سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والی سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کردیا
عدم اعتماد کا عمل آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والی سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کردیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے تحریک عدم اعتماد اور ڈی چوک پر جلسے و لانگ مارچ سے متعلق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست آج فوری سماعت کے لئے مقرر کی۔ چیف جسٹس عمرعطاء بندیال اورجسٹس منیب اختر پر مشتمل دورکنی بنچ نے درخواست کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کی استدعا سیاسی تناظر میں ہے، عدالت نے ملک کے سیاسی تناظر کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے اور قانون پر عملدرآمد ہونا چاہیے، اخبارات سے معلوم ہوا کہ آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے حکومت بھی سپریم کورٹ آ رہی ہے، سپریم کورٹ بار لا اینڈ آرڈر کے حوالے سے خدشات رکھتی ہے، ہم نے از خود نوٹس نہیں لیا بلکہ دائر درخواست کو سن رہے ہیں، کل ہم نے ایسا واقعہ دیکھا جو آزادی رائے اور احتجاج کے حق کے خلاف تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس بارے میں تو کوئی دوسرا سوال نہیں ہے، کچھ حکومتی ممبران سندھ ہاؤس میں تھے، جس نے سیاسی ماحول کو گرما دیا، اچانک سیاسی درجہ حرارت بڑھا اور یہ واقعہ ہوا ، عوام پر امن احتجاج کا حق رکھتے ہیں لیکن تشدد کا بھی جواز نہیں ہے، قانون کی خلاف ورزی کا کوئی جواز نہیں، میں واقعے کا پس منظر بتانا چاہتا ہوں، 100 احتجاج کرنے والوں کو پولیس نے سندھ ہاؤس سے منتشر کیا ، اسکے بعد 20 لوگ احتجاج کرنے آگئے، 13 لوگوں کو حملہ کرنے پر گرفتار کیا اور تھانہ سیکرٹریٹ میں مقدمہ درج کرلیا گیا، آج مجسٹریٹ نے 13 مظاہرین کو رہا کر دیا۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ عدم اعتماد کا تعلق سیاست ہے، اس سے عدالت کا کوئی تعلق نہیں، ہمارے سامنے سندھ ہاؤس واقعے کے علاوہ کچھ بھی توجہ طلب نہیں ہے، سیاسی عمل بہت سے عناصر پر مشتمل ہوتا ہے، سندھ واقعے پر اٹارنی جنرل نے قانون کے مطابق کارروائی کی یقین دہانی کروائی ہے۔
سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والی سیاسی جماعتوں تحریک انصاف،مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام ف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدم اعتماد کا عمل آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پبلک پراپرٹی اور قومی اداروں کو دھمکیاں ملیں، کیا پبلک پراپرٹی پر دھاوا بولنا بھی قابل ضمانت جرم ہے، سیاسی عمل آئین و قانون کے تحت ہونا چاہیے ، ارکان اور اداروں کو تحفظ آئین کے مطابق ملنا چاہیے، امید کرتے ہیں تمام سیاسی فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرے گی مگر قانونی امور کو دیکھا جائے گا، سندھ ہاؤس کو نقصان پہنچایا گیا ہے، تمام سیاسی جماعتیں قانون کے مطابق برتاؤ کریں اور خلاف قانون کوئی اقدام نہ کریں۔
سپریم کورٹ نے سندھ ہاؤس واقعے پر آئی جی اسلام آباد سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
قبل ازیں ترجمان سپریم کورٹ نے سندھ ہاؤس پر حملے کا از خود نوٹس لینے کی خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس نے سندھ ہاؤس پر حملے کاکوئی سوموٹو نوٹس نہیں لیا۔ سپریم کورٹ بار کے صدر نے پٹیشن فائل کی ہے اس پر سماعت ہوگی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ درخواست پیر کو سماعت کے لیے مقرر کی تھی لیکن پھر آج اچانک فوری سماعت کےلیے مقرر کردی۔
سپریم کورٹ بار نے آئینی پٹیشن میں کہا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کی ہدایت کی جائے ، حکومتی اداروں کو ارکان قومی اسمبلی کو گرفتار یا نظر بند کرنے سے روکا جائے ،اسلام آباد میں ایسے عوامی اجتماع سے روکا جائے جس سے ارکان اسمبلی کے قومی اسمبلی پہنچنے میں رکاوٹ ہو۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے تحریک عدم اعتماد اور ڈی چوک پر جلسے و لانگ مارچ سے متعلق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست آج فوری سماعت کے لئے مقرر کی۔ چیف جسٹس عمرعطاء بندیال اورجسٹس منیب اختر پر مشتمل دورکنی بنچ نے درخواست کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کی استدعا سیاسی تناظر میں ہے، عدالت نے ملک کے سیاسی تناظر کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے اور قانون پر عملدرآمد ہونا چاہیے، اخبارات سے معلوم ہوا کہ آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے حکومت بھی سپریم کورٹ آ رہی ہے، سپریم کورٹ بار لا اینڈ آرڈر کے حوالے سے خدشات رکھتی ہے، ہم نے از خود نوٹس نہیں لیا بلکہ دائر درخواست کو سن رہے ہیں، کل ہم نے ایسا واقعہ دیکھا جو آزادی رائے اور احتجاج کے حق کے خلاف تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس بارے میں تو کوئی دوسرا سوال نہیں ہے، کچھ حکومتی ممبران سندھ ہاؤس میں تھے، جس نے سیاسی ماحول کو گرما دیا، اچانک سیاسی درجہ حرارت بڑھا اور یہ واقعہ ہوا ، عوام پر امن احتجاج کا حق رکھتے ہیں لیکن تشدد کا بھی جواز نہیں ہے، قانون کی خلاف ورزی کا کوئی جواز نہیں، میں واقعے کا پس منظر بتانا چاہتا ہوں، 100 احتجاج کرنے والوں کو پولیس نے سندھ ہاؤس سے منتشر کیا ، اسکے بعد 20 لوگ احتجاج کرنے آگئے، 13 لوگوں کو حملہ کرنے پر گرفتار کیا اور تھانہ سیکرٹریٹ میں مقدمہ درج کرلیا گیا، آج مجسٹریٹ نے 13 مظاہرین کو رہا کر دیا۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ عدم اعتماد کا تعلق سیاست ہے، اس سے عدالت کا کوئی تعلق نہیں، ہمارے سامنے سندھ ہاؤس واقعے کے علاوہ کچھ بھی توجہ طلب نہیں ہے، سیاسی عمل بہت سے عناصر پر مشتمل ہوتا ہے، سندھ واقعے پر اٹارنی جنرل نے قانون کے مطابق کارروائی کی یقین دہانی کروائی ہے۔
سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والی سیاسی جماعتوں تحریک انصاف،مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام ف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدم اعتماد کا عمل آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پبلک پراپرٹی اور قومی اداروں کو دھمکیاں ملیں، کیا پبلک پراپرٹی پر دھاوا بولنا بھی قابل ضمانت جرم ہے، سیاسی عمل آئین و قانون کے تحت ہونا چاہیے ، ارکان اور اداروں کو تحفظ آئین کے مطابق ملنا چاہیے، امید کرتے ہیں تمام سیاسی فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرے گی مگر قانونی امور کو دیکھا جائے گا، سندھ ہاؤس کو نقصان پہنچایا گیا ہے، تمام سیاسی جماعتیں قانون کے مطابق برتاؤ کریں اور خلاف قانون کوئی اقدام نہ کریں۔
سپریم کورٹ نے سندھ ہاؤس واقعے پر آئی جی اسلام آباد سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
قبل ازیں ترجمان سپریم کورٹ نے سندھ ہاؤس پر حملے کا از خود نوٹس لینے کی خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس نے سندھ ہاؤس پر حملے کاکوئی سوموٹو نوٹس نہیں لیا۔ سپریم کورٹ بار کے صدر نے پٹیشن فائل کی ہے اس پر سماعت ہوگی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ درخواست پیر کو سماعت کے لیے مقرر کی تھی لیکن پھر آج اچانک فوری سماعت کےلیے مقرر کردی۔
سپریم کورٹ بار نے آئینی پٹیشن میں کہا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کی ہدایت کی جائے ، حکومتی اداروں کو ارکان قومی اسمبلی کو گرفتار یا نظر بند کرنے سے روکا جائے ،اسلام آباد میں ایسے عوامی اجتماع سے روکا جائے جس سے ارکان اسمبلی کے قومی اسمبلی پہنچنے میں رکاوٹ ہو۔