عقیدت کا سفر
حج کے مواقع پر حجاج کا ایک بہت بڑا ایسا اژدھام ہوتا ہے، جس کی نظیر عبادت کے اعتبار سے دنیا کے کسی خطے میں نہیں ملتی
نجمہ عثمان صاحبہ ادب کی کئی اصناف پر عبور رکھتی ہیں اردو میں ان کا نمایاں مقام ہے اور اب انھیں سفر نامہ حج بھی لکھنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے، حج انھوں نے دین کے ارکان کی ادائیگی اور اپنی دیرینہ خواہش اور دعاؤں کے نتیجے میں کیا، جبکہ سفر نامے کو الفاظکی شکل دینا ان کے شوہر عثمان صاحب کی وصیت تھی۔
مصنفہ نے اپنے بڑے صاحبزادے زبیر کے ساتھ حج کے فرائض ادا کیے۔ کعبے کی تجلیات، مدینہ منورہ کا نورانی خطہ، جہاں ہر لمحہ نور برستا ہے، معطر فضائیں زائرین کو خوش آمدید کہتی ہیں، ہوائیں خوشبوئیں لٹاتی ہیں، چپہ چپہ اذانوں کی صداؤں سے گونجتا ہے، وہاں کی رحمتوں اور برکتوں سے سینہ منور اور تسکین قلب کی دولت میسر آتی ہے۔
حج کے مواقع پر حجاج کا ایک بہت بڑا ایسا اژدھام ہوتا ہے، جس کی نظیر عبادت کے اعتبار سے دنیا کے کسی خطے میں نہیں ملتی، یہ ہی وہ مقام مقدسہ ہے جہاں دنیا کے کونے کونے سے حجاج کرام تشریف لاتے ہیں اور طوافِ کعبہ، دیدار روضۂ اقدس سے سرفراز ہوتے ہیں، ایمان کی بالیدگی کا سامان کرتے ہیں اور آیندہ کبھی گناہ نہ کرنے کا اپنے رب کے حضور عہد کرتے ہیں۔
ہجوم کو دیکھ کر مصنفہ اس پریشانی میں مبتلا تھیں کہ آیا وہ تن تنہا کس طرح سبز گنبد کے مکین رحمت اللعالمین شفیع المذنبین، خاتم النبین کے روضۂ مبارک تک پہنچ سکیں گی اپنی گناہ گار آنکھوں سے سنہری جالیوں اور منبر رسولؐ کی تابانیوں اور جلوؤں کا نظارہ کرسکیں گی کیا اتنی تاب ہے دل مضطر میں؟
ابھی وہ اس شش و پنج میں مبتلا تھیں کہ اچانک فرشتے کی مانند شاہین نامی حجن سامنے آگئیں، ان کے دلاسا دینے پر مصنفہ نے نہایت لجاجت سے کہا کہ'' کیا آپ واقعی مجھے روضۂ رسولؐ تک لے جائیں گی'' اور پھر وہ وقت بھی آگیا، جب شاہین صاحبہ کے ساتھ آنکھوں کی پیاس بجھانے دل و روح کو راحت پہنچانے وہ کھنچی چلی جا رہی تھیں، شاہین ہجوم کو چیرتی ان کے لیے جگہ بناتی، آخرکار روشن منزل تک پہنچ گئیں۔
نجمہ عثمان نے تاجدار مدینہ، شفیع الامم، خیرالوریٰ، احمد مجتبیٰ کے روضے اور ریاض الجنۃ میں نفل نماز کی ادائیگی کو بے حد عقیدت اور محبت کے ساتھ قلم بند کیا ہے، اپنی اس کیفیت کو موثر اور دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے کہیں تسلسل نہیں ٹوٹتا ہے۔
ان کا اسلوب بیان سادہ اور دل میں اترنے والا ہے، قلم ادب سے جھک گیا ہے اور الفاظ ایمان کی حرارت سے جگ مگ کر رہے ہیں، عمرے کی ادائیگی کا بیان ان کی رب ذوالجلال کی اطاعت و عاجزی اور بندگی کا مظہر ہے، چل چل کر پاؤں میں چھالے اور ایڑی پر پھوڑا نکل آیا ہے، زبیر ان کے لیے وہیل چیئر لاتے ہیں، ساتھ میں ڈاکٹر سجاد کو بھی، تاکہ علاج ہو جائے، ڈاکٹر سجاد پھوڑے سے پس نکال دیتے ہیں، پٹی کردیتے ہیں، زخم تازہ ہے، درد ہے، لیکن وہ وہیل چیئر کے بغیر طواف کعبہ کا عزم کرتی ہیں، اللہ ان کے جذبہ محبت اور سچائی و لگن کو دیکھتے ہوئے ان کے ارادوں کو تقویت دیتا ہے۔
لہٰذا کہ کعبہ کا طواف عقیدت و ایمان کی دولت سے لبریز ہو کر کرتی ہیں کہ یہ ہی ارکان ہیں عمرے کے صفا اور مروہ کی پہاڑیوں پر دوڑنا اور بی بی حاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ کی یاد تازہ کرنا ہے۔ اس طرح معبود اور عبدیت کے رشتے اور تعلق کا کنول اپنی سحرانگیز خوشبو، لطافت اور تازگی کے ساتھ کھلتا چلا گیا۔قدم قدم پر اللہ نے ان کی مدد فرمائی، پروین اور ناہید بھی ان کی مددگار بنیں، اجنبی لوگ ان کی مدد کریں گے، ان کا سہارا اور غم گسار بنیں گے، ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا، لیکن اپنے رب سے سچی محبت اس طرح رنگ لا رہی تھی کہ راستے کھلتے جا رہے تھے اور عبادت کی لذتیں انھیں بے خود کر رہی تھیں۔
نجمہ عثمان کا تحریر کردہ سفرنامہ بہت سی معلومات فراہم کرتا ہے، اللہ اور اس کے رسولؐ سے بے پناہ اور ایسی محبت کا مظہر ہے، جیسی کہ ایک سچے مسلمان کو ہونی چاہیے۔سفرنامے کو پڑھتے ہوئے اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ مصنفہ اب تک حج و عمرے کی حالت میں ہیں ،وہ لکھتی جا رہی ہیں اور احساس کے موتی قرطاس پر ٹانکتے ہوئے خود بھی مکہ و مدینے کی رحمتوں اور برکتوں سے اپنے آپ کو فیض یاب کر رہی ہیں، قاری بھی اپنے آپ کو مسجد نبویؐ اور صحن حرم اور عمرے کی ادائیگی میں اپنے آپ کو شامل پاتا ہے، یہی ان کی تحریر کی خاصیت ہے۔
واپسی کے سفر کا قصد کرتے ہوئے بے اختیار ان کے منہ سے یہ الفاظ ادا ہوتے ہیں ''الوداع اے مقدس سرزمین'' رخصت چاہتی ہوں، میرے پروردگار، تُو نے مجھے بیت اللہ کی سعادت بخشی، کیسی کیسی کرامات سے نوازا، قدم قدم پر آسانیاں اور حوصلہ بخشا ورنہ تیری یہ گناہ گار بندی اس قابل نہ تھی کہ یہاں تک پہنچ سکے۔''
حج کے دوران نجمہ عثمان صاحبہ کے صاحبزادے زبیر کی اپنی والدہ سے بے پناہ محبت اور توجہ بھی قاری کو متاثر کرتی ہے، خصوصاً ان اوقات میں جب زبیر کا ہر موقع پر خیال رکھنا اور بار بار تشویش کے ساتھ یہ کہنا کہ اماں آپ کہاں رہ گئی تھیں؟ جب مصنفہ خانہ کعبہ کو الوداع کہہ کر ایئرپورٹ پہنچیں تو اس وقت اپنے سامان کی تلاش میں تھیں اور بے چینی و پریشانی میں مبتلا تھیں، عین اسی وقت زبیر آ جاتے ہیں اور ماں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں'' اماں آپ کہاں ہیں؟ میں کب سے آپ کو ڈھونڈ رہا ہوں۔''
بیٹے کو دیکھ کر اچانک ان کی زبان سے نکلتا ہے ''زبیر تم؟'' یہ ایک ایسا موڑ ہے جہاں قارئین بھی بیٹے کی محبت و تابع داری اور فرض شناسی سے نہ صرف یہ کہ متاثر ہوتے ہیں بلکہ آنکھیں بھی انمول رشتوں کے احساس سے بھیگ جاتی ہیں، زبیر ریاض میں اور نجمہ عثمان لندن میں رہائش پذیر ہیں، اسی وجہ سے دونوں مختلف پروازوں میں سفر کرنے کے مراحل سے گزر رہے ہیں، زبیر اپنی والدہ کے ساتھ آخری وقت تک ساتھ رہتے ہیں یہاں تک کہ جہاز اپنی اپنی منزلوں کی طرف محو سفر ہوگئے اور یادیں ستارہ بن گئیں جو نجمہ عثمان صاحبہ کو روشنی بخش رہی ہیں۔
(تقریب تعارف کے موقع پر پڑھا گیا مضمون)
مصنفہ نے اپنے بڑے صاحبزادے زبیر کے ساتھ حج کے فرائض ادا کیے۔ کعبے کی تجلیات، مدینہ منورہ کا نورانی خطہ، جہاں ہر لمحہ نور برستا ہے، معطر فضائیں زائرین کو خوش آمدید کہتی ہیں، ہوائیں خوشبوئیں لٹاتی ہیں، چپہ چپہ اذانوں کی صداؤں سے گونجتا ہے، وہاں کی رحمتوں اور برکتوں سے سینہ منور اور تسکین قلب کی دولت میسر آتی ہے۔
حج کے مواقع پر حجاج کا ایک بہت بڑا ایسا اژدھام ہوتا ہے، جس کی نظیر عبادت کے اعتبار سے دنیا کے کسی خطے میں نہیں ملتی، یہ ہی وہ مقام مقدسہ ہے جہاں دنیا کے کونے کونے سے حجاج کرام تشریف لاتے ہیں اور طوافِ کعبہ، دیدار روضۂ اقدس سے سرفراز ہوتے ہیں، ایمان کی بالیدگی کا سامان کرتے ہیں اور آیندہ کبھی گناہ نہ کرنے کا اپنے رب کے حضور عہد کرتے ہیں۔
ہجوم کو دیکھ کر مصنفہ اس پریشانی میں مبتلا تھیں کہ آیا وہ تن تنہا کس طرح سبز گنبد کے مکین رحمت اللعالمین شفیع المذنبین، خاتم النبین کے روضۂ مبارک تک پہنچ سکیں گی اپنی گناہ گار آنکھوں سے سنہری جالیوں اور منبر رسولؐ کی تابانیوں اور جلوؤں کا نظارہ کرسکیں گی کیا اتنی تاب ہے دل مضطر میں؟
ابھی وہ اس شش و پنج میں مبتلا تھیں کہ اچانک فرشتے کی مانند شاہین نامی حجن سامنے آگئیں، ان کے دلاسا دینے پر مصنفہ نے نہایت لجاجت سے کہا کہ'' کیا آپ واقعی مجھے روضۂ رسولؐ تک لے جائیں گی'' اور پھر وہ وقت بھی آگیا، جب شاہین صاحبہ کے ساتھ آنکھوں کی پیاس بجھانے دل و روح کو راحت پہنچانے وہ کھنچی چلی جا رہی تھیں، شاہین ہجوم کو چیرتی ان کے لیے جگہ بناتی، آخرکار روشن منزل تک پہنچ گئیں۔
نجمہ عثمان نے تاجدار مدینہ، شفیع الامم، خیرالوریٰ، احمد مجتبیٰ کے روضے اور ریاض الجنۃ میں نفل نماز کی ادائیگی کو بے حد عقیدت اور محبت کے ساتھ قلم بند کیا ہے، اپنی اس کیفیت کو موثر اور دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے کہیں تسلسل نہیں ٹوٹتا ہے۔
ان کا اسلوب بیان سادہ اور دل میں اترنے والا ہے، قلم ادب سے جھک گیا ہے اور الفاظ ایمان کی حرارت سے جگ مگ کر رہے ہیں، عمرے کی ادائیگی کا بیان ان کی رب ذوالجلال کی اطاعت و عاجزی اور بندگی کا مظہر ہے، چل چل کر پاؤں میں چھالے اور ایڑی پر پھوڑا نکل آیا ہے، زبیر ان کے لیے وہیل چیئر لاتے ہیں، ساتھ میں ڈاکٹر سجاد کو بھی، تاکہ علاج ہو جائے، ڈاکٹر سجاد پھوڑے سے پس نکال دیتے ہیں، پٹی کردیتے ہیں، زخم تازہ ہے، درد ہے، لیکن وہ وہیل چیئر کے بغیر طواف کعبہ کا عزم کرتی ہیں، اللہ ان کے جذبہ محبت اور سچائی و لگن کو دیکھتے ہوئے ان کے ارادوں کو تقویت دیتا ہے۔
لہٰذا کہ کعبہ کا طواف عقیدت و ایمان کی دولت سے لبریز ہو کر کرتی ہیں کہ یہ ہی ارکان ہیں عمرے کے صفا اور مروہ کی پہاڑیوں پر دوڑنا اور بی بی حاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ کی یاد تازہ کرنا ہے۔ اس طرح معبود اور عبدیت کے رشتے اور تعلق کا کنول اپنی سحرانگیز خوشبو، لطافت اور تازگی کے ساتھ کھلتا چلا گیا۔قدم قدم پر اللہ نے ان کی مدد فرمائی، پروین اور ناہید بھی ان کی مددگار بنیں، اجنبی لوگ ان کی مدد کریں گے، ان کا سہارا اور غم گسار بنیں گے، ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا، لیکن اپنے رب سے سچی محبت اس طرح رنگ لا رہی تھی کہ راستے کھلتے جا رہے تھے اور عبادت کی لذتیں انھیں بے خود کر رہی تھیں۔
نجمہ عثمان کا تحریر کردہ سفرنامہ بہت سی معلومات فراہم کرتا ہے، اللہ اور اس کے رسولؐ سے بے پناہ اور ایسی محبت کا مظہر ہے، جیسی کہ ایک سچے مسلمان کو ہونی چاہیے۔سفرنامے کو پڑھتے ہوئے اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ مصنفہ اب تک حج و عمرے کی حالت میں ہیں ،وہ لکھتی جا رہی ہیں اور احساس کے موتی قرطاس پر ٹانکتے ہوئے خود بھی مکہ و مدینے کی رحمتوں اور برکتوں سے اپنے آپ کو فیض یاب کر رہی ہیں، قاری بھی اپنے آپ کو مسجد نبویؐ اور صحن حرم اور عمرے کی ادائیگی میں اپنے آپ کو شامل پاتا ہے، یہی ان کی تحریر کی خاصیت ہے۔
واپسی کے سفر کا قصد کرتے ہوئے بے اختیار ان کے منہ سے یہ الفاظ ادا ہوتے ہیں ''الوداع اے مقدس سرزمین'' رخصت چاہتی ہوں، میرے پروردگار، تُو نے مجھے بیت اللہ کی سعادت بخشی، کیسی کیسی کرامات سے نوازا، قدم قدم پر آسانیاں اور حوصلہ بخشا ورنہ تیری یہ گناہ گار بندی اس قابل نہ تھی کہ یہاں تک پہنچ سکے۔''
حج کے دوران نجمہ عثمان صاحبہ کے صاحبزادے زبیر کی اپنی والدہ سے بے پناہ محبت اور توجہ بھی قاری کو متاثر کرتی ہے، خصوصاً ان اوقات میں جب زبیر کا ہر موقع پر خیال رکھنا اور بار بار تشویش کے ساتھ یہ کہنا کہ اماں آپ کہاں رہ گئی تھیں؟ جب مصنفہ خانہ کعبہ کو الوداع کہہ کر ایئرپورٹ پہنچیں تو اس وقت اپنے سامان کی تلاش میں تھیں اور بے چینی و پریشانی میں مبتلا تھیں، عین اسی وقت زبیر آ جاتے ہیں اور ماں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں'' اماں آپ کہاں ہیں؟ میں کب سے آپ کو ڈھونڈ رہا ہوں۔''
بیٹے کو دیکھ کر اچانک ان کی زبان سے نکلتا ہے ''زبیر تم؟'' یہ ایک ایسا موڑ ہے جہاں قارئین بھی بیٹے کی محبت و تابع داری اور فرض شناسی سے نہ صرف یہ کہ متاثر ہوتے ہیں بلکہ آنکھیں بھی انمول رشتوں کے احساس سے بھیگ جاتی ہیں، زبیر ریاض میں اور نجمہ عثمان لندن میں رہائش پذیر ہیں، اسی وجہ سے دونوں مختلف پروازوں میں سفر کرنے کے مراحل سے گزر رہے ہیں، زبیر اپنی والدہ کے ساتھ آخری وقت تک ساتھ رہتے ہیں یہاں تک کہ جہاز اپنی اپنی منزلوں کی طرف محو سفر ہوگئے اور یادیں ستارہ بن گئیں جو نجمہ عثمان صاحبہ کو روشنی بخش رہی ہیں۔
(تقریب تعارف کے موقع پر پڑھا گیا مضمون)