روس یوکرین جنگ عالمی طاقتیں کردار ادا کریں
موجودہ عالمی کیفیات دیکھ کر یہی لگ رہا ہے کہ دنیا ایک نئے عالمی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے
عالمی عدالت انصاف نے روس کو یوکرین کے خلاف فوج کشی ختم کرنے کا کہتے ہوئے ماسکو کی جانب سے فوجی طاقت کے استعمال سے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یوکرینی صدر نے اس فیصلے کو مکمل فتح قرار دیا ہے۔
ادھر عالمی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق روس کی بمباری کی زد میں آکر دو امریکی صحافی ہلاک ہوگئے ہیں۔ اب تک ہلاک ہونے والے جرنلسٹس کی تعداد پانچ ہوگئی ہے، مغربی ممالک کی پابندیوں کے بعد روس چین کے ساتھ مل کر غیر ملکی ادائیگیوں کا ایک نظام متعارف کرانے والا ہے جس سے مقامی انٹر بینک ٹریفک کے بہاؤ کو جاری رکھا جائے گا۔
عالمی عدالت کا صائب فیصلہ اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی طاقت رکھتی ہے؟ بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق مسئلے کا فوری حل تو فی الحال سامنے نہیں آ رہا۔ امریکا کے بارے میں عام کہاوت ہے کہ وہ دشمنوں کے بجائے اپنے دوستوں کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے، اس کی تازہ ترین مثال یوکرین ہے۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ روس یہاں ایک تیر سے دو نشانے لگا رہا ہے۔
ایک طرف وہ یوکرین کو نیٹو سے دور رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ مستقبل میں کبھی اس کے خلاف کھڑا ہونے کی طاقت جمع نہ کر سکے۔ دوسری جانب یوکرین کی سرحد پر کشیدگی پیدا کرکے وہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے عائد پابندیوں کو ختم کرانا چاہتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہنگامہ کس بات پر ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یوکرین نیٹو کے ساتھ ہاتھ ملانا چاہتا ہے۔ روس امریکا سے یہ یقین دہانی چاہتا ہے کہ یوکرین کو نیٹو میں کسی بھی شرط پر جگہ نہ دی جائے۔
جب کہ دوسری جانب عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پناہ گزینوں کی لہر اور دوسرے انسانی مسائل کے علاوہ اس جنگ سے افراط زر بڑھے گا جب کہ خوراک اور توانائی کی اشیاء مہنگی ہوں گی۔ جنگی صورت حال کے اثرات کاروبار میں خلل، سپلائی چینز کی بندش اور یوکرین کے ہمسایہ ممالک میں ترسیلات کی کمی کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔
روس پر پابندیوں کے حوالے سے نہ صرف یورپ میں اختلاف موجود ہے بلکہ ایشیا اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کی جانب سے بھی روس پر پابندیوں کی مخالفتکی گئی ہے۔ یوکرین پر روسی حملے کو دنیا میں ایک اور سرد جنگ کا آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر اس سرد جنگ کا مرکز یورپ ہوگا۔
یوں جس یورپ کو اپنی معیشت بحال رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے اس کو دفاعی اخراجات میں مزید اضافہ کرنا پڑے گا۔ اس کے برعکس ماہرین کا کہنا ہے کہ روس نے یوکرین پر حملہ تمام تر تیاریوں کے ساتھ کیا ہے۔ اس نے اپنی مقامی معیشت کو قلعہ بندی کے تحت قائم کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ بیرونی دھچکوں اور پابندیوں سے اس پر زیادہ اثرات مرتب نہ ہوں۔ توانائی کے لیے روس پر یورپ کے انحصار نے یورپی ممالک کے سیاسی موقف کو کمزور کیا ہے کیونکہ یورپ روسی ایندھن کے بغیر اپنی صنعتوں کی بندش اور عوام کے مرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا ہے۔
یعنی روس پر امریکی اور یورپی پابندیوں کے باوجود روسی معیشت کو زیادہ نقصان نہیں ہوگا مگر غذائی اجناس اور ایندھن کے مہنگا ہونے کی وجہ سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ پاکستان سمیت عالمی اسٹاک مارکیٹیں بھی کریش ہوئی ہیں۔ سونے اور ڈالر کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔
روس اور یوکرین دنیا میں گندم فروخت کرنے والے 2 بڑے ملک ہیں۔ یہ گندم ہی تھی جس نے جرمنی کو 1941 میں یوکرین پر حملہ کرنے پر مجبور کیا۔ سوویت یونین کے لیڈر ویلادیمیر لینن کا کہنا تھا کہ گندم کرنسیوں کی کرنسی ہے۔ سال 22-2021میں روس اور یوکرین نے مجموعی طور پر 6 کروڑ ٹن گندم برآمد کی ہے۔ یوکرین اپنی گندم بحیرہ اسود کے روٹ سے برآمد کرتا ہے اور موجودہ تنازع کی وجہ سے مستقبل قریب میں ان بندرگاہوں کے دوبارہ فعال ہونے کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔
روس پر عائد پابندیوں کی وجہ سے ممکنہ طور پر مصر، تیونس، مراکش، پاکستان اور انڈونیشیا جیسے بڑے خریدار زیادہ متاثر ہوں گے۔ اس وجہ سے عالمی منڈی میں گندم کی قیمت بڑھنے کے خدشات موجود ہیں۔یہ اثرات پاکستان تک محسوس ہوسکتے ہیں۔ روس یوکرین کے تنازع نے سب سے زیادہ تیل کی تجارت کو متاثر کیا ہے، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ روس دنیا کو تیل سپلائی کا تقریباً 12 فیصد حصہ رکھتا ہے اور یورپی یونین کو تقریباً 40 فیصد گیس فراہم کرتا ہے۔ پائپ لائنوں کے یوکرین سے گزرنے کے باعث تنازعہ میں خلل پڑنے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مغرب مزید سخت پابندیوں کی تیاری کر رہا ہے لیکن اس کے عالمی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور روس کے لیے بھی خاصی مشکلات جنم لیں گی۔ جنگ اور پابندیوں کے امکانات نے وبائی مرض کورونا سے بمشکل ابھرنے والی عالمی معیشت کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
گزشتہ دنوں آئی ایم ایف کی جانب سے روس اور یوکرین کے مابین جنگ پر ایک خصوصی رپورٹ پیش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوکرین میں حالیہ جنگ کے باعث ملکی معاشی گراف 10 فیصد تک گر سکتا ہے۔ روس کے یوکرین پر حملے کے بدترین منفی اثرات معیشت پر مرتب ہوں گے جس کے نتیجے میں معاشی بحران خطرناک صورتحال اختیار کر سکتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ معیشت میں 10 فیصد تنزلی کا خدشہ ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان جنگ جاری رہی تو معیشت مزید تیزی سے گر سکتی ہے۔
آئی ایم ایف نے یہ رپورٹ یوکرین کو ہنگامی امداد جاری کرنے سے پہلے تیار کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق جنگی صورتحال پر قابو نہ پانے کی صورت میں بڑے پیمانے پر مزید تباہی کا اندیشہ ہے جس کے براہ راست اثرات انسانی معاشرے پر پڑیں گے۔ اس رپورٹ میں جنگ کے شکار ممالک عراق اور لبنان کے معاشی بحران کو بھی زیر غور لایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ تمام ممالک جو جنگی صورتحال سے نبرد آزما ہیں، ان کے جی ڈی پی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ رپورٹ میں اعداد و شمار کے بعد خبردار کیا گیا ہے کہ یوکرین کی اقتصادی پیداوار 25 سے 35 فیصد تک گر سکتی ہے اور یہ اندازے درست ثابت ہونے کی جانب رواں دواں ہیں۔
روس پر عالمی پابندیوں کے ردعمل میں روسی حکام نے اہم اقدامات کیے ہیں۔ روس کی جانب سے کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور امریکی صدر جوبائیڈن کے روس میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں پر بھی پابندی لگائی گئی ہے، ان کا داخلہ بھی روس میں ممنوع ہے۔ روس نے امریکی صدر اور کینیڈین وزیر اعظم کے نہ صرف روس میں داخلے پر پابندی عائد کی ہے بلکہ دونوں سربراہان سمیت اعلیٰ عہدے داران کے موجودہ اثاثے بھی منجمد کر دیے گئے ہیں۔
ممنوع افراد کی فہرست میں امریکی وزیر دفاع لیوڈ آسٹن، سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے چیف ولیم برنس اور قومی سلامتی کے میشر جیک سولیون سمیت اہم حکام شامل ہیں۔ امریکا کمال چابکدستی سے چائنا سمندر کے ارد گرد ممالک جاپان، فلپائن، تائیوان، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا، ویت نام، ملائشیا، انڈونیشیا، برونائی اور آسٹر یلیا کو اکسانے اور بھڑکانے میں کسی حد تک کامیاب ہو گیا ہے، یورپی ممالک عجیب مخمصے کا شکار ہیں ان کی ساری صنعتی ترقی کا انحصار روسی گیس سے وابستہ ہے اور ان حالات کی وجہ سے روس کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں، چین نے ایران کے ساتھ 400 بلین ڈالر کا 25 برس پر محیط معاہدہ کرکے ایران کو بھارتی چنگل سے نجات دلوا دی ہے، ابھی عرب ممالک تذبذب کا شکار ہیں۔
چین نے سعودی عرب کو تیل کی تجارت ڈالر میں کرنے کے بجائے اپنی اپنی کرنسیوں میں کرنے کی آفر دی ہے اگر ایسا ممکن ہوگیا تو ڈالر کی حاکمیت کو خطرہ لاحق ہو جائے گا اگر سعودی عرب امریکی بلاک سے وابستہ رہتا ہے تو چین ایران اور روس سے تیل حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان کو امریکا اور یورپ کے ساتھ خطے میں چین اور روس کے ساتھ پاک چین اقتصادی راہداری، گیس پائپ لائن اور اسٹیل مل کے ذریعے اپنے روابط کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔
جس طرح سے مغربی ممالک کی پابندیوں کے باوجود بھی روس اپنی جارحیت پر قائم ہے اسے دیکھتے ہوئے تو یہی لگ رہا ہے کہ دنیا ایک نئی عالمی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق روس اور دیگر عالمی طاقتیں اگر کسی نکتے پر اتفاق کرلیں تو انسانی جانوں کا ضیاع اور معاشی نقصان کو کم کیا جاسکتا ہے۔
ادھر عالمی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق روس کی بمباری کی زد میں آکر دو امریکی صحافی ہلاک ہوگئے ہیں۔ اب تک ہلاک ہونے والے جرنلسٹس کی تعداد پانچ ہوگئی ہے، مغربی ممالک کی پابندیوں کے بعد روس چین کے ساتھ مل کر غیر ملکی ادائیگیوں کا ایک نظام متعارف کرانے والا ہے جس سے مقامی انٹر بینک ٹریفک کے بہاؤ کو جاری رکھا جائے گا۔
عالمی عدالت کا صائب فیصلہ اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی طاقت رکھتی ہے؟ بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق مسئلے کا فوری حل تو فی الحال سامنے نہیں آ رہا۔ امریکا کے بارے میں عام کہاوت ہے کہ وہ دشمنوں کے بجائے اپنے دوستوں کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے، اس کی تازہ ترین مثال یوکرین ہے۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ روس یہاں ایک تیر سے دو نشانے لگا رہا ہے۔
ایک طرف وہ یوکرین کو نیٹو سے دور رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ مستقبل میں کبھی اس کے خلاف کھڑا ہونے کی طاقت جمع نہ کر سکے۔ دوسری جانب یوکرین کی سرحد پر کشیدگی پیدا کرکے وہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے عائد پابندیوں کو ختم کرانا چاہتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہنگامہ کس بات پر ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یوکرین نیٹو کے ساتھ ہاتھ ملانا چاہتا ہے۔ روس امریکا سے یہ یقین دہانی چاہتا ہے کہ یوکرین کو نیٹو میں کسی بھی شرط پر جگہ نہ دی جائے۔
جب کہ دوسری جانب عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پناہ گزینوں کی لہر اور دوسرے انسانی مسائل کے علاوہ اس جنگ سے افراط زر بڑھے گا جب کہ خوراک اور توانائی کی اشیاء مہنگی ہوں گی۔ جنگی صورت حال کے اثرات کاروبار میں خلل، سپلائی چینز کی بندش اور یوکرین کے ہمسایہ ممالک میں ترسیلات کی کمی کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔
روس پر پابندیوں کے حوالے سے نہ صرف یورپ میں اختلاف موجود ہے بلکہ ایشیا اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کی جانب سے بھی روس پر پابندیوں کی مخالفتکی گئی ہے۔ یوکرین پر روسی حملے کو دنیا میں ایک اور سرد جنگ کا آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر اس سرد جنگ کا مرکز یورپ ہوگا۔
یوں جس یورپ کو اپنی معیشت بحال رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے اس کو دفاعی اخراجات میں مزید اضافہ کرنا پڑے گا۔ اس کے برعکس ماہرین کا کہنا ہے کہ روس نے یوکرین پر حملہ تمام تر تیاریوں کے ساتھ کیا ہے۔ اس نے اپنی مقامی معیشت کو قلعہ بندی کے تحت قائم کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ بیرونی دھچکوں اور پابندیوں سے اس پر زیادہ اثرات مرتب نہ ہوں۔ توانائی کے لیے روس پر یورپ کے انحصار نے یورپی ممالک کے سیاسی موقف کو کمزور کیا ہے کیونکہ یورپ روسی ایندھن کے بغیر اپنی صنعتوں کی بندش اور عوام کے مرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا ہے۔
یعنی روس پر امریکی اور یورپی پابندیوں کے باوجود روسی معیشت کو زیادہ نقصان نہیں ہوگا مگر غذائی اجناس اور ایندھن کے مہنگا ہونے کی وجہ سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ پاکستان سمیت عالمی اسٹاک مارکیٹیں بھی کریش ہوئی ہیں۔ سونے اور ڈالر کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔
روس اور یوکرین دنیا میں گندم فروخت کرنے والے 2 بڑے ملک ہیں۔ یہ گندم ہی تھی جس نے جرمنی کو 1941 میں یوکرین پر حملہ کرنے پر مجبور کیا۔ سوویت یونین کے لیڈر ویلادیمیر لینن کا کہنا تھا کہ گندم کرنسیوں کی کرنسی ہے۔ سال 22-2021میں روس اور یوکرین نے مجموعی طور پر 6 کروڑ ٹن گندم برآمد کی ہے۔ یوکرین اپنی گندم بحیرہ اسود کے روٹ سے برآمد کرتا ہے اور موجودہ تنازع کی وجہ سے مستقبل قریب میں ان بندرگاہوں کے دوبارہ فعال ہونے کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔
روس پر عائد پابندیوں کی وجہ سے ممکنہ طور پر مصر، تیونس، مراکش، پاکستان اور انڈونیشیا جیسے بڑے خریدار زیادہ متاثر ہوں گے۔ اس وجہ سے عالمی منڈی میں گندم کی قیمت بڑھنے کے خدشات موجود ہیں۔یہ اثرات پاکستان تک محسوس ہوسکتے ہیں۔ روس یوکرین کے تنازع نے سب سے زیادہ تیل کی تجارت کو متاثر کیا ہے، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ روس دنیا کو تیل سپلائی کا تقریباً 12 فیصد حصہ رکھتا ہے اور یورپی یونین کو تقریباً 40 فیصد گیس فراہم کرتا ہے۔ پائپ لائنوں کے یوکرین سے گزرنے کے باعث تنازعہ میں خلل پڑنے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مغرب مزید سخت پابندیوں کی تیاری کر رہا ہے لیکن اس کے عالمی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور روس کے لیے بھی خاصی مشکلات جنم لیں گی۔ جنگ اور پابندیوں کے امکانات نے وبائی مرض کورونا سے بمشکل ابھرنے والی عالمی معیشت کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
گزشتہ دنوں آئی ایم ایف کی جانب سے روس اور یوکرین کے مابین جنگ پر ایک خصوصی رپورٹ پیش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوکرین میں حالیہ جنگ کے باعث ملکی معاشی گراف 10 فیصد تک گر سکتا ہے۔ روس کے یوکرین پر حملے کے بدترین منفی اثرات معیشت پر مرتب ہوں گے جس کے نتیجے میں معاشی بحران خطرناک صورتحال اختیار کر سکتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ معیشت میں 10 فیصد تنزلی کا خدشہ ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان جنگ جاری رہی تو معیشت مزید تیزی سے گر سکتی ہے۔
آئی ایم ایف نے یہ رپورٹ یوکرین کو ہنگامی امداد جاری کرنے سے پہلے تیار کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق جنگی صورتحال پر قابو نہ پانے کی صورت میں بڑے پیمانے پر مزید تباہی کا اندیشہ ہے جس کے براہ راست اثرات انسانی معاشرے پر پڑیں گے۔ اس رپورٹ میں جنگ کے شکار ممالک عراق اور لبنان کے معاشی بحران کو بھی زیر غور لایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ تمام ممالک جو جنگی صورتحال سے نبرد آزما ہیں، ان کے جی ڈی پی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ رپورٹ میں اعداد و شمار کے بعد خبردار کیا گیا ہے کہ یوکرین کی اقتصادی پیداوار 25 سے 35 فیصد تک گر سکتی ہے اور یہ اندازے درست ثابت ہونے کی جانب رواں دواں ہیں۔
روس پر عالمی پابندیوں کے ردعمل میں روسی حکام نے اہم اقدامات کیے ہیں۔ روس کی جانب سے کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور امریکی صدر جوبائیڈن کے روس میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں پر بھی پابندی لگائی گئی ہے، ان کا داخلہ بھی روس میں ممنوع ہے۔ روس نے امریکی صدر اور کینیڈین وزیر اعظم کے نہ صرف روس میں داخلے پر پابندی عائد کی ہے بلکہ دونوں سربراہان سمیت اعلیٰ عہدے داران کے موجودہ اثاثے بھی منجمد کر دیے گئے ہیں۔
ممنوع افراد کی فہرست میں امریکی وزیر دفاع لیوڈ آسٹن، سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے چیف ولیم برنس اور قومی سلامتی کے میشر جیک سولیون سمیت اہم حکام شامل ہیں۔ امریکا کمال چابکدستی سے چائنا سمندر کے ارد گرد ممالک جاپان، فلپائن، تائیوان، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا، ویت نام، ملائشیا، انڈونیشیا، برونائی اور آسٹر یلیا کو اکسانے اور بھڑکانے میں کسی حد تک کامیاب ہو گیا ہے، یورپی ممالک عجیب مخمصے کا شکار ہیں ان کی ساری صنعتی ترقی کا انحصار روسی گیس سے وابستہ ہے اور ان حالات کی وجہ سے روس کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں، چین نے ایران کے ساتھ 400 بلین ڈالر کا 25 برس پر محیط معاہدہ کرکے ایران کو بھارتی چنگل سے نجات دلوا دی ہے، ابھی عرب ممالک تذبذب کا شکار ہیں۔
چین نے سعودی عرب کو تیل کی تجارت ڈالر میں کرنے کے بجائے اپنی اپنی کرنسیوں میں کرنے کی آفر دی ہے اگر ایسا ممکن ہوگیا تو ڈالر کی حاکمیت کو خطرہ لاحق ہو جائے گا اگر سعودی عرب امریکی بلاک سے وابستہ رہتا ہے تو چین ایران اور روس سے تیل حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان کو امریکا اور یورپ کے ساتھ خطے میں چین اور روس کے ساتھ پاک چین اقتصادی راہداری، گیس پائپ لائن اور اسٹیل مل کے ذریعے اپنے روابط کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔
جس طرح سے مغربی ممالک کی پابندیوں کے باوجود بھی روس اپنی جارحیت پر قائم ہے اسے دیکھتے ہوئے تو یہی لگ رہا ہے کہ دنیا ایک نئی عالمی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق روس اور دیگر عالمی طاقتیں اگر کسی نکتے پر اتفاق کرلیں تو انسانی جانوں کا ضیاع اور معاشی نقصان کو کم کیا جاسکتا ہے۔