بند گلی
قومیں ماں کی گود اور تعلیمی اداروں میں تشکیل پاتی ہیں۔ کیا ہم نے پاکستانی ماں کی صحت اور تربیت کیلیے کبھی سوچا ہے؟
لاہور:
قدیم چین کے ایک بادشاہ کا ذکر ہے جس نے مسند اقتدار پر متمکن ہوتے ہی حکم دیا کہ میں رموز سلطنت میں راہنمائی کیلیے دانشمند افراد سے ملنا چاہتا ہوں ۔ بادشاہ کے وزراء اور مصاحبین نے عظیم فلاسفر کنفیوشس کا نام دیا اور عرض کی ہے کہ اسے دربار شاہی میں بلانا ممکن نہیں تا ہم اس کے پاس جا کر ملاقات کی جا سکتی ہے۔ بادشاہ کنفیوشس کے پاس پہنچا، دوران نشست بادشاہ نے راہنمائی کی غرض سے پوچھا کہ مجھے کامیاب بادشاہ بننے کیلیے کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔ کنفیوشس نے کہا کہ تین امور کی طرف توجہ دو تو ناکامی نہیں ہو گی۔
(1)ملکی سرحدوں کی حفاظت (2) خوارک کی فراہمی (3) رعایا کا اعتماد قائم رہنا ۔
بادشاہ نے پوچھا اگر ان کی ترجیح طے کی جائے تو میں کیا کروں تو کنفیوشس نے کہا کہ فو قیت سرحدوں کی حفاظت اور عوامی اعتماد کو دینا ۔بادشاہ نے پھر پوچھا کہ اگر ایسی صورتحال پیش آئے کہ مجھے ان دونوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا پڑے تو کیا کروں۔کنفیو شس بو لا کہ اپنے اور عوام کے اعتماد کے رشتے کو ٹھیس نہ پہنچنے دینا کیونکہ عوام کا حکمران پر اعتماد ہی اسکی اصل طاقت ہے۔
اگر عوام کا اعتماد قائم ہے تو وہ مشکل صورتحال میں بھی حکمران کیساتھ کھڑے رہیں گے لیکن اگر حکمران کے قول اور فعل میں تضاد ہو اور وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کیلیے جھوٹے وعدے کرے تو عوام ایسی صورتحال میں کبھی اس کا ساتھ نہ دینگے ۔ اسی اعتماد کی وجہ سے وہ بھوکے رہ کر بھی تمہارا ساتھ دینے کو تیار ہونگے لیکن اگر تم نے اعتماد کھو دیا تو تمھاری مضبوط ترین فو جی طاقت اور اقتصادی خوشحالی تمہاری حکمرانی کو نہ بچا سکیں گی اور تم تاریخ میں کبھی نیک نامی حاصل نہ کر سکو گے۔
اس تاریخی روایت میں جو حکمت و دانائی پوشیدہ ہے، اس حوالے سے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ
صلاح عام ہے یاران نکتہ داں کیلیے۔ پاکستان کو اس وقت جس اندرونی اور بیرونی صورتحال کا سامنا ہے، اسے بعض سیاسی تجزیہ نگار اور علم تاریخ کے طالبعلم بند گلی کے مصداق قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ ہم نے ہر طرح کی طرز حکمرانی دیکھ لی ہے۔ صدارتی اور پارلیمانی نظام بھی آزما چکے ہیں۔ مارشل لاء، ایمرجنسی اور آمریت کی بھٹی میں بھی کئی بارچڑھے ہیں۔ دو تہائی اکثریت کے وزرائے اعظموں کے ساتھ ساتھ غیر ملک سے درآمد کردہ حکمران بھی دیکھ چکے ہیں پھر بھی ہم اب تک پٹری پر سے کیوں اترے ہوئے ہیں۔ یہ ہیں وہ سوالات جن کا جواب بندی گلی میں کھڑی پاکستانی قوم پوچھ رہی ہے۔
ایک ایسا ملک جسے نظریاتی بنیادوں پر حاصل کیا گیا ہو اور جوہری طاقت بھی رکھتا ہے، وہ اس صورتحال سے آ خر کیوںدوچا ر ہے ؟یہ ہے وہ سوال جو ہر ذی شعور ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے۔ ان سوالوں کا جواب ابھی تک نہیں دیا جا سکا کہ ملک کو اس صورتحال سے کیسے نکالا جائے۔ پاکستان کی سیاست بند گلی میںہے۔ جس منظر نامے کا تصور کریں معاملات پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے نظر آتے ہیں۔
حقیقت احوال یہ ہے کہ ہم نے تحریک پاکستان میں شامل ہجوم کو ایک تربیت یافتہ قوم نہیں بنایا۔ محض گروہی مفادات اور حصول اقتدار کی خاطر منصوبہ بندی کی۔ قوم کی تعمیر کے بنیادی تقاضوں کی طرف توجہ نہ دی۔ عام شہری کوضروری سہولتوں کی فراہمی اور اسکی رائے کا احترام نہ کیا۔ خارجہ پالیسی کے اعتبار سے ہمارے ہمسایہ ممالک ہم پر کس قدر مہربان ہیں، اس کا اندازہ ہمیں ہو چکا ہے۔ آخر یہ سب کچھ کیوں ہے؟ ہم کیوں اس بند گلی میں پہنچے ہیں، اس کے عوامل اور ان کا تجزیہ سنجیدگی سے کرنے کے بجائے رائی کے پہاڑ اور ریت کے بند تو باندھے ہیں لیکن قوم کی کردار سازی کی طرف بالکل توجہ نہیں دی۔
قومیں ماں کی گود اور تعلیمی اداروں میں تشکیل پاتی ہیں۔ کیا ہم نے پاکستانی ماں کی صحت اور تربیت کیلیے کبھی سوچا ہے؟ کیا ہم نے تعلیمی اداروں کے احوال اور ان کی بنیادی ضرورتوں کی طرف کبھی قومی سطح پر تو جہ دی ہے۔ استاد جسے ہم روحانی باپ کہتے ہیں ۔ معاشرے میں اس کی کیا قدر منزلت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جن افراد اور اقوام نے ماں اور استاد کے مرتبے کو نہ پہنچانا وہ تاریخ کے اوراق میں کوئی جگہ نہ پا سکے، ادھر جن افراد اور اقوام نے استاد کے مرتبے اور مقام کو پہنچانا اور مانا انھیں تاریخ نے بڑا مقام دیا۔
سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا کہ تم اپنے باپ پر اپنے استاد کو کیوں ترجیح دیتے ہو؟ اس نے جواب میں کہا کہ باپ تو مجھے آسمان سے زمین پر لایا مگر استاد مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔ باپ نے میرے جسم کی پرورش کی لیکن استاد نے میری روح کی نشو و نما کی۔ میرا باپ میری فانی زندگی کا باعث بنا لیکن ارسطو میری جاودانی زندگی کا۔
ان تاریخی حقائق کے پس منظر میں اگر ہم پاکستانی معاشرے میں استاد کی حیثیت کا جائزہ لیں تو گستاخی کی معافی کیساتھ میں عرض کروں گا کہ '' ٹیچرز ڈے'' محض ایک ڈرامہ اور مذاق لگتا ہے۔ استاد کسی بھی درجے ،کسی بھی لیول کا ہو، وہ ہر وقت قابل احترام ہے۔یہ تو رہی استاد کی حیثیت ،دوسری طرف نہ تو ہم نے ماں کی گود میں پروان چڑھنے والی نئی نسل اور اس کی آبیاری کرنے والی ماں کیلیے کوئی منصوبہ بندی کی۔
اگر ہم امریکہ، یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ معاشروں کا تقابلی جائزہ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ انھوں نے خصوصی منصوبہ بندی کی ہے اور اس بنیاد پر وہ ویلفیئر اسٹیٹ کہلائے۔ ہمیں انکے طرز زندگی اورسماجی اقدار پر تو اعتراض ہو سکتا ہے لیکن استاد، ماں اور بچے کی دیکھ بھال جس طرح انکے معاشرے نے کی ہے وہ قابل تقلید ہے۔ اس حوالے سے بہت سی مثالیں ہم سب کے سامنے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ قوم کی کردار سازی کی حکمت عملی طے کی جائے ۔ ابھی وقت ہے کہ اس معاملے کو قومی ڈائیلاگ کی شکل دی جائے۔