اسلام آباد ہائیکورٹ کا وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
ہائیکورٹ میں الیکشن کمیشن کے نوٹس کیخلاف وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
بیرسٹر علی ظفر نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق بھی قانون سے بالا نہیں ہو سکتا اور اس کی بنیاد پر کسی قانون کو ہی رد نہیں کیا جاسکتا ، اگر پارٹی یا امیدوار کی جانب سے قانون اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہو تو 50 ہزار روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے، 19 فروری 2022 کو ایکٹ میں ترمیم کی گئی جس کے تحت پارلیمنٹ کے ارکان کو انتخابی مہم میں شرکت کی اجازت ملی، لیکن الیکشن کمیشن نے ایک حکم نامہ جاری کیا کہ رکن پارلیمنٹ کو الیکشن مہم میں شرکت کی اجازت ہو گی مگر پبلک آفس ہولڈرز (عوامی عہدے دار) کو نہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ نے یہ نوٹس چیلنج کر دیا ہے، آپ الیکشن کمیشن سے کیوں رجوع نہیں کرتے؟ معذرت کے ساتھ، آپ لوگوں نے بھی آرڈینینسز کی فیکٹری لگائی ہوئی ہے، جو سارے کام پارلیمنٹ کے کرنے والے ہیں وہ کام آرڈینینسز سے ہو رہے ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ نوٹس امیدوار یا سیاسی پارٹی کو جاری ہو سکتا ہے، افراد کو نہیں، الیکشن کمیشن کے پاس یہ نوٹس جاری کرنے کا دائرہ اختیار ہی نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم اور اسد عمر نے الیکشن کمیشن کا نوٹس اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عمران خان اور اسد عمر نے الیکشن کمیشن میں پیش نہ ہوکر غلط کیا، آپ کو 14 مارچ کو پیش تو ہونا چاہئے تھا، آپ نے اپنے طور پر تو اس بات کا تعین نہیں کرنا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، آپ کا اپنا رویہ بھی درست نہیں تھا، کم از کم بذریعہ وکیل پیش ہو جاتے، ہم حکم امتناع جاری نہیں کریں گے، پہلے الیکشن کمیشن کو نوٹس کر کے سنیں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم اور اسد عمر کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کردیا اور 28 مارچ تک سماعت ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم کے لوئر دیر جلسہ میں شرکت پر الیکشن کمیشن نے انہیں اور اسد عمر کو نوٹس جاری کیا ہے، جس کے خلاف انہوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کرکے نوٹس فوری معطلی کی درخواست کی ہے۔