اشفاق احمد کا لازوال کردار ’’تلقین شاہ‘‘

یہ کردار ایک مدت تک ریڈیو پاکستان کے آسمان پر ستارہ بن کر چمکتا رہا


یہ کردار ایک مدت تک ریڈیو پاکستان کے آسمان پر ستارہ بن کر چمکتا رہا ۔ فوٹو : فائل

RAWALPINDI: ایسی تحریر جو دل کو چھوئے وہ ادب ہے، ادب ہمارے احساسات جمال کی تشفی کرتا ہے۔

ادبی تحریر میں زبان کا خوب صورت استعمال کرنے کے ساتھ، جذبات و احساسات اور مشاہدات کو پیش کیا جاتا ہے، ادیب الفاظ کاجادو جگانے اور سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ ادیب دکھی حال لوگوں کی مرہم پٹی کرتا ہے۔ معاشرے کی کردار سازی کرنا بھی ادیب کا کمال ہے۔

ادیب چمن ادب کی آبیاری خون جگر سے کرے تو اس سے پھوٹنے والے گل بوٹے سدابہار ہوتے ہیں۔ اپنے میٹھے الفاظ سے عوام الناس کی اصلاح کرنے والے نابغہ روزگار شخصیت اشفاق احمد جیسے عظیم سخن طراز کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جو قیام پاکستان کے بعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے۔ اشفاق احمد کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ادب کی دنیا میں اپنا منفرد مقام بنایا اور امر ہوگئے۔

اردو ادب کے حوالے سے جب بات کی جاتی ہے تو پاکستان کے نام ور ادیب اشفاق احمد کے ذکر کے بغیر اردو ادب کی تاریخ نامکمل اور ادھوری معلوم ہوتی ہے۔ اشفاق احمد ایک افسانہ نگار، ڈرامانگار، فلسفی، ادیب اور دانش ور ہونے کے ساتھ بہترین براڈ کاسٹر بھی تھے۔ فنون لطیفہ کے علاوہ انھیں اصلاحی تحاریر اور اذکار سے خاص لگاؤ تھا۔ آپ ناول نگار اور مترجم بھی تھے۔

تاریخ کے اوراق دہرائے جائیں تو یقیناً ریڈیو پاکستان کے حوالے سے اشفاق احمد کا نام الگ اہمیت کا حامل ہے۔ ریڈیو پاکستان کے حوالے سے اشفاق احمد کی خدمات قابل تحسین ہیں۔1949 کے لگ بھگ ریڈیو پاکستان کے لیے لکھنا شروع کیا اور دیکھتے دیکھتے مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ اپنی تمام تر تخلیقی قوتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جس محنت، لگن اور محبت کے ساتھ آپ نے افسانے لکھے اسی طرح محنت اور لگن کے ساتھ ریڈیو کے لیے ڈرامے تحریر کیے۔ ریڈیو پاکستان کی دنیا میں اشفاق احمد کا لازوال شاہ کار ''تلقین شاہ'' ہے۔

''تلقین شاہ'' ریڈیو پاکستان کے آسمان پر ستارہ بن کر چمکتا رہا اور اشفاق احمد کے فن کو نکھار بخشتا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فیچر کی کام یابی میں اشفاق احمد کی ادائیگی کا بہت عمل دخل ہے۔ جب تک تلقین شاہ کا فیچر ریڈیو پر نشر ہوتا رہتا لوگ ریڈیو سیٹ سے الگ نہیں ہوتے تھے۔آج بھی اس فیچر کی تازگی اور شادابی روز اول کی طرح قائم و دائم ہے۔ آپ کی تحریروں کے موضوعات میں اخلاقیات وطن سے محبت اور نیکی کا پرچار نمایاں رہے ہیں۔

1964 میں اشفاق احمد نے اپنا ریڈیو پروگرام تلقین شاہ شروع کیا۔ اس پروگرام نے انھیں شہروں اور دیہات میں بے پناہ مقبولیت بخشی۔ 40 سال پر محیط اس فیچر پروگرام کا سلسلہ ریڈیو پاکستان لاہور سے باقاعدگی سے نشر ہوتا رہا اور مرتے دم تک جاری رہا۔ اس پروگرام کو انھوں نے نہ صرف لکھا بلکہ تلقین شاہ کا کردار بھی خود ادا کیا۔ وہ طویل عرصے تک اس پروگرام کو پروڈیوس کرتے رہے۔

تلقین شاہ کے ذریعے پیش کی جانے والی خدمات کسی اور پروگرام میں نہیں آسکیں۔ تلقین شاہ کا موضوع پاکستان کی سیاست، خارجہ پالیسی، اقتصادیات، ترقی، کمیونٹی، خواندگی، اخلاقیات اور عالمی واقعات تھے۔ تلقین شاہ نے خاص طور پر پاک بھارت تعلقات، کشمیر، فلسطین، قومی اور عالمی مسائل پر دلکش اور ڈرامائی انداز میں موقف پیش کیا۔ تلقین شاہ نے نشریاتی دفاع سے نظریہ پاکستان کو مضبوط اور مقبول بنایا۔ تلقین شاہ نے ہر دور، ہر حکومت اور ہر قسم کے حالات، پاکستان کے اندرونی اور بیرونی معاملات کو عوام اور دنیا کے سامنے بہت خوب صورتی سے بیان کیا اور اس کی بھرپور وضاحت اور وکالت کی۔

اشفاق احمد نے تلقین شاہ کے کردار میں تمام برائیوں، منفی حوالوں اور منفی رویوں کو اپنے اوپر لے لیا اور اصلاح کی راہیں بھی کھولیں۔ خاص طور پر تنازع کشمیر کو اس تسلسل اور مستعدی کے ساتھ بیان کیا گیا اور اس پروگرام کے ذریعے اس نے کس طرح اسے زندہ رکھا اس کی مثال نہیں ملتی۔ تلقین شاہ کے معاون اداکاروں میں ہدایت اللہ، سلمان، زہرہ آپا، رقیہ، ببن میاں، مونا بیگم اور ماسٹر صاحب شامل ہیں۔ دیہی علاقوں کی کمیونٹی اس پروگرام کو ''بابا تلقین شاہ'' کہتی تھی۔ پروگرام میں تلقین شاہ کا کردار منفی تھا، جبکہ ہدایت اللہ کا کردار مثبت تھا اور تلقین شاہ کے کردار نے منفی نظریے پر قابو پایا۔

تلقین شاہ حسرت تعمیر کے نام سے بھی چلتا رہا۔ اس کردار کا زبان، لہجہ، انداز گفتگو، طنز جس کے اندر مزاح کا پہلو نمایاں تھا، نے برسوں تک لوگوں کو مسحور کیے رکھا۔ اس کردار میں آپ کو ہماری اپنی خصلتوں کی جھلک ملے گی یوں لگتا تھا انھوں نے بہت سے لوگوں کی طبیعتوں میں سے تھوڑا تھوڑا مواد لے کر ایک ایسا کردار تراشا ہے جو ہم میں سے ہر ایک کے اندر موجود ہے۔ گویا میں بھی تلقین شاہ ہوں اور آپ بھی تلقین شاہ ہیں۔

تلقین شاہ میں وہ کشمیر کو گل دان کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایک گل دان جو تلقین شاہ کے پڑوسی کی ملکیت ہے اور جسے تلقین شاہ نے زبردستی اپنے گھر میں سجا رکھا ہے، پڑوسی کے مانگنے پر تلقین شاہ واپس نہیں دینے کے لیے ہر بار نت نئے حیلے بہانوں سے انکار کردیتا ہے۔ تلقین شاہ کے پڑوسی کا نام ہاشمی صاحب ہے۔ یوں اشفاق احمد نے پاکستان کو ہاشمی صاحب کے کردار اور گل دان کو کشمیر کی شکل میں پیش کیا۔

اشفاق احمد نے تلقین شاہ کا کردار کمال فن کاری سے ادا کیا۔ وہ نشریات کے ہر شعبے اور اس کے تقاضوں کو بخوبی سمجھتے تھے اور ریکارڈنگ کی باریکیوں سے بھی خوب واقف تھے۔ وہ صوتی اثرات اور منظرکشی سے کمال کام لیتے اور پروگرام سنتے وقت یوں محسوس ہوتا گویا آپ پروگرام دیکھ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے کمرے میں موجود اشیا، دروازے، کھڑکیاں، روشنی اور ہوا و دیگر منظر آپ صوتی اثرات سے اس طرح پیش کرتے کہ حقیقت کا گمان ہوتا تھا۔ اشفاق احمد خود بتاتے ہیں کہ ایک بار انھوں نے خاموشی کو ریکارڈ کیا۔

ذرا غور فرمائیے کہ یہ بات ازخود کس قدر حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے کہ آپ خاموشی کو ریکارڈ کریں۔ اشفاق احمد نے بتایا تھا کہ یہ خاموشی تین مقامات، ڈونگی گراؤنڈ سمن آباد، اندرون شہر یکی گیٹ، اور چولستان کے مقام پر خاموشیوں اور خاموشی میں پائی جانے والی سرگوشیوں کو ایک دوسرے سے بہت مختلف پایا۔ یہ انوکھا تجربہ صرف اشفاق احمد کا ہی خاصا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اپنے پروگرام تلقین شاہ میں ببن کا کردار ایک ایسے بوڑھے شخص کا تھا جو اونچا سنتا ہے۔

اس کردار کے لیے اشفاق صاحب نے ایم اے رشید مرحوم کا انتخاب کیا، جو اپنی حقیقی زندگی میں بھی اونچا سنتے تھے۔ اگر آپ نے لفظ طنز و مزاح کی تعریف جاننا ہوتو تلقین شاہ اس کی بہترین مثال ہے۔ ریڈیو پاکستان کے علاوہ یہ پروگرام بی بی سی، وائس آف امریکا اور کینیڈین ریڈیو سے بھی نشر ہوتا رہا۔ مقبولیت کے لحاظ سے یہ ریڈیو پاکستان کا نمبر ون پروگرام تھا جسے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل کیا گیا۔ تیکنیکی طور پر تلقین شاہ کا کوئی عملاً پروڈیوسر نہ تھا۔

اشفاق صاحب خود ہی لکھتے، ڈائریکٹ کرتے، پروڈیوس کرتے اور وہ خود اس کے پریزینٹر اور مین کریکٹر تھے، جن صداکاروں کو تلقین شاہ میں کام کرنے کی سعادت ملی، ان میں نذیر حسینی، ایوب خان، ایم اے رشید، عفت بیگ اور ناہید خانم شامل ہیں۔ پروگرام کو پروڈیوس کرنے میں معاونت جعفر رضا، عتیق اللہ شیخ، الطاف الرحمن اور صفدر ہمدانی کرتے ہیں۔

اشفاق احمد اپنے ڈراموں میں پلاٹ سے زیادہ مکالمے پر زور دیتے تھے اور ان کے کردار طویل گفتگو کرتے تھے۔ تلقین شاہ کا پروگرام اشفاق احمد نے ٹی وی کے لیے بھی لکھا تھا۔ اس پروگرام کے کچھ حصے بھی ٹیلی کاسٹ کیے گئے لیکن ان میں بھارت اور امریکا کے بجائے اپنے ہی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو بہت کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اسی لیے اس پروگرام کو جلد ہی بند کردیا گیا۔ اگر اشفاق احمد پیسہ کمانا چاہتے یا ان کا مقصد صرف شہرت کا حصول ہوتا تو پھر وہ کڑی تنقید کے بجائے بہ آسانی ہلکے پھلکے موضوعات کا انتخاب کرسکتے تھے لیکن انھوں نے کبھی کسی مصلحت کو فن کے آڑے نہیں آنے دیا۔

تلقین شاہ پروگرام کی خوبی یہ تھی کہ پندرہ منٹ پہلے جو پروگرام بھارت سے نشر ہوتا، اشفاق صاحب اس پروگرام کے ذریعے انھیں ایک دندان شکن جواب دیتے تھے۔ اس پروگرام کے ساتھ اشفاق صاحب کی اس قدر دلی وابستگی تھی کہ اپنی ساری توانائیاں اس کے لیے وقف کردی تھیں، حتیٰ کہ جس دن ان کے والد صاحب فوت ہوئے تو ابھی جنازہ بھی نہیں پڑھایا گیا تھا کہ اشفاق صاحب سب سے چھپ کر ایک کونے میں گئے اور تلقین شاہ کے لیے اسکرپٹ لکھنے لگے۔

اشفاق صاحب شاید اس عہد کے سب سے بڑے داستان گو تھے اور آپ نے فن داستان گوئی کو نئی راہیں دکھائیں اور اسے اس کی معراج تک لے گئے جہاں سننے والا خود اپنے آپ کو اس داستان کا حصہ تصور کرنے لگتا تھا۔ اشفاق احمد نے فن داستان گوئی کو اپنے پیغام کے ابلاغ کا ذریعہ بنایا۔ آپ نے زندگی میں بے تکان محنت کی، اپنے آپ کے لیے اپنا جہاں خود دریافت کیا، اس دوران آپ کو قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، ابن انشا اور سب سے بڑھ کر اپنی شریک حیات بانو قدسیہ جیسی بے مثال شخصیات کا ساتھ میسر رہا جس ساتھ نے آپ کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ اشفاق صاحب کی زندگی سیکھنے سے عبارت ہے آپ نے بہت سیکھا اور ان لوگوں سے بھی سیکھا جنھیں عرف عام میں لوگ ''سائیں لوگ'' بابا کہتے ہیں۔ اشفاق احمد نے ان سے سیکھے سبق جب سادہ الفاظ میں آگے پہنچائے تو وہ سیدھے دل تک اتر گئے۔

جیسے ایک جگہ کہتے ہیں ''جب کسی میں کوئی عیب دیکھو تو اسے اپنے اندر تلاش کرو، اور اگر اسے اپنے اندر پاؤ تو اسے نکال دو، یہ حقیقی تبلیغ ہے۔'' ایسے ہی ایک جگہ نوجوان نسل کو سمجھانے کے لیے کانٹے کی مثال دیتے ہیں کہ ''یہ صحیح ہے کہ تم ایک گلاب نہیں بن سکتے مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم کانٹا بن جاؤ۔'' اشفاق احمد کی داستانوں میں غریب، مسکین، ضرورت مند کی مدد، چاہے جانی ہو، مالی ہو یا کم سے کم اخلاقی پر بہت زور دیا گیا ہے۔

اشفاق احمد بلا کے مجلسی آدمی تھے۔ کہانی لکھنے میں تو وہ باکمال تھے ہی، مگر کہانی کہنے اور داستان بیان کرنے کے فن میں بھی کوئی دور تک ان کا ہم پلہ نظر نہیں آتا۔ اشفاق احمد نے نیم شہری اور دیہاتی فضاؤں میں رہنے والے لوگوں کے ایسے قصے سنائے اور اس انداز میں کہ ایک منظر کی دوسرے منظر پر ایسی پرت بچھاتے کہ وہ پڑھنے والوں کے دلوں پر نقش ہوتے جاتے اور اپنا گہرا اثر چھوڑتے۔ ریڈیائی فیچر ''تلقین شاہ'' میں اشفاق احمد نے مقامی رنگ کو خود پر طاری کیا تو وہ کردار ہمارے معاشرے کا ایک جیتا جاگتا اور چلتا پھرتا کردار بن گیا۔

اس طنزیہ اور مزاحیہ پروگرام کا مقصد معاشرتی برائیوں کا اظہار و اصلاح تھا۔ یہ ریڈیائی پروگرام تلقین شاہ براعظم ایشیا کا نمبر ون اور دنیا کا دوسرے نمبر پر آنے والا سب سے طویل ریڈیائی پروگرام کہلایا۔ پاک بھارت جنگوں 1965 اور 1971 میں یہ پروگرام حکومت پاکستان اور مسلمانوں کی نمایندہ آواز رہا۔ ایک طرف ان جنگوں میں ہمارے فوجی جوان سرحدوں کی حفاظت میں جان کی بازی لگا رہے تھے، تو دوسری طرف تلقین شاہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا امین تھا۔

1971 کی جنگ میں تلقین شاہ خود سرحدوں پر پہنچ گیا اور اس کے کرداروں نے ایک نیا روپ دھار لیا۔ اشفاق احمد ''دادو لوہار'' بن گئے اور پروگرام یوں شروع ہوتا، ''دادو لوہار ولد ٹہکا لوہار، سکنہ کوٹلی لوہاراں، حال مقیم پُل کنجری۔'' اشفاق احمد نے ایک موقع پر کہا کہ ''تلقین شاہ کوئی مزاحیہ پروگرام نہیں بلکہ ایک غور طلب تھیسس ہے جو کہ قہقہہ مار کر اور ہاتھ پر ہاتھ بجا کر سننے کے لیے نہیں لکھا جاتا۔'' اشفاق احمد کا ہر ریڈیائی اسکرپٹ ایک مکمل اور مضبوط ادبی اسکرپٹ ہوتا تھا۔

تلقین شاہ کا کردار منافقت اور دوغلے پن کا نمایندہ تھا جو ہوتا کچھ ہے اور کرتا کچھ ہے۔ چوںکہ اس کی زبان من موہنی تھی اور اردو پنجابی کے الفاظ اس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے اس لیے سننے والے کی مجال نہ تھی کہ پروگرام ختم ہونے سے پہلے اسے سننا بند کردے۔ قدرت نے اشفاق احمد کو ادب تخلیق کرنے کے لیے بنایا تھا اور جب کوئی صلاحیت اللہ کی طرف سے ملی ہو تو اس کا سرچشمہ کبھی خشک نہیں ہوتا اور لکھنے والا بڑی بے ساختگی اور روانی سے لکھتا ہے۔ اشفاق احمد زندگی کی تمام تر توانائیوں سے بھرپور ایک زندہ دل، خوب صورت اور صحت مند سوچ رکھنے والے ادیب تھے۔

ریڈیو کے اردو ڈراموں میں اشفاق احمد نے اپنے ادبی معیار کو برقرار رکھا۔ ان کے ریڈیو ڈرامے فنی اور ادبی اعتبار سے مکمل اور پختہ ہوتے تھے۔ حالاںکہ اس زمانے میں ان کی عمر میں اتنی پختگی نہیں آئی تھی مگر یہ ان کی خداداد صلاحیتوں کا کمال تھا اور خداداد صلاحیتوں کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ جب ریڈیو پاکستان پر پروگراموں کی ریکارڈنگ ہونے لگی تو اس کے کچھ عرصے بعد اشفاق احمد نے اپنی کوٹھی میں ہی ایک چھوٹا سا اسٹوڈیو بنالیا۔

یہ ان کا شوق تھا۔ وہ تلقین شاہ کی ریکارڈنگ اپنے گھریلو اسٹوڈیو میں ہی کرتے اور پروگرام کا پورا پیکیج بنا کر ریڈیو پاکستان لاہور کو دے دیتے تھے۔ چوںکہ اشفاق احمد ریکارڈنگ وغیرہ کے تمام تکنیکی شعبوں سے واقف تھے۔ اس لیے پروگرام کی ریکارڈنگ اور کوالٹی کبھی خراب نہیں ہوتی تھی۔ گھریلو اسٹوڈیو میں وہ صرف اپنے فیچر تلقین شاہ کی ریکارڈنگ ہی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے دیگر اردو اور پنجابی کے مکمل دورانیے کے ڈرامے لاہور ریڈیو اسٹیشن کے اسٹوڈیو میں ریکارڈ کیے جاتے تھے۔

لاہور ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم ہونے سے پہلے ہی اشفاق احمد نے ریڈیو کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا۔ ان کے ریڈیائی فیچر اور ڈرامے سن کر ایسا لگتا تھا جیسے ان کے ریڈیائی اسکرپٹس میں ان کے افسانوں کے کردار بول رہے ہوں۔ اشفاق احمد کے ہاں کردارنگاری پر زیادہ زور ملتا ہے۔ وہ کردار کے ذریعے اپنی کہانیوں کو انجام کی طرف بڑھاتے ہیں۔

اشفاق احمد اپنے مکالموں میں کردار کے مرتبے اور ذہنی و فکری رجحان کے مطابق زبان استعمال کرتے تھے۔ ان کے فلسفیانہ خیالات ان کی معلمانہ اور مبلغانہ طبیعت سے ہم آہنگ ہو کر سامعین میں محبت، انسانیت، صدق و صفا اور خلوص و دیانت کے جذبات کی آبیاری کرتے تھے۔ اشفاق احمد کے ڈراموں میں کرداروں کے ضمیر اور لاشعور میں نیکی اور بدی کی جو کشمکش پائی جاتی ہے وہ اسے اپنے نفسیاتی عرفان کے بل پر کرداروں کی خودکلامی کے انداز میں سامنے لائے اور تلقین شاہ کا کردار امر ہوگیا۔n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔