جب تکلیف دوست بن جاتی ہے

بددلی، پریشانی اور مایوسی کی کیفیت میں سارے اقدامات صرف الٹی چھلانگ کے ہم معنی ہوتے ہیں

aftabkhanzada2@yahoo.com

LONDON:
بہت سے لوگ یہ کہتے سنے گئے ہیں '' میں چاہتا ہوں کہ میری زندگی میں تبدیلی آجائے مگر میں نہیں جانتا کہ کیسے شروعات کروں '' یہ وہ لوگ ہیں جن کو خوف نے مفلوج کر رکھا ہے ، اس خوف نے کہ انھیں معلوم نہیں کیا اورکب کرنا ہے ایسے لوگ عمر بھر اسی کیفیت میں رہتے ہیں۔

یاد رکھیں ہمارے فیصلے ہماری قسمت بناتے ہیں نہ کہ حالات۔ اگر آپ نے اس بات کا فیصلہ نہیں کیا ہے کہ آپ آیندہ زندگی کیسے گزاریں گے تو جان لیں کہ آپ دراصل یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ آپ نے اب حالات کے تابع رہنا ہے اور وقت کے ہاتھوں مجبور و بے بس رہنا ہے ، یقینا روزا پارک نامی سیاہ فام عورت جانتی تھی کہ اگر اس نے سفید فام کو بس میں جگہ نہ دی تو اسے جیل جانا ہوگا مگر اس کے باوجود اس نے 1955 میں امریکی ریاست الرباما کے شہر منٹگمری میں بس میں سفرکرتے ہوئے ایسا کیا۔

اس کے فیصلے نے بنیادی شہری حقوق کے لیے تحریک کو جنم دیا۔ شاید اس کے ذہن میں یہ بات ہوکہ محض میرے ایسا کرنے سے کچھ بھی نہیں ہوگا ، مگر اس نے فیصلہ کیا اور اس پر عمل کرگزری عظیم خاتون ہیلن کیلرکے الفاظ بھی سن لیں '' زندگی ایک مہم جوئی ہے یا کچھ نہیں۔''

کبھی آپ نے اس بات پر غورکیا کہ ہم سب اتنی ساری تکلیفیں ایک ساتھ برداشت کر رہے ہیں اور سالوں سے برداشت کرتے ہی چلے جا رہے ہیں اور وہ بھی چپ چاپ ، آخرکیوں ؟ اس لیے کہ ہم ابھی تک تکلیف کی دہلیز Pain Threshold تک نہیں پہنچے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اتنی تکلیف کا تجربہ حاصل ہوجائے کہ ہم جان جائیں کہ اب تبدیلی ناگزیر ہے اور اسے لانا ہی ہوگا۔ اس مرحلے پرآپ کا دماغ کہنے لگتا ہے '' بس اب بہت ہوگیا ، میں اب اس کو مزید برداشت نہیں کرسکتا '' یہ وہ مقام ہوتا ہے جب تکلیف ہماری دوست بن جاتی ہے کیونکہ اب اس نے ہمیں تبدیلی کے لیے تیارکر لیا ہے ، چونکہ تکلیف ابھی تک ہماری دوست نہیں بنی ہے۔

اسی لیے ہم ابھی تک اس کی دشمنی کا مزا چکھ رہے ہیں ، نتیجے میں ہم سب بددل ، پریشان ، مایوس اور نفسیات کی اصطلاح میںLearned helplessness کی مکمل لپیٹ میںآچکے ہیںکہ سب کچھ کیا بیکار اور فضول ہے۔ اب ناکامی ہمارا مقدر ہے ، عالمی سطح کے کھلاڑی اکثر یکساں جسمانی قوت کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کو تربیت بھی یکساں معیارکی ملتی ہے پھر ان میں ہار جیت کا سبب کیا ہوتا ہے جو شخص جیتتا ہے وہ کیوں جیتتا ہے اور جو ہارتا ہے وہ کس بنا پر ہارتا ہے۔ یہ سوال امریکا کے سائنس دانوں کی ایک جماعت کے لیے کئی سالوں تک تحقیق کا موضوع بنا رہا۔


ان سائنس دانوں نے عالمی سطح کے بہترین کشتی لڑنے والوں پر تجربات کیے ، انھوں نے ان کی عضلاتی طاقت اور ان کی نفسیات کا بغور مشاہدہ کیا ، انھوں نے پایا کہ عالمی مقابلوں میں جیتنے والے پہلوانوں اور ہارنے والے پہلوانوں میں ایک خاص فرق ہوتا ہے مگر یہ جسمانی نہیں بلکہ تمام تر نفسیاتی ہے ، یہ دراصل پہلوان کی ذہنی حالت ہے جو اس کے لیے ہارجیت کا فیصلہ کرتی ہے۔ ان کی رپورٹ یہ تھی '' تجربے میں پایا گیاکہ ہارنے والے کھلاڑی مقابلہ سے پہلے ہی بد دل اور پریشان تھے جب کہ جیتنے والے پر اعتماد اور مطمئن تھے۔'' یعنی جیت اورکامیابی کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز آپ کا پراعتماد ہونا مطمئن ہونا ہے اور یہ ہی فیصلہ کن بات ہوتی ہے۔

آسٹریلیا کی سڈنی جیل کے ایک قیدی نے جیل سے بھاگنے کے لیے ایک جرأت مندانہ اقدام کیا وہ کسی نہ کسی طرح ایک ٹرک کے اندر داخل ہوگیا اور اس کے اندر چھپ کر بیٹھ گیا ، ٹرک روانہ ہو کر اگلے مقام پر رکا وہ بمشکل ٹرک سے باہر آیا تو اس نے پایا کہ وہ دوبارہ ایک جیل میں ہے ،یہ دوسرا جیل اس کی پہلی جیل سے تقریباً چھ کلومیٹر دور تھا۔

اصل میں جیل کا مذکورہ قیدی جیل کی زندگی سے گھبرایا ہوا تھا۔ اس کے دماغ میں صرف ایک چیز سوار تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح جیل کی بند دنیا سے باہر پہنچ جائے ، اسی ذہنی کیفیت کے ساتھ جب اس کو ایک ٹرک نظر آیا تو اس نے یقین کر لیا کہ وہ ضرور جیل کے باہر کہیں جا رہا ہے مگر وہ ٹرک ایک جیل سے دوسری جیل میں جا رہا تھا ، آدمی اس ٹرک میں سوار ہوکر اپنی جیل سے نکلا ، مگر اس کے بعد صرف یہ ہوا کہ وہ ایک اور جیل میں جا پہنچا۔

بددلی ، پریشانی اور مایوسی کی کیفیت میں سارے اقدامات صرف الٹی چھلانگ کے ہم معنی ہوتے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی ناکام ہوکر دوبارہ اپنے سابقہ مقام پر واپس آجائے۔ دنیا کے ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ تم اپنے اقدارکی آزمائش کس طرح کروگے؟ ان کے نزدیک اس کے لیے صرف دو آزمائشیں ہیں ، ان دونوں میںسب سے اہم '' ماما ٹیسٹ '' ہے جب بھی تم اکیلے یا کسی کے ساتھ مل کرکوئی کام کر رہے ہو اور اقدارکا سوال ہوتو اپنے آپ سے پوچھو اگر میری (ماما ) ماں مجھے یہ کام کرتے دیکھتی توکیا وہ مجھ پر فخر کرتے ہوئے شاباشی دیتی یا شرم سے منہ چھپا لیتی؟

اس سوال سے تمہاری اقدارخود واضح ہوجائیں گی اگر تم ''ماما ٹیسٹ'' میں ناکام ہو جاؤ اور باقی ساری آزمائشوںمیں کامیاب ہوجاؤ تو تم ناکام ہوگے ، اگر ''ماماٹیسٹ '' کارگر نہیں رہتا تو تمہارے پاس ایک اور آزمائش ہے ، جسے '' پاپا ٹیسٹ '' کہا جاتاہے تم جو کام بھی کررہے ہو اور اقدارکا سوال ہو تو اپنے آپ سے پوچھو اگر میرے بچے مجھے یہ کام کرتا دیکھتے توکیا میں یہ چاہتا کہ وہ اسے دیکھتے رہیں یا میں شر مندہ ہوجاتا ؟ یاد رکھیں زندگی ہمیں جینے اور مزے کرنے کے لیے ملی ہے اور ''ماما ٹیسٹ'' اور '' پاپا ٹیسٹ'' میں کامیاب ہونے کے لیے ، لیکن اگر آپ نے دونوں ٹیسٹوں میں فیل ہونے اور دوزخ میں رہنے کا ہی فیصلہ کرلیا ہے تو پھر آپ کی مرضی۔
Load Next Story