عالمی معاشی صورت حال اور پاکستان
ماہرین یہ خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ ملک میں پہلے ہی سرمایہ کاری کی رفتار انتہائی سست ہے
دنیا ابھی کورونا وبا سے مکمل طور پر نکلی نہیں ہے۔ کورونا وبا کے نام پر مختلف لہروں نے اپنی یلغار جاری رکھی ہوئی تھی کہ سخت ترین پابندیوں، کاروباری لاک ڈاؤن اور کورونا سے متعلق احتیاطی تدابیر نے دنیا بھر کے عوام کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔
امیر صنعتی ممالک کسی طرح نازک معاشی حالات کا کامیابی سے مقابلہ کر رہے تھے لیکن دنیا کے ترقی پذیر ملکوں کے عوام کی اکثریت بدحالی، مفلوک الحالی کا شکار تھی۔ لاک ڈاؤن کی پابندیوں میں جیسے جیسے نرمی آتی چلی گئی عالمی منڈی میں ہر طرف مہنگائی نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کردیے۔
ان میں تیل اور گیس جوکہ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کا اہم ترین عنصر اور گندم غذائی ضروریات پوری کرنے کا اہم ترین جزو ہے۔ روس اور یوکرین تیل، گیس، گندم اور دیگر اشیا کی پیداوار میں دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل ہیں۔ گزشتہ برس ہی پاکستان نے یوکرین سے 1.3 ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کی تھی۔ روس گیس کی پیداوار کا اہم ترین ملک ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ روس سے گیس لائن بچھانے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ روسی حکام معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔ دنیا بھر میں کورونا وبا میں اگرچہ کمی آ رہی تھی کئی کئی اقسام کی یلغار کی پیش گوئی بھی ہو رہی تھی کہ اچانک روس نے یوکرین پر یلغار کردی جس کے نتیجے میں تیل اور گیس کی قیمتوں نے راکٹ کی رفتار پکڑ لی اور عالمی منڈی میں حملہ آور ہو کر ہر شے کے نرخ کو آگ لگا دی۔ آئی ایم ایف حکام نے کہہ دیا کہ روسی حملہ عالمی معیشت کے لیے تباہ کن ہوگا۔
دونوں ممالک کی جنگ دنیا کی معیشت اور سیاست کو اکھیڑ کر رکھ سکتی ہے۔ تجارت اور کاروبار کے بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا گیا ہے۔ یقینی طور پر یہ جنگ عالمی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک صورت حال اختیار کرتے ہوئے افراط زر کو بڑھائے گی اور عالمی سرمایہ کاروں میں غیر یقینی کی کیفیت بڑھے گی کاروبار میں مندی پیدا ہوگی۔ ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں سخت ترین مالیاتی دباؤ میں آ کر رہیں گی۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں معمول سے زیادہ اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ کورونا وبا کے اثرات جیسے جیسے کم ہونا شروع ہوگئے تھے تیل کے نرخوں میں بتدریج اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اور طلب میں اضافے نے بھی اپنا کام کر دکھایا اور عالمی منڈی میں ہر شے کے نرخوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ڈیڑھ عشرہ قبل کی بات ہے جب اسرائیل، لبنان جنگ کے باعث تیل کی قیمتوں کو عروج حاصل ہوا اور ترقی پذیر ممالک مالیاتی دباؤ کا شکار ہونے لگے۔ ایسے میں آئی ایم ایف نے غریب ممالک کو مالیاتی دباؤ سے نکلنے کے لیے قرض کی پیشکش کی تھی۔
اس وقت آئی ایم ایف نے یہ بیان جاری کیا ہے کہ روسی حملہ عالمی معیشت کے لیے تباہ کن ہوگا۔ عالمی معیشت میں نظر آنے والی تباہی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اور ترقی پذیر ممالک کو مالی مشکلات سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف نے اپنا کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا ہے۔ روس پر امریکی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔
برطانیہ نے روس کا ثقافتی بائیکاٹ کردیا ہے۔ روس نے بھی جوابی وار شروع کرتے ہوئے بہت سے افراد پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے ان کے اثاثے منجمد کردیے ہیں ان میں امریکی افراد شامل ہیں اور مزید افراد پر بھی پابندیاں عائد کرنے کا انتباہ جاری کردیا ہے۔ عالمی معیشت جوکہ خطرناک صورت حال اختیار کرنے جا رہی ہے۔ کئی ممالک کے شہری مہنگائی سے سخت پریشان ہیں۔
سری لنکا جوکہ پہلے آئی ایم ایف سے اس کی شرائط پر قرض لینے سے انکار کر رہا تھا اب وہاں کی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کرلیا ہے لیکن وہاں کے عوام نے مخالفانہ ردعمل ظاہر کرتے ہوئے احتجاج کرنا شروع کردیا ہے۔ ترکی میں بھی اس کی کرنسی ''لیرا'' سخت ترین بے قدری کا شکار ہے اور وہاں بھی مہنگائی عروج پر ہے۔
ایسے میں آئی ایم ایف کو غریب ممالک جن میں سری لنکا اور پاکستان بھی شامل ہیں اپنی شرائط کو ایک طرف رکھتے ہوئے موجودہ عالمی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے قرضوں کے اجرا اور شرائط پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے جس کا ابھی تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔ جو اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ عالمی معیشت کی شرح افزائش میں نمایاں کمی ہوگی اور ہر ترقی پذیر قرضوں سے لدے پھندے ملک کی معیشت پر سخت منفی اثرات مرتب ہوں گے، اس کے ساتھ ہی جب مہنگائی اپنے عروج پر ہو تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد ان دنوں قدرے کمی ہوئی ہے لیکن اضافے کے خدشات موجود ہیں۔
عالمی مارکیٹ میں کئی اجناس کی قلت پیدا ہو رہی ہے جوکہ کورونا کی خطرناک صورت حال سے نکلنے کے بعد ایک بار پھر مزید خطرات میں گھر سکتی ہے۔ ان تمام عالمی معاشی اور سیاسی صورت حال کو مدنظر رکھیں اور پاکستان کی سیاسی و معاشی صورتحال کو دیکھیں تو ماہرین یہ خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ ملک میں پہلے ہی سرمایہ کاری کی رفتار انتہائی سست ہے ، عالمی منڈی میں ہر شے کی قیمت بڑھ رہی ہے اور پاکستان اپنے زرعی اجناس کی پیداوار میں اضافہ کرنے میں ناکام رہا ہے، اس کے علاوہ ماہ رمضان المبارک کی آمد ہے۔
ہر سال کی طرح مزید مہنگائی اپنے پر تول چکی ہے۔ حسب روایت اس ماہ مبارک میں مہنگائی ایک بار پھر اپنے عروج پر پہنچ کر رہے گی۔ کہیں بھی کوئی ضلع انتظامیہ اپنی بھرپور تیاریوں میں مصروف نظر نہیں آ رہی کہ وہ مہنگائی کی روک تھام کے لیے کوئی کارروائی کرسکے۔
ماہ مارچ میں ہی یوم صارفین بھی منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں صارفین کا کوئی خیال نہیں ہے بلکہ مصنوعات بنانے والوں اور زرعی اجناس اور پھل فروٹ وغیرہ کی تجارت سے تعلق رکھنے والے درمیانے لوگوں کے حقوق کا بھرپور خیال کیا جاتا ہے، تاکہ ان کے منافعوں میں کمی واقع نہ ہو۔ سارا بوجھ مہنگائی کی صورت میں عوام پر ہی ڈال دیا جاتا ہے۔
عالمی منڈی میں اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے منفی اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے جس سے غریب عوام ہی سب سے زیادہ متاثر ہوکر رہے گا، ایسے موقعے پر پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو اپنا فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔