’’اشتہاریوں‘‘ کی تعداد پانچ ہزار کا ہندسہ عبور کرگئی
بے بسی پر پردہ ڈالنے کے لیے پولیس کے روایتی ہتھکنڈے
وفاقی دارالحکومت میں قتل، اقدام قتل، ڈکیتی، اغوا اور دیگر سنگین جرائم میں پولیس کومطلوب اشتہاری ملزموں اور عدالتی مفروروں کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
ان میں سب سے زیادہ (1863) اشتہاری ملزم، اسلام آباد کے صدر زون کو مطلوب ہیں، جنہیں پولیس گرفتار کرنے میں بے بس دکھائی دے رہی ہے جب کہ سب سے کم تعداد رورل زون کی ہے، یہاں پولیس کو مجموعی طور 750 ہے۔ پولیس کی ریکارڈ بُک کے مطابق اس وقت مجموعی طور پر وفاقی پولیس کے اشتہاری ملزموں کی تعداد گذشتہ سال جون میں 3000 کے لگ بھگ تھی، جو اب بڑھ کر 5015 ہوگئی ہے ان میں 2569 اشتہاری جب کہ 2446 عدالتی مفرورشامل ہیں۔
آپریشنل پولیس کے زون وائز جائزے میں ایک اہم بات قابل ذکر یہ ہے کہ رورل سرکل زون میں اورصدر زون میں شامل تھانوں کی تعداد مساوی ہے مگرصدر زون کے مطلوب ملزموں کی تعداد رورل زون کی نسبت دوگنا سے بھی زیادہ ہے، جس میںصدر زون کے 948 اشتہاری ملزم اور 865 عدالتی مفرور جب کہ رورل زون کے 410 اشتہاری اور 380 عدالتی مفرور ہیں۔ اس میں اگر جرائم کی شرح کا ریکارڈ دیکھا جائے تو صدر زون میں رورل زون کی نسبت جرائم کی شرح پندرہ فی صد زیادہ ہے لہٰذا اس زون میں مقدمات کا اندراج بھی زیادہ ہوتا ہے مگر پولیس کو مطلوب ملزموں کی تعداد پندرہ فی صد زیادہ ہونے کے بہ جائے سوفی صد سے بھی زیادہ ہے، جسے صدر زون میں شامل تھانے گولڑہ، شالیمار، ترنول، ویمن، مارگلہ اور رمنا تھانوں کی پولیس گرفتار کرنے میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے اور اس سرکل میں جرائم کی شرح کو بھی کنٹرول کرنے میں پولیس مطلوبہ کارکردگی اور صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کر پارہی۔
پولیس کی اپنی ہی ریکارڈ بُک سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اسی زون کے دو تھانوں شالیمار اور رمنا کے ایس ایچ اوز کو آئی جی اسلام آباد سکندر حیات عہدہ سے معطل بھی کرچکے ہیں اور ایس ایچ او تھانہ گولڑہ کوکرائم میٹنگ میں شوکاز نوٹس بھی جاری کیا گیا، ڈیڈ لائن بھی دی گئی کہ وہ اپنی ناقص کارکردگی کو بہتر کریں لیکن گولڑہ کی حدود میں ہو رہے سنگین جرائم کم نہیں ہو سکے تو پولیس نے اپنا روایتی ہتھکنڈہ استعمال کر کے جرائم کی اوسط شرح کو برقرار رکھنے کے لیے، سنگین جرائم کے 'مبینہ' درجنوں واقعات کے مقدمات درج کرنے کے بہ جائے مدعیوں کودباؤ میں لا کر روزنامچوں میں 'رپٹیں' درج کر کے وقت گذارنا شروع کیا جب کہ تھانہ آب پارہ، رمنا، بنی گالا، نیلور، سبزی منڈی اور سیکریٹیریٹ کو آئی جی کی واضح احکامات کے باوجود سائلوں کی شکایات کی سوفی صد رجسٹریشن کرنے میں تاخیری حربے اختیار کرنے یا بے والی و وارث مدعیوں کے مقدمات سرے سے درج ہی نہ کرنے کی ریت اپنا لی۔ اس طرح روزنامچوں میں اندراج کے حوالے سے عوامی حلقوں کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔
پولیس کے ریکارڈ بک کے مطابق اسوقت سٹی زون کوسولہ سوبارہ، صدرزون کواٹھارہ سوتریسٹھ، آئی نائن سرکل کو سات سو نوے اوررورل سرکل کوسات سو پچاس اشتہاری وعدالتی مفرورمطلوب ہیں۔ اشتہاری ملزمان کیخلاف کریک ڈاؤن کرکے انہیں گرفتار کرنے کی پولیس حکام کی سخت ہدایات ہیںجسکی وجہ سے ابتک ایک سو تہتراشتہاری ملزمان وعدالتی مفروروں کو پولیس نے گرفتارکیاہے۔ ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض مبینہ بااثر اشتہاری ملزمان کو متعلقہ تھانے دانستہ طور پر بھی ہاتھ نہیں ڈالتے اور ماضی میں بعض شہری حدودپرمشتمل تھانوں کے عقب پرکھلے عام کاروبارکرنے والے سال ہا سال سے پولیس کو مطلوب کئی ملزمان کو گرفتارنہیں کیا گیا تھا جس پر کئی ایس ایچ اوزکے خلاف سخت محکمانہ ایکشن بھی لیا گیا تھا۔ ذرائع نے یہ بھی کہا کہ بعض ملزم اس قدر معتبر ہیں کہ ان کے خلاف ایک ایک درجن سے بھی زائدمقدمات درج ہیں مگر وہ گرفتار نہیں ہوتے۔ ایسے ملزمان کئی کئی سال سے متعلقہ تھانوں کو مطلوب ہیں۔
اس پر وفاقی پولیس کے ایک آفیسر نے ایکسپریس سے گفتگو میں کہا کہ ہم اپنی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں مگرجب تک صرف اسلام آباد آپریشنل پولیس ہی نہیں ٹریفک پولیس میں بھی سوفی صدتطہیر نہیں کی جائے گی۔ ملک بھرکیلئے اسے رول ماڈل پولیس نہیں بنایا جاسکے گا۔وفاقی پولیس کوقتل سمیت دیگرسنگین جرائم میں مقدمات میں ملوث رہنے والے ماتحت افسران واہلکاروں سے پاک کرنا ہوگا۔ سنگین جرائم کے اشتہاریوں کی گرفتاری پہلی ترجیح بناکر پولیس پٹرولنگ کو فعال بنانا اور تمام تھانوں میں کلوزسرکٹ کیمرے نصب کرکے اہم شعبوں کوپولیس حکام کے مرکزی دفتر کیساتھ منسلک کیا جانا چاہیئے۔ ان اقدامات سے حالات میں خاطر خواہ بہتری ہوگی اوروفاقی دارالحکومت کے اہم مقدمات پرکلوزسرکٹ کیمروں کی تنصیب کے ساتھ ساتھ جو جرائم کو روکنے کے زمہ دارتھانے ہیں انکا بھی تمام ماحول دیکھنے کیلئے ناگزیر ہے کہ وزیر داخلہ یہ اقدام اٹھائیں اس سے تھانوں میں حبس میں بے جاء میں رکھنے، سائیلین ے ساتھ زیادتی کرنے یا تھانوں میں تشدد کے واقعات بھی ختم کئے جاسکتے ہیں۔
ان میں سب سے زیادہ (1863) اشتہاری ملزم، اسلام آباد کے صدر زون کو مطلوب ہیں، جنہیں پولیس گرفتار کرنے میں بے بس دکھائی دے رہی ہے جب کہ سب سے کم تعداد رورل زون کی ہے، یہاں پولیس کو مجموعی طور 750 ہے۔ پولیس کی ریکارڈ بُک کے مطابق اس وقت مجموعی طور پر وفاقی پولیس کے اشتہاری ملزموں کی تعداد گذشتہ سال جون میں 3000 کے لگ بھگ تھی، جو اب بڑھ کر 5015 ہوگئی ہے ان میں 2569 اشتہاری جب کہ 2446 عدالتی مفرورشامل ہیں۔
آپریشنل پولیس کے زون وائز جائزے میں ایک اہم بات قابل ذکر یہ ہے کہ رورل سرکل زون میں اورصدر زون میں شامل تھانوں کی تعداد مساوی ہے مگرصدر زون کے مطلوب ملزموں کی تعداد رورل زون کی نسبت دوگنا سے بھی زیادہ ہے، جس میںصدر زون کے 948 اشتہاری ملزم اور 865 عدالتی مفرور جب کہ رورل زون کے 410 اشتہاری اور 380 عدالتی مفرور ہیں۔ اس میں اگر جرائم کی شرح کا ریکارڈ دیکھا جائے تو صدر زون میں رورل زون کی نسبت جرائم کی شرح پندرہ فی صد زیادہ ہے لہٰذا اس زون میں مقدمات کا اندراج بھی زیادہ ہوتا ہے مگر پولیس کو مطلوب ملزموں کی تعداد پندرہ فی صد زیادہ ہونے کے بہ جائے سوفی صد سے بھی زیادہ ہے، جسے صدر زون میں شامل تھانے گولڑہ، شالیمار، ترنول، ویمن، مارگلہ اور رمنا تھانوں کی پولیس گرفتار کرنے میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے اور اس سرکل میں جرائم کی شرح کو بھی کنٹرول کرنے میں پولیس مطلوبہ کارکردگی اور صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کر پارہی۔
پولیس کی اپنی ہی ریکارڈ بُک سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اسی زون کے دو تھانوں شالیمار اور رمنا کے ایس ایچ اوز کو آئی جی اسلام آباد سکندر حیات عہدہ سے معطل بھی کرچکے ہیں اور ایس ایچ او تھانہ گولڑہ کوکرائم میٹنگ میں شوکاز نوٹس بھی جاری کیا گیا، ڈیڈ لائن بھی دی گئی کہ وہ اپنی ناقص کارکردگی کو بہتر کریں لیکن گولڑہ کی حدود میں ہو رہے سنگین جرائم کم نہیں ہو سکے تو پولیس نے اپنا روایتی ہتھکنڈہ استعمال کر کے جرائم کی اوسط شرح کو برقرار رکھنے کے لیے، سنگین جرائم کے 'مبینہ' درجنوں واقعات کے مقدمات درج کرنے کے بہ جائے مدعیوں کودباؤ میں لا کر روزنامچوں میں 'رپٹیں' درج کر کے وقت گذارنا شروع کیا جب کہ تھانہ آب پارہ، رمنا، بنی گالا، نیلور، سبزی منڈی اور سیکریٹیریٹ کو آئی جی کی واضح احکامات کے باوجود سائلوں کی شکایات کی سوفی صد رجسٹریشن کرنے میں تاخیری حربے اختیار کرنے یا بے والی و وارث مدعیوں کے مقدمات سرے سے درج ہی نہ کرنے کی ریت اپنا لی۔ اس طرح روزنامچوں میں اندراج کے حوالے سے عوامی حلقوں کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔
پولیس کے ریکارڈ بک کے مطابق اسوقت سٹی زون کوسولہ سوبارہ، صدرزون کواٹھارہ سوتریسٹھ، آئی نائن سرکل کو سات سو نوے اوررورل سرکل کوسات سو پچاس اشتہاری وعدالتی مفرورمطلوب ہیں۔ اشتہاری ملزمان کیخلاف کریک ڈاؤن کرکے انہیں گرفتار کرنے کی پولیس حکام کی سخت ہدایات ہیںجسکی وجہ سے ابتک ایک سو تہتراشتہاری ملزمان وعدالتی مفروروں کو پولیس نے گرفتارکیاہے۔ ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض مبینہ بااثر اشتہاری ملزمان کو متعلقہ تھانے دانستہ طور پر بھی ہاتھ نہیں ڈالتے اور ماضی میں بعض شہری حدودپرمشتمل تھانوں کے عقب پرکھلے عام کاروبارکرنے والے سال ہا سال سے پولیس کو مطلوب کئی ملزمان کو گرفتارنہیں کیا گیا تھا جس پر کئی ایس ایچ اوزکے خلاف سخت محکمانہ ایکشن بھی لیا گیا تھا۔ ذرائع نے یہ بھی کہا کہ بعض ملزم اس قدر معتبر ہیں کہ ان کے خلاف ایک ایک درجن سے بھی زائدمقدمات درج ہیں مگر وہ گرفتار نہیں ہوتے۔ ایسے ملزمان کئی کئی سال سے متعلقہ تھانوں کو مطلوب ہیں۔
اس پر وفاقی پولیس کے ایک آفیسر نے ایکسپریس سے گفتگو میں کہا کہ ہم اپنی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں مگرجب تک صرف اسلام آباد آپریشنل پولیس ہی نہیں ٹریفک پولیس میں بھی سوفی صدتطہیر نہیں کی جائے گی۔ ملک بھرکیلئے اسے رول ماڈل پولیس نہیں بنایا جاسکے گا۔وفاقی پولیس کوقتل سمیت دیگرسنگین جرائم میں مقدمات میں ملوث رہنے والے ماتحت افسران واہلکاروں سے پاک کرنا ہوگا۔ سنگین جرائم کے اشتہاریوں کی گرفتاری پہلی ترجیح بناکر پولیس پٹرولنگ کو فعال بنانا اور تمام تھانوں میں کلوزسرکٹ کیمرے نصب کرکے اہم شعبوں کوپولیس حکام کے مرکزی دفتر کیساتھ منسلک کیا جانا چاہیئے۔ ان اقدامات سے حالات میں خاطر خواہ بہتری ہوگی اوروفاقی دارالحکومت کے اہم مقدمات پرکلوزسرکٹ کیمروں کی تنصیب کے ساتھ ساتھ جو جرائم کو روکنے کے زمہ دارتھانے ہیں انکا بھی تمام ماحول دیکھنے کیلئے ناگزیر ہے کہ وزیر داخلہ یہ اقدام اٹھائیں اس سے تھانوں میں حبس میں بے جاء میں رکھنے، سائیلین ے ساتھ زیادتی کرنے یا تھانوں میں تشدد کے واقعات بھی ختم کئے جاسکتے ہیں۔