بادشاہ اور کمہار میں فرق ہونا چاہیے
سیاسی مخالفین کا مقابلہ سیاسی طور پر عملی اقدامات سے کیا جائے نہ کہ غلیظ زبان استعمال کی جائے
عمران خان کے ہر دلعزیز دوست طارق جمیل راوی ہیں کہ ان کے ایک پڑوسی بزرگ اپنے مدرسے سے فارغ التحصیل بیٹے کی شکایت لے کر ان کے پاس آئے اور بولے ''مولانا صاحب! میرا بیٹا پڑھا تو ہے مگر کڑھا نہیں ہے۔''
یعنی اس نے علم تو حاصل کرلیا ہے مگر علم نے اس پر اثر نہیں کیا۔ کیونکہ اسے تو اپنے بزرگوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے اور تعلیم یافتہ شخص سے تو ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ بات کرے تو پھول جھڑیں (اگرچہ ہمارے تعلیمی ادارے صرف ڈگری دیتے ہیں تربیت نہیں) لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ صرف ڈگری لے کر آیا ہے۔ (غالب گمان ہے کہ اس کے بعد اس بچے کی کلاس ہوئی ہوگی۔ کاش کہ ایسی ہی ایک کلاس وہ خان صاحب کی بھی لے لیں)۔
آج کل پاکستانی قوم کے ایک طبقے کا اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ وزیراعظم عمران خان کے بارے میں بھی یہی خیال ہے کہ شاید ولایتی تعلیمی اداروں نے ان کی تربیت نہیں کی۔ کیونکہ حالیہ دنوں میں وہ 172 بندے پورے کرنے کے بجائے اپنے مخالفین کے بارے میں جس قسم کی زبان استعمال کررہے ہیں، کم ازکم اس سے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کو بھگوڑا کہنا، علما کے استاد فضل الرحمان کو چوہا، اوئے فضلو، ڈیزل کہنا، اور مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری کو چوہا کہنا۔ اور ایک بار نہیں متعدد بار اپنی بات پر اصرار کرنا۔
خان صاحب کا یہ عمل اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ جنرل باجوہ، مفتی تقی عثمانی کو مداخلت کرنا پڑی اور ان کی تربیت کا فریضہ ادا کرتے ہوئے ان سے درخواست کرنا پڑی کہ وہ ایسا نہ کریں۔ مفتی صاحب نے تو باقاعدہ قرآن پاک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی اختلافات میں جس طرح اسلامی احکام و اقدار پامال ہورہی ہیں، ان کا تصور کرکے ڈر لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے وبال سے بچائے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ سورۃ حجرات میں فرماتے ہیں ''ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑاؤ، غیبت نہ کرو، بدگمانی نہ کرو، کسی دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو، کسی کا نام بگاڑ کر نہ بلاؤ۔''
لیکن اپنی بات پر عذر لنگ تراشتے ہوئے عمران خان نے ملبہ عوام پر ڈال دیا کہ یہ سب میں تو نہیں کہتا لیکن عوام کہتے ہیں اور پھر...
اگر خان صاحب کی یہی حالت رہی تو عین ممکن ہے جس طرح رولز رائس والے نواب آف بہالپور کو رولز رائس کی اہمیت سمجھانے کےلیے خود نواب صاحب کے پاس چل کر آئے تھے اور درخواست کی تھی کہ اس بیش قیمت گاڑی سے کچرا اٹھانے کا کام نہ لیا جائے، اسی طرح ہوسکتا ہے کہ ولایتی تعلیمی اداروں کا ایک وفد خان صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست کرے کہ جناب اپنی نہیں تو ہماری ہی عزت کا خیال کرلیجئے اور براہِ کرم اپنی زبان کا درست استعمال کیجئے تاکہ ہماری بدنامی نہ ہو۔ کیونکہ یہ ایک معروف بات ہے کہ جب ہم اچھا بولتے ہیں تو سننے والے ہماری تعریف بعد میں، ہماری تربیت کرنے والوں کی پہلے کرتے ہیں۔
آخر میں ایک حکایت:
مغل شہزادے جہانگیر نے ایک دن اپنی نجی محفل میں (جلسہ عام میں چوہا، چوہے کی گردان نہیں کی، صرف نجی محفل میں) ایک خواجہ سرا کو فارسی میں گدھا کہہ دیا۔ بادشاہ تک بات پہنچنے پر شہزادے کی دربار میں طلبی ہوئی تو اس نے اپنے جرم کو تسلیم کرتے ہوئے زبان پھسلنے کا عذر پیش کیا۔ بادشاہ نے کہا کہ بادشاہ اور کمہار میں فرق ہونا چاہیے۔ اگر آپ کو اپنی دو تولے کی زبان پر قابو نہیں ہے تو لاکھ کوس وسیع سلطنت پر کیسے قابو رکھو گے؟ بادشاہت زبان سے شروع ہوتی ہے اور زبان پر ہی ختم ہوتی ہے۔
اس لیے نہایت ضروری ہے کہ زبان و بیان کا درست استعمال کیا جائے۔ سیاسی مخالفین کا مقابلہ سیاسی طور پر عملی اقدامات سے کیا جائے نہ کہ غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت تباہ کرلی جائے۔ اس سلسلے میں آصف علی زرداری کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ گزشتہ کئی روز سے جاری سیاسی دھماچوکڑی میں وہ بیان بازی کے بجائے عملی اقدامات میں مصروف ہیں اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ کل تو جو چوہدری فرمارہے تھے کہ پی ٹی آئی کے دوستوں کو بتادیں ''گھبرانا نہیں'' آج وہ عملی اقدامات کی بدولت کہہ رہے ہیں کہ شگاف پڑچکا ہے۔
آپ بھی تین چوہے کی گردان چھوڑیئے اور عملی اقدامات کیجئے۔ یاد رکھیے کہ آپ بادشاہ ہیں اور بادشاہوں کو بادشاہوں کی زبان اچھی لگتی ہے نہ کہ کمہار کی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یعنی اس نے علم تو حاصل کرلیا ہے مگر علم نے اس پر اثر نہیں کیا۔ کیونکہ اسے تو اپنے بزرگوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے اور تعلیم یافتہ شخص سے تو ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ بات کرے تو پھول جھڑیں (اگرچہ ہمارے تعلیمی ادارے صرف ڈگری دیتے ہیں تربیت نہیں) لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ صرف ڈگری لے کر آیا ہے۔ (غالب گمان ہے کہ اس کے بعد اس بچے کی کلاس ہوئی ہوگی۔ کاش کہ ایسی ہی ایک کلاس وہ خان صاحب کی بھی لے لیں)۔
آج کل پاکستانی قوم کے ایک طبقے کا اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ وزیراعظم عمران خان کے بارے میں بھی یہی خیال ہے کہ شاید ولایتی تعلیمی اداروں نے ان کی تربیت نہیں کی۔ کیونکہ حالیہ دنوں میں وہ 172 بندے پورے کرنے کے بجائے اپنے مخالفین کے بارے میں جس قسم کی زبان استعمال کررہے ہیں، کم ازکم اس سے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کو بھگوڑا کہنا، علما کے استاد فضل الرحمان کو چوہا، اوئے فضلو، ڈیزل کہنا، اور مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری کو چوہا کہنا۔ اور ایک بار نہیں متعدد بار اپنی بات پر اصرار کرنا۔
خان صاحب کا یہ عمل اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ جنرل باجوہ، مفتی تقی عثمانی کو مداخلت کرنا پڑی اور ان کی تربیت کا فریضہ ادا کرتے ہوئے ان سے درخواست کرنا پڑی کہ وہ ایسا نہ کریں۔ مفتی صاحب نے تو باقاعدہ قرآن پاک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی اختلافات میں جس طرح اسلامی احکام و اقدار پامال ہورہی ہیں، ان کا تصور کرکے ڈر لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے وبال سے بچائے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ سورۃ حجرات میں فرماتے ہیں ''ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑاؤ، غیبت نہ کرو، بدگمانی نہ کرو، کسی دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو، کسی کا نام بگاڑ کر نہ بلاؤ۔''
لیکن اپنی بات پر عذر لنگ تراشتے ہوئے عمران خان نے ملبہ عوام پر ڈال دیا کہ یہ سب میں تو نہیں کہتا لیکن عوام کہتے ہیں اور پھر...
اگر خان صاحب کی یہی حالت رہی تو عین ممکن ہے جس طرح رولز رائس والے نواب آف بہالپور کو رولز رائس کی اہمیت سمجھانے کےلیے خود نواب صاحب کے پاس چل کر آئے تھے اور درخواست کی تھی کہ اس بیش قیمت گاڑی سے کچرا اٹھانے کا کام نہ لیا جائے، اسی طرح ہوسکتا ہے کہ ولایتی تعلیمی اداروں کا ایک وفد خان صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست کرے کہ جناب اپنی نہیں تو ہماری ہی عزت کا خیال کرلیجئے اور براہِ کرم اپنی زبان کا درست استعمال کیجئے تاکہ ہماری بدنامی نہ ہو۔ کیونکہ یہ ایک معروف بات ہے کہ جب ہم اچھا بولتے ہیں تو سننے والے ہماری تعریف بعد میں، ہماری تربیت کرنے والوں کی پہلے کرتے ہیں۔
آخر میں ایک حکایت:
مغل شہزادے جہانگیر نے ایک دن اپنی نجی محفل میں (جلسہ عام میں چوہا، چوہے کی گردان نہیں کی، صرف نجی محفل میں) ایک خواجہ سرا کو فارسی میں گدھا کہہ دیا۔ بادشاہ تک بات پہنچنے پر شہزادے کی دربار میں طلبی ہوئی تو اس نے اپنے جرم کو تسلیم کرتے ہوئے زبان پھسلنے کا عذر پیش کیا۔ بادشاہ نے کہا کہ بادشاہ اور کمہار میں فرق ہونا چاہیے۔ اگر آپ کو اپنی دو تولے کی زبان پر قابو نہیں ہے تو لاکھ کوس وسیع سلطنت پر کیسے قابو رکھو گے؟ بادشاہت زبان سے شروع ہوتی ہے اور زبان پر ہی ختم ہوتی ہے۔
اس لیے نہایت ضروری ہے کہ زبان و بیان کا درست استعمال کیا جائے۔ سیاسی مخالفین کا مقابلہ سیاسی طور پر عملی اقدامات سے کیا جائے نہ کہ غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت تباہ کرلی جائے۔ اس سلسلے میں آصف علی زرداری کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ گزشتہ کئی روز سے جاری سیاسی دھماچوکڑی میں وہ بیان بازی کے بجائے عملی اقدامات میں مصروف ہیں اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ کل تو جو چوہدری فرمارہے تھے کہ پی ٹی آئی کے دوستوں کو بتادیں ''گھبرانا نہیں'' آج وہ عملی اقدامات کی بدولت کہہ رہے ہیں کہ شگاف پڑچکا ہے۔
آپ بھی تین چوہے کی گردان چھوڑیئے اور عملی اقدامات کیجئے۔ یاد رکھیے کہ آپ بادشاہ ہیں اور بادشاہوں کو بادشاہوں کی زبان اچھی لگتی ہے نہ کہ کمہار کی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔