لیاری کے نوجوان بے روزگار کیوں ہیں
لیاری کے نوجوان اپنی شخصیت میں نظم و ضبط پیدا کریں، مناسب تعلیم اور مناسب ہنروتربیت حاصل کریں
بلاشبہ بے روزگاری نہ صرف ملکی بلکہ عالمی مسئلہ بھی ہے مگر صرف مثالیں دے کر اس مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا ۔ بے روزگاری کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہونگے ۔
اب وقت و حالات بدل چکے ہیں ،سرکاری ملازمت کا دور ختم ہوچکا ہے کیوں کہ ملکی سرکاری ادارے نج کاری کے مراحل سے گزر چکی ہیں اور جو باقی بچے ہیں وہ بھی نج کاری کے منتظر ہیں ۔لہٰذا بدلتے ہوئے ان حالات میں سرکاری ملازمت کے متلاشی بے روزگار نوجوانوں کو بھی اپنا ذہن بدلنا ہوگا ۔نجی شعبہ میں وہی لوگ کھپ سکتے ہیں جنھیں کوئی ہنر آتا ہو جو تعلیم یافتہ ہو اور اس عہدے کے لیے اہلیت رکھتا ہو ۔
جب ہم لیاری کے بے روزگار نوجوانوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ملی جلی صورت حال سامنے آتی ہے ۔ لیاری میں بے روزگاروں کا ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو تعلیم یافتہ اور ہنر مند بھی ہے لیکن مخصوص وجوہات کی بنا ء پر وہ اپنی تعلیمی ڈگری اور ہنر مندی کا ڈپلومہ لیے دفتر در دفتر خاک چھان رہے ہیں ۔
صبح و شام اخبارات میں شایع شدہ اشتہارات دیکھتے رہتے ہیں ، خوشی خوشی درخواستیں کمپوز کرواتے ہیں پھر ان کی مطلوبہ فوٹو کاپیز کرواتے ہیں ، اپنی مطلوبہ تعداد میں پاسپورٹ سائز کی تصاویر، تمام قواعد و ضوابط کو پورا کر لینے کے بعد درخواست وقت مقرر پر پوسٹ کردیتے ہیں ، اس امید کے ساتھ کہ اچھے دن آنے والے ہیں ۔
پھر ہوتا یہ ہے کہ اول تو انٹرویو کال لیٹر مشکل سے آتا ہے اگر آبھی جاتا ہے تو اس میں درج انٹرویو کی تاریخ گزر چکی ہوتی ہے اور اگر خوش قسمتی سے لیاری کا کوئی نوجوان انٹرویو دینے کے لیے پہنچ پاتا ہے تو وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود ملازمت کے لیے منتخب ہو نہیں پاتا ، اسے طفل تسلی دے کر نام نہاد خوشگوار خوابوں کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ اس قسم کے نوجوانوں میں سے کچھ نوجوان حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اور اپنی جد و جہد جاری رکھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنی منزل کی راہیں متعین کرتے ہیں ،جب کہ کچھ نوجوان حالات سے گھبراکر مایوسی کو تقدیر سمجھ لیتے ہیں۔
اس طرح ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور وہ دوسروں کو کوستے رہتے ہیں ۔لیاری کے نوجوانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو تعلیم یافتہ تو ہے لیکن کوئی ہنر نہیں جانتا ۔یہ طبقہ ہمیشہ تعلیم حاصل کرنے کے عمل کو بیکار سمجھتا ہے اور اپنی ناکامی کا بدلہ لینے کے لیے دوسروں سے کہتا پھرتا ہے کہ تعلیم حاصل کر لینے سے کس کی تقدیر بدلی ہے ؟ جو تمہاری بدلے گی ، تم بھی تعلیم حاصل کرکے اپنا وقت برباد مت کرو۔ لیاری کے نوجوانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو ہنر مند ہے مگر ان پڑھ ہے ، تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے ہنر کو وسعت دینے سے قاصر ہے ۔
انھی طبقات میں سے ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بیک وقت یکسر تعلیم و ہنر سے محروم ہے اور وہ مفت کی روٹی کھانے کا عادی ہے ایسے نوجوان اکثر کام سے جی چراتے ہوئے اپنے والدین سے جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں کہ میں کام کی تلاش میں فلاں دوست کے ہمراہ فلاں جگہ پر گیا تھا مگر کام مل نہ سکا، اگر کام مل جاتا ہے تو شکوہ کرنے لگتا ہے کہ کام بہت سخت ہے مگر تنخواہ بہت کم ہے ۔ اس طرح کے دیگر بہانے تراش کر گھر بیٹھ کر مظلوم بے روزگار بن کر باپ یا بھائی کی کمائی کھانے گزر بسر کرنے لگتا ہے ، یہی وہ طبقہ ہے جو بالآخر اپنے ہاتھوں اپنا مستقبل تاریک راہوں کے حوالے کردیتے ہیں جب انھیں ہوش آتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور ہمیشہ کے لیے جرائم کی دلدل میں دھنس جاتا ہے ۔
لیاری کے نوجوانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو کہ پڑھا لکھا ہے لیاری میں کام کرنے والی این جی اوز کے ہاں کام کرکے اپنا گزر بسر کر لیتے ہیں مگر ان کی نوکری متعلقہ این جی اوز کی پروجیکٹ کی میعاد تک ہوتی ہے جو عموماً سہ ماہی ، شش ماہی اور ایک سال کے ہوتے ہیں اس طرح کبھی وہ اس این جی اوز کے ساتھ ہوتے ہیں اور کبھی دوسری این جی اوز کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ اس طرح ان کے روزگار کی گاڑی دھکے پر چل رہی ہوتی ہے ۔
لیاری ہی کا ایک نوجوان طبقہ ایسا بھی ہے جو کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا ورکر بن کر سرکاری نوکری کی متلاشی ہوتا ہے اور یہی طبقہ کسی نہ کسی حد تک سرکاری نوکری حاصل کرلینے میں کام ہوجاتا ہے اور مراعات بھی لیتے ہیں ۔
لیاری میں تعلیم عام کرنے کے دعوے داروں کی کمی نہیں ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ طبقوں میں بٹی ہوئی مہنگی تعلیم کے باعث صرف ان گھرانوں کے بچے ،نوجوان منزل تک پہنچ پاتے ہیں جو مالی لحاظ سے مستحکم ہوتے ہیں جب کہ لیاری کے نوے فیصد گھرانوں کے نوجوان منزل کی تلاش میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں ۔
لیاری کے جو گھرانے خوشحال نظر آتے ہیںان میں سے کچھ خاندان کے افراد بیرون ممالک میں ملازمت کرتے ہیں ، کچھ سرکاری ملازم ہوتے ہیں ،کچھ تاجر ہوتے ہیں لیکن ایسے گھرانوں کی تعداد بہت محدود ہے ۔ لیاری کے غریب خاندانوں کی اکثریت کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں جن کی اکثریت میٹرک تک تعلیم حاصل کرکے روزگار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں ۔
بے روزگاری کی وجہ سے لیاری کے نوجوان ڈپریشن کا شکار نظر آتے ہیں ،سچ پوچھیں تو لیاری کے اکثر نوجوان تنہائی کا بھی شکار ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں یہی وجہ ہے کہ کمزور اعصاب کے نوجوان ہمت ہار جاتے ہیں اور غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں جب کہ باہمت نوجوان اپنا راستہ خود تلاش کرکے منزل کو پا لینے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں اور کامیاب بھی ہوجاتے ہیں ۔لیاری کے نوجوانوں کی اہمیت کو تسلیم کرنا چاہیے اور ان کے بڑھتے ہوئے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ حقیقت یہی ہے کہ ملک کی ترقی و تنزلی میں نوجوان طبقہ مرکزی کردار ادا کرتا ہے اس لیے لیاری کے نوجوانوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ لیاری بھی وطن عزیز کا ایک حصہ ہے ۔
چند کلمات لیاری کے نوجوانوں کے لیے ،اپنی شخصیت میں نظم و ضبط پیدا کریں،مناسب تعلیم اور مناسب ہنر و تربیت حاصل کریں ،تعلیم حاصل کر لینے کے بعد تجارت ، کاروبار اور صنعت و حرفت کے میدان میں قسمت آزمائی کریں ۔تیزی سے بدلتی دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں ،لیاری کو زیادہ محفوظ ،زیادہ پاکیزہ اور پرمسرت جگہ بنانے کے لیے اپنی اصلاح آپ کریں ۔اپنی توجہ حصول تعلیم پر مرکوز کریں تاآنکہ لیاری اور لیاری کے لوگ بھی ترقی یافتہ بن کر منزل مقصود تک پہنچ سکیں ۔
اب وقت و حالات بدل چکے ہیں ،سرکاری ملازمت کا دور ختم ہوچکا ہے کیوں کہ ملکی سرکاری ادارے نج کاری کے مراحل سے گزر چکی ہیں اور جو باقی بچے ہیں وہ بھی نج کاری کے منتظر ہیں ۔لہٰذا بدلتے ہوئے ان حالات میں سرکاری ملازمت کے متلاشی بے روزگار نوجوانوں کو بھی اپنا ذہن بدلنا ہوگا ۔نجی شعبہ میں وہی لوگ کھپ سکتے ہیں جنھیں کوئی ہنر آتا ہو جو تعلیم یافتہ ہو اور اس عہدے کے لیے اہلیت رکھتا ہو ۔
جب ہم لیاری کے بے روزگار نوجوانوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ملی جلی صورت حال سامنے آتی ہے ۔ لیاری میں بے روزگاروں کا ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو تعلیم یافتہ اور ہنر مند بھی ہے لیکن مخصوص وجوہات کی بنا ء پر وہ اپنی تعلیمی ڈگری اور ہنر مندی کا ڈپلومہ لیے دفتر در دفتر خاک چھان رہے ہیں ۔
صبح و شام اخبارات میں شایع شدہ اشتہارات دیکھتے رہتے ہیں ، خوشی خوشی درخواستیں کمپوز کرواتے ہیں پھر ان کی مطلوبہ فوٹو کاپیز کرواتے ہیں ، اپنی مطلوبہ تعداد میں پاسپورٹ سائز کی تصاویر، تمام قواعد و ضوابط کو پورا کر لینے کے بعد درخواست وقت مقرر پر پوسٹ کردیتے ہیں ، اس امید کے ساتھ کہ اچھے دن آنے والے ہیں ۔
پھر ہوتا یہ ہے کہ اول تو انٹرویو کال لیٹر مشکل سے آتا ہے اگر آبھی جاتا ہے تو اس میں درج انٹرویو کی تاریخ گزر چکی ہوتی ہے اور اگر خوش قسمتی سے لیاری کا کوئی نوجوان انٹرویو دینے کے لیے پہنچ پاتا ہے تو وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود ملازمت کے لیے منتخب ہو نہیں پاتا ، اسے طفل تسلی دے کر نام نہاد خوشگوار خوابوں کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ اس قسم کے نوجوانوں میں سے کچھ نوجوان حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اور اپنی جد و جہد جاری رکھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنی منزل کی راہیں متعین کرتے ہیں ،جب کہ کچھ نوجوان حالات سے گھبراکر مایوسی کو تقدیر سمجھ لیتے ہیں۔
اس طرح ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور وہ دوسروں کو کوستے رہتے ہیں ۔لیاری کے نوجوانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو تعلیم یافتہ تو ہے لیکن کوئی ہنر نہیں جانتا ۔یہ طبقہ ہمیشہ تعلیم حاصل کرنے کے عمل کو بیکار سمجھتا ہے اور اپنی ناکامی کا بدلہ لینے کے لیے دوسروں سے کہتا پھرتا ہے کہ تعلیم حاصل کر لینے سے کس کی تقدیر بدلی ہے ؟ جو تمہاری بدلے گی ، تم بھی تعلیم حاصل کرکے اپنا وقت برباد مت کرو۔ لیاری کے نوجوانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو ہنر مند ہے مگر ان پڑھ ہے ، تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے ہنر کو وسعت دینے سے قاصر ہے ۔
انھی طبقات میں سے ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بیک وقت یکسر تعلیم و ہنر سے محروم ہے اور وہ مفت کی روٹی کھانے کا عادی ہے ایسے نوجوان اکثر کام سے جی چراتے ہوئے اپنے والدین سے جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں کہ میں کام کی تلاش میں فلاں دوست کے ہمراہ فلاں جگہ پر گیا تھا مگر کام مل نہ سکا، اگر کام مل جاتا ہے تو شکوہ کرنے لگتا ہے کہ کام بہت سخت ہے مگر تنخواہ بہت کم ہے ۔ اس طرح کے دیگر بہانے تراش کر گھر بیٹھ کر مظلوم بے روزگار بن کر باپ یا بھائی کی کمائی کھانے گزر بسر کرنے لگتا ہے ، یہی وہ طبقہ ہے جو بالآخر اپنے ہاتھوں اپنا مستقبل تاریک راہوں کے حوالے کردیتے ہیں جب انھیں ہوش آتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور ہمیشہ کے لیے جرائم کی دلدل میں دھنس جاتا ہے ۔
لیاری کے نوجوانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو کہ پڑھا لکھا ہے لیاری میں کام کرنے والی این جی اوز کے ہاں کام کرکے اپنا گزر بسر کر لیتے ہیں مگر ان کی نوکری متعلقہ این جی اوز کی پروجیکٹ کی میعاد تک ہوتی ہے جو عموماً سہ ماہی ، شش ماہی اور ایک سال کے ہوتے ہیں اس طرح کبھی وہ اس این جی اوز کے ساتھ ہوتے ہیں اور کبھی دوسری این جی اوز کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ اس طرح ان کے روزگار کی گاڑی دھکے پر چل رہی ہوتی ہے ۔
لیاری ہی کا ایک نوجوان طبقہ ایسا بھی ہے جو کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا ورکر بن کر سرکاری نوکری کی متلاشی ہوتا ہے اور یہی طبقہ کسی نہ کسی حد تک سرکاری نوکری حاصل کرلینے میں کام ہوجاتا ہے اور مراعات بھی لیتے ہیں ۔
لیاری میں تعلیم عام کرنے کے دعوے داروں کی کمی نہیں ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ طبقوں میں بٹی ہوئی مہنگی تعلیم کے باعث صرف ان گھرانوں کے بچے ،نوجوان منزل تک پہنچ پاتے ہیں جو مالی لحاظ سے مستحکم ہوتے ہیں جب کہ لیاری کے نوے فیصد گھرانوں کے نوجوان منزل کی تلاش میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں ۔
لیاری کے جو گھرانے خوشحال نظر آتے ہیںان میں سے کچھ خاندان کے افراد بیرون ممالک میں ملازمت کرتے ہیں ، کچھ سرکاری ملازم ہوتے ہیں ،کچھ تاجر ہوتے ہیں لیکن ایسے گھرانوں کی تعداد بہت محدود ہے ۔ لیاری کے غریب خاندانوں کی اکثریت کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں جن کی اکثریت میٹرک تک تعلیم حاصل کرکے روزگار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں ۔
بے روزگاری کی وجہ سے لیاری کے نوجوان ڈپریشن کا شکار نظر آتے ہیں ،سچ پوچھیں تو لیاری کے اکثر نوجوان تنہائی کا بھی شکار ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں یہی وجہ ہے کہ کمزور اعصاب کے نوجوان ہمت ہار جاتے ہیں اور غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں جب کہ باہمت نوجوان اپنا راستہ خود تلاش کرکے منزل کو پا لینے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں اور کامیاب بھی ہوجاتے ہیں ۔لیاری کے نوجوانوں کی اہمیت کو تسلیم کرنا چاہیے اور ان کے بڑھتے ہوئے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ حقیقت یہی ہے کہ ملک کی ترقی و تنزلی میں نوجوان طبقہ مرکزی کردار ادا کرتا ہے اس لیے لیاری کے نوجوانوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ لیاری بھی وطن عزیز کا ایک حصہ ہے ۔
چند کلمات لیاری کے نوجوانوں کے لیے ،اپنی شخصیت میں نظم و ضبط پیدا کریں،مناسب تعلیم اور مناسب ہنر و تربیت حاصل کریں ،تعلیم حاصل کر لینے کے بعد تجارت ، کاروبار اور صنعت و حرفت کے میدان میں قسمت آزمائی کریں ۔تیزی سے بدلتی دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں ،لیاری کو زیادہ محفوظ ،زیادہ پاکیزہ اور پرمسرت جگہ بنانے کے لیے اپنی اصلاح آپ کریں ۔اپنی توجہ حصول تعلیم پر مرکوز کریں تاآنکہ لیاری اور لیاری کے لوگ بھی ترقی یافتہ بن کر منزل مقصود تک پہنچ سکیں ۔