ماڈل حکومت اور ماڈل حکمران
اگر آپ تھوڑی سی بھی کوشش کرتے تو آج پاکستان وہاں نہیں ہوتا جہاں جگ ہنسائی اور محرومیاں ہمارا منہ چڑا رہی ہیں
کراچی:
جی جی ہم جانتے ہیں کہ مغرب کو آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا، خود مغرب والے بھی نہیں۔ آپ سے زیادہ دنیا کو کسی نے نہیں دیکھا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ چین نے کس طرح کرپٹ لوگوں کو لٹکا کر ترقی کی۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ریاست مدینہ میں جب خلیفہ وقت سے سوال ہوتا تھا تو وہ بھی جواب دینے کے پابند تھے۔
ہاں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ کی اولاد، آپ کے اثاثے، آپ کا علاج سب بیرون ملک ہے، حتیٰ کہ آپ کا جینا مرنا بھی۔ آپ جب بیرون ملک جاتے ہیں تو بغیر سیکیورٹی کھلم کھلا سفر کرتے ہیں اور جیسے ہی ملک میں آتے ہیں، آپ کے اردگرد محافظوں کا ہجوم لگ جاتا ہے۔ یہ بات بھی ہم پر عیاں ہے کہ کس طرح آپ کے محلات مشرق وسطیٰ کے پوش علاقوں میں ہیں اور جب آپ آرام کی غرض سے وہاں تشریف لے جاتے ہیں تو مقامی قانون کے مطابق سیاست تو درکنار سیاست پر بات بھی نہیں کرسکتے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ کے بچے ان ملکوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر وہیں نوکریاں کرتے ہیں جن کو آپ اسلام کا سب سے بڑا دشمن گردانتے ہیں۔
پاکستان کی خوش قسمتی کہیے یا بدقسمتی کہ یہاں جس نے بھی حکمرانی کی اس کا بیرونی ممالک سے ان تمام باتوں کے زمرے میں رابطہ رہا ہے، جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور وہ بھی ترقی یافتہ ممالک جہاں آسانیاں اور آسائشیں معاشرے کا جز اور بنیادی حق ہر ایک کو میسر ہوتا ہے۔ مگر اسے ہماری بدقسمتی ہی کہیے کہ اس کے عشر عشیر کا بھی اطلاق ملک کو سنوارنے کےلیے نہیں کیا گیا۔ یقین کیجئے اگر ایسا ہو جاتا تو آج نہ آپ کو تحریک عدم اعتماد پیش کرنی پڑتی، نہ آپ کے خلاف پیش ہوتی۔ نہ آپ کو عوام کے پاس جانا پڑتا، نہ جلسے جلوس لانگ مارچ کرنے پڑتے۔ نہ منڈیاں لگنے کی نوبت آتی اور نہ ہی کوئی کسی کے خلاف غیر پارلیمانی اور غیر اخلاقی زبان استعمال کرتا۔
خوش قسمتی تو تب ہوتی جب حکومت ماڈل حکومت اور حکمران ماڈل حکمران ہوتے۔ کسی ایک شعبے کو ہی مغرب کی طرز پر نکھارتے۔ عوام کو کم از کم بنیادی حقوق تو دلواتے۔ اکیسویں صدی کے اس دور میں جہاں دنیا اب توانائی کے متبادل ذرائع کے حصول میں لگی ہوئی ہے تو دوسری طرف کراچی جیسا بین الاقوامی شہر کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ تف ہے ایسے حکمرانوں پر جو کچرا اٹھانے پر بھی سیاست کرتے ہیں۔ اگر آج لندن بھی گندگی کا ڈھیر بن جائے تو کیا آپ وہاں رہنا پسند کریں گے؟ پھر وہاں کی حکومت کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہوں گے؟ آج چوبیس سال بعد جب آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کا تاریخی دورہ کر رہی ہے تو آپ کی سیاسی رسہ کشی اپنے عروج پر ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح چین کے صدر کو آپ کے دھرنوں کی وجہ سے اپنا دورہ منسوخ کرنا پڑا تھا۔ آسٹریلوی کھلاڑی بھی سڈنی اور میلبورن کی گلیوں میں اسی طرح آزادانہ گھومتے ہیں جس طرح آپ لندن اور دبئی کی سڑکوں پر، مگر پاکستان میں سخت سیکیورٹی میں محدود نقل و حرکت پر سوچتے تو ضرور ہوں گے کہ ایسا تو کبھی سری لنکا میں نہیں ہوا جس وقت تامل ٹائیگرز حکومت سے حالت جنگ میں تھے۔
اللہ نے آپ کو ایک نہیں کئی مواقعے فراہم کیے۔ آپ اگر تھوڑی سی ہی کوشش بھی کرتے تو آج پاکستان وہاں نہیں ہوتا جہاں جگ ہنسائی اور محرومیاں ہمارا منہ چڑا رہی ہیں۔ ہم اگر صرف قانون کی بالادستی کےلیے ہی کام کرلیتے تو آج صورت حال بہت مختلف ہوتی۔
مشہور ریسرچ کے ادارے رینڈ کارپوریشن نے بھی اپنے ایک مقالے میں اسی بات کا اعادہ کیا ہے کہ قوموں کی تعمیر میں قانون کی بالادستی ہی کلیدی کردار ادا کرتی ہے، جو ایک ناکام قوم کو عروج دلا سکتی ہے۔ اور سچ بھی یہی ہے۔ پرامن معاشرہ ہی ترقی یافتہ ہوتا ہے جس کی جیتی جاگتی مثالیں وہ ممالک ہیں جن کے گن گاتے آپ تھکتے نہیں اور وہاں رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
سوال تو یہ ہے کہ آپ کو اس سے کس چیز نے روکا؟ شوق حکمرانی نے، طاقت کی چاہ نے، حب جاہ نے، یا دولت کی طلب نے؟ اگر آج قانون کی بالادستی قائم ہوتی تو نہ آپ کو حکومت برقرار رکھنے کے جھمیلوں میں پڑنا پڑتا، نہ ہی حکومت جانے کا خوف آپ کو بےچین کرتا۔ عوام آپ کے ساتھ ہمہ وقت ہوتے اور تاریخ میں آپ کا نام بھی سنہری حروف میں لکھا جاتا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب باتیں تو کتابوں میں ہی اچھی لگتی ہیں مگر ہم نے ہی نیویارک، لندن اور اٹلی کے بدمعاشوں کو قانون کے شکنجے میں آتے دیکھا، چین اور سنگاپور کے کرپٹ ٹولے کو لٹکتے دیکھا اور عرب کے قذاقوں کا قلع قمع ہوتے دیکھا، جو حاجیوں کو بغیر کسی خوف کے لوٹتے تھے۔ اور آج وہ ممالک ترقی کی جس راہ پر گامزن ہیں اس کا مشاہدہ دنیا خود اپنی آنکھ سے کر رہی ہے۔ آج بھی ان ممالک کی ترجیحات میں قانون اول نمبر پر ہے اور اب تو ٹیکنالوجی نے اس کے نفاذ کو اور بھی آسان بنا دیا ہے۔ مغرب میں تو باقاعدہ کرمنالوجی کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور اس کی ڈگری بھی دی جاتی ہے۔ وہاں سراغ رسانی بھی ایک فن ہے، جس کےلیے باقاعدہ ادارے ترتیب دیے گئے ہیں۔
ابھی بھی وقت ہے کہ صرف ایک اسی شعبے پر دل و جان سے توجہ دی جائے، ورنہ یہ جلسے جلوس، دھرنے ہوتے رہیں گے اور تحریک عدم اعتماد آتی رہیں گی۔ جب قانون کی بالادستی ہوگی تو تمام شعبے، تمام ادارے خود بہ خود ٹھیک ہوجائیں گے۔ قانون پورے سسٹم میں سرائیت کرجائے گا۔ بہت سے متوقع اور غیر متوقع مسائل کا ادراک پہلے سے ہوجائے گا۔ کیونکہ بیک وقت جزا کا احساس اور سزا کا خوف نہ صرف آپ کو بہتر فیصلے کرنے میں مدد دے گا بلکہ یہ شخصیت سازی میں بھی کردار ادا کرے گا۔ اور ملک بھی ترقی کی جانب گامزن ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جی جی ہم جانتے ہیں کہ مغرب کو آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا، خود مغرب والے بھی نہیں۔ آپ سے زیادہ دنیا کو کسی نے نہیں دیکھا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ چین نے کس طرح کرپٹ لوگوں کو لٹکا کر ترقی کی۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ریاست مدینہ میں جب خلیفہ وقت سے سوال ہوتا تھا تو وہ بھی جواب دینے کے پابند تھے۔
ہاں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ کی اولاد، آپ کے اثاثے، آپ کا علاج سب بیرون ملک ہے، حتیٰ کہ آپ کا جینا مرنا بھی۔ آپ جب بیرون ملک جاتے ہیں تو بغیر سیکیورٹی کھلم کھلا سفر کرتے ہیں اور جیسے ہی ملک میں آتے ہیں، آپ کے اردگرد محافظوں کا ہجوم لگ جاتا ہے۔ یہ بات بھی ہم پر عیاں ہے کہ کس طرح آپ کے محلات مشرق وسطیٰ کے پوش علاقوں میں ہیں اور جب آپ آرام کی غرض سے وہاں تشریف لے جاتے ہیں تو مقامی قانون کے مطابق سیاست تو درکنار سیاست پر بات بھی نہیں کرسکتے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ کے بچے ان ملکوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر وہیں نوکریاں کرتے ہیں جن کو آپ اسلام کا سب سے بڑا دشمن گردانتے ہیں۔
پاکستان کی خوش قسمتی کہیے یا بدقسمتی کہ یہاں جس نے بھی حکمرانی کی اس کا بیرونی ممالک سے ان تمام باتوں کے زمرے میں رابطہ رہا ہے، جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور وہ بھی ترقی یافتہ ممالک جہاں آسانیاں اور آسائشیں معاشرے کا جز اور بنیادی حق ہر ایک کو میسر ہوتا ہے۔ مگر اسے ہماری بدقسمتی ہی کہیے کہ اس کے عشر عشیر کا بھی اطلاق ملک کو سنوارنے کےلیے نہیں کیا گیا۔ یقین کیجئے اگر ایسا ہو جاتا تو آج نہ آپ کو تحریک عدم اعتماد پیش کرنی پڑتی، نہ آپ کے خلاف پیش ہوتی۔ نہ آپ کو عوام کے پاس جانا پڑتا، نہ جلسے جلوس لانگ مارچ کرنے پڑتے۔ نہ منڈیاں لگنے کی نوبت آتی اور نہ ہی کوئی کسی کے خلاف غیر پارلیمانی اور غیر اخلاقی زبان استعمال کرتا۔
خوش قسمتی تو تب ہوتی جب حکومت ماڈل حکومت اور حکمران ماڈل حکمران ہوتے۔ کسی ایک شعبے کو ہی مغرب کی طرز پر نکھارتے۔ عوام کو کم از کم بنیادی حقوق تو دلواتے۔ اکیسویں صدی کے اس دور میں جہاں دنیا اب توانائی کے متبادل ذرائع کے حصول میں لگی ہوئی ہے تو دوسری طرف کراچی جیسا بین الاقوامی شہر کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ تف ہے ایسے حکمرانوں پر جو کچرا اٹھانے پر بھی سیاست کرتے ہیں۔ اگر آج لندن بھی گندگی کا ڈھیر بن جائے تو کیا آپ وہاں رہنا پسند کریں گے؟ پھر وہاں کی حکومت کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہوں گے؟ آج چوبیس سال بعد جب آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کا تاریخی دورہ کر رہی ہے تو آپ کی سیاسی رسہ کشی اپنے عروج پر ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح چین کے صدر کو آپ کے دھرنوں کی وجہ سے اپنا دورہ منسوخ کرنا پڑا تھا۔ آسٹریلوی کھلاڑی بھی سڈنی اور میلبورن کی گلیوں میں اسی طرح آزادانہ گھومتے ہیں جس طرح آپ لندن اور دبئی کی سڑکوں پر، مگر پاکستان میں سخت سیکیورٹی میں محدود نقل و حرکت پر سوچتے تو ضرور ہوں گے کہ ایسا تو کبھی سری لنکا میں نہیں ہوا جس وقت تامل ٹائیگرز حکومت سے حالت جنگ میں تھے۔
اللہ نے آپ کو ایک نہیں کئی مواقعے فراہم کیے۔ آپ اگر تھوڑی سی ہی کوشش بھی کرتے تو آج پاکستان وہاں نہیں ہوتا جہاں جگ ہنسائی اور محرومیاں ہمارا منہ چڑا رہی ہیں۔ ہم اگر صرف قانون کی بالادستی کےلیے ہی کام کرلیتے تو آج صورت حال بہت مختلف ہوتی۔
مشہور ریسرچ کے ادارے رینڈ کارپوریشن نے بھی اپنے ایک مقالے میں اسی بات کا اعادہ کیا ہے کہ قوموں کی تعمیر میں قانون کی بالادستی ہی کلیدی کردار ادا کرتی ہے، جو ایک ناکام قوم کو عروج دلا سکتی ہے۔ اور سچ بھی یہی ہے۔ پرامن معاشرہ ہی ترقی یافتہ ہوتا ہے جس کی جیتی جاگتی مثالیں وہ ممالک ہیں جن کے گن گاتے آپ تھکتے نہیں اور وہاں رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
سوال تو یہ ہے کہ آپ کو اس سے کس چیز نے روکا؟ شوق حکمرانی نے، طاقت کی چاہ نے، حب جاہ نے، یا دولت کی طلب نے؟ اگر آج قانون کی بالادستی قائم ہوتی تو نہ آپ کو حکومت برقرار رکھنے کے جھمیلوں میں پڑنا پڑتا، نہ ہی حکومت جانے کا خوف آپ کو بےچین کرتا۔ عوام آپ کے ساتھ ہمہ وقت ہوتے اور تاریخ میں آپ کا نام بھی سنہری حروف میں لکھا جاتا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب باتیں تو کتابوں میں ہی اچھی لگتی ہیں مگر ہم نے ہی نیویارک، لندن اور اٹلی کے بدمعاشوں کو قانون کے شکنجے میں آتے دیکھا، چین اور سنگاپور کے کرپٹ ٹولے کو لٹکتے دیکھا اور عرب کے قذاقوں کا قلع قمع ہوتے دیکھا، جو حاجیوں کو بغیر کسی خوف کے لوٹتے تھے۔ اور آج وہ ممالک ترقی کی جس راہ پر گامزن ہیں اس کا مشاہدہ دنیا خود اپنی آنکھ سے کر رہی ہے۔ آج بھی ان ممالک کی ترجیحات میں قانون اول نمبر پر ہے اور اب تو ٹیکنالوجی نے اس کے نفاذ کو اور بھی آسان بنا دیا ہے۔ مغرب میں تو باقاعدہ کرمنالوجی کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور اس کی ڈگری بھی دی جاتی ہے۔ وہاں سراغ رسانی بھی ایک فن ہے، جس کےلیے باقاعدہ ادارے ترتیب دیے گئے ہیں۔
ابھی بھی وقت ہے کہ صرف ایک اسی شعبے پر دل و جان سے توجہ دی جائے، ورنہ یہ جلسے جلوس، دھرنے ہوتے رہیں گے اور تحریک عدم اعتماد آتی رہیں گی۔ جب قانون کی بالادستی ہوگی تو تمام شعبے، تمام ادارے خود بہ خود ٹھیک ہوجائیں گے۔ قانون پورے سسٹم میں سرائیت کرجائے گا۔ بہت سے متوقع اور غیر متوقع مسائل کا ادراک پہلے سے ہوجائے گا۔ کیونکہ بیک وقت جزا کا احساس اور سزا کا خوف نہ صرف آپ کو بہتر فیصلے کرنے میں مدد دے گا بلکہ یہ شخصیت سازی میں بھی کردار ادا کرے گا۔ اور ملک بھی ترقی کی جانب گامزن ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔