ضمیر کے قیدی سیاستدان
یہ سب سیاستدان ضمیر کے قیدی ہیں اور سیاست کے اس حمام میں سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں
LOS ANGELES:
ٹی وی اینکر جیسے ہی اپنا مائیک لے کر سندھ ہاؤس میں داخل ہوئے تو وہاں پر ضمیر کے بے شمار قیدی گھومتے پھرتے، گپ لگاتے اور نماز پڑھتے نظر آئے اور بظاہر ان کی طبیعت بھی ہشاش بشاش نظر آرہی تھی۔ اور وہ خوش کیوں نہ ہوتے کہ ابھی چند ہی دن پہلے وہ (ان کے بقول) پارلیمنٹ لاجز سے اپنی جانیں بچا کر سندھ ہاؤس میں پناہ گزین ہوئے تھے۔
ٹی وی اینکر نے وہاں جس بھی ایم این اے سے اس حوالے سے بات کی، سب کا جواب یہی تھا کہ انہیں وہاں کوئی زبردستی لے کر نہیں گیا بلکہ وہ اپنی مرضی سے وہاں گئے ہیں اور وزیراعظم کے خلاف پیش ہونے والی عدم اعتماد کی تحریک میں اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں گے۔ انہوں نے ووٹ کےلیے پیسے اور دوسری جماعتوں کے ٹکٹ کی گارنٹی لینے سے بھی صاف انکار کردیا اور ان کی طرف سے حتمی بات یہی سامنے آئی کہ وہ یہ سب کچھ اپنے ضمیر کی آواز پر کر رہے ہیں۔
دوسری طرف حکومت اور ان کے اتحادی، جو ابھی تک ان کے ساتھ ہیں، وہ ایسے تمام اراکین اسمبلی کو جو حکومت کے خلاف ایک محاذ بناچکے ہیں اور وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کی بات کر رہے ہیں، ان سب کو قوم دشمن، وطن دشمن، آئین و جمہوریت کے دشمن قرار دے کر ان کے اگلے پچھلے کارناموں کو بھولے عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے منحرف ممبران اور ان کے خاندانوں کی وہ وہ خامیاں ڈھونڈ کر ہمارے سامنے لارہی ہے، جن کا تعلق شاید پاکستان بننے سے بھی پہلے کا ہو۔ ایک خاتون ممبر قومی اسمبلی کے بارے میں پی ٹی آئی کے حمایتی سوشل میڈیا پر خبر چل رہی تھی کہ ان صاحبہ کی کیا بات ہے، ان کے والد نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا اس لیے ان کے اس طرز عمل پر کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ اسی طرح ایک ٹی وی ٹاک شو میں مشیر شہباز گل اپنی جماعت کے وزیر اقلیتی رکن اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ یہ پانچ مرتبہ ان کے پاس کینسر کی جعلی میڈیسن کے حوالے سے گئے تھے، جس سے انہوں نے انکار کردیا تھا۔ ڈاکٹر رمیش کمار اس بات سے قطعی انکاری ہیں۔
الغرض حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف آگ برابر کی لگی ہوئی ہے۔ حکومت نے عدم اعتماد سے پہلے 27مارچ کو ڈی چوک پر 10 لاکھ والے جلسے کا اعلان کردیا ہے، جب کہ پی ایم ایل این نے بھی 24 مارچ کو لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کی کال دے دی ہے، جس میں پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ایف بھی شامل ہے۔ اگر دونوں اتحادوں کی پلاننگ اسی طرح رہتی ہے اور دونوں اپنی ضد پر آخری وقت تک قائم رہتے ہیں تو اس کا نتیجہ سوائے تصادم کے اور کیا نکل سکتا ہے؟
اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم پر عدم اعتماد کی تحریک کے بعد حکومت کی طرف سے عین ان ہی دنوں ڈی چوک پر 10 لاکھ بندے اکٹھے کرنا کوئی عقلمندی والا کام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیوں کہ یہ کوئی الیکشن تو ہونے نہیں جارہے کہ آپ اس کی کیمپین کرنا چاہتے ہیں۔ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ اسمبلی میں ہونی ہے جس میں صرف ممبران نے ووٹ دینا ہے تو پھر دونوں جماعتوں کی طرف سے اسلام آباد کی طرف چڑھائی کرنے کا مقصد کیا ہے؟ حکومت کا ہمیشہ اپر ہینڈ ہوتا ہے اور ملک میں امن و امان کی ذمے داری بھی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اس لیے حکومت کو ہی حالات کی سنگینی سے بچنے کے اقدامات کرنے چاہئیں، کجا اس کے کہ وہ خود ہی معاملات کو الجھانے میں لگ جائے اور تصادم کی راہ ہموار کرے۔
اس ساری صورتحال میں باقی رہ گئے وہ عوام، جو ہر آنے والے حکمران کو اپنے دکھوں کا مداوا سمجھ کر امید کی راہ پر آنکھیں لگائے بیٹھ جاتے ہیں۔ اور ہر بار ان ضمیر کے قیدیوں کے ہاتھوں پہلے سے زیادہ خراب ہوتی ہے، کیوں کہ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں ہر چیز شامل ہے سوائے عوام کے۔ اب دونوں اتحادوں نے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی گولہ باری جاری رکھی ہوئی ہے اور ایک دوسرے کے کچے چٹھے کھول کھول کر ایسے بیان کر رہے ہیں جیسے یہ ازل سے ان بھیدوں کے امین ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ ایک دوسرے کو شروع سے جانتے ہیں اور ایک دوسرے کے کرتوتوں سے بھی واقف ہیں تو پھر جب یہی لوگ ان کی پارٹی میں شامل ہوتے ہیں تو اس وقت ان کو وہ عیب کیوں نظر نہیں آتے؟ اور اس وقت وہ اپنی پارٹی سے ایسے غداروں اور ریاست مخالف لوگوں کو نکال باہر کیوں نہیں کرتے۔ اس کا سادہ جواب تو یہ ہے کہ ''میٹھا میٹھا ہپ پپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو''۔
وزیراعظم اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ابھی تک انہوں نے پاکستان جیسے مشکل ملک کے چلانے کو کرکٹ ٹیم چلانے جیسا آسان کام سمجھا ہوا ہے۔ پہلے دن سے آج تک وہ ''میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا'' کا راگ الاپ رہے ہیں۔ حالانکہ ان کو حکومت سنبھالے ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ ہو چلا ہے اور انہوں نے سب کو چھوڑا ہوا ہے، کسی کو بھی نہیں پکڑ سکے۔ بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگوں کی ہمدردیاں حکومت مخالف اتحاد کے ساتھ بڑھتی گئی ہیں اور آج اپوزیشن اتحاد اس مرحلے پر آن پہنچا ہے کہ پی ٹی آئی کے کئی ممبران کے ضمیر جاگ گئے ہیں اور اسی کے مطابق وزیراعظم کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں اور ان کی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی چور اُچکا ان کے ساتھ شامل ہوجائے تو یہ کہتے ہیں کہ اس کا ضمیر جاگ گیا ہے اور اس نے حق سچ کا ساتھ دیا ہے اور دوسری طرف اگر ایک فرشتہ صفت بندہ بھی ان کی جماعت کو چھوڑ کر کہیں جائے تو یہ کہتے ہیں کہ اس نے اپنا ضمیر نوٹوں اور ٹکٹ کے بدلے بیچ دیا ہے۔ اس حوالے سے بیسیوں مثالیں ہماری تاریخ میں موجود ہیں۔ جو آپ کو ووٹ دے اس کا ضمیر جاگ گیا ہے اور اس نے آئین وقانون اور اپنی پارٹی کے ڈسپلن کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی، لیکن اگر آپ کی پارٹی کا بندہ مخالف کو ووٹ دے تو اس نے ضمیر بیچ دیا ہے۔ آخر یہ ضمیر ہے یا گرگٹ، جو صورتحال اور اپنے مفاد کے تحت رنگ بدلتا رہتا ہے۔
ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ یہ سب ضمیر کے قیدی ہیں اور سیاست کے اس حمام میں سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں اور ان کے اندھے فالوورز اور عقیدت مند ان سب کو ان کی نالائقی اور خوش فہمی کے اندھے کنویں میں ایک دھکا اور دے دیتے ہیں۔
ہمارے ملک کی تاریخ میں اگلے دو ہفتے بہت اہم ہیں اور ہم دعاگو ہیں کہ سارے ضمیر کے قیدی ملک اور عوام کو دیکھ کر اپنے فیصلے کریں۔ جس کی بظاہر امید بہت کم نظر آتی ہے لیکن اس ملک کے خیر خواہ تو ہمیشہ ایسی ہی بات کریں گے جس سے حالات بہتر ہوں اور عوام کا بھی کوئی پرسان حال ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ٹی وی اینکر جیسے ہی اپنا مائیک لے کر سندھ ہاؤس میں داخل ہوئے تو وہاں پر ضمیر کے بے شمار قیدی گھومتے پھرتے، گپ لگاتے اور نماز پڑھتے نظر آئے اور بظاہر ان کی طبیعت بھی ہشاش بشاش نظر آرہی تھی۔ اور وہ خوش کیوں نہ ہوتے کہ ابھی چند ہی دن پہلے وہ (ان کے بقول) پارلیمنٹ لاجز سے اپنی جانیں بچا کر سندھ ہاؤس میں پناہ گزین ہوئے تھے۔
ٹی وی اینکر نے وہاں جس بھی ایم این اے سے اس حوالے سے بات کی، سب کا جواب یہی تھا کہ انہیں وہاں کوئی زبردستی لے کر نہیں گیا بلکہ وہ اپنی مرضی سے وہاں گئے ہیں اور وزیراعظم کے خلاف پیش ہونے والی عدم اعتماد کی تحریک میں اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں گے۔ انہوں نے ووٹ کےلیے پیسے اور دوسری جماعتوں کے ٹکٹ کی گارنٹی لینے سے بھی صاف انکار کردیا اور ان کی طرف سے حتمی بات یہی سامنے آئی کہ وہ یہ سب کچھ اپنے ضمیر کی آواز پر کر رہے ہیں۔
دوسری طرف حکومت اور ان کے اتحادی، جو ابھی تک ان کے ساتھ ہیں، وہ ایسے تمام اراکین اسمبلی کو جو حکومت کے خلاف ایک محاذ بناچکے ہیں اور وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کی بات کر رہے ہیں، ان سب کو قوم دشمن، وطن دشمن، آئین و جمہوریت کے دشمن قرار دے کر ان کے اگلے پچھلے کارناموں کو بھولے عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے منحرف ممبران اور ان کے خاندانوں کی وہ وہ خامیاں ڈھونڈ کر ہمارے سامنے لارہی ہے، جن کا تعلق شاید پاکستان بننے سے بھی پہلے کا ہو۔ ایک خاتون ممبر قومی اسمبلی کے بارے میں پی ٹی آئی کے حمایتی سوشل میڈیا پر خبر چل رہی تھی کہ ان صاحبہ کی کیا بات ہے، ان کے والد نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا اس لیے ان کے اس طرز عمل پر کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ اسی طرح ایک ٹی وی ٹاک شو میں مشیر شہباز گل اپنی جماعت کے وزیر اقلیتی رکن اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ یہ پانچ مرتبہ ان کے پاس کینسر کی جعلی میڈیسن کے حوالے سے گئے تھے، جس سے انہوں نے انکار کردیا تھا۔ ڈاکٹر رمیش کمار اس بات سے قطعی انکاری ہیں۔
الغرض حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف آگ برابر کی لگی ہوئی ہے۔ حکومت نے عدم اعتماد سے پہلے 27مارچ کو ڈی چوک پر 10 لاکھ والے جلسے کا اعلان کردیا ہے، جب کہ پی ایم ایل این نے بھی 24 مارچ کو لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کی کال دے دی ہے، جس میں پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ایف بھی شامل ہے۔ اگر دونوں اتحادوں کی پلاننگ اسی طرح رہتی ہے اور دونوں اپنی ضد پر آخری وقت تک قائم رہتے ہیں تو اس کا نتیجہ سوائے تصادم کے اور کیا نکل سکتا ہے؟
اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم پر عدم اعتماد کی تحریک کے بعد حکومت کی طرف سے عین ان ہی دنوں ڈی چوک پر 10 لاکھ بندے اکٹھے کرنا کوئی عقلمندی والا کام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیوں کہ یہ کوئی الیکشن تو ہونے نہیں جارہے کہ آپ اس کی کیمپین کرنا چاہتے ہیں۔ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ اسمبلی میں ہونی ہے جس میں صرف ممبران نے ووٹ دینا ہے تو پھر دونوں جماعتوں کی طرف سے اسلام آباد کی طرف چڑھائی کرنے کا مقصد کیا ہے؟ حکومت کا ہمیشہ اپر ہینڈ ہوتا ہے اور ملک میں امن و امان کی ذمے داری بھی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اس لیے حکومت کو ہی حالات کی سنگینی سے بچنے کے اقدامات کرنے چاہئیں، کجا اس کے کہ وہ خود ہی معاملات کو الجھانے میں لگ جائے اور تصادم کی راہ ہموار کرے۔
اس ساری صورتحال میں باقی رہ گئے وہ عوام، جو ہر آنے والے حکمران کو اپنے دکھوں کا مداوا سمجھ کر امید کی راہ پر آنکھیں لگائے بیٹھ جاتے ہیں۔ اور ہر بار ان ضمیر کے قیدیوں کے ہاتھوں پہلے سے زیادہ خراب ہوتی ہے، کیوں کہ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں ہر چیز شامل ہے سوائے عوام کے۔ اب دونوں اتحادوں نے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی گولہ باری جاری رکھی ہوئی ہے اور ایک دوسرے کے کچے چٹھے کھول کھول کر ایسے بیان کر رہے ہیں جیسے یہ ازل سے ان بھیدوں کے امین ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ ایک دوسرے کو شروع سے جانتے ہیں اور ایک دوسرے کے کرتوتوں سے بھی واقف ہیں تو پھر جب یہی لوگ ان کی پارٹی میں شامل ہوتے ہیں تو اس وقت ان کو وہ عیب کیوں نظر نہیں آتے؟ اور اس وقت وہ اپنی پارٹی سے ایسے غداروں اور ریاست مخالف لوگوں کو نکال باہر کیوں نہیں کرتے۔ اس کا سادہ جواب تو یہ ہے کہ ''میٹھا میٹھا ہپ پپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو''۔
وزیراعظم اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ابھی تک انہوں نے پاکستان جیسے مشکل ملک کے چلانے کو کرکٹ ٹیم چلانے جیسا آسان کام سمجھا ہوا ہے۔ پہلے دن سے آج تک وہ ''میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا'' کا راگ الاپ رہے ہیں۔ حالانکہ ان کو حکومت سنبھالے ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ ہو چلا ہے اور انہوں نے سب کو چھوڑا ہوا ہے، کسی کو بھی نہیں پکڑ سکے۔ بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگوں کی ہمدردیاں حکومت مخالف اتحاد کے ساتھ بڑھتی گئی ہیں اور آج اپوزیشن اتحاد اس مرحلے پر آن پہنچا ہے کہ پی ٹی آئی کے کئی ممبران کے ضمیر جاگ گئے ہیں اور اسی کے مطابق وزیراعظم کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں اور ان کی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی چور اُچکا ان کے ساتھ شامل ہوجائے تو یہ کہتے ہیں کہ اس کا ضمیر جاگ گیا ہے اور اس نے حق سچ کا ساتھ دیا ہے اور دوسری طرف اگر ایک فرشتہ صفت بندہ بھی ان کی جماعت کو چھوڑ کر کہیں جائے تو یہ کہتے ہیں کہ اس نے اپنا ضمیر نوٹوں اور ٹکٹ کے بدلے بیچ دیا ہے۔ اس حوالے سے بیسیوں مثالیں ہماری تاریخ میں موجود ہیں۔ جو آپ کو ووٹ دے اس کا ضمیر جاگ گیا ہے اور اس نے آئین وقانون اور اپنی پارٹی کے ڈسپلن کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی، لیکن اگر آپ کی پارٹی کا بندہ مخالف کو ووٹ دے تو اس نے ضمیر بیچ دیا ہے۔ آخر یہ ضمیر ہے یا گرگٹ، جو صورتحال اور اپنے مفاد کے تحت رنگ بدلتا رہتا ہے۔
ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ یہ سب ضمیر کے قیدی ہیں اور سیاست کے اس حمام میں سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں اور ان کے اندھے فالوورز اور عقیدت مند ان سب کو ان کی نالائقی اور خوش فہمی کے اندھے کنویں میں ایک دھکا اور دے دیتے ہیں۔
ہمارے ملک کی تاریخ میں اگلے دو ہفتے بہت اہم ہیں اور ہم دعاگو ہیں کہ سارے ضمیر کے قیدی ملک اور عوام کو دیکھ کر اپنے فیصلے کریں۔ جس کی بظاہر امید بہت کم نظر آتی ہے لیکن اس ملک کے خیر خواہ تو ہمیشہ ایسی ہی بات کریں گے جس سے حالات بہتر ہوں اور عوام کا بھی کوئی پرسان حال ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔