رب کا شکر ادا کر بھائی

بالکل وہی حوادث اور بالکل وہی احوال لیکن ایک مختلف نقطہ نظر سے

S_afarooqi@yahoo.com

ایک مشہور مصنف نے اپنے مطالعے کے کمرے میں قلم اٹھایا اور ایک کاغذ پر لکھا۔ گزشتہ سال میرا آپریشن ہوا اور پتا نکال دیا گیا، بڑھاپے میں ہونے والے اس آپریشن کی وجہ سے مجھے کئی ہفتے تک بسترکا ہو کر رہنا پڑا۔

اسی سال ہی میری عمر ساٹھ سال ہوئی اور مجھے اپنی پسندیدہ اور اہم ترین ملازمت سے سبکدوش ہونا پڑا۔ میں نے نشرو اشاعت کے اس ادارے میں اپنی زندگی کے تیس قیمتی سال گزارے تھے۔ اسی سال ہی مجھے اپنے والد صاحب کی وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا ، اسی سال ہی میرا بیٹا میڈیکل کے امتحان میں فیل ہو گیا ، وجہ اس کی کا کا حادثہ تھا جس میں زخمی ہوکر اسے کئی ماہ تک پلستر کرا کرگھر میں رہنا پڑا ، کار کا تباہ ہوجانا علیحدہ سے نقصان تھا۔

صفحے کے نیچے اس نے لکھا؛ آہ، یہ کیا ہی برا سال تھا۔

مصنف کی بیوی کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ اس کا خاوند غمزدہ چہرے کے ساتھ خاموش بیٹھا خلاؤں میں گھور رہا تھا۔ اس نے خاوند کی پشت کے پیچھے کھڑے کھڑے ہی کاغذ پر یہ سب کچھ لکھا دیکھ لیا۔ خاوند کو اس کے حال پر چھوڑکر خاموشی سے باہر نکل گئی۔کچھ دیر بعد واپس کمرے میں لوٹی تو اس نے ایک کاغذ تھام رکھا تھا جسے لا کر اس نے خاموشی سے خاوند کے لکھے کاغذ کے برابر رکھ دیا۔ خاوند نے کاغذ دیکھا تو اس پر لکھا تھا۔

گزشتہ سال میں آخر کار مجھے اپنے پتے کے درد سے نجات مل گئی ، جس سے میں سالوں کرب میں مبتلا رہا۔ میں اپنی پوری صحت مندی اور سلامتی کے ساتھ ساٹھ سال کا ہوگیا۔ سالوں کی ریاضت کے بعد مجھے اپنی ملازمت سے ریٹائرمنٹ ملی ہے تو میں مکمل یکسوئی اور راحت کے ساتھ اپنا وقت کچھ بہتر لکھنے کے لیے استعمال کر سکوں گا۔

اسی سال ہی میرے والد صاحب پچاسی سال کی عمر میں بغیرکسی پر بوجھ بنے اور بغیر کسی بڑی تکلیف اور درد کے آرام کے ساتھ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اسی سال اللہ تعالیٰ نے میرے بیٹے کو ایک نئی زندگی عطا فرما دی اور ایسے حادثے میں جس میں فولادی کار تباہ ہو گئی تھی مگر میرا بیٹا کسی معذوری سے بچ کر زندہ و سلامت رہا۔

آخر میں مصنف کی بیوی نے یہ فقرہ لکھ کر تحریر مکمل کی تھی کہ :

''واہ ایسا سال، جسے اللہ نے رحمت بنا کر بھیجا اور بخیروخوبی گزرا۔''

ملاحظہ کیجیے: بالکل وہی حوادث اور بالکل وہی احوال لیکن ایک مختلف نقطہ نظر سے۔

بالکل اسی طرح اگر، جو کچھ ہو گزرا ہے، اسے اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے جو اس کے برعکس ہوتا تو، ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شاکر بن جائیں گے۔

اگر ہم بظاہر کچھ کھو بیٹھے اسے مثبت زاویے سے دیکھیں تو ہمیں جو کچھ عطا ہوا وہ بہتر نظر آنا شروع ہو جائے گا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

ترجمہ: ''اور بے شک تیرا رب تو لوگوں پر فضل کرتا ہے لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے۔''


ہمیں جتنی بھی نعمتیں میسر ہیں وہ تمام کی تمام اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کی ہوئی ہیں جس کے لیے ہم چاہے جتنا شکر ادا کریں تب بھی کم ہی رہے گا۔ ہمارے رب کی سب سے بڑی نعمت تو ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسلم گھرانے میں پیدا کیا ورنہ تو ساری زندگی حالت کفر میں ہی گزر جاتی اور جہنم ہمارا آخری ٹھکانہ ہوتا۔ اس کے علاوہ ہماری زندگی بھی بہت بڑی نعمت اور خالق حقیقی کی امانت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارا جسم اور ایک ایک عضو رب کریم کی بخشی ہوئی امانت ہے۔

اس لیے اگر ہم کسی بھی وجہ سے اپنے کسی عضو سے محروم ہوجائیں ہمیں اپنے رب سے گلا شکوہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے کیونکہ امانت دار کا حق بنتا ہے کہ وہ جب چاہے اپنی امانت واپس لے لے ، چنانچہ جب ہم حادثاتی طور پر بینائی سے محروم ہوگئے تو ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ صبر و شکر سے کام لیا جائے کہ مالک نے اپنی عطا کی ہوئی امانت واپس لے لی ، اسی لیے کسی گلے شکوہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ مقام شکر ہے کہ ربّ کریم نے ہمیں کسی موذی اور مہلک مرض میں مبتلا نہیں کیا۔

سچ پوچھیے تو یہ ہمارے حق میں خیر مستور (blessing in disguise) کے سوا اور کچھ نہیں کیونکہ اس کا بدلہ ہمیں جنت کی صورت میں ملے گا ان شاء اللہ! عاقبت اور عافیت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ راضی بہ رضا رہا جائے اور مالک حقیقی کی مرضی کے خلاف حرف شکایت ہرگز زبان پر نہ لایا جائے۔

اگر ہم حضرت ایوب علیہ السلام کی مثال اپنے پیش نظر رکھیں تو ساری بات باآسانی ہماری سمجھ میں آجائے۔ کوئی عجب نہیں کہ بصارت کے بدلہ اللہ رب العزت ہمیں بصیرت سے نواز دے جس کے مقابلہ میں بصارت کی کوئی زیادہ قدر و قیمت نہیں ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم دنیا کے حاکموں کو خوش کرنے کے لیے سو جتن کرتے ہیں تو پھر حاکم اعلیٰ کے حکم پر ناخوشی کا اظہار کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں پیدا ہوتا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

دل دے تو اس مزاج کا پروردگار دے

جو رنج کی گھڑی ہو خوشی سے گزار دے

کسی زمانہ میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ بچوں کے نصاب میں ایسی چیزیں شامل کی جائیں جو آیندہ کردار سازی میں ان کی معاونت کریں۔ ایسی ہی ایک نظم نے ہمارے ذہن پر ایسے نقوش ثبت کیے ہیں جو تا دم آخر مٹیں گے نہیں۔ گائے کے حوالے سے اس نظم کا یہ ابتدائی شعر اس وقت ہمیں یاد آرہا ہے:

رب کا شکر ادا کر بھائی

جس نے ہماری گائے بنائی

اس انتہائی سادہ اور عام سے شعر نے ہمارے ذہن پر جو تاثر چھوڑا ہے وہ ہماری عملی زندگی میں ہر قدم پر مشعل راہ ثابت ہوا ہے۔ الحمد للہ!

رب کی عطا کی ہوئی نعمتیں بے حساب اور بے شمار ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا جس کا تذکرہ قرآن مجید کی سورہ رحمن میں کافی تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ذرا سوچیے تو کہ ان میں کون سی نعمت ایسی ہے جسے جھٹلایا جا سکے مگر ہم ہیں کہ ان نعمتوں سے بے تحاشہ استفادہ تو کرتے ہیں لیکن رب کریم کا شکر ادا کرنے میں ہم میں سے اکثر کوتاہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ اللہ رب العزت کی شان کریمی ہے کہ وہ ہماری اس روش سے چشم پوشی کرتا ہے اور درگزر سے کام لیتا ہے۔

سب سے زیادہ افسوسناک اور ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی مفت عطا کی ہوئی نعمتوں کو فروخت اور ضایع بھی کرتا ہے جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس نے اس دنیا کو محض منڈی اور نیلام گھر بنا دیا ہے۔ آب اور ہوا ہمارے خالق کی عطا کی ہوئی دو اتنی بڑی نعمتیں ہیں کہ جن کے بغیر ہمارا جینا محال ہے لیکن ہمارا بس نہیں چلتا کہ ان کو بھی اپنے قبضہ میں کر لے اور دیگر اجناس کی طرح ان کو بھی فروخت کر ڈالیں۔ پانی کو تو ہم فروخت کر ہی رہے ہیں، ہمارا بس چلے تو ہوا کو بھی بیچ ڈالیں تاکہ کوئی انسان ہماری مرضی کے بغیر سانس بھی نہ لے سکے۔ یگانہؔ کا شعر یاد آرہا ہے: خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا۔

خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
Load Next Story