تحریک انصاف میں بغاوت

پورے پاکستان میں تحریک انصاف کے اندر بغاوت اور دھڑے بندی نمایاں ہے


مزمل سہروردی March 19, 2022
[email protected]

اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس ملک چلانے کے لیے ٹیم موجود ہے۔ ٹیکنوکریٹس کی ایک ٹیم ہے۔ وہ ملک چلانے کے لیے مکمل تیار ہیں۔ اسی طرح عمران خان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ بطور کپتان انھیں ٹیم بنانے میں بہت مہارت ہے۔ وہ بطور سیاسی کپتان بہترین ٹیم بنائیں گے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک بہترین ٹیم کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں۔

لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ کپتان کی ٹیم تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر رہی ہے۔ بلوچستان تحریک انصاف میں سردار یار محمد رند کی شکل میں بغاوت سب کے سامنے ہے۔ سردار یار محمد رند بلوچستان کی ساری تحریک انصاف لے کر ہی اپوزیشن کے پاس چلے گئے ہیں۔

بلوچستان تحریک انصاف میں بغاوت ناقابل فہم ہے کیونکہ بلوچستان میں ابھی کوئی عدم اعتماد نہیں آئی۔ وہاں بغاوت کیوں ہوئی ہے۔ وہاں کے ارکان بلوچستان اسمبلی کیوں عمران خان کو چھوڑ رہے ہیں۔ میدان تو قومی اسمبلی میں لگا ہوا ہے۔ وہاں تو کوئی پیسے نہیں چل رہے ہیں۔ وہاں تو کوئی منڈی نہیں لگی ہوئی۔ کیا یہ سوال اہم نہیں وہاں کے ارکان کیوں بغاوت کر رہے ہیں۔

عدم اعتماد تو قومی اسمبلی میں پیش ہوئی ہے۔ یہ پنجاب میں تحریک انصاف کے ارکان کیوں بغاوت کر رہے ہیں۔ کیا جب پنجاب میں تحریک انصاف کے اندر جہانگیر ترین گروپ بنا تھا تب پنجاب میں کوئی سیاسی بحران تھا۔ کیا تب پنجاب میں کوئی عدم اعتماد پیش ہوئی تھی۔ پھر پنجاب اسمبلی میں ارکان کیوں منحرف ہو ئے۔ آج بھی تحریک انصاف کے پنجاب اسمبلی کے ارکان میں بغاوت کھلے عام نظر آتی ہے۔ جہانگیر ترین گروپ اور علیم خان گروپ دونوں ہی حکومت کے خلاف ہیں۔

سندھ اسمبلی میں بھی تحریک انصاف میں بغاوت نظر آرہی ہے۔ ابھی حال ہی میں سندھ اسمبلی میں سینیٹ کی نشست کے انتخاب کے موقع پر تحریک انصاف کے ارکان نے تحریک انصاف کے بائیکاٹ کے باوجود ووٹ ڈالا۔ حالانکہ پیپلزپارٹی کو ان کے ووٹ کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ جب ووٹ کی ضرورت ہی نہیں تو ووٹ خریدنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ صاف ظاہر ہے کہ ارکان اسمبلی نے صرف عمران خان سے بغاوت کو ظاہر کرنے کے لیے ووٹ کاسٹ کیے ہیں۔ سندھ میں بغاوت کا بھی قومی اسمبلی میں عدم اعتماد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی سب سے مضبوط حکومت ہے۔ وہاں تحریک انصاف کے اندر بغاوت ناقابل فہم ہے۔ صرف پنجاب میں عثمان بزدار کی ہی مخالفت نہیں ہے بلکہ خیبر پختونخوا میں وہاں کے وزیر اعلیٰ محمود خان کی مخالفت بھی نمایاں ہے۔ وہاں بھی کابینہ میں دھڑے بندی ہے۔ یہ بغاوت بھی کسی عدم اعتماد کی وجہ سے نہیں ہے۔ وہاں تو دور دور تک عدم اعتماد کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ ساری صورتحال اس لیے لکھی ہے کہ یہ بات واضح ہو سکے کہ تحریک انصاف کے مرکز میں منحرف و ناراض ارکان کوئی اکیلے نہیں ہیں۔

پورے پاکستان میں تحریک انصاف کے اندر بغاوت اور دھڑے بندی نمایاں ہے۔ اس کی آخر کیا وجہ ہے۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ 2018کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے ملک میں سب سے بڑی سیاسی ڈرائی کلین فیکٹری لگائی تھی۔ تمام سیاسی جماعتوں سے جیتنے والوں کو تحریک انصاف میں شامل کیا گیا۔ تحریک انصاف میں شامل ہونے والوں کو یہ یقین دہانی کروائی جا رہی تھی کہ اس پر سے کرپشن کے تمام داغ بھی دھل جائیں گے۔ یک دم وہ ایماندار بھی ہو جائے گا۔

ساتھ ساتھ مقتدر حلقوں کا آشیر باد بھی مل رہا تھا۔ انتخابی جیت کی یقین دہانی بھی دی جا رہی تھی۔ اس لیے یہ ایک مکمل پیکیج تھا۔ انکار کی صورت میں انتخابات میں ہارکی دھمکی اور نیب سے بھی ڈرایا جا رہا تھا۔ مقدمات کے بارے میں بتایا جا رہا تھا۔ اس لیے انکار کو مشکل سے مشکل بنایا گیا تھا کہ کوئی انکار کرنے کے بارے میں سوچے بھی نہیں۔ اتنی کمزور بنیادوں پر کھڑی کی جانیوالی جماعت نے کسی بھی بحران کی صورت میں ریت کی دیوار ہی ثابت ہونا تھا۔ا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں