کوچۂ سخن
غزل
کبھی سازشوں کا ہدف بنے کبھی انتشار میں کھو گئے
شب و روز اہلِ امید کے اسی کاروبار میں کھو گئے
وہ جو التفات کی چاندنی تھی، زمانوں قبل ہی بجھ گئی
وہ جو روشنی کی کلید تھے وہی دن غبار میں کھو گئے
رخِ پرجمال پہ بہہ رہا ہے فشارِ موجۂ نیلگوں
تھے جو رنگ وجہِ شگفتگی وہ گئی بہار میں کھو گئے
یہ نہ پوچھ کتنے دھنک نواز سمے فقیر کی عمر کے
تری دل لگی کا ہدف بنے ترے انتظار میں کھو گئے
میں بڑی اداسی میں سوچتا ہوں گئے دنوں کی ترنگ کو
جو کسی یقیں میں فنا ہوئے جو کسی فشار میں کھو گئے
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
جنونِ شوق کسی مرحلے میں تھا ہی نہیں
کوئی چناب مرے راستے میں تھا ہی نہیں
کھڑا تھا سامنے اس کے مگر تعجب ہے
کہ مرا عکس کہیں آئینے میں تھا ہی نہیں
اندھیرا بانٹنے آیا تھا رنج و غم اس کے
چراغِ شام کہ جو طاقچے میں تھا ہی نہیں
شبِ طویل بھی کاٹی ہے خود کلامی سے
کوئی شریک مرے رتجگے میں تھا ہی نہیں
ہر ایک کال پہ اس کا گماں گزرتا ہے
جو ایک شخص کبھی رابطے میں تھا ہی نہیں
سزائیں کاٹنی تھیں عمر بھر مجھے لیکن
مرا بیان کسی فیصلے میں تھا ہی نہیں
مجھے تھی گمشدہ منزل کی جستجو ارشد
کہ میرا دھیان کسی آبلے میں تھا ہی نہیں
(ارشد محمود ارشد ۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
لوگ مرتے ہیں ابتدا کے لیے
میں توجیتا ہوں انتہا کے لیے
آزمایا ہے میں نے دنیا کو
مجھ سے پوچھو نہ کچھ خدا کے لیے
پیار کا میں گناہ کر بیٹھا
کس کو منصف کروں سزا کے لیے
گھر کے دروازے کھڑکیاں کھولو
رستے بنتے ہیں یہ ہوا کے لیے
دندناتے ہیں خار باغوں میں
پھول کھلتے ہیں سب فنا کے لیے
یادآتا ہے اک حسیں چہرہ
ہاتھ اٹھتے ہیں جب دعا کے لیے
میں نے سب کچھ گنوا دیا بزمیؔ
ایک خود غرض بے وفا کے لیے
(شبیر بزمی۔لاہور)
۔۔۔
غزل
یا تو دنیا بنے یا دین بنے
ایک شئے پر مرا یقین بنے
وقت پر کام ہورہے ہیں سب
پھر رہا ہے کوئی مشین بنے
دن گزارے بڑی اذیت میں
بن بلائے پنہ گزین بنے
جانے والے سبھی اکٹھے ہوں
اور اچھا سا ایک سین بنے
عمر بھر رد کیا محبت کو
مٹتی قبروں کے زائرین بنے
گرمجوشی نے عقل گُل کر دی
سرد مہری سے سب ذہین بنے
جی جلانے کو شعر کہتے ہیں
مفت میں لوگ شائقین بنے
(حنا عنبرین۔ لیہ)
۔۔۔
غزل
صبر والا نہ حوصلے والا
آدمی ہوں میں بولنے والا
مجھ میں دونوں فریق رہتے ہیں
ہارنے والا، جیتنے والا
بانٹ رکھے ہیں کام اس کے ساتھ
میں منانے، وہ روٹھنے والا
میں ہوں مشہور آسمانوں میں
عقدۂ دہر کھولنے والا
دلِ محدود میں وہ لامحدود
سونے والے میں جاگنے والا
میری تخلیق کا نصاب ہے یہ
دل کے آئینے جوڑنے والا
گردشِ وقت ڈھونڈتی ہے امرؔ
آدمی ہنسنے کھیلنے والا
(امر روحانی۔ ملتان)
۔۔۔
غزل
نرگس کی عروسہ کی پھبن کھینچ رہا ہے
اک پھول نما جسم چمن کھینچ رہا ہے
اے دوست ذرا قرب کی مقدار بڑھا دے
زخموں سے ترا لمس جلن کھینچ رہا ہے
ایسے نہیں چپکا ہوا دیوار سے ہر شخص
تصویر بتاتی ہے کہ فن کھینچ رہا ہے
یہ کون ہے مژگاں پہ غزل ٹانکے ہوئے ہے
کس چشمِ غنودہ کا سخن کھینچ رہا ہے
تنہا پڑا کونے میں کوئی کھانستا بوڑھا
بوسیدہ روّیوں کی گھٹن کھینچ رہا ہے
آشفتہ سری بھی ہے یہ آشوبِ خرد بھی
ہر شخص یہاں اپنا کفن کھینچ رہا ہے
(ارشم نیازی۔ میانوالی)
۔۔۔
غزل
ترے دماغ میں بچپن کی لاش تھوڑی ہے
مری طرح تجھے فکرِ معاش تھوڑی ہے
ہمارے ہاں تو نہیں چلتا حکم کا اِکّا
ہمارا کھیل محبت ہے تاش تھوڑی ہے
جہاں سے چاہا، اٹھا کر چکھا، رکھا واپس
شعورِ ذات کسی پھل کی قاش تھوڑی ہے
چھپانا پڑتا ہے دل کا معاملہ اکثر
اکیلے ملتے ہیں یہ راز فاش تھوڑی ہے
صبا ؔکسی کے لیے در بدر نہیں رہتی
خدائی کو بھی خدا کی تلاش تھوڑی ہے
(صبا تابش۔ کولکتہ)
۔۔۔
غزل
اداس رات کی وحشت ہوں مجھ سے دور رہو
میں مبتلائے اذیت ہوں مجھ سے دور رہو
بھلا تمہارا اسی میں ہے پارسا لوگو
گناہگار کی صحبت ہوں مجھ سے دور رہو
مرے قریب جو آئے اداس رہتا ہے
میں کرب و غم کی عمارت ہوں مجھ سے دور رہو
مرے وجود کو چھو لو تو راکھ ہو جاؤ
کسی کے لمس کی حدت ہوں مجھ سے دور رہو
تم اس کی چال سے واقف نہیں اسے کہہ دو
میں خاندان کی عزت ہوں مجھ سے دور رہو
(نبیل حاجب ۔حافظ آباد)
۔۔۔
غزل
اس حوالے سے اسے پند شکیبائی ہو
تیرے زخموں کی میاں اتنی تو گہرائی ہو
جب بیاں ہونے لگیں پوریں زباں چھو جائیں
میری تکلیف کی کچھ ایسی پذیرائی ہو
تیری حرکت کی بدولت ہے عبادت میری
تو جہاں پیر رکھے میری جبیں سائی ہو
کاش وہ چھت پہ کھڑی بال سکھاتی ہو غزل
آخری ہی سہی پر خواہش انگڑائی ہو
(مزمل حسین انقلابی۔ بوسال منڈی،بہاؤالدین)
۔۔۔
غزل
جس میں راجا نہ کوئی رانی ہے
وہ جوانی بھی کیا جوانی ہے
ہم سے پوچھو نا قیس کے بارے
دشت کی خاک ہم نے چھانی ہے
دوستی کی وہ قدر کیا جانیں
جن کا مقصد ہی چائے پانی ہے
کون سی بات ٹال دی میں نے
کون سی بات تو نے مانی ہے
رات بھر ہم کلام رہتے ہیں
چاند تاروں کی مہربانی ہے
آپ کی اصلیت سمجھنے کو
آپ سے رسم و راہ بڑھانی ہے
صرف آنکھوں تلک ہے یا صادق
اس سے آگے بھی کچھ کہانی ہے؟
(محمد امین صادق۔ مانسہرہ )
۔۔۔
غزل
وار لاغر پہ ہم نہیں کرتے
ورنہ دشمن کرم نہیں کرتے
شعر کہنے کا فن بھی آتا ہے
زود گوئی بھی ہم نہیں کرتے
جب غرض ہو تو لوگ دشمن کی
کچھ خوشامد بھی کم نہیں کرتے
صبر والے یقین والے لوگ
امتحانوں پہ غم نہیں کرتے
تو نے مانگا نہیں سلیقے سے
کب وہ کس پر کرم نہیں کرتے
قدر ہو جب خلوص والوں کی
پیار والے ستم نہیں کرتے
(محمد ادریس روباص۔ ڈی آئی خان)
۔۔۔
غزل
میں کیسے جھیل سکوں گا بنانے والے کا دکھ
جھری جھری پہ لکھا ہے لگانے والے کا دکھ
غضب کی آنکھ اداکار تھی، مگر ہائے
تمھاری بات ہنسی میں اڑانے والے کا دکھ
غزل میں درد کی پہلے بھی کچھ کمی نہیں تھی
اور اس پہ ہو گیا شامل سنانے والے کا دکھ
تجھے تو دکھ ہے فقط اپنی لامکانی کا
قیام کر تو کھلے گا ٹھکانے والے کا دکھ
بدن کے چیتھڑے اڑتے کہیں ہواؤں میں
سنانے والے سے کم تھا چھپانے والے کا دکھ
گرانے والے کے احساس میں نہیں قیصر
یہ آسماں کو زمیں پر اٹھانے والے کا دکھ
( زبیر قیصر ۔باہتر، اٹک)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی