دیر ہونے سے پہلے
پاکستان میں گردوں کے امراض نہایت تیزی سے پھیل رہے ہیں
ISLAMABAD:
جناب عمران خان کی والدہ محترمہ سرطان کے مرض میں مبتلا ہو کر دُنیا سے رخصت ہُوئی تھیں۔ کینسر کا مرض اذیت ناک بھی ہے اور اس کا علاج نہائت مہنگا بھی ۔ غریب یا متوسط طبقے کا کوئی فرد بد قسمتی سے اس مہلک مرض کا شکار بن جائے تو مریض کی جان بچاتے بچاتے سارے خاندان کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں ۔
جناب عمران خان کو اپنی والدہ صاحبہ کے علاج معالجے کے دوران جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، انھی کے پیش منظر میں خان صاحب نے یہ عزمِ صمیم کیا تھا کہ اگر موقع ملا تو وہ وطنِ عزیز میں کینسر کا ایک ایسا شاندار ، نجی اسپتال بنائیں گے جہاں غریبوں اور تہی دستوں کا علاج بھی مفت کیا جا سکے ۔ الحمد للہ، خان صاحب لاہور میں پاکستان کا پہلا عظیم الشان کینسر اسپتال ، شوکت خانم اسپتال، استوار کرنے اور اسے کامیابی سے چلانے میں عالمی شہرت حاصل کر چکے ہیں ۔ اب پشاور اور کراچی میں بھی وہ کینسر کے اسپتال بنانے کی بھرپور کوششیں کررہے ہیں ۔
جناب عمران خان کے تتبع میں امریکا پلٹ نامور ڈاکٹر راجہ آصف مسعود بھی راولپنڈی کے مضافات میں ایک ایسا اسپتال بنانے کی نیت اور عزم رکھتے ہیں جہاں صرف گردوں کے امراض کا بہترین اسلوب میں علاج کیا جا سکے ۔جہاں گردوں کے غریب مریضوں کی شفا یابی کے لیے ساری سہولیات مفت فراہم کی جا سکیں ۔ گردوں کے مرض کی وجہ سے ڈاکٹر راجہ آصف مسعود صاحب کو اپنی فیملی میں بھی دھچکا لگ چکا ہے۔
اس لیے وہ ذاتی حیثیت میں بھی اس مرض کے مسائل اور مصائب سے خوب آگاہی رکھتے ہیں ۔ یہ بھی خوب جانتے ہیں کہ امراضِ گردہ کے دوران مریض کے لواحقین کو مسائل کی کن کن چکیوں میں سے گزرنا اور پِسنا پڑتا ہے ۔ اس امر سے بھی آگاہ ہیں کہ گردے کا مریض بُرے حالوں تک کیوں اور کن مدارج سے گزر کر پہنچتا ہے ؟ ڈاکٹر راجہ آصف مسعود گردوں کے جملہ امراض کے مریضوں کی دستگیری کے لیے اپنے علم اور تجربے کو یوں بروئے کار لانے کے متمنی ہیں کہ خالقِ کائنات کی بھی خوشنودی حاصل ہو جائے اور غریب مریضوں کی دعائیں بھی سمیٹی جا سکیں ۔
ڈاکٹر راجہ آصف مسعود صاحب سے میری اولین ملاقات راولپنڈی کے ایک نجی اسپتال میں ہُوئی۔وہ اسلام آباد کے ایک سرکاری اسپتال میں نفرولوجسٹ (ماہرِ امراضِ گردہ) ہیں ، ایک میڈیکل کالج میں پڑھاتے بھی ہیں اور شام کو راولپنڈی کے مذکورہ نجی اسپتال میں نفرولوجی ڈیپارٹمنٹ میں کنسلٹنٹ کے متعینہ فرائض انجام دیتے ہیں ۔
اِسی اسپتال میں گردوں کے ایک مہربان اور شفیق طبیب، ڈاکٹر محمد وقاص رضا ، کے توسط سے ڈاکٹر راجہ آصف مسعود سے میری ملاقات ہُوئی ۔ڈاکٹر راجہ آصف صاحب نے مجھے بتایا: ''میرا تعلق راولپنڈی میں سوہاوہ کے نزدیک ایک غریب اور بے وسیلہ گاؤں ، عمرال لہڑی، سے ہے ۔ میرے والد صاحب کا خواب تھا کہ مَیں ڈاکٹر بنوں۔ خوش قسمتی سے میٹرک اور ایف ایس سی کے امتحانات مَیں نے اعلیٰ نمبروں سے، وظیفے کے ساتھ، پاس کیے تو مجھے راولپنڈی میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا'' ۔
اِنہی ایام میں جب کہ راجہ آصف مسعود RMC میں داخل تھے ، اُن کے والد صاحب گردوں کے مرض میں مبتلاہو گئے جو رفتہ رفتہ خراب ہی ہوتے چلے گئے ۔ ڈاکٹر راجہ آصف نے مجھے بتایا:''مَیں میڈیکل کالج میں دوسرے سال کا طالب علم تھا جب والد صاحب گردوں کے مرض کی گرفت میں آئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ مرض بڑھتا گیا ۔ انھیں آئے روز اسپتال لے جانا ، ڈاکٹروں کے اخراجات اور اسپتالوں کی خواری سے میرا دل بہت دُکھتا بھی تھا اور اپنے وسائل کی کمیابی پر افسوس بھی ہوتا تھا ۔ ڈر تھا کہ اس مرض کی وجہ سے میری میڈیکل ایجوکیشن کہیں راستے ہی میں دم نہ توڑ جائے۔ والد صاحب مگر میری ہمت بندھاتے اور اصرار کرتے رہتے تھے کہ تم نے ڈاکٹر ضرور بننا ہے اور ماہرِ امراضِ گردہ ہی بننا ہے ۔ وہ خود چونکہ اس مرض کی تکالیف اور عذابوں سے گزررہے تھے، اس لیے بخوبی جانتے تھے کہ اس مرض کے کتنے مہیب مسائل ہیں۔''
ڈاکٹر راجہ آصف مسعود نے مزید بتایا:'' میری میڈیکل ایجوکیشن بھی بڑھتی گئی اور والد صاحب کا مرض بھی۔ پھر اللہ نے ایسا موقع فراہم کیا کہ والد صاحب برطانیہ چلے گئے جہاں میری پھوپھو نے انھیں اپنا ایک گردہ عطیہ کیا۔ اس دوران ہمیں اور ہمارے پورے خاندان کو جن شدید مسائل اور آزمائشوں کی چکی میں سے گزرنا پڑا، یہ صرف ہم ہی جانتے ہیں ''۔ مزید کہتے ہیں: ''ایم بی بی ایس کرنے کے بعد مَیں امریکا (نیویارک) چلا گیا ۔
اسٹیٹن آئلینڈ میں واقع میڈیکل انسٹی ٹیوٹ سے مَیں نے گردوں کے امراض ( نفرولوجی) میں تخصص ( اسپیشلائزیشن) حاصل کیا ۔ شادی بھی ہو گئی ۔ میری اہلیہ محترمہ بھی ڈاکٹر ہیں۔ میڈیسن کی ۔ تقریباً12سال وہیں گزارے اور گردوں کے امراض کی شفایابی میں مہارت بھی حاصل کی۔ اس دوران دو بچے بھی اللہ کریم نے عطا فرمائے۔
اہلیہ سے مشورے کے بعد مَیں اپنے وطن کی خدمت کے جذبے سے پاکستان منتقل ہو گیا۔ نیت اور عزم یہ تھا کہ جس مٹی، جس دھرتی اور جس پیارے ملک نے مجھے جنم دیا ہے ، اس کی خدمت کروں۔ مزید ڈالر اکٹھے کرنے ضرورت اور خواہش بھی نہیں تھی۔ نصف ملین ڈالر کی ملازمت چھوڑ کر مَیں پاکستان آ گیا اور راولپنڈی میں ڈیرے لگا لیے ''۔
ڈاکٹر راجہ آصف مسعود اب مہینے میں دو اتواریں اپنے گاؤں'' عمرال، لہڑی'' اور متصلہ ارد گرد کے 13دیہاتوں میں گردوں کے امراض میں مبتلا غریب مریضوں کا مفت علاج بھی کرتے ہیں، ادویات بھی مفت تقسیم کرتے ہیں اور اسلام آباد میں ہر ممکنہ حد تک غریب مریضوں کی سرکاری اسپتالوں میں زیادہ سے زیادہ دستگیری کی کوشش کررہے ہیں۔ انھوں نے اپنے ساتھ چند مخیر اور نوجوان ڈاکٹروں کی ایسی ٹیم بھی بنا لی ہے جو فی سبیل اللہ دل سے غریب اور مستحق گردہ مریضوں کا علاج کرنے کی سعی کررہے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد وقاص رضا کوآرڈی نیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر راجہ آصف مسعود نے مجھے بتایا:'' چند سیریس اور غریب مریضوں کو مَیں اسلام آباد کے سرکاری اسپتال سے یہاں راولپنڈی کے اس نجی اسپتال میں بھی لایا ہُوں تاکہ اُن کا یہاں مفت اور زیادہ بہتر انداز میں علاج کیا جا سکے ۔کامل شفا عطا کرنا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔کوشش تو کرنی چاہیے ''۔ ڈاکٹر راجہ آصف کی منزل اور ہدف مگر آگے ہیں ۔
کہتے ہیں:''پاکستان میں گردوں کے امراض نہائت تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ بلڈ پریشر میں زیادتی اور شوگر کے بڑھنے کے علاوہ بھی کئی ایسے فیکٹرز ہیں جو اس خطرناک مرض کے بڑھاوے کاسبب بن رہے ہیں ۔ اکثر لوگ مگر بروقت اس مرض کی ہلاکت خیزی اور شدت کو جانتے ہی نہیں ہیں ۔ نتیجہ خطرناک نکلتا ہے ۔ تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے ''۔ ڈاکٹر راجہ آصف مسعود کا عزم یہ ہے :'' دیر ہونے سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو گردوں کے جملہ امراض بارے مکمل آگاہی فراہم کی جائے ۔ اس کام کے لیے ہم نےKidney Awareness پروگرام شروع کیا ہے ۔
اس کے لیے بروشر بھی چھپ گئے ہیں اور میڈیا تک بھی پہنچنے کی کوشش کررہا ہُوں ۔ ساتھ ہی یہ کوشش بھی ہے کہ اپنے گاؤں کے آس پاس گردوں کے امراض کے علاج کے لیے ایک شاندار اسپتال بھی بناؤں جہاں زیادہ تر غریب مریضوں کا مفت علاج کر سکوں۔'' آئیے ڈاکٹر راجہ آصف مسعود صاحب کے عزم اورنیت کے ساتھی بن جائیں ۔