تحریک عدم اعتماد اور نادانیاں

دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ تحریک عدم اعتماد فیس کرنے کےلیے آئینی راستہ اختیار کیا جائے

ashfaqkhan@express.com.pk

لاہور:
صبر آزما ساڑھے تین سال کے بعد اب تبدیلی سرکار کے کپتان کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جے یو آئی، اے این پی سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف ایک پیج پر دکھائی دے رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان، آصف علی زرداری، میاں شہباز شریف ہر گزرتے لمحے کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اور ایک ایک رکن قومی اسمبلی ان کی نظروں کے سامنے ہے۔

حکومت کی اتحادی جماعتیں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور باپ ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے دو گروپ جہانگیزترین اور علیم خان گروپ بھی اپوزیشن سے رابطوں میں ہیں۔ سب کا مطمع نظر اس وقت تبدیلی سرکار کو ہٹانا اور مستقبل کے سیاسی منظر نامے کا تعین کرنا ہے۔ ادھر جس دن سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی ہے اس دن سے حکومت کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے، صرف کپتان ہی نہیں تبدیلی سرکار کے وزراء اور ترجمان بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔

کپتان اور اس کی ٹیم نے مولانا فضل الرحمان سمیت اہم قومی قائدین کے متعلق عوامی اجتماعات میں جس بھونڈے انداز سے تنقید کی، باشعور شہریوں نے اسے پسند نہیں کیا۔ اسی بوکھلاہٹ میں پارلیمنٹ لاجز کا واقعہ پیش آیا، ایم این ایز اور سینیٹرز کی رہائش گاہوں پر پولیس کادھاوا بولا گیا، اراکین پر تشدد کیا گیا اور جے یو آئی کے ایم این ایز کو گرفتار کرلیا گیا۔

مولانا فضل الرحمان واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پارلیمنٹ لاجز پہنچے اور انھوں نے کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کردی، ساتھ یہ اعلان کیا کہ جو کارکن شہر اقتدار نہیں پہنچ سکتے وہ اپنے اپنے شہروں میں سڑکیں بلاک کردیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے جے یو آئی کے کارکن گھروں سے نکلنا شروع ہوگئے اور حکومتیں ایوان لرزہ براندام دکھائی دینے لگا۔ حکومت نے راتوں رات گرفتار ایم این ایز اور کارکنوں کو رہا کرکے اس مسئلے سے جان چھڑانے میں عافیت جانی۔

ہم مولانا فضل الرحمان کی سیاسی طاقت کے بارے میں بارہا لکھ چکے ہیں، لیکن حالیہ سیاسی منظر نامے کے دوران پورا ملک خصوصاً سیاسی مبصرین یہ بات ماننے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ مولانا اب صرف ایک سیاسی جماعت کے قائد ہی نہیں ہیں بلکہ روحانی پیشوا بن چکے ہیں۔ مولانا جس طرح غیر متزلزل انداز سے تبدیلی سرکار کے خلاف پہلے دن سے کھڑے رہے اس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی، باقی سیاستدانوں کی قلابازیاں اور مقتدر حلقوں سے رابطے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، لیکن گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران اگر کسی لیڈر نے صرف پاکستان اور قوم کے زخموں پر پھاہا رکھا۔

ان کی نبض کے مطابق ایکشن پلان بنایا تو وہ صرف مولانا فضل الرحمان ہیں۔ عدم اعتماد کی تحریک کے روح رواں بھی مولانا ہی ہیں۔ کسی نے مولانا سے پوچھا، تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد کیا ہوگا، مولانا نے نہایت خوبصورت انداز میں صرف ایک لائن میں تبصرہ کرتے ہوئے دریا کو کوزے میں بند کردیا۔ مولانا نے کہا،''خزاں جائے، بہار آئے نہ آئے''۔ مولانا اس ملک پر چھائے نحوست کے سایوں کو ہٹانا چاہتے ہیں۔


حکومت کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی دکھائی دے رہی ہے، اس کے اتحادی اڑان بھرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، تحریک انصاف کے اندر بغاوت کا علم بلند ہو چکا ہے۔ کپتان اور ان کی ٹیم دھمکیاں دینے کے بعد اب ترلے اور منتوں پر آگئے ہیں۔ بظاہر اپوزیشن کا پلڑہ بھاری ہے لیکن تحریک عدم اعتماد کی کامیابی تک اپوزیشن کو ہائی الرٹ رہنا ہوگا۔

اس وقت اعصاب کی جنگ پورے زور پر ہے۔ قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن پر نظر ڈالی جائے تو تحریک انصاف 155سیٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، اس کی اتحادی جماعتوں میں ایم کیوایم کے اراکین قومی اسمبلی کی تعداد سات، مسلم لیگ ق پانچ، باپ پانچ، جی ڈی اے تین عوامی مسلم لیگ ایک سیٹ ہے۔ جب کہ اپوزیشن جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ ن 84 سیٹوں کے ساتھ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے۔

اس کے بعد پیپلز پارٹی کے پاس 56نشستیں ہیں، ایم ایم اے کی 15، بی این پی ایک، جمہوری وطن پارٹی ایک، اے این پی ایک جب کہ تین آزاد امیدوار اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 172 اراکین کی ضرورت ہے اور اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ مسلم لیگ ق ، باپ اور ایم کیو ایم سمیت تحریک انصاف میں موجود علیم خان اور جہانگیر ترین گروپ حکومت کے خلاف ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔

یہ سچ اپوزیشن قائدین ان کے قائدین سے ناصرف رابطے میں ہیں بلکہ ایک دوسرے کو یقین دہانیاں بھی کرائی جاچکی ہیں۔ تیز آندھی میں حکومتی پتے بکھر رہے ہیں، اسی بوکھلاہٹ میں ہر اٹھنے والا قدم حکومت کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے کپتان ملک بھر میں جلسے کررہے ہیں اور مبینہ طور پر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے ایک روز قبل اسلام آباد کے ڈی چوک میں بڑے جلسے کا اعلان کردیا ہے، وزراء اپوزیشن اراکین کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ عوام کے سمندر سے گزر کر اسمبلی تک پہنچنا ہوگا۔ ادھر اپوزیشن نے بھی تئیس مارچ سے لانگ مارچ کا اعلان کردیا ہے۔ دونوں جانب سے شہر اقتدار میں طاقت کے مظاہرے کا عندیہ کسی بڑے تصادم کے خطرے کو ظاہر کرتا ہے۔

ایسا نہیں ہونا چاہیے لیکن اس کی تمام تر ذمے داری حکومتی ٹیم پر آتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد سے ایک دن پہلے ڈی چوک پر لاکھوں کا جلسہ کرنے کا حکومتی اعلان اور اس کی تیاریوں کا حکم دینا بذات خود اشتعال انگیزی اور غیر ذمے دارانہ رویہ تھا۔ کپتان 172 اراکین لانے کے بجائے دس لاکھ لوگ اسلام آباد لاکر جو تماشہ لگانا چاہتے ہیں۔

اس سے ان کی رخصتی ٹلتی دکھائی نہیں دے رہی البتہ ان کی اپنی سیاسی ساکھ جو پہلے ہی کافی خراب ہوچکی ہے وہ مزید بگڑ جائے گی۔ دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ تحریک عدم اعتماد فیس کرنے کے کیے آئینی راستہ اختیار کیا جائے، دھونس، دھاندلی اور طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے۔ اگر آپ کے پاس عددی اکثریت نہیں تو آپ استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں، کسی اور کو آئینی طریقے سے حکومت بنانے کا موقع دیں۔ فتنہ فساد اور لڑائی جھگڑے سے جہاں دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوگی وہاں جمہوری نظام بھی خطرے کی زد میں آسکتا ہے۔
Load Next Story