قراردادِ کراچی 1938ء
قراردادِلاہور (1940ء)کا پیش خیمہ
ABU DHABI:
تاریخ کوئی ایسا مضمون نہیں جس میں غلوئے عقیدت اور شخصیت پرستی کورَتّی برابر بھی جگہ دی جائے اور ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی اُٹھ کر اپنی من پسند تاریخ بتانا اور لکھ کر مشہورکرنا شروع کردے اور ہم بلاتحقیق اُس کی ماننے لگیں۔ وطن عزیز میں ایسی بے شمار من گھڑت باتیں، محض شخصی تعصب وذاتی بغض وعناد کے نام پر تاریخ آزادی ہند و تحریک پاکستان (نیز اسلامی تاریخ) میں سننے، دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہیں کہ کوئی بھی باشعور اور واقعی تعلیم وتربیت یافتہ شخص انھیں مِن وَعَن تسلیم نہیں کرسکتا (یہ مَنّو اَن نہیں ہے)۔
یہاں یہ نکتہ بھی پیش نظر رہے کہ ہمارے یہاں عدم برداشت کا رویہ بھی علم کی تحصیل وترسیل میں حائل بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ایسے میں ایسے لوگ بھی خوب چمکتے ہیں جن کی بیان کردہ تاریخ کا بڑا حصہ جعلی ہوتا ہے اور لوگ اندھی تقلید میں یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بس جب انھوں نے فرما دیا تو یہی تاریخ ہے۔ اس نیم تاریک ماحول میں نصاب کی تشکیل ِ نوکُجا، اس میں فوری اور ناگزیر قسم کی تصحیح واصلاح کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اس پس منظر کے ساتھ ایک اہم سوال ہے۔ کسی بھی خواندہ شخص سے پوچھیں کہ قراردادِ پاکستان (قراردادِ لاہور) کب منظور ہوئی تھی، وہ جھٹ سے جواب دے گا، 23 مارچ 1940ء کو ۔ حالانکہ یہ جواب غلط ہے۔ درست جواب یہ ہے کہ قرارداد اُس تاریخ کو پیش کی گئی اور منظور ہوئی اگلے دن یعنی 24 مارچ کو۔ اس انکشاف پر بھی بعض لوگ برہم ہوجاتے ہیں کہ ''یہ تو کوئی بات نہیں۔ جو تاریخ مشہور ہوگئی، بس وہی ٹھیک ہے۔ کیا ضرورت ہے اتنی حُجّت کی؟''۔ یہ ہمارے نِیم خواندہ (بعض کے نزدیک ناخواندہ) معاشرے کا عمومی رویہ ہے۔
کوئی شعبہ ہو، کوئی موضوع ہو، کوئی موقع ہو، لوگ باگ (بلاامتیاز صنف، عمروطبقہ) اپنی کم علمی، لاعلمی اور ناقص معلومات پر مطمئن، مفتخِر (نازاں)، متکبر اور کسی قسم کی تصحیح واصلاح و اضافہ معلومات پر شدید ناراضی وبرہمی کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
معلوماتِ عامّہ [Quiz] کے مقابلوں میں حصہ لینے والے جانتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ صوبوں میں سب سے پہلے قیام پاکستان کے حق میں سندھ کی صوبائی اسمبلی نے قرارداد منظور کی اور یہ واقعہ کراچی میں رُونُما ہوا، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا پہلا باقاعدہ سالانہ اجلاس (1907)اور آخری سالانہ اجلاس (1943)کراچی میں منعقد ہوا، مگر یہ بات عوام الناس یا اہل قلم تو کُجا، ہمارے Quiz champions میں بھی بہت کم افراد کو معلوم ہوگی کہ قراردادِ پاکستان کے لاہور کے تاریخی جلسے سے کوئی ڈیڑھ سال پہلے، اس قرارداد سے کہیں زیادہ واضح اور بھرپور قرارداد، کراچی میں پیش ہوکر منظور ہوچکی تھی۔
یہ جلسہ (یا اُس وقت کی اصطلاح میں کانفرنس) صوبائی سطح پر ایک کُل ہند اجتماع (All India gathering) تھا جس کی صدارت قائداعظم نے خود کی تھی۔ آل انڈیا مسلم لیگ، سندھ شاخ کے زیرِاہتمام 8اکتوبر تا 12اکتوبر1938ء کو کراچی کے مشہور عیدگاہ میدان، بالمقابل جامِع کلاتھ مارکیٹ، بندرروڈ (بعداَزآں ایم اے جناح روڈ) میں پورے ہندوستان سے مسلم رہنمائوں بشمول نوابزادہ خان لیاقت علی خان، نواب اسماعیل خان، نواب بہادر یار جنگ، مولانا شوکت علی، بیگم محمد علی جوہرؔمحترمہ امجدی بانو، راجہ صاحب محمودآباد، راجہ پیرپور، مولانا جمال میاں، فرنگی محلی، سید غلام بھیک نیرنگؔ، مولانا عبدالحامد بدایونی، نواب مشتاق احمد گورمانی، یوپی کے نمایندے جناب اے۔بی۔حبیب اللہ، سر سکندر حیات، وزیراعظم (وزیراعلیٰ) پنجاب اور اے۔کے۔فضل الحق، وزیراعظم (وزیراعلیٰ) بنگال نے اس جلسے میں شرکت کی۔
جس کا مقصد خطہ ہند میں مسلمانوں کی علیٰحدہ، (یہ لفظ علاحدہ نہیں ہے) آزادوخودمختار ریاست کے قیام کا مطالبہ بذریعہ متفقہ قرارداد پیش کرنا تھا۔ یہ جلسہ اپنی نوعیت کا منفرد جلسہ تھا، کیونکہ ماقبل کسی اور علاقے میں ایسا نہیں ہوا کہ صوبائی یعنی نِچلی سطح کی قیادت نے محض ایک مرکزی رہنما کے ایماء پر کُل ہند سطح کا جلسہ منعقد کیا ہو جس میں پیش کیا جانے والا مطالبہ اُس وقت تک، مرکزی قیادت کا نعرہ یا نصب العین نہیں تھا اور کانفرنس کے صدر قائداعظم نے بھی اس کی بوجوہ کھُل کر تائید نہیں کی تھی۔ {روزنامہ انقلاب کے مدیر عبدالمجید سالک نے اس خیال کا اظہار کیا کہ چونکہ بقول سَر سکندر حیات، لفظ پاکستان، ہندوئٰوں اور انگریزوں کو بہت اشتعال دلانے والا تھا، لہٰذا مسٹر جناح نے، جو ابھی تک لفظ پاکستان کے عادی نہ ہوئے تھے۔
پنجاب یونینسٹ پارٹی کے رہنما کی بات مانتے ہوئے قرارداد میں اس نام کی شمولیت سے گریز کیا۔ بحوالہ خطاب ِ چودھری فرزند علی، برموقع یوم رحمت علی مؤرخہ 20فروری 1966ء بمقام لاہور، مطبوعہ گوجر گزٹ، مؤرخہ 11مارچ1966ء ، ص 7، محولہ ومنقولہ در سوانح حیات چودھری رحمت علی از کے۔کے عزیز}۔ ''شکر کے بادشاہ''[King of Sugar] کے لقب سے معروف،کراچی کے انتہائی فعال اور مخیر تاجر، سماجی رہنما اور صف اوّل کے سیاسی قائد، سَرسیٹھ حاجی عبداللہ ہارون نے اپنے ساتھیوں شیخ عبدالمجید سندھی، پیر حُسّام الدین راشدی اور غلام مرتضیٰ (جی ایم) سید کو یہ کام سونپا کہ تقسیم ِہند اور مطالبہ مسلم وطن کے لیے قرارداد مرتب کی جائے۔
سیٹھ صاحب نے بعدمیں قراردادِلاہور کے جلسے میں سندھ کی نمایندگی کی تھی۔ {جی ایم سید نے 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی نشستوں کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کے مسئلے پر قائداعظم سے اختلاف کیا اور نوبت بہ ایں جا رَسِید کہ سندھ میں مسلم لیگ کا سب سے فعال کارکن، سرے سے منحرف ہوکر پہلے قائداعظم اور قیام پاکستان، پھر اسلام اور اُردو کا مخالف ودشمن ہوگیا۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا اندوہ ناک المیہ ہے، مگر افسوس کہ آج بھی بعض لوگ سارے پس منظر اور شواہد کو پس ِ پُشت ڈالتے ہوئے اس سیاست داں کو بطور ہیرو عوام الناس کے سامنے پیش کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن کے سقوط ِڈھاکا میں نمایاں اور کلیدی کردار کا ذکر کرتے ہوئے لوگ یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ کبھی یہ شخص قائداعظم اور مسلم لیگ کا ایسا شیدا ووالہ تھا کہ فقط اُن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سائیکل پر سوار ہوکر کلکتے سے دہلی جاپہنچا تھا}۔ یہاں ایک بظاہر ضمنی مگر اہم نکتہ پیش خدمت ہے۔
23مارچ 2005ء کو کراچی کی شہری حکومت [City District Government=CDGK]کی طرف سے اخبارات میں شایع ہونے والے ایک اشتہار میں قراردادِ کراچی کے اس تاریخی واقعے کا مختصر ذکر پہلی بار سرکاری طور پر کیا گیا تو بلدیہ کے متعلقین بشمول عزیزم ڈاکٹر فیاض عالم صدیقی، (سابق) مشیرِناظم (نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ) برائے سفاری پارک، پارکس اور چڑیا گھر، ششدر رہ گئے کہ یہ تو ہمیں معلوم ہی نہ تھا، آج پہلی دفعہ انکشاف ہوا ہے۔ اس اشتہار کا خاکہ(Concept) اور متن (Creative Copy) لکھنے والا بھی یہی خاکسار سہیل احمد صدیقی تھا۔
یہاں ذرا ٹھہر کر خاکسار کی یہ عرض بھی ملاحظہ فرمائیں کہ سَر عبداللہ ہارون کی یہ مساعی درحقیقت، بانی تحریک قومی پاکستان [Pakistan National Movement]، چودھری رحمت علی کی نظری وعملی مہم کے زیرِاثر تھی، ورنہ ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت اُس وقت مصلحتاً کوئی بڑا مطالبہ نہیں کررہی تھی اور ''تیل دیکھو، تیل کی دھاردیکھو'' والا معاملہ تھا۔
(Theoretical کا درست ترجمہ نظری ہے، نظریاتی غلط ہے)۔ ماضی قریب میں چودھری رحمت علی کے افکار اور تحریک پاکستان میں اُن کے کردار کے متعلق خاکسار کی دو تحریریں اور پروفیسر زیدبن عمر کی ایک نگارش روزنامہ ایکسپریس کی زینت بن چکی ہے جن کا مطالعہ بہت سے مغالطے دور کرنے میں معاون ثابت ہوگا (یہ مضامین ایکسپریس کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں)، جبکہ بعض دیگر حضرات کے مضامین مختلف اخبارات میں شایع ہوتے رہے ہیں۔
یہاں وہ مواد دُہرائے بغیر عرض کرتا ہوں کہ محسن ملک وملت، نقاش پاکستان چودھری رحمت علی نے اپنے حالات ِزندگی تحریر کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ لفظ 'پاکستان' انھوں نے اواخر 1932ء میں تخلیق کیا اور اس کا پرچار 1933ء میں کیا تھا۔ جنوری 1933ء میں اُن کے تاریخی کتابچے'' ''Now or Neverکی اشاعت کے بعد سے مارچ 1940ء میں لاہور کے یادگار جلسے کے انعقاد سے قبل کے عرصے میں ایک مسلم ریاست کے قیام کے باب میں کُل انتیس (29)تجاویز مختلف افراد نے پیش کیں، جن میں چوبیس، شمال مغربی ہند میں ایک آزاد مسلم ریاست کی تشکیل کے حق میں اور دیگر کسی بھی قسم کی علاقائی، Confederal یا وفاق کے زیرِاہتمام ریاست کے قیام کے لیے پیش کی گئی تھیں۔
1938ء کی چار تجاویز میں سب سے نمایاں 8تا12اکتوبر 1938ء کو عیدگاہ میدان، بالمقابل جامع کلاتھ مارکیٹ، کراچی کے تاریخی جلسے میں پیش کی جانے والی قرارداد تھی جو سیٹھ عبداللہ ہارون، پیرحسام الدین راشدی، عبدالمجید سندھی اور جی ایم سید کی کاوش کا نتیجہ تھی۔ (بحوالہ سوانح حیات چودھری رحمت علی از پروفیسر ڈاکٹر بیرسٹر کے۔کے عزیز مترجمہ بیرسٹر اقبال الدین احمد و پروفیسر زید بن عمر، ص 258)۔ اُن دنوں لاہور کے مؤقر اخبار روزنامہ انقلاب (مدیران غلام رسول مہرؔ و عبدالمجید سالکؔ) نے اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کرکے، اس جلسے عرف کانفرنس کے مقصد انعقاد کی پیشگی تشہیر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اسلامی وغیراسلامی۔ یا ۔مسلم وہندو کی بنیاد پر دو فیڈریشنز (Federations)یعنی وفاق کی شکل میں تقسیم ہند کی تجویز پیش کی جائے گی۔
سَر عبداللہ ہارون ہی اس کانفرنس یا جلسے کے مُحرّک تھے جنھوں نے کراچی کانفرنس سے بھی پہلے جولائی 1938ء میں حیدرآباد (سندھ میں) آل انڈیا مسلم لیگ کی تقریب پرچم کُشائی سے خطاب کرتے ہوئے نعرہ لگایا :''ہم آزاد ہندوستان میں، آزاد رہنا چاہتے ہیں۔'' آل انڈیا مسلم لیگ، سندھ شاخ کے اس جلسے/کانفرنس سے پورے ہندوستان میں کانگریس کے مقابلے پر تنظیم سازی اور قیادت کی فعالی کا کام بڑے پیمانے پر شروع ہوا۔یہ وہی رہنما تھے جنھوں نے سندھ کی بمبئی پریزیڈنسی سے علیٰحدگی میں اہم کردار ادا کیا اور آل انڈیا مسلم کانفرنس کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے، اپنے سربراہ مولانا محمد علی جوہرؔ کی رہنمائی میں، انگریز کے ساتھ ساتھ ہندو سے بھی آزادی کا پرچم بلند کیا تھا۔
قراردادِکراچی کے یادگار جلسے کے افتتاحی اجلاس میں استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ، عبداللہ ہارون اور اُن کے بعد خطاب کرنے والے سر سکندر حیات اور اے۔کے۔فضل الحق نے بہت جارحانہ انداز میں اپنا مؤقف پیش کیا۔ اس موقع پر سر عبداللہ ہارون نے آل انڈیا مسلم لیگ کا نظری مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر اقلیتوں کے لیے خاطر خواہ حفاظتی انتظامات نہیں کیے جاتے اور تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا تو مسلمانوں کے پاس، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ (مستقبل میں) اس صورت حال سے نجات کے لیے، اپنی راہ کا تعین کرتے ہوئے مسلم ریاستوں کی آزاد فیڈریشن (کے تصور) کی تائید کریں۔
اس موقع پر انھوں نے ماضی قریب میں ہونے والی پیہم مساعی کا ذکر کیا جو ہندو رہنمائوں سے کسی مصالحانہ معاہدے کے لیے مسلم لیگی رہنمائوں نے کیں، مگر نتیجہ صفر رہا۔ عبداللہ ہارون کے قریبی ساتھی پیر حُسّام الدین راشدی کے چھوٹے بھائی پیرعلی محمدراشدی نے معاصر روزنامے میں شایع ہونے والی یادداشتوں میں یہ انکشاف کیا تھا کہ سَر عبداللہ ہارون نے اپنی تقریر غلام رسول مہرؔ سے، راشدی صاحبان کے گھر میں بیٹھ کر لکھوائی تھی یعنی یہ خطاب فی البدیہ نہیں تھا۔ بقول پیر علی محمد راشدی، عبداللہ ہارون کی تقریر کی تان اس جملے پر آکر ٹوٹی تھی کہ ''ہندوستان کے لیے کوئی آئینی اسکیم اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگی جب تک اس میں مسلمانوں کے علیٰحدہ وطن (HOMELAND) کا انتظام نہ کیا جائے ''۔ (Theoretical کا درست ترجمہ نظری ہے نا کہ نظریاتی)۔
دیگر پُرجوش مقررین کے برعکس قراردادِ کراچی کے لیے ہونے والے اجلاس کے صدر قائدِاعظم نے اس موقع پر اپنے حریفوں کو محض تنبیہ کرنا مناسب سمجھا اور کانگریس کو مخاطب کرتے ہوئے چیکو سلوواکیا کے Sudeten German case (یعنی چیک اور جرمنی کے سرحدی علاقے میں بسنے والے جرمن باشندوں کے واقعے) کی مثال دی اور یہ نکتہ واضح کردیا کہ کانگریس حالات کو جس نہج پہ لے جارہی ہے وہاں انڈیا افقی اور عمودی تقسیم کا شکار ہوجائے گا۔
انھوں نے کراچی آمد کے موقع پر اپنے فقیدالمثال، والہانہ استقبال کا شکریہ ادا کیا، تحریک، بشمول بمبئی پریزیڈینسی سے سندھ کی علیٰحدگی کے لیے کی جانے والی صوبائی مسلم لیگ کی کوششوں کو سراہا اور ساتھ ہی کراچی کی جغرافیائی اہمیت بھی بیان کی۔ (مولاناغلام رسول مہر اور پاکستان اسکیم: ایک مطالعہ، مؤلفہ پیرعلی محمدراشدی، مرتبہ ابوسلمان شاہجہاں پوری، مطبوعہ کراچی، ناشرمجلس یادگارمہر، موشوعہ: نومبر1992ء)۔
ہمارے ایک بزرگ، محقق ومشفق معاصر ڈاکٹر محمدعلی صدیقی مرحوم کی مرتبہ انگریزی کتاب کے منقولہ ذیل اقتباس سے یہ بخوبی واضح ہوتا ہے کہ قراردادکراچی میں دوقومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم وآزادی کا اشارہ دیا گیا تھا، مگر عین اُسی دن قائداعظم نے کانگریس کے صدر، سُبھاش چندر بوس کے نام خط تحریر کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ، ہندو اور مسلم قوم کے مابین مصالحت کرانے کے لیے تیار ہے۔
{October 10, 1938: Sindh Muslim League Conference, Karachi passed the resolution that the Muslims are a separate nation and India in reality was not one nation, but, two, and the Muslim League should devise a scheme of Constitution, under which Muslims may attain full independence.
(The Quaid) wrote to Bose expressing AIML's readiness for Hindu-Muslim patch up.
(Quaid-i-Azam Jinnah: A chronology, by Dr. Muhammad Ali Siddiqui, Quaid-i-Azam Academy, Karachi; second edition-1996. P. 209}
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سر عبداللہ ہارون کا فکری تغیر، چودھری رحمت علی کی تحریک پاکستان کے براہ راست اثر کی وجہ سے ہوا تو اس بابت بھی تحقیق ہوچکی ہے۔
تاریخی انکشاف یہ ہے کہ قیام پاکستان کے مخالف ، سَر آغا خان نے بھی سَر عبداللہ ہارون سے خط کتابت (خط وکتابت غلط ہے) میں 20دسمبر 1938ء کو یہی لکھا کہ ''ہم تمام ہندومسلم تعلقات کے ممکن حل کا خیر مقدم کریں گے ۔کیا آپ کو لیگ کی طرف سے پاکستان (کے تصور) کو مسلمانوں کی ایک قطعی پالیسی کے طور پر اختیار کرنے کا امکان ہے؟ اگر ایسا ہے تو جتنی جلدی، جلدی، بہ اطمینان، عوامی رائے منظم کرنے کی طرف قدم اٹھایا جائے ، بہتر ہوگا''۔
[A.M.Ahmad Shafi, Haji Sir Abdullah Haroon-A biography, p. 140, quoted in S.S.Pirzada, Evolution of Pakistan (Lahore, 1963), p. 150. Quoted by Prof. Dr. Barrister K.K.Aziz in Rahmat Ali-A Biography]
قراردادِکراچی تا قراردادِلاہور کے درمیانی عرصے میں انھوں نے اور اُن کے قریبی ساتھیوں نیز دیگر نے بارہا لفظ پاکستان اور پاکستان موومنٹ استعمال کیا اور Nedou's Hotel (موجودہ آواری ہوٹل) میں مجلس پاکستان ، لائل پور اور لاہور کے نمایندگان سے ملاقات کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ''مجھے امید ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان معرض وجود میں آجائے گا۔ مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ دل دماغ دونوں سے پاکستان (کا حصول) چاہتا ہے۔ تمام پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ پاکستان موومنٹ کا پیغام اُن تمام لوگوں کو پہنچائیں جو اس تصور کی طرف مائل نہیں ''۔ ان کے سیکریٹری پیر علی محمد راشدی نے وعدہ کیا کہ میں آپ کے آیندہ دورہ سندھ کے موقع پر پاکستان کے لوگوں کو، اس موومنٹ کے متعلق تفصیل سے بتائوں گا۔
یہ بات بہرحال افسوس ناک ہے کہ اُس دور میں اور مابعد، راشدی برادران سمیت کسی رہنما یا کارکن نے کبھی کھُل کر یہ اعتراف نہیں کیا کہ مسلم لیگ میں رہتے ہوئے اگر پارٹی پالیسی کے متوازی کوئی نعرہ لگا اور قراردادیں پیش ہوئیں، (ماسوائے چودھری خلیق الزماں کے جن کی تحریروتقریر میں یہ اعتراف موجود ہے)، پھر لفظ پاکستان عام ہوا تو اِس کا سہرا درحقیقت نقاش پاکستان چودھری رحمت علی کی تن تنہا تحریک کے سر تھا۔
بیس تا اکیس مئی 1939ء کو مسلم لیگ کی بَندِیکی، دَکن شاخ کی اولین سیاسی کانفرنس کے صدر مولانا محمد فاروق نے اپنی تقریر میں 'پاکستان اسکیم' پر روشنی ڈالی تو مجمع مسلسل پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے میں مصروف رہا اور پھر دوسرے دن ایک قرارداد کی شکل میں اس اسکیم کی منظوری دی گئی۔ 18نومبر 1939ء کو راجہ صاحب محمود آباد نے آسام میں صوبائی مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تصورِ پاکستان موومنٹ کا ذکر کیا۔
لطف کی بات ہے کہ اپریل 1940ء کے پہلے ہفتے میں مسلم لیگ نے اپنی تمام صوبائی تنظیموں کو ایک فرمان کے ذریعے ہدایت کی کہ اِمسال 19اپریل کو ''یوم ِ پاکستان''(Pakistan Day)منایا جائے، 14اپریل کو مسلم لیگ، سندھ نے اپنی تمام مقامی شاخوں کو مرکزی قیادت کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے قراردادِلاہور کی تفصیل سے عوام کو رُوشناس کرانے کے لیے اجلاسوں کے انعقاد کا حکم دیا، چنانچہ 19اپریل1940ء کو ہندوستان بھر میں باضابطہ طور پر یہ دن منایا گیا اور ناصرف مختلف شہروں میں ہونے والے اجتماعات میں قراردادِلاہور کے لیے 'قراردادِ پاکستان' کا نام استعمال کیا گیا، بلکہ ہمارے ایک ممتاز رہنما چودھری خلیق الزماںصدیقی نے امین الدولہ پارک، لکھنؤ کے اجلاس میں کہا کہ ہم اس قرارداد کو قراردادِ پاکستان ہی کے نام سے پکاریں گے۔ آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کی قراداد نمبر دو میں بھی لفظ پاکستان استعمال کیا گیا، مگر احتیاطاً کسی نے بھی کہیں بھی خالق تحریک پاکستان، چودھری رحمت علی کا نام نہیں لیا، کیونکہ مرکزی سطح پر اُنھیں مسترد کیا جاچکا تھا۔
سرعبداللہ ہارون کے پاکستان نواز ہونے کی بات تو بڑی حد تک واضح ہوچکی، مگر جب ہم اُن کی تقریر کا متن دیکھتے ہیں تو معاملہ ایک مرتبہ پھر گنجلک ہوجاتا ہے۔ سرعبداللہ ہارون کی تقریر کے یہ الفاظ، یہاں تو چودھری رحمت علی کے تصورپاکستان سے مختلف معلوم ہوتے ہیں کیونکہ انھوں نے جابجا دیگر مواقع پر پاکستان کا نام تو لیا، مگر چودھری صاحب کے برعکس، اس پیرا میں مسلم ریاستوں (یاصوبوں) کے وفاق کی بات کی:
"......if the patience of Muslim India is tried to its utmost capacity, it might have no alternative left, but to seek their solvation in their own way in an independent federation of Muslim states---Quoted in Ma'arif Research Journal: July-December 2011-Available online.
اس بارے میں خاکسار یہی کہہ سکتا ہے کہ مرکزی قیادت کی تائیدوحمایت پوری طرح حاصل نہ ہونے کی وجہ سے شاید انھوں نے بھی مصلحتاً تقریر کے اختتام پر، مکمل تصورِ پاکستان پیش نہ کیا ہو اور محض آزادی کی بات کی ہو۔
قراردادِکراچی کی منظوری کے لیے منعقد ہونے والے جلسے میں کل اکیس قراردادیں پیش کی گئیں جن میں پانچویں قرارداد پیش کرتے ہوئے شیخ عبدالمجید سندھی نے مطالبہ کیا :''...... مشترکہ امنگوں اور مشترکہ نظریات کے زیرِاثر ذات پات سے متاثرہ ذہنیت اور اکثریتی طبقے کی مسلم دشمنی پر مبنی پالیسی کے نفاذ کے لیے واحد متحدہ ہندوستان اور متحدہ ہندوستانی قوم کا ارتقا بعید از قیاس ہے، اور یہ بھی کہ مذہب، زبان، رسم الخط، ثقافت، معاشرتی قوانین اور دو اہم برادریوں کی زندگی کے نقطہ نظر کے شدید فرق کی وجہ سے اور یہاں تک کہ بعض حصوں میں نسل کے فرق کے باعث یہ ممکن نہیں ہے۔
ہندوستان کے وسیع برِاعظم میں مستقل امن و امان قائم رکھنے، یہاں بسنے والی دو قوموں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کے اپنے اپنے کلچر کو فروغ دینے، انہیں بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی اپنی اقتصادی اور معاشرتی اصلاح کرنے اور انہیں سیاسی طور پر حقِ خود اختیاری عطا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہندوستان میں دو مختلف وفاق قائم کیے جائیں جن میں سے ایک وفاق مسلمانوں کا ہو اور دوسرا ہندوؤں کا۔ ''چنانچہ یہ اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ سے درخواست کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے آئین کا خاکہ مرتب کرے جس کی رو سے مسلمانوں کی اکثریت کے صوبے، مسلم اکثریت رکھنے والی ریاستیں، اور وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، متحدہ طور پر ایک وفاق کی صورت میں مکمل آزادی حاصل کرسکیں''۔
''اس قرارداد کی منظوری کے عمل سے مسلم لیگ نے پہلی بار سیاسی طور پر انڈیا کو دو علیحدہ مملکتوں کی شکل میں پیش کیا، اور اسی وقت علیحدہ قومیت کے حصول کے لئے ایک جائز ذریعہ کے طور پر سیاسی خود ارادیت کے دعوے کو بھی آگے بڑھایا۔ اس قرارداد پر ہندو پریس نے تنقید کی تھی۔
عبداللہ ہارون نے ایک انٹرویو میں کہا کہ انھوں (ہندوؤں) نے اس کے بنیادی نظریے کو زبردست تحریک عطا کی ہے۔ انہوں نے پاکستان کا ذکر کرنا شروع کردیا ہے، مسلمانوں کو اس کا نوٹس لینا چاہئے، اور ان کو اس کے بارے میں سوچنا ہوگا۔تاریخی تناظر میں آل انڈیا مسلم لیگ کی یہ کانفرنس پیش خیمہ ثابت ہوئی اس قرارداد کا جو لاہور میں 1940ء میں منظور کی گئی۔ اس درمیانے عرصے میں سر عبداللہ ہارون نے ایک علیٰحدہ مملکت کے نظریئے کو فروغ دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے مسلم لیگ کی خارجہ کمیٹی اور مقامی سب کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے ورکنگ پیپرز اور لٹریچر تیار کروائے اور برصغیر کے ممتاز مسلمان رہنماؤں کے ساتھ خط و کتابت کے ذریعہ اس نظریئے کو فروغ دیا''۔ (مولاناغلام رسول مہر اور پاکستان اسکیم۔ ایک مطالعہ، مؤلفہ پیرعلی محمدراشدی، مرتبہ ابوسلمان شاہجہاں پوری، مطبوعہ کراچی، ناشرمجلس یادگارمہر، موشوعہ: نومبر1992ء)
اب ہم اس بارے میں بھی بات کرلیں کہ قراردادِ لاہور عرف قراردادِ پاکستان اور تصورِ پاکستان کو علامہ اقبال سے منسوب کرنے کی سعی نامشکور، بالتحقیق مسترد کی جاچکی ہے اور اسی سال اس موضوع پر ایک محقق کی پوری کتاب بھی منظرعام پر آنے والی ہے۔ انھوں نے متعدد مواقع پر اپنے خطبہ الہ آباد کو چودھری صاحب کے تصورپاکستان سے جوڑنے کی تردید کی اور ایک نیم خودمختار مسلم وفاق کے حق میں بیان دیا۔ خاکسار اور بعض دیگر محققین کی تحریروں میں یہ سارا معاملہ بالکل واضح بیان کیا جاچکا ہے۔ علامہ اقبال، چودھری رحمت علی کے بزرگ دوست ہونے کے باوجود، اُن کا یوں احترام کرتے تھے جیسے وہ بھی کوئی بزرگ معاصر ہوں۔ انھوں نے چودھری صاحب کے نام ایک خط میں لکھا:
''خدایا! ہم پر فال وسیادت کی سیدھی راہ کھول دے۔القرآن۔
نشان ِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیے
نگاہ بلند، سخن ِ دل نواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رَخت ِ سفر، میر ِ کارواں کے لیے
۔۔۔محمد اقبال، لاہور: 23جنوری 1935ء۔۔ بخدمت برادرِ گرامی قدرحضرت چودھری رحمت علی صاحب''
علامہ اقبال اور چودھری رحمت علی کے مابین تعلقات نہایت خوشگوار اور سیاسی اختلاف سے قطع نظر لائق تقلید تھے۔ علامہ نے اپنے آخری دنوں میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ چودھری صاحب کی پاکستان نیشنل موومنٹ کے صدر کی حیثیت سے اُن کا بازو بننا چاہتے ہیں۔ چودھری صاحب نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے اپنی پرانی شرط دُہرائی کہ آپ پہلے Knighthood یعنی سَر کا خطاب واپس کردیں۔ موت نے علامہ کو مہلت نہ دی کہ اس پرانی بحث کا خاتمہ کرتے ہوئے اپنے مؤقف سے رجوع کرتے اور کھل کر عوامی سطح پر مطالبہ پاکستان کی حمایت کرتے۔
قراردادِلاہور کے متن میں شامل مندرجہ ذیل شِق کو مطالبہ تقسیم ہندو حصول آزادی قراردیا جاتا ہے:
Resolved that it is the considered view of this Session of the All India Muslim League that no constitutional plan would be workable in this country or acceptable to Muslims unless it is designed on the following basic principle, namely that geographically contiguous units are demarcated into regions which should be so constituted, with such territorial readjustments as may be necessary, that the areas in which the Muslims are numerically in a majority as in the North-Western and Eastern Zones of India, should be grouped o constitute "Independent States" in which the constituent units shall be autonomous and sovereign.
یہاں لفظ States (یعنی ریاستیں بمعنی صوبے) مستعمل ومروَج ہونے کی وجہ سے کُلّی طور پر آزادوخودمختار مملکت کا مفہوم بہرحال واضح نہیں سمجھا گیا تھا اور پوری قراردادمیں کہیں پاکستان کا ذکر نہ تھا، اس کے باوجود چودھری رحمت علی کی حمایت و مخالفت میں ملکی وغیرملکی صحافیوں، ادیبوں، سیاسی رہنمائوں، کارکنوں اور عوام الناس میں لفظ پاکستان اس قدر مستعمل ومقبول ہوچکا تھا کہ اسے 'قراردادِ پاکستان' کا نام دیا تو وہ اس قدر مشہور ہوا کہ مسلم لیگ کی قیادت میں شامل بیگم محمد علی جوہرؔ نے بھی یہی نام پسند کیا اور بعد میں اسے مرکزی سطح پر اپنالیا گیا، البتہ یہ بات تحقیق سے غلط ثابت ہوچکی ہے کہ یہ عنوان کسی ہندو پرچار کے نتیجے میں منظرعام پر آیا۔
رہی بات ریاست کی جگہ ریاستوں کی تو اس ضمن میں عرض ہے کہ ''ریاستیں'' کی جگہ ''ریاست'' اور پاکستان کے نام کی شمولیت کا معاملہ بعداَزآں ترمیم کے ذریعے مسلم لیگ کے سرکاری مؤقف کا حصہ بنا۔ اس ضمن میں حسین شہید سُہرَوَردی (سابق وزیراعظم متحدہ بنگال و سابق وزیراعظم پاکستان) کی خدمت بھی یاد رکھنی چاہیے۔ {یہاں ایک اور بات اپنے محترم قارئین کی اطلاع کے لیے عرض کروں۔ وِکی پیڈیا نے کسی نامعلوم ونامذکور تاریخ کے انگریزی اخبار کے تراشے کا عکس پیش کیا ہے جس کی سُرخی (Caption)ہے: ''قراردادیں منظوربمقام لاہور''[Resolutions passed in Lahore] اور ذیلی سرخیاں(Sub-captions) ہیں: ''حکومت کا خاکسار تحریک کی بابت رَویّہ واضح[Government's attitude on Khaksar Question confirmed]اور ''جناب جناح کی قیادت کی فتح''[Triumph for Mr. Jinnah's leadership]۔ اس عکس کی تیاری وپیشکش کا سن بھی مشکوک ہے}۔
{تلاش وتحقیق کے اس سفر میں راقم کو اپنے ہی ایک معاصر سید عاصم محمود کی نگارش 'قراردادِ پاکستان کا خالق کون؟'' بھی آن لائن دستیاب ہوئی جو حُسن اتفاق سے روزنامہ ایکسپریس ہی میں، اتوار 16اپریل 2017ء کو شایع ہوئی جس میں قراردادِلاہور کے متعلق اس منفی پرچار کی بالتحقیق تردید کی گئی ہے کہ اسے مرتب کرنے والا کوئی اور تھا۔ ہرچند کہ یہ مضمون براہ راست میرے موضوع کا حصہ نہیں، مگر باذوق قارئین کے لیے اچھا ہے کہ میری اس تحریر کے ساتھ ملا کر پڑھیں تاکہ غلط اور جعلی انکشافات پر مبنی معلومات گمرہی کا سبب نہ بنیں}۔
یہاں تتمہ کے طور پر سندھ اسمبلی کی اس تاریخی قرارداد کا اقتباس بھی پیش کرتا ہوں جس سے قیام پاکستان کے حق میں آل انڈیا مسلم لیگ کا مؤقف قدرے واضح ہوا۔جی ایم سید کی پیش کردہ اس قرارداد میں آزاد قومی مملکتوں کے قیام کو لازم قرار دیا گیا ہے۔
Excerpt from the Resolution, moved by the then Muslim League (Sindh) leader, G. M. Syed:
"Wherefore, they emphatically declare that no constitution shall be acceptable to them that will place the Muslims under a Central Government, dominated by another nation, as in order to be able to play their part freely on their own distinct lines in the order of things to come, it is necessary for them to have independent National States of their own and hence, any attempt to subject the Muslims of India under one Central Government is bound to result in Civil War with grave, unhappy consequences."
--PROCEEDINGS OF THE SIND LEGISLATIVE ASSEMBLY OFFICIAL REPORT VOL. XVII-No. 6 WEDNESDAY, THE 3RD MARCH 1943 n
تاریخ کوئی ایسا مضمون نہیں جس میں غلوئے عقیدت اور شخصیت پرستی کورَتّی برابر بھی جگہ دی جائے اور ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی اُٹھ کر اپنی من پسند تاریخ بتانا اور لکھ کر مشہورکرنا شروع کردے اور ہم بلاتحقیق اُس کی ماننے لگیں۔ وطن عزیز میں ایسی بے شمار من گھڑت باتیں، محض شخصی تعصب وذاتی بغض وعناد کے نام پر تاریخ آزادی ہند و تحریک پاکستان (نیز اسلامی تاریخ) میں سننے، دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہیں کہ کوئی بھی باشعور اور واقعی تعلیم وتربیت یافتہ شخص انھیں مِن وَعَن تسلیم نہیں کرسکتا (یہ مَنّو اَن نہیں ہے)۔
یہاں یہ نکتہ بھی پیش نظر رہے کہ ہمارے یہاں عدم برداشت کا رویہ بھی علم کی تحصیل وترسیل میں حائل بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ایسے میں ایسے لوگ بھی خوب چمکتے ہیں جن کی بیان کردہ تاریخ کا بڑا حصہ جعلی ہوتا ہے اور لوگ اندھی تقلید میں یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بس جب انھوں نے فرما دیا تو یہی تاریخ ہے۔ اس نیم تاریک ماحول میں نصاب کی تشکیل ِ نوکُجا، اس میں فوری اور ناگزیر قسم کی تصحیح واصلاح کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اس پس منظر کے ساتھ ایک اہم سوال ہے۔ کسی بھی خواندہ شخص سے پوچھیں کہ قراردادِ پاکستان (قراردادِ لاہور) کب منظور ہوئی تھی، وہ جھٹ سے جواب دے گا، 23 مارچ 1940ء کو ۔ حالانکہ یہ جواب غلط ہے۔ درست جواب یہ ہے کہ قرارداد اُس تاریخ کو پیش کی گئی اور منظور ہوئی اگلے دن یعنی 24 مارچ کو۔ اس انکشاف پر بھی بعض لوگ برہم ہوجاتے ہیں کہ ''یہ تو کوئی بات نہیں۔ جو تاریخ مشہور ہوگئی، بس وہی ٹھیک ہے۔ کیا ضرورت ہے اتنی حُجّت کی؟''۔ یہ ہمارے نِیم خواندہ (بعض کے نزدیک ناخواندہ) معاشرے کا عمومی رویہ ہے۔
کوئی شعبہ ہو، کوئی موضوع ہو، کوئی موقع ہو، لوگ باگ (بلاامتیاز صنف، عمروطبقہ) اپنی کم علمی، لاعلمی اور ناقص معلومات پر مطمئن، مفتخِر (نازاں)، متکبر اور کسی قسم کی تصحیح واصلاح و اضافہ معلومات پر شدید ناراضی وبرہمی کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
معلوماتِ عامّہ [Quiz] کے مقابلوں میں حصہ لینے والے جانتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ صوبوں میں سب سے پہلے قیام پاکستان کے حق میں سندھ کی صوبائی اسمبلی نے قرارداد منظور کی اور یہ واقعہ کراچی میں رُونُما ہوا، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا پہلا باقاعدہ سالانہ اجلاس (1907)اور آخری سالانہ اجلاس (1943)کراچی میں منعقد ہوا، مگر یہ بات عوام الناس یا اہل قلم تو کُجا، ہمارے Quiz champions میں بھی بہت کم افراد کو معلوم ہوگی کہ قراردادِ پاکستان کے لاہور کے تاریخی جلسے سے کوئی ڈیڑھ سال پہلے، اس قرارداد سے کہیں زیادہ واضح اور بھرپور قرارداد، کراچی میں پیش ہوکر منظور ہوچکی تھی۔
یہ جلسہ (یا اُس وقت کی اصطلاح میں کانفرنس) صوبائی سطح پر ایک کُل ہند اجتماع (All India gathering) تھا جس کی صدارت قائداعظم نے خود کی تھی۔ آل انڈیا مسلم لیگ، سندھ شاخ کے زیرِاہتمام 8اکتوبر تا 12اکتوبر1938ء کو کراچی کے مشہور عیدگاہ میدان، بالمقابل جامِع کلاتھ مارکیٹ، بندرروڈ (بعداَزآں ایم اے جناح روڈ) میں پورے ہندوستان سے مسلم رہنمائوں بشمول نوابزادہ خان لیاقت علی خان، نواب اسماعیل خان، نواب بہادر یار جنگ، مولانا شوکت علی، بیگم محمد علی جوہرؔمحترمہ امجدی بانو، راجہ صاحب محمودآباد، راجہ پیرپور، مولانا جمال میاں، فرنگی محلی، سید غلام بھیک نیرنگؔ، مولانا عبدالحامد بدایونی، نواب مشتاق احمد گورمانی، یوپی کے نمایندے جناب اے۔بی۔حبیب اللہ، سر سکندر حیات، وزیراعظم (وزیراعلیٰ) پنجاب اور اے۔کے۔فضل الحق، وزیراعظم (وزیراعلیٰ) بنگال نے اس جلسے میں شرکت کی۔
جس کا مقصد خطہ ہند میں مسلمانوں کی علیٰحدہ، (یہ لفظ علاحدہ نہیں ہے) آزادوخودمختار ریاست کے قیام کا مطالبہ بذریعہ متفقہ قرارداد پیش کرنا تھا۔ یہ جلسہ اپنی نوعیت کا منفرد جلسہ تھا، کیونکہ ماقبل کسی اور علاقے میں ایسا نہیں ہوا کہ صوبائی یعنی نِچلی سطح کی قیادت نے محض ایک مرکزی رہنما کے ایماء پر کُل ہند سطح کا جلسہ منعقد کیا ہو جس میں پیش کیا جانے والا مطالبہ اُس وقت تک، مرکزی قیادت کا نعرہ یا نصب العین نہیں تھا اور کانفرنس کے صدر قائداعظم نے بھی اس کی بوجوہ کھُل کر تائید نہیں کی تھی۔ {روزنامہ انقلاب کے مدیر عبدالمجید سالک نے اس خیال کا اظہار کیا کہ چونکہ بقول سَر سکندر حیات، لفظ پاکستان، ہندوئٰوں اور انگریزوں کو بہت اشتعال دلانے والا تھا، لہٰذا مسٹر جناح نے، جو ابھی تک لفظ پاکستان کے عادی نہ ہوئے تھے۔
پنجاب یونینسٹ پارٹی کے رہنما کی بات مانتے ہوئے قرارداد میں اس نام کی شمولیت سے گریز کیا۔ بحوالہ خطاب ِ چودھری فرزند علی، برموقع یوم رحمت علی مؤرخہ 20فروری 1966ء بمقام لاہور، مطبوعہ گوجر گزٹ، مؤرخہ 11مارچ1966ء ، ص 7، محولہ ومنقولہ در سوانح حیات چودھری رحمت علی از کے۔کے عزیز}۔ ''شکر کے بادشاہ''[King of Sugar] کے لقب سے معروف،کراچی کے انتہائی فعال اور مخیر تاجر، سماجی رہنما اور صف اوّل کے سیاسی قائد، سَرسیٹھ حاجی عبداللہ ہارون نے اپنے ساتھیوں شیخ عبدالمجید سندھی، پیر حُسّام الدین راشدی اور غلام مرتضیٰ (جی ایم) سید کو یہ کام سونپا کہ تقسیم ِہند اور مطالبہ مسلم وطن کے لیے قرارداد مرتب کی جائے۔
سیٹھ صاحب نے بعدمیں قراردادِلاہور کے جلسے میں سندھ کی نمایندگی کی تھی۔ {جی ایم سید نے 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی نشستوں کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کے مسئلے پر قائداعظم سے اختلاف کیا اور نوبت بہ ایں جا رَسِید کہ سندھ میں مسلم لیگ کا سب سے فعال کارکن، سرے سے منحرف ہوکر پہلے قائداعظم اور قیام پاکستان، پھر اسلام اور اُردو کا مخالف ودشمن ہوگیا۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا اندوہ ناک المیہ ہے، مگر افسوس کہ آج بھی بعض لوگ سارے پس منظر اور شواہد کو پس ِ پُشت ڈالتے ہوئے اس سیاست داں کو بطور ہیرو عوام الناس کے سامنے پیش کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن کے سقوط ِڈھاکا میں نمایاں اور کلیدی کردار کا ذکر کرتے ہوئے لوگ یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ کبھی یہ شخص قائداعظم اور مسلم لیگ کا ایسا شیدا ووالہ تھا کہ فقط اُن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سائیکل پر سوار ہوکر کلکتے سے دہلی جاپہنچا تھا}۔ یہاں ایک بظاہر ضمنی مگر اہم نکتہ پیش خدمت ہے۔
23مارچ 2005ء کو کراچی کی شہری حکومت [City District Government=CDGK]کی طرف سے اخبارات میں شایع ہونے والے ایک اشتہار میں قراردادِ کراچی کے اس تاریخی واقعے کا مختصر ذکر پہلی بار سرکاری طور پر کیا گیا تو بلدیہ کے متعلقین بشمول عزیزم ڈاکٹر فیاض عالم صدیقی، (سابق) مشیرِناظم (نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ) برائے سفاری پارک، پارکس اور چڑیا گھر، ششدر رہ گئے کہ یہ تو ہمیں معلوم ہی نہ تھا، آج پہلی دفعہ انکشاف ہوا ہے۔ اس اشتہار کا خاکہ(Concept) اور متن (Creative Copy) لکھنے والا بھی یہی خاکسار سہیل احمد صدیقی تھا۔
یہاں ذرا ٹھہر کر خاکسار کی یہ عرض بھی ملاحظہ فرمائیں کہ سَر عبداللہ ہارون کی یہ مساعی درحقیقت، بانی تحریک قومی پاکستان [Pakistan National Movement]، چودھری رحمت علی کی نظری وعملی مہم کے زیرِاثر تھی، ورنہ ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت اُس وقت مصلحتاً کوئی بڑا مطالبہ نہیں کررہی تھی اور ''تیل دیکھو، تیل کی دھاردیکھو'' والا معاملہ تھا۔
(Theoretical کا درست ترجمہ نظری ہے، نظریاتی غلط ہے)۔ ماضی قریب میں چودھری رحمت علی کے افکار اور تحریک پاکستان میں اُن کے کردار کے متعلق خاکسار کی دو تحریریں اور پروفیسر زیدبن عمر کی ایک نگارش روزنامہ ایکسپریس کی زینت بن چکی ہے جن کا مطالعہ بہت سے مغالطے دور کرنے میں معاون ثابت ہوگا (یہ مضامین ایکسپریس کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں)، جبکہ بعض دیگر حضرات کے مضامین مختلف اخبارات میں شایع ہوتے رہے ہیں۔
یہاں وہ مواد دُہرائے بغیر عرض کرتا ہوں کہ محسن ملک وملت، نقاش پاکستان چودھری رحمت علی نے اپنے حالات ِزندگی تحریر کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ لفظ 'پاکستان' انھوں نے اواخر 1932ء میں تخلیق کیا اور اس کا پرچار 1933ء میں کیا تھا۔ جنوری 1933ء میں اُن کے تاریخی کتابچے'' ''Now or Neverکی اشاعت کے بعد سے مارچ 1940ء میں لاہور کے یادگار جلسے کے انعقاد سے قبل کے عرصے میں ایک مسلم ریاست کے قیام کے باب میں کُل انتیس (29)تجاویز مختلف افراد نے پیش کیں، جن میں چوبیس، شمال مغربی ہند میں ایک آزاد مسلم ریاست کی تشکیل کے حق میں اور دیگر کسی بھی قسم کی علاقائی، Confederal یا وفاق کے زیرِاہتمام ریاست کے قیام کے لیے پیش کی گئی تھیں۔
1938ء کی چار تجاویز میں سب سے نمایاں 8تا12اکتوبر 1938ء کو عیدگاہ میدان، بالمقابل جامع کلاتھ مارکیٹ، کراچی کے تاریخی جلسے میں پیش کی جانے والی قرارداد تھی جو سیٹھ عبداللہ ہارون، پیرحسام الدین راشدی، عبدالمجید سندھی اور جی ایم سید کی کاوش کا نتیجہ تھی۔ (بحوالہ سوانح حیات چودھری رحمت علی از پروفیسر ڈاکٹر بیرسٹر کے۔کے عزیز مترجمہ بیرسٹر اقبال الدین احمد و پروفیسر زید بن عمر، ص 258)۔ اُن دنوں لاہور کے مؤقر اخبار روزنامہ انقلاب (مدیران غلام رسول مہرؔ و عبدالمجید سالکؔ) نے اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کرکے، اس جلسے عرف کانفرنس کے مقصد انعقاد کی پیشگی تشہیر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اسلامی وغیراسلامی۔ یا ۔مسلم وہندو کی بنیاد پر دو فیڈریشنز (Federations)یعنی وفاق کی شکل میں تقسیم ہند کی تجویز پیش کی جائے گی۔
سَر عبداللہ ہارون ہی اس کانفرنس یا جلسے کے مُحرّک تھے جنھوں نے کراچی کانفرنس سے بھی پہلے جولائی 1938ء میں حیدرآباد (سندھ میں) آل انڈیا مسلم لیگ کی تقریب پرچم کُشائی سے خطاب کرتے ہوئے نعرہ لگایا :''ہم آزاد ہندوستان میں، آزاد رہنا چاہتے ہیں۔'' آل انڈیا مسلم لیگ، سندھ شاخ کے اس جلسے/کانفرنس سے پورے ہندوستان میں کانگریس کے مقابلے پر تنظیم سازی اور قیادت کی فعالی کا کام بڑے پیمانے پر شروع ہوا۔یہ وہی رہنما تھے جنھوں نے سندھ کی بمبئی پریزیڈنسی سے علیٰحدگی میں اہم کردار ادا کیا اور آل انڈیا مسلم کانفرنس کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے، اپنے سربراہ مولانا محمد علی جوہرؔ کی رہنمائی میں، انگریز کے ساتھ ساتھ ہندو سے بھی آزادی کا پرچم بلند کیا تھا۔
قراردادِکراچی کے یادگار جلسے کے افتتاحی اجلاس میں استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ، عبداللہ ہارون اور اُن کے بعد خطاب کرنے والے سر سکندر حیات اور اے۔کے۔فضل الحق نے بہت جارحانہ انداز میں اپنا مؤقف پیش کیا۔ اس موقع پر سر عبداللہ ہارون نے آل انڈیا مسلم لیگ کا نظری مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر اقلیتوں کے لیے خاطر خواہ حفاظتی انتظامات نہیں کیے جاتے اور تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا تو مسلمانوں کے پاس، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ (مستقبل میں) اس صورت حال سے نجات کے لیے، اپنی راہ کا تعین کرتے ہوئے مسلم ریاستوں کی آزاد فیڈریشن (کے تصور) کی تائید کریں۔
اس موقع پر انھوں نے ماضی قریب میں ہونے والی پیہم مساعی کا ذکر کیا جو ہندو رہنمائوں سے کسی مصالحانہ معاہدے کے لیے مسلم لیگی رہنمائوں نے کیں، مگر نتیجہ صفر رہا۔ عبداللہ ہارون کے قریبی ساتھی پیر حُسّام الدین راشدی کے چھوٹے بھائی پیرعلی محمدراشدی نے معاصر روزنامے میں شایع ہونے والی یادداشتوں میں یہ انکشاف کیا تھا کہ سَر عبداللہ ہارون نے اپنی تقریر غلام رسول مہرؔ سے، راشدی صاحبان کے گھر میں بیٹھ کر لکھوائی تھی یعنی یہ خطاب فی البدیہ نہیں تھا۔ بقول پیر علی محمد راشدی، عبداللہ ہارون کی تقریر کی تان اس جملے پر آکر ٹوٹی تھی کہ ''ہندوستان کے لیے کوئی آئینی اسکیم اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگی جب تک اس میں مسلمانوں کے علیٰحدہ وطن (HOMELAND) کا انتظام نہ کیا جائے ''۔ (Theoretical کا درست ترجمہ نظری ہے نا کہ نظریاتی)۔
دیگر پُرجوش مقررین کے برعکس قراردادِ کراچی کے لیے ہونے والے اجلاس کے صدر قائدِاعظم نے اس موقع پر اپنے حریفوں کو محض تنبیہ کرنا مناسب سمجھا اور کانگریس کو مخاطب کرتے ہوئے چیکو سلوواکیا کے Sudeten German case (یعنی چیک اور جرمنی کے سرحدی علاقے میں بسنے والے جرمن باشندوں کے واقعے) کی مثال دی اور یہ نکتہ واضح کردیا کہ کانگریس حالات کو جس نہج پہ لے جارہی ہے وہاں انڈیا افقی اور عمودی تقسیم کا شکار ہوجائے گا۔
انھوں نے کراچی آمد کے موقع پر اپنے فقیدالمثال، والہانہ استقبال کا شکریہ ادا کیا، تحریک، بشمول بمبئی پریزیڈینسی سے سندھ کی علیٰحدگی کے لیے کی جانے والی صوبائی مسلم لیگ کی کوششوں کو سراہا اور ساتھ ہی کراچی کی جغرافیائی اہمیت بھی بیان کی۔ (مولاناغلام رسول مہر اور پاکستان اسکیم: ایک مطالعہ، مؤلفہ پیرعلی محمدراشدی، مرتبہ ابوسلمان شاہجہاں پوری، مطبوعہ کراچی، ناشرمجلس یادگارمہر، موشوعہ: نومبر1992ء)۔
ہمارے ایک بزرگ، محقق ومشفق معاصر ڈاکٹر محمدعلی صدیقی مرحوم کی مرتبہ انگریزی کتاب کے منقولہ ذیل اقتباس سے یہ بخوبی واضح ہوتا ہے کہ قراردادکراچی میں دوقومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم وآزادی کا اشارہ دیا گیا تھا، مگر عین اُسی دن قائداعظم نے کانگریس کے صدر، سُبھاش چندر بوس کے نام خط تحریر کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ، ہندو اور مسلم قوم کے مابین مصالحت کرانے کے لیے تیار ہے۔
{October 10, 1938: Sindh Muslim League Conference, Karachi passed the resolution that the Muslims are a separate nation and India in reality was not one nation, but, two, and the Muslim League should devise a scheme of Constitution, under which Muslims may attain full independence.
(The Quaid) wrote to Bose expressing AIML's readiness for Hindu-Muslim patch up.
(Quaid-i-Azam Jinnah: A chronology, by Dr. Muhammad Ali Siddiqui, Quaid-i-Azam Academy, Karachi; second edition-1996. P. 209}
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سر عبداللہ ہارون کا فکری تغیر، چودھری رحمت علی کی تحریک پاکستان کے براہ راست اثر کی وجہ سے ہوا تو اس بابت بھی تحقیق ہوچکی ہے۔
تاریخی انکشاف یہ ہے کہ قیام پاکستان کے مخالف ، سَر آغا خان نے بھی سَر عبداللہ ہارون سے خط کتابت (خط وکتابت غلط ہے) میں 20دسمبر 1938ء کو یہی لکھا کہ ''ہم تمام ہندومسلم تعلقات کے ممکن حل کا خیر مقدم کریں گے ۔کیا آپ کو لیگ کی طرف سے پاکستان (کے تصور) کو مسلمانوں کی ایک قطعی پالیسی کے طور پر اختیار کرنے کا امکان ہے؟ اگر ایسا ہے تو جتنی جلدی، جلدی، بہ اطمینان، عوامی رائے منظم کرنے کی طرف قدم اٹھایا جائے ، بہتر ہوگا''۔
[A.M.Ahmad Shafi, Haji Sir Abdullah Haroon-A biography, p. 140, quoted in S.S.Pirzada, Evolution of Pakistan (Lahore, 1963), p. 150. Quoted by Prof. Dr. Barrister K.K.Aziz in Rahmat Ali-A Biography]
قراردادِکراچی تا قراردادِلاہور کے درمیانی عرصے میں انھوں نے اور اُن کے قریبی ساتھیوں نیز دیگر نے بارہا لفظ پاکستان اور پاکستان موومنٹ استعمال کیا اور Nedou's Hotel (موجودہ آواری ہوٹل) میں مجلس پاکستان ، لائل پور اور لاہور کے نمایندگان سے ملاقات کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ''مجھے امید ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان معرض وجود میں آجائے گا۔ مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ دل دماغ دونوں سے پاکستان (کا حصول) چاہتا ہے۔ تمام پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ پاکستان موومنٹ کا پیغام اُن تمام لوگوں کو پہنچائیں جو اس تصور کی طرف مائل نہیں ''۔ ان کے سیکریٹری پیر علی محمد راشدی نے وعدہ کیا کہ میں آپ کے آیندہ دورہ سندھ کے موقع پر پاکستان کے لوگوں کو، اس موومنٹ کے متعلق تفصیل سے بتائوں گا۔
یہ بات بہرحال افسوس ناک ہے کہ اُس دور میں اور مابعد، راشدی برادران سمیت کسی رہنما یا کارکن نے کبھی کھُل کر یہ اعتراف نہیں کیا کہ مسلم لیگ میں رہتے ہوئے اگر پارٹی پالیسی کے متوازی کوئی نعرہ لگا اور قراردادیں پیش ہوئیں، (ماسوائے چودھری خلیق الزماں کے جن کی تحریروتقریر میں یہ اعتراف موجود ہے)، پھر لفظ پاکستان عام ہوا تو اِس کا سہرا درحقیقت نقاش پاکستان چودھری رحمت علی کی تن تنہا تحریک کے سر تھا۔
بیس تا اکیس مئی 1939ء کو مسلم لیگ کی بَندِیکی، دَکن شاخ کی اولین سیاسی کانفرنس کے صدر مولانا محمد فاروق نے اپنی تقریر میں 'پاکستان اسکیم' پر روشنی ڈالی تو مجمع مسلسل پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے میں مصروف رہا اور پھر دوسرے دن ایک قرارداد کی شکل میں اس اسکیم کی منظوری دی گئی۔ 18نومبر 1939ء کو راجہ صاحب محمود آباد نے آسام میں صوبائی مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تصورِ پاکستان موومنٹ کا ذکر کیا۔
لطف کی بات ہے کہ اپریل 1940ء کے پہلے ہفتے میں مسلم لیگ نے اپنی تمام صوبائی تنظیموں کو ایک فرمان کے ذریعے ہدایت کی کہ اِمسال 19اپریل کو ''یوم ِ پاکستان''(Pakistan Day)منایا جائے، 14اپریل کو مسلم لیگ، سندھ نے اپنی تمام مقامی شاخوں کو مرکزی قیادت کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے قراردادِلاہور کی تفصیل سے عوام کو رُوشناس کرانے کے لیے اجلاسوں کے انعقاد کا حکم دیا، چنانچہ 19اپریل1940ء کو ہندوستان بھر میں باضابطہ طور پر یہ دن منایا گیا اور ناصرف مختلف شہروں میں ہونے والے اجتماعات میں قراردادِلاہور کے لیے 'قراردادِ پاکستان' کا نام استعمال کیا گیا، بلکہ ہمارے ایک ممتاز رہنما چودھری خلیق الزماںصدیقی نے امین الدولہ پارک، لکھنؤ کے اجلاس میں کہا کہ ہم اس قرارداد کو قراردادِ پاکستان ہی کے نام سے پکاریں گے۔ آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کی قراداد نمبر دو میں بھی لفظ پاکستان استعمال کیا گیا، مگر احتیاطاً کسی نے بھی کہیں بھی خالق تحریک پاکستان، چودھری رحمت علی کا نام نہیں لیا، کیونکہ مرکزی سطح پر اُنھیں مسترد کیا جاچکا تھا۔
سرعبداللہ ہارون کے پاکستان نواز ہونے کی بات تو بڑی حد تک واضح ہوچکی، مگر جب ہم اُن کی تقریر کا متن دیکھتے ہیں تو معاملہ ایک مرتبہ پھر گنجلک ہوجاتا ہے۔ سرعبداللہ ہارون کی تقریر کے یہ الفاظ، یہاں تو چودھری رحمت علی کے تصورپاکستان سے مختلف معلوم ہوتے ہیں کیونکہ انھوں نے جابجا دیگر مواقع پر پاکستان کا نام تو لیا، مگر چودھری صاحب کے برعکس، اس پیرا میں مسلم ریاستوں (یاصوبوں) کے وفاق کی بات کی:
"......if the patience of Muslim India is tried to its utmost capacity, it might have no alternative left, but to seek their solvation in their own way in an independent federation of Muslim states---Quoted in Ma'arif Research Journal: July-December 2011-Available online.
اس بارے میں خاکسار یہی کہہ سکتا ہے کہ مرکزی قیادت کی تائیدوحمایت پوری طرح حاصل نہ ہونے کی وجہ سے شاید انھوں نے بھی مصلحتاً تقریر کے اختتام پر، مکمل تصورِ پاکستان پیش نہ کیا ہو اور محض آزادی کی بات کی ہو۔
قراردادِکراچی کی منظوری کے لیے منعقد ہونے والے جلسے میں کل اکیس قراردادیں پیش کی گئیں جن میں پانچویں قرارداد پیش کرتے ہوئے شیخ عبدالمجید سندھی نے مطالبہ کیا :''...... مشترکہ امنگوں اور مشترکہ نظریات کے زیرِاثر ذات پات سے متاثرہ ذہنیت اور اکثریتی طبقے کی مسلم دشمنی پر مبنی پالیسی کے نفاذ کے لیے واحد متحدہ ہندوستان اور متحدہ ہندوستانی قوم کا ارتقا بعید از قیاس ہے، اور یہ بھی کہ مذہب، زبان، رسم الخط، ثقافت، معاشرتی قوانین اور دو اہم برادریوں کی زندگی کے نقطہ نظر کے شدید فرق کی وجہ سے اور یہاں تک کہ بعض حصوں میں نسل کے فرق کے باعث یہ ممکن نہیں ہے۔
ہندوستان کے وسیع برِاعظم میں مستقل امن و امان قائم رکھنے، یہاں بسنے والی دو قوموں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کے اپنے اپنے کلچر کو فروغ دینے، انہیں بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی اپنی اقتصادی اور معاشرتی اصلاح کرنے اور انہیں سیاسی طور پر حقِ خود اختیاری عطا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہندوستان میں دو مختلف وفاق قائم کیے جائیں جن میں سے ایک وفاق مسلمانوں کا ہو اور دوسرا ہندوؤں کا۔ ''چنانچہ یہ اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ سے درخواست کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے آئین کا خاکہ مرتب کرے جس کی رو سے مسلمانوں کی اکثریت کے صوبے، مسلم اکثریت رکھنے والی ریاستیں، اور وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، متحدہ طور پر ایک وفاق کی صورت میں مکمل آزادی حاصل کرسکیں''۔
''اس قرارداد کی منظوری کے عمل سے مسلم لیگ نے پہلی بار سیاسی طور پر انڈیا کو دو علیحدہ مملکتوں کی شکل میں پیش کیا، اور اسی وقت علیحدہ قومیت کے حصول کے لئے ایک جائز ذریعہ کے طور پر سیاسی خود ارادیت کے دعوے کو بھی آگے بڑھایا۔ اس قرارداد پر ہندو پریس نے تنقید کی تھی۔
عبداللہ ہارون نے ایک انٹرویو میں کہا کہ انھوں (ہندوؤں) نے اس کے بنیادی نظریے کو زبردست تحریک عطا کی ہے۔ انہوں نے پاکستان کا ذکر کرنا شروع کردیا ہے، مسلمانوں کو اس کا نوٹس لینا چاہئے، اور ان کو اس کے بارے میں سوچنا ہوگا۔تاریخی تناظر میں آل انڈیا مسلم لیگ کی یہ کانفرنس پیش خیمہ ثابت ہوئی اس قرارداد کا جو لاہور میں 1940ء میں منظور کی گئی۔ اس درمیانے عرصے میں سر عبداللہ ہارون نے ایک علیٰحدہ مملکت کے نظریئے کو فروغ دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے مسلم لیگ کی خارجہ کمیٹی اور مقامی سب کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے ورکنگ پیپرز اور لٹریچر تیار کروائے اور برصغیر کے ممتاز مسلمان رہنماؤں کے ساتھ خط و کتابت کے ذریعہ اس نظریئے کو فروغ دیا''۔ (مولاناغلام رسول مہر اور پاکستان اسکیم۔ ایک مطالعہ، مؤلفہ پیرعلی محمدراشدی، مرتبہ ابوسلمان شاہجہاں پوری، مطبوعہ کراچی، ناشرمجلس یادگارمہر، موشوعہ: نومبر1992ء)
اب ہم اس بارے میں بھی بات کرلیں کہ قراردادِ لاہور عرف قراردادِ پاکستان اور تصورِ پاکستان کو علامہ اقبال سے منسوب کرنے کی سعی نامشکور، بالتحقیق مسترد کی جاچکی ہے اور اسی سال اس موضوع پر ایک محقق کی پوری کتاب بھی منظرعام پر آنے والی ہے۔ انھوں نے متعدد مواقع پر اپنے خطبہ الہ آباد کو چودھری صاحب کے تصورپاکستان سے جوڑنے کی تردید کی اور ایک نیم خودمختار مسلم وفاق کے حق میں بیان دیا۔ خاکسار اور بعض دیگر محققین کی تحریروں میں یہ سارا معاملہ بالکل واضح بیان کیا جاچکا ہے۔ علامہ اقبال، چودھری رحمت علی کے بزرگ دوست ہونے کے باوجود، اُن کا یوں احترام کرتے تھے جیسے وہ بھی کوئی بزرگ معاصر ہوں۔ انھوں نے چودھری صاحب کے نام ایک خط میں لکھا:
''خدایا! ہم پر فال وسیادت کی سیدھی راہ کھول دے۔القرآن۔
نشان ِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیے
نگاہ بلند، سخن ِ دل نواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رَخت ِ سفر، میر ِ کارواں کے لیے
۔۔۔محمد اقبال، لاہور: 23جنوری 1935ء۔۔ بخدمت برادرِ گرامی قدرحضرت چودھری رحمت علی صاحب''
علامہ اقبال اور چودھری رحمت علی کے مابین تعلقات نہایت خوشگوار اور سیاسی اختلاف سے قطع نظر لائق تقلید تھے۔ علامہ نے اپنے آخری دنوں میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ چودھری صاحب کی پاکستان نیشنل موومنٹ کے صدر کی حیثیت سے اُن کا بازو بننا چاہتے ہیں۔ چودھری صاحب نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے اپنی پرانی شرط دُہرائی کہ آپ پہلے Knighthood یعنی سَر کا خطاب واپس کردیں۔ موت نے علامہ کو مہلت نہ دی کہ اس پرانی بحث کا خاتمہ کرتے ہوئے اپنے مؤقف سے رجوع کرتے اور کھل کر عوامی سطح پر مطالبہ پاکستان کی حمایت کرتے۔
قراردادِلاہور کے متن میں شامل مندرجہ ذیل شِق کو مطالبہ تقسیم ہندو حصول آزادی قراردیا جاتا ہے:
Resolved that it is the considered view of this Session of the All India Muslim League that no constitutional plan would be workable in this country or acceptable to Muslims unless it is designed on the following basic principle, namely that geographically contiguous units are demarcated into regions which should be so constituted, with such territorial readjustments as may be necessary, that the areas in which the Muslims are numerically in a majority as in the North-Western and Eastern Zones of India, should be grouped o constitute "Independent States" in which the constituent units shall be autonomous and sovereign.
یہاں لفظ States (یعنی ریاستیں بمعنی صوبے) مستعمل ومروَج ہونے کی وجہ سے کُلّی طور پر آزادوخودمختار مملکت کا مفہوم بہرحال واضح نہیں سمجھا گیا تھا اور پوری قراردادمیں کہیں پاکستان کا ذکر نہ تھا، اس کے باوجود چودھری رحمت علی کی حمایت و مخالفت میں ملکی وغیرملکی صحافیوں، ادیبوں، سیاسی رہنمائوں، کارکنوں اور عوام الناس میں لفظ پاکستان اس قدر مستعمل ومقبول ہوچکا تھا کہ اسے 'قراردادِ پاکستان' کا نام دیا تو وہ اس قدر مشہور ہوا کہ مسلم لیگ کی قیادت میں شامل بیگم محمد علی جوہرؔ نے بھی یہی نام پسند کیا اور بعد میں اسے مرکزی سطح پر اپنالیا گیا، البتہ یہ بات تحقیق سے غلط ثابت ہوچکی ہے کہ یہ عنوان کسی ہندو پرچار کے نتیجے میں منظرعام پر آیا۔
رہی بات ریاست کی جگہ ریاستوں کی تو اس ضمن میں عرض ہے کہ ''ریاستیں'' کی جگہ ''ریاست'' اور پاکستان کے نام کی شمولیت کا معاملہ بعداَزآں ترمیم کے ذریعے مسلم لیگ کے سرکاری مؤقف کا حصہ بنا۔ اس ضمن میں حسین شہید سُہرَوَردی (سابق وزیراعظم متحدہ بنگال و سابق وزیراعظم پاکستان) کی خدمت بھی یاد رکھنی چاہیے۔ {یہاں ایک اور بات اپنے محترم قارئین کی اطلاع کے لیے عرض کروں۔ وِکی پیڈیا نے کسی نامعلوم ونامذکور تاریخ کے انگریزی اخبار کے تراشے کا عکس پیش کیا ہے جس کی سُرخی (Caption)ہے: ''قراردادیں منظوربمقام لاہور''[Resolutions passed in Lahore] اور ذیلی سرخیاں(Sub-captions) ہیں: ''حکومت کا خاکسار تحریک کی بابت رَویّہ واضح[Government's attitude on Khaksar Question confirmed]اور ''جناب جناح کی قیادت کی فتح''[Triumph for Mr. Jinnah's leadership]۔ اس عکس کی تیاری وپیشکش کا سن بھی مشکوک ہے}۔
{تلاش وتحقیق کے اس سفر میں راقم کو اپنے ہی ایک معاصر سید عاصم محمود کی نگارش 'قراردادِ پاکستان کا خالق کون؟'' بھی آن لائن دستیاب ہوئی جو حُسن اتفاق سے روزنامہ ایکسپریس ہی میں، اتوار 16اپریل 2017ء کو شایع ہوئی جس میں قراردادِلاہور کے متعلق اس منفی پرچار کی بالتحقیق تردید کی گئی ہے کہ اسے مرتب کرنے والا کوئی اور تھا۔ ہرچند کہ یہ مضمون براہ راست میرے موضوع کا حصہ نہیں، مگر باذوق قارئین کے لیے اچھا ہے کہ میری اس تحریر کے ساتھ ملا کر پڑھیں تاکہ غلط اور جعلی انکشافات پر مبنی معلومات گمرہی کا سبب نہ بنیں}۔
یہاں تتمہ کے طور پر سندھ اسمبلی کی اس تاریخی قرارداد کا اقتباس بھی پیش کرتا ہوں جس سے قیام پاکستان کے حق میں آل انڈیا مسلم لیگ کا مؤقف قدرے واضح ہوا۔جی ایم سید کی پیش کردہ اس قرارداد میں آزاد قومی مملکتوں کے قیام کو لازم قرار دیا گیا ہے۔
Excerpt from the Resolution, moved by the then Muslim League (Sindh) leader, G. M. Syed:
"Wherefore, they emphatically declare that no constitution shall be acceptable to them that will place the Muslims under a Central Government, dominated by another nation, as in order to be able to play their part freely on their own distinct lines in the order of things to come, it is necessary for them to have independent National States of their own and hence, any attempt to subject the Muslims of India under one Central Government is bound to result in Civil War with grave, unhappy consequences."
--PROCEEDINGS OF THE SIND LEGISLATIVE ASSEMBLY OFFICIAL REPORT VOL. XVII-No. 6 WEDNESDAY, THE 3RD MARCH 1943 n