الیکشن کمیشن نے وزیراعظم کو دوبارہ طلب کرلیا
اس سے قبل ڈی ایم او نے سوات جلسے میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر18مارچ کوطلب کیا تھا
الیکشن کمیشن نے سوات جلسے میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر وزیراعظم عمران خان کو 21 مارچ کو دوبارہ طلب کرلیا۔
ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر سوات نے وزیراعظم سمیت وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان، وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی اوروفاقی وزیرمواصلات مرادسعید کو بھی دوبارہ طلب کرلیا ہے۔
اس سے قبل ڈی ایم او نے سوات جلسے میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر18مارچ کوطلب کیا تھا۔
خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ31مارچ کو شیڈول ہے۔الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم عمران خان کو دورہ سوات سے منع کیا تھا تاہم الیکشن کمیشن کی ہدایت کے باوجود وزیر اعظم نے سوات میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا ۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
الیکشن کمیشن اس سے قبل بھی وزیر اعظم کو دیر میں جلسہ عام سے خطاب کرنے پر نوٹس جاری کرچکا ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے 19فروری کو جاری کردہ آرڈیننس کے تحت پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے منتخب رکن کوکسی بھی حلقے میں جلسوں میں شرکت یا خطاب کی اجازت دی گئی ہے۔
الیکشن کمیشن حکام کا موقف ہے کہ سیاسی جماعتوں، انتخابی مہم میں حصہ لینے والے امیدواروں اور انتخابی مشق میں شامل دیگر افراد کے لیے ضابطہ اخلاق وضع کرنا ان کا کام ہے۔
ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر سوات نے وزیراعظم سمیت وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان، وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی اوروفاقی وزیرمواصلات مرادسعید کو بھی دوبارہ طلب کرلیا ہے۔
اس سے قبل ڈی ایم او نے سوات جلسے میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر18مارچ کوطلب کیا تھا۔
خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ31مارچ کو شیڈول ہے۔الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم عمران خان کو دورہ سوات سے منع کیا تھا تاہم الیکشن کمیشن کی ہدایت کے باوجود وزیر اعظم نے سوات میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا ۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
الیکشن کمیشن اس سے قبل بھی وزیر اعظم کو دیر میں جلسہ عام سے خطاب کرنے پر نوٹس جاری کرچکا ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے 19فروری کو جاری کردہ آرڈیننس کے تحت پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے منتخب رکن کوکسی بھی حلقے میں جلسوں میں شرکت یا خطاب کی اجازت دی گئی ہے۔
الیکشن کمیشن حکام کا موقف ہے کہ سیاسی جماعتوں، انتخابی مہم میں حصہ لینے والے امیدواروں اور انتخابی مشق میں شامل دیگر افراد کے لیے ضابطہ اخلاق وضع کرنا ان کا کام ہے۔