ''ٹھیک'' کر سکیں، ایسے شخص کا کسی ایسے شخص کے ساتھ رہنا جو اُن کے لیے موزوں نہیں ہے کبھی کبھی تنہا رہنے سے زیادہ محفوظ محسوس کرتا ہے۔
6:عزیزوں سے مسلسل بحث یا لڑائی کرنا یا ہر قیمت پر جھگڑے سے گریز کرنا: زندگی میں تمام رشتوں میں تصادم اور تکرار ہوتا ہے لیکن وہ بچے جو ایسے ماحول میں پلے بڑھے ہوں جہاں نگہداشت کرنے والے ہمیشہ جھگڑتے رہتے ہیں یا جو کسی بھی قسم کے جھگڑے سے گریز کرتے ہیں، وہ اکثر نتیجہ خیز اور صحت مند بات چیت کے لیے ضروری ہنر نہیں سیکھ پاتے ہیں۔ ان کو تنازعات، مسائل اور معاملات کو حل کرنے اور منظم کرنے کے صحت مند اور نتیجہ خیز طریقے نہیں آتے۔
7:اختلاف کے بعد مفاہمت کرنے سے ناواقفیت: جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے جب ہم تنازعات کا نتیجہ خیز اور مناسب حل کرنا نہیں سیکھتے تو ہمیں یہ بھی معلوم نہیںہوتا کہ شراکت داری میں ہونے والے ناگزیر تنازعے کے بعد تعلقات کو کیسے بحال کیا جائے۔ ایسی صورت حال میں کب اور کیسے کسی مسئلے پر سمجھوتا کرنا ہے یا خاموشی اختیار کرنی ہے، یہ ایک اہم خوبی ہوتی ہے۔ میرے دادا اکثر کہا کرتے تھے کہ رشتے انسان نبھاتے ہیں فرشتے نہیں۔ رشتوں میں توازن قائم رکھنے کے لیے جھکاؤ نہیں برتاؤ اہم ہوتا ہے۔
8: نہ چاہے جانے کا مسلسل خوف: ایسے لوگ اکثر دوبارہ چوٹ لگنے کے خوف اور اکیلے رہنے کے خوف کے سائے میں جیتے رہتے ہیں۔ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اس توجہ اور پیار کے لائق ہیں جس سے وہ بچپن میں محروم رہے ہیں۔ یاد رکھیں ہر نئے انسان سے نئی اُمیدیں وابستہ ہوئی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ اپنا نیا سفر شروع کرسکتے ہیں۔
9:اس بارے میں بے وجہ فکرمند رہنا کہ میرا ساتھی کہیں مجھے چھوڑ نہ جائے : ایسا اُن لوگوں کے ساتھ عموماً ہوتا ہے جن کے والدین اور دیکھ بھال کرنے والے ناقابلِ اعتبار تھے یا اُن کو چھوڑ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو خدشہ ہوتا ہے کہ دوسرے بھی ان کو اس طرح تکلیف پہنچائیں گے جس طرح ان کی نگہداشت کرنے والوں نے اُن کے ساتھ کیا تھا۔ کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا اور ہر انسان کا سفر ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ اس لیے اپنے ماضی کے خدشات پر قابو پائیں اور رشتوں میں آزادی کے عنصر کو ہمیشہ مد نظر رکھیں۔
10ـ:اپنے جیون ساتھی کو زبردستی تبدیلی کے لیے ضد کرنا: یہ بچپن کے صدمے کا سب سے خطرناک ردِعمل ہے، جس میں اکثر لوگ اپنے ساتھی سے یہ کہتے ہیں۔ مجھے یہ شروع سے ہی پسند نہیں اس لیے تم یہ نہ کرو۔ تبدیلی کی کھڑکی ہمیشہ آہستہ آہستہ کھلتی ہے۔ بچے کیوںکہ بچپن میں اپنی نگہداشت کرنے والے کو تبدیل کرنے میں بے بس ہوتے ہیں۔ اس لیے اب جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کر تے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے ساتھی کے اندر تبدیلیوں کی خواہش کرتے ہیں تاکہ ہمارے تعلقات میں خوف پر قابو پایا جا سکے۔ دوسرا وہ یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ہم اس شخص کو ''ٹھیک'' کر سکتے ہیں اور انہیں ایک بہتر پارٹنر بنا سکتے ہیں تو ہم ایک کام یاب رشتہ قائم کرنے کے لائق اور اہل ہیں۔
اگر یہ علامات آپ کی زندگی میں پائی جاتی ہیں تو اس بات کا واضح اعلان ہے کہ آپ اپنی ازدواجی زندگی میں مشکلات کا شکار ہیں اور رہیں گے۔ معروف امریکی ماہرنفسیات اور میرج ایکسپرٹ جان ایم گاٹ مین کا کہنا ہے کہ میں شادی کرنے والے جوڑے سے صرف پانچ منٹ گفتگو کرکے بتا سکتا ہوں کہ اُن کی ازدواجی زندگی کام یاب ہوگی یا نہیں۔
یادرکھیں ہم سب انسان ہیں اور ہم اپنے ماحول اور اردگرد کے اثر سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہمارے رویے اور شخصیت میں بے شمار ایسے عوامل شامل ہوتے ہیں جو ہم نے خود نہیں سیکھے ہوتے بلکہ ہم اپنے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن آج کے دور میں پرسنل اور پروفیشنل زندگی میں کام یابی کے لیے متوازن شخصیت کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں۔
اگلا سب سے اہم سوال یہ ہونا چاہیے کہ کیا ان مسائل کا حل موجود ہے۔ جی ہاں، اس کا سب سے اہم اور بنیادی حل خود احتسابی ہے۔ اگر آپ اپنے رویوں کو بدلنے اور زندگی میں آگے بڑھنے کی سوچ رکھتے ہیں تو آپ کو اپنی زندگی کا بالخصوص اپنے بچپن کا جائزہ لینا ہوگا۔
اُن نکات، رویوں اور واقعات کو نوٹ کرنا ہوگا جو آپ کے رویوں پر اثرانداز ہوئے۔ اس ضمن میں آپ ماہرِِنفسیات کی راہ نمائی لے سکتے ہیں لیکن سب سے پہلے آپ کو خود کو اس تبدیلی کے عمل کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ ماضی کی تلخ یادوں اور واقعات کو اپنی موجودہ زندگی سے نکالنا آسان نہیں ہوتا لیکن یہ نا ممکن بھی نہیں ہے۔ اس ضمن میں دو بھارتی فلمیں آپ کو کسی حدتک اس کیفیت کو سمجھنے میں مدد کرسکتی ہیں۔ ''ڈیئر زندگی اور زندگی نہ ملے گی دوبارہ۔''
آپ کی زندگی بہت قیمتی ہے اور آپ زندگی کا ایک حصہ جو آپ کے بس میں نہیں تھا ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے زندگی بھر تلخ یادوں کی بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے کیوں چل رہے ہیں۔ اس بوجھ سے چھٹکارا حاصل کریں اور زندگی میں نئے رویوں، خیالات، سوچوں، نظریات اور لوگوں سے ملیں۔ اپنی دُنیا کو دیکھنے کا نظریہ بدلیں، چیزوں کو نئی نظر، نئے لینس اور نئے کینوس سے دیکھیں۔ اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو جمع کریں جو آپ کے حال کو بہتر اور مستقبل کو خوب صورت بنانے میں مدد کریں۔ آپ یقینی طور پر کہیں گے کہ یہ سب کتابی باتیں ہیں، ان کا ہماری زندگی سے کیا تعلق؟ بالکل درست میں بھی یہ ہی سوچتا تھا۔
میری زندگی بھی بہت سارے نشیب وفراز سے گزری لیکن میں نے یہ طے کرلیا تھا کہ حالات کو اپنے خیالات پر غالب نہیں آنے دینا، اپنے ماحول کو خود بنانا ہے۔ ماحول کو خود جیسا نہیں بنانے دینا۔ یہ سفر اور فیصلہ آسان نہیں ہوتا لیکن یہ اُس تکلیف اور کرب سے کہیں بہتر ہے جو آپ کی زندگی کو اجیرن بنا رہا ہے ۔ میری مانیں اپنی زندگی کو ایک نیا موڑ دیں۔
دوسروں کو معاف کریں کیوںکہ وہ بھی انسان ہیں۔ اپنی زندگی اور رویوں کی اب سے خود سو فی صد ذمے داری لینا شروع کریں اور کوشش کریں جو غلطیاں ہمارے والدین اور ہم سے ہوئیں وہ اب ہم اپنی نسلوں کو سنوارنے کے لیے نہ دہرائیں ورنہ وہ بھی کل کو ہماری طرح اپنے والدین کو اپنی زندگی کی تلخیوں کا ذمے دار ٹھہرائیں گے۔ اپنی زندگی کے نئے سفر کا آغاز اپنی ذات سے کریں۔ پھر دیکھیں اس خوب صورت کائنات کے خوب صورت پہلو آپ کی شخصیت سے نظر آئیں گے۔
یہ الفاظ بہت حد تک ہماری شخصیت کے بارے میں کچھ پہلوؤں کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ بھی کہ ہمارے دوسرے انسانوں کے ساتھ رویے اور ہماری ازدواجی زندگی کے سفر کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہیں۔ لیکن یہ اس سے بڑھ کر ہمارے بچپن کے بارے میں بھی بتاتے ہیں کہ ہم نے کس ماحول میں پرورش پائی ہے۔ ہمارا بچپن کیسا تھا اور ہماری موجودہ شخصیت اور کردار میں بچپن کے ماحول اور تربیت کا گہرا اثر ہوتا ہے۔
اسی لیے مذہبی تعلیمات کے مطابق بچوں کی ابتدائی تعلیم وتربیت پر خصوصی زور دیا جاتا ہے جسے جدید ریسرچ اور نفسیات نے بھی ثابت کردیا ہے کہ بچوں کی زندگی، شخصیت اور کردار میں بچپن کا بہت نمایاں اثر ہوتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچوں کی ابتدائی تعلیم وتربیت کرنے والوں کی جدید دور کے مطابق تعلیم وتربیت کا کوئی مناسب بندوبست نہیں ہے۔ آج کا دور گذشتہ 20 سالوں کی نسبت بہت بدل چکا ہے۔ آج کے دور میں بچوں کی پرورش ایک فل ٹائم جاب ہے جس کے لیے ٹریننگ اور کوچنگ کی بہت ضرورت ہے۔ آج ہم اپنے بچوں کی پرورش اُس انداز میں نہیں کرسکتے جس طرح ہمارے والدین نے ہماری پرورش کی تھی۔
ہمارے معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان کا سب سے اہم جز ازدواجی زندگی ہے لیکن اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ جس طرح سے اس پاک بندھن کو رسوا کیا جارہا ہے یا نوجوان نسل اس کی اہمیت کو کھو چکی ہے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس میں ان نوجوانوں کا شاید اتنا قصور نہ ہو جتنا اُن کی تعلیم وتربیت اور دیکھ بھال کرنے والے افراد کی غفلت اور لاعلمی کا ہے۔
حال ہی میں معروف میگزین ''سیکالوجی ٹوڈے'' میں ایک ریسرچ شائع ہوئی ہے جس میں ازدواجی زندگی میں مشکلات کا شکار ہونے والے افراد کی زندگی کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کی زندگی پر بچپن کے صدمے اور منفی حالات کا اثر تھا جو ان کی زندگی کو جوانی میں متاثر کررہا تھا۔ ایسے بچے جن کی ابتدائی زندگی میں عدم توجہ، مشکلات، خدشات اور مایوسی کا شکار رہی ہو ان کی زندگی میں یہ 10علامات پائی جاتی ہیں جو ان کی زندگی اور رویوں پر اثر انداز ہوتی ہیں:
1: رد اور ترک کئے جانے کا خوف :وہ بچے جنہیں ان کے والدین نے بچپن میں نظرانداز کیا ہو یا چھوڑ دیا ہو وہ اکثر جوانی تک چھوڑے جانے کے خوف کے ساتھ جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اکثر وہ اس سطح کے خدشات سے بے خبر بھی ہوں تو بھی یہ خوف ان کے اندر موجود ہوتا ہے۔
اگرچہ ان کا بنیادی خوف یہ ہوتا ہے کہ اُن کا ساتھی بالآخر اُنہیں چھوڑ دے گا۔ وہ ان خیالات کو اکثر روزمرہ کے حالات میں ظاہر کرتے ہیں۔ مثلاً جیسے کہ جب اُن کا ساتھی اکیلا باہر جاتا ہے تو وہ خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ اگر ساتھی کے ساتھ بحث کے دوران وہ کمرے سے باہر چلا جاتا ہے تو وہ خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ یہ خوف اکثر حسد یا جدائی جیسی انتہائی صورتوں میں ان کی شخصیت سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔
2:دوسروں کی موجودگی سے بیزاری اور جلد ہی ناراض ہوجانا: جب ہم ایسے ماحول میں بڑے ہوتے ہیں جہاں ہم پر کثرت سے تنقید کی جائے یا ہم دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھتے ہیں، تو ہم سمجھتے ہیں کہ تعلقات میں اپنی ناراضی کا اظہار کرنے کا یہ ایک فطری طریقہ ہے کہ دوسروں پر تنقید کی جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری خامیاں اور ناکامیاں ناقابلِ برداشت ہیں۔ ہمارے پارٹنرز یا ہمارے آس پاس موجود لوگ اس کو برداشت نہیں کریں گے، اس لیے ہم دوسروں کی موجودگی سے جلد ہی بیزار ی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔
3:اپنی ذات کے لیے بہت زیادہ وقت اور جگہ درکار ہونا: افراتفری اور غیرمتوقع ماحول میں پروان چڑھنا بہت زیادہ تناؤ پیدا کرتا ہے اور اکثر بچوں کے مرکزی اعصابی نظام کو مسلسل ذہنی کوفت کی حالت میں چھوڑ دیتا ہے۔
جب وہ بالغ ہو بھی جاتے ہیں تو بھی اُنہیں بے چینی، گھبراہٹ اور خوف کی ان علامات کو پرسکون کرنے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ وہ گھر میں رہنا محفوظ محسوس کرتے ہیں جہاں وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اور خود کو مناسب وقت اور آرام کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ایسی انتہائی صورت حال میں کچھ لوگوں میں سماجی اضطراب یا پیپلزفوبیا کا بھی گہرا اثر پایا جاتا ہے۔
4 : مالی اور گھریلو ذمے داریوں میں متوازن اشتراک نہ کرنا: بعض اوقات ایسے لوگ کسی دوسرے شخص پر انحصار کرنے کے خوف کی وجہ سے کسی بھی ساتھی پر بھروسا کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ آئندہ شراکت داری میں متوازن مالی اور گھریلو ذمے داری لینے سے گریز کرتے ہیں یا تو ایسے لوگ دوسرے شخص کا اس مقام تک مکمل خیال رکھتے ہیں یا اس کے برعکس اس مقام تک دوسروں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں کہ وہ آپ کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک رویہ ہے جو اکثر مسائل کا سبب بنتا ہے۔
5:رشتوں کی افادیت اور تعلق ختم ہونے کے باوجود رشتوں سے جُڑے رہنا: جب ہم غیرمستحکم ماحول میں پرورش پاتے ہیں تو اکثر ایسے والدین یا دیکھ بھال کرنے والوں کے ساتھ رہتے ہیں جو منشیات کی لت، دماغی بیماری، جسمانی بیماری یا موت کے ساتھ جدوجہد کررہے ہوتے ہیں، تو بچوں میں اکثر احساس جرم پیدا ہوتا ہے جو کہ تعلقات کو ختم کرنے کی خواہش سے پیدا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم ''ٹھیک'' کر سکیں، ایسے شخص کا کسی ایسے شخص کے ساتھ رہنا جو اُن کے لیے موزوں نہیں ہے کبھی کبھی تنہا رہنے سے زیادہ محفوظ محسوس کرتا ہے۔
6:عزیزوں سے مسلسل بحث یا لڑائی کرنا یا ہر قیمت پر جھگڑے سے گریز کرنا: زندگی میں تمام رشتوں میں تصادم اور تکرار ہوتا ہے لیکن وہ بچے جو ایسے ماحول میں پلے بڑھے ہوں جہاں نگہداشت کرنے والے ہمیشہ جھگڑتے رہتے ہیں یا جو کسی بھی قسم کے جھگڑے سے گریز کرتے ہیں، وہ اکثر نتیجہ خیز اور صحت مند بات چیت کے لیے ضروری ہنر نہیں سیکھ پاتے ہیں۔ ان کو تنازعات، مسائل اور معاملات کو حل کرنے اور منظم کرنے کے صحت مند اور نتیجہ خیز طریقے نہیں آتے۔
7:اختلاف کے بعد مفاہمت کرنے سے ناواقفیت: جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے جب ہم تنازعات کا نتیجہ خیز اور مناسب حل کرنا نہیں سیکھتے تو ہمیں یہ بھی معلوم نہیںہوتا کہ شراکت داری میں ہونے والے ناگزیر تنازعے کے بعد تعلقات کو کیسے بحال کیا جائے۔ ایسی صورت حال میں کب اور کیسے کسی مسئلے پر سمجھوتا کرنا ہے یا خاموشی اختیار کرنی ہے، یہ ایک اہم خوبی ہوتی ہے۔ میرے دادا اکثر کہا کرتے تھے کہ رشتے انسان نبھاتے ہیں فرشتے نہیں۔ رشتوں میں توازن قائم رکھنے کے لیے جھکاؤ نہیں برتاؤ اہم ہوتا ہے۔
8: نہ چاہے جانے کا مسلسل خوف: ایسے لوگ اکثر دوبارہ چوٹ لگنے کے خوف اور اکیلے رہنے کے خوف کے سائے میں جیتے رہتے ہیں۔ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اس توجہ اور پیار کے لائق ہیں جس سے وہ بچپن میں محروم رہے ہیں۔ یاد رکھیں ہر نئے انسان سے نئی اُمیدیں وابستہ ہوئی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ اپنا نیا سفر شروع کرسکتے ہیں۔
9:اس بارے میں بے وجہ فکرمند رہنا کہ میرا ساتھی کہیں مجھے چھوڑ نہ جائے : ایسا اُن لوگوں کے ساتھ عموماً ہوتا ہے جن کے والدین اور دیکھ بھال کرنے والے ناقابلِ اعتبار تھے یا اُن کو چھوڑ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو خدشہ ہوتا ہے کہ دوسرے بھی ان کو اس طرح تکلیف پہنچائیں گے جس طرح ان کی نگہداشت کرنے والوں نے اُن کے ساتھ کیا تھا۔ کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا اور ہر انسان کا سفر ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ اس لیے اپنے ماضی کے خدشات پر قابو پائیں اور رشتوں میں آزادی کے عنصر کو ہمیشہ مد نظر رکھیں۔
10ـ:اپنے جیون ساتھی کو زبردستی تبدیلی کے لیے ضد کرنا: یہ بچپن کے صدمے کا سب سے خطرناک ردِعمل ہے، جس میں اکثر لوگ اپنے ساتھی سے یہ کہتے ہیں۔ مجھے یہ شروع سے ہی پسند نہیں اس لیے تم یہ نہ کرو۔ تبدیلی کی کھڑکی ہمیشہ آہستہ آہستہ کھلتی ہے۔ بچے کیوںکہ بچپن میں اپنی نگہداشت کرنے والے کو تبدیل کرنے میں بے بس ہوتے ہیں۔ اس لیے اب جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کر تے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے ساتھی کے اندر تبدیلیوں کی خواہش کرتے ہیں تاکہ ہمارے تعلقات میں خوف پر قابو پایا جا سکے۔ دوسرا وہ یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ہم اس شخص کو ''ٹھیک'' کر سکتے ہیں اور انہیں ایک بہتر پارٹنر بنا سکتے ہیں تو ہم ایک کام یاب رشتہ قائم کرنے کے لائق اور اہل ہیں۔
اگر یہ علامات آپ کی زندگی میں پائی جاتی ہیں تو اس بات کا واضح اعلان ہے کہ آپ اپنی ازدواجی زندگی میں مشکلات کا شکار ہیں اور رہیں گے۔ معروف امریکی ماہرنفسیات اور میرج ایکسپرٹ جان ایم گاٹ مین کا کہنا ہے کہ میں شادی کرنے والے جوڑے سے صرف پانچ منٹ گفتگو کرکے بتا سکتا ہوں کہ اُن کی ازدواجی زندگی کام یاب ہوگی یا نہیں۔
یادرکھیں ہم سب انسان ہیں اور ہم اپنے ماحول اور اردگرد کے اثر سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہمارے رویے اور شخصیت میں بے شمار ایسے عوامل شامل ہوتے ہیں جو ہم نے خود نہیں سیکھے ہوتے بلکہ ہم اپنے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن آج کے دور میں پرسنل اور پروفیشنل زندگی میں کام یابی کے لیے متوازن شخصیت کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں۔
اگلا سب سے اہم سوال یہ ہونا چاہیے کہ کیا ان مسائل کا حل موجود ہے۔ جی ہاں، اس کا سب سے اہم اور بنیادی حل خود احتسابی ہے۔ اگر آپ اپنے رویوں کو بدلنے اور زندگی میں آگے بڑھنے کی سوچ رکھتے ہیں تو آپ کو اپنی زندگی کا بالخصوص اپنے بچپن کا جائزہ لینا ہوگا۔
اُن نکات، رویوں اور واقعات کو نوٹ کرنا ہوگا جو آپ کے رویوں پر اثرانداز ہوئے۔ اس ضمن میں آپ ماہرِِنفسیات کی راہ نمائی لے سکتے ہیں لیکن سب سے پہلے آپ کو خود کو اس تبدیلی کے عمل کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ ماضی کی تلخ یادوں اور واقعات کو اپنی موجودہ زندگی سے نکالنا آسان نہیں ہوتا لیکن یہ نا ممکن بھی نہیں ہے۔ اس ضمن میں دو بھارتی فلمیں آپ کو کسی حدتک اس کیفیت کو سمجھنے میں مدد کرسکتی ہیں۔ ''ڈیئر زندگی اور زندگی نہ ملے گی دوبارہ۔''
آپ کی زندگی بہت قیمتی ہے اور آپ زندگی کا ایک حصہ جو آپ کے بس میں نہیں تھا ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے زندگی بھر تلخ یادوں کی بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے کیوں چل رہے ہیں۔ اس بوجھ سے چھٹکارا حاصل کریں اور زندگی میں نئے رویوں، خیالات، سوچوں، نظریات اور لوگوں سے ملیں۔ اپنی دُنیا کو دیکھنے کا نظریہ بدلیں، چیزوں کو نئی نظر، نئے لینس اور نئے کینوس سے دیکھیں۔ اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو جمع کریں جو آپ کے حال کو بہتر اور مستقبل کو خوب صورت بنانے میں مدد کریں۔ آپ یقینی طور پر کہیں گے کہ یہ سب کتابی باتیں ہیں، ان کا ہماری زندگی سے کیا تعلق؟ بالکل درست میں بھی یہ ہی سوچتا تھا۔
میری زندگی بھی بہت سارے نشیب وفراز سے گزری لیکن میں نے یہ طے کرلیا تھا کہ حالات کو اپنے خیالات پر غالب نہیں آنے دینا، اپنے ماحول کو خود بنانا ہے۔ ماحول کو خود جیسا نہیں بنانے دینا۔ یہ سفر اور فیصلہ آسان نہیں ہوتا لیکن یہ اُس تکلیف اور کرب سے کہیں بہتر ہے جو آپ کی زندگی کو اجیرن بنا رہا ہے ۔ میری مانیں اپنی زندگی کو ایک نیا موڑ دیں۔
دوسروں کو معاف کریں کیوںکہ وہ بھی انسان ہیں۔ اپنی زندگی اور رویوں کی اب سے خود سو فی صد ذمے داری لینا شروع کریں اور کوشش کریں جو غلطیاں ہمارے والدین اور ہم سے ہوئیں وہ اب ہم اپنی نسلوں کو سنوارنے کے لیے نہ دہرائیں ورنہ وہ بھی کل کو ہماری طرح اپنے والدین کو اپنی زندگی کی تلخیوں کا ذمے دار ٹھہرائیں گے۔ اپنی زندگی کے نئے سفر کا آغاز اپنی ذات سے کریں۔ پھر دیکھیں اس خوب صورت کائنات کے خوب صورت پہلو آپ کی شخصیت سے نظر آئیں گے۔