جمہوری روایات پر عمل کیا جائے

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدکی اور محاذآرائی میں اضافہ ہو رہا ہے

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدکی اور محاذآرائی میں اضافہ ہو رہا ہے (فوٹو اسکرین گریپ)

پاکستان میں سیاسی تلخیاں اور نفرتیں روزبروز بڑھ رہی ہیں۔ ایسے معاملات جن کا تعلق براہ راست آئین وقانون کے طے شدہ طریقہ کار سے ہے، انھیں سڑکوں پر حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اپوزیشن نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا رکھی ہے۔ یہ کوئی ایسی انھونی بات نہیں ہے۔ دنیا میں کئی وزرائے اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی ہیں جبکہ کئی صدور مواخذے کے عمل سے بھی گزرے ہیں۔

تحریک عدم اعتماد پیش کرنا ایک آئینی اور جمہوری نوعیت کا کام ہے اور اس کا مقابلہ بھی آئین اور جمہوری اصولوں کے مطابق کیا جانا چاہیے لیکن دیکھنے میں آ رہا ہے کہ حزب اقتدار کے رہنما اور وزراء اپنے بیانات کے ذریعے اپنے سیاسی کارکنوں کو اشتعال دِلا رہے ہیں، جوابی طور پر اپوزیشن کے رہنما بھی Tit for Tat کے اصول پر چل رہے ہیں جس سے سیاسی ماحول شدید کشیدگی کی جانب بڑھ رہا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو خدانخواستہ ملک میں گلی محلوں میں گھیراؤ جلاؤ کی نوبت آ سکتی ہے۔

حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کی قیادت کو بگڑتی ہوئی صورت حال کو سنبھالا دینے کے لیے دانشمندانہ اور مدبرانہ طرزعمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے لیکن ایسا نظر نہیں آ رہا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدکی اور محاذآرائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس محاذآرائی کا مظاہرہ اگلے روز دیکھنے میں آیا ہے۔

میڈیا کے مطابق جمعہ کے روز پی ٹی آئی کارکنان کی بڑی تعداد نے کراچی سے منتخب ایم این ایز فہیم خان اور عطا اللہ خان کی قیادت میں سندھ ہاؤس پر دھاوا بول دیا،جہاں حکمران جماعت کے منحرف ارکان قومی اسمبلی ٹھہرے ہوئے ہیں،خبروں کے مطابق پی ٹی آئی کے کارکن سندھ ہاؤس کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگئے اور وہاں اپنی جماعت کے منحرف ایم این ایز کے خلاف نعرے بازی کی۔

میڈیا کی خبر میں کہا گیا ہے کہ سندھ پولیس مظاہرین کو روکنے میں ناکام رہی جبکہ وفاقی پولیس بھی خاموش تماشائی بنی رہی۔ جب یہ معاملہ ٹھنڈا پڑاتب پولیس نے تحریک انصاف کے ایم این اے فہیم خان اور عطا اللہ نیازی سمیت13پی ٹی آئی کارکنان کو حراست میں لے کر تھانے میں منتقل کیا ۔بعد میں انھیں رہا بھی کر دیا گیا۔

ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے 15سے20 کارکنان نے جتھے کی صورت میں ریڈ زون میں زبردستی داخل ہوکر سندھ ہاؤس میں داخل ہونے کی کوشش کی ،ریڈ زون میں دفعہ 144کے نفاذ سے متعلق مظاہرین کو بتایا بھی گیا اور انھیں منتشر کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ باز نہ آئے اور نعرے بازی کی،گالم گلوچ اور پولیس سے مزاحمت کرتے ہوئے سندھ ہاؤس میں داخل ہونے کی کوشش کی اور چھوٹا گیٹ اکھاڑ دیا،ان میں سے13افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا،جن کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

میڈیا نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ وفاقی پولیس نے سندھ ہاؤس کو پیشگی کوئی خصوصی سکیورٹی فراہم نہیں کی تھی، پی ٹی آئی کارکنوں کو وفاقی پولیس حکام نے فری ہینڈ دیے رکھا۔

پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی فہیم خان نے کہا ہے کہ ہمیں عمران خان کی وجہ سے ووٹ ملا، منحرف ارکان غدارہیں، عقل کے ناخن لیں، آج یہ ٹریلر چلا ہے، فلم ابھی باقی ہے، اگربازنہ آئے تو اندر گھس کر ماریں گے۔

رکن قومی اسمبلی عطاء اللہ خان کا کہنا تھا کہ منحرف ارکان عمران خان کی وجہ سے ایم این اے بنے،پی ٹی آئی کا ورکر ان کا پیچھا کرے گا، انھیں چاہیے کہ واپس آئیں عمران خان سے معافی مانگیں، اگر انھیں شکایت ہے تو استعفیٰ دیں اور الیکشن لڑ کرآئیں۔

ادھرتحریک انصاف کی قیادت نے سندھ ہاؤس میں پیش آنے والی صورت حال کا نوٹس لے لیا ہے ۔پارٹی کے جنرل سیکرٹری اسد عمر نے کارکنوں کو قانون ہاتھ میں نہ لینے کی ہدایت کی ہے ۔


واضح رہے کہ سندھ ہاؤس کے باہر حالات کشیدہ ہونے پر جے یو آئی (ف) کے کارکن بھی مولانا عبدالمجید ہزاروی کی زیر قیادت ریڈ زون پہنچ گئے جنہیں پولیس نے آگے جانے سے روکے رکھا۔

میڈیا کی خبروں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پشاورپریس کلب کے سامنے بھی احتجاجی مظاہرہ کیا۔ پی ٹی آئی کے منحرف ایم این اے نور عالم خان کے خلاف نعرے بازی کی گئی اور ان کے پوسٹر بھی جلائے۔

ادھر ایم این اے نور عالم خان نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ انھیں دھمکیاں مل رہی ہیں کہ جو بشیر بلور اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہوا وہی تمہارے اور تمہارے تین بیٹوں کے ساتھ ہو گا۔انھوں نے دھمکیوں والے میسجز کے سکرین شارٹ بھی ٹویٹر پر شیئر کیے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انھیں کچھ ہوا توپی ٹی آئی کی موجودہ قیادت ذمہ دارہوگی۔

فیصل آباد میں بھی تحریک انصاف کے کارکنوں نے اپنے سٹی صدر اور ایم پی اے لطیف نذر،ایم این اے فیض اللہ کموکا،صوبائی وزیر خیال احمد کاسترو،ایم پی ایز شکیل شاہد،فردوس رائے،میاں وارث اور سٹی جنرل سیکرٹری حسن نیازی کی قیادت میں پی ٹی آئی کے منحرف ارکان قومی اسمبلی راجہ ریاض احمد اور ملک نواب شیر وسیر کے خلاف ضلع کونسل چوک میں احتجاج کیا اور منحرف ارکان کے پوسٹر نذر آتش کیے۔

لاہورمیں تحریک انصاف یوتھ ونگ کے کارکنوں نے مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی رکن قومی اسمبلی وجیہہ قمر کے گھر کے باہر جوتے ،انڈے اور لوٹے اٹھا کر مظاہرہ کیا۔کارکنان رکن اسمبلی کے گھر کے دروازے پر چڑھ کر نعرے لگاتے رہے۔ گھرکی دیوار اور گاڑی پر بھی لوٹے رکھ گئے۔ ملتان میں بھی تحریک انصاف کے کارکنوں نے منحرف اراکین اسمبلی ملک احمد حسین ڈیہڑ اور رانا قاسم نون کے خلاف نعرے بازی کی۔

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے ہنگامی حالات کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون کے ایک کلومیٹرعلاقے میں دو ماہ کیلیے دفعہ 144کا نفاذ کردیا ہے۔ وفاقی وزرا نے کہا ہے تحریک انصاف میں مائنس ون کی گنجائش نہیں،وفاداری بدلنے پر نا اہلی کیلیے سپریم کورٹ میں پیر کو ریفرنس دائر کیا جائیگا۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی ، وزیراطلاعات فوادچودھری اور وزیر منصوبہ بندی اسد عمرنے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت سیاسی کمیٹی کا اجلاس ہوا،جس میں فیصلہ ہوا تحریک عدم اعتمادکا مقابلہ کریں گے اور شکست دیں گے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا ہم جمہوری لوگ ہیں، کسی طرح کی رکاوٹ کھڑی نہیں کریں گے۔سندھ میں گورنر راج کا ارادہ تھا نہ ہے، اتحادیوں کے متعلق قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں مگر مسلسل کہہ رہا ہوں وہ ہمیں نہیں چھوڑیں گے، چودہری صاحبان کو جانتا ہوں، وہ جذباتی نہیں، سیاسی فیصلے کرتے ہیں،انھیں علم ہے ن لیگ ان کیلیے کتنی گنجائش رکھتی ہے،2018 ء میں ان کے راستے میں روڑے ن لیگ نے اٹکائے، ایم کیو ایم والے بھی سیاسی لوگ ہیں ،وہ گذشتہ چار برسوں میں اپنے ساتھ پیپلز پارٹی کا سلوک نہیں بھولیں گے۔وہ لوگ جو سندھ ہاؤس میں ہیں، انھیں علم ہے آئین اور قانون کا تقاضا کیا ہے؟وہ بلے کے نشان پر جیت کر آئے ،مخالف کی گود میں نہیں بیٹھیں گے،ن لیگ نے ماضی میں کئی لوگوں سے ٹکٹ کے وعدے کیے جو ایفا نہ ہوئے۔انھوں نے کہا آج کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر کوئی اپیل کے باوجود منحرف ہوتا ہے تو اسے شو کاز نوٹس جاری کیا جائے گا۔

پی ٹی آئی کے لیڈروں اور کارکنوں کا اپنی پارٹی کے منحرف ارکان اسمبلی کے خلاف احتجاج کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ سب کچھ قانون کے دائرے کے اندر رہ کر اور جمہوری روایات اور اقدار کے مطابق کیا جانا چاہیے ۔ احتجاج کا مقصد کسی کو ڈرانا دھمکانا اور کردار کشی کرنا نہیں ہونا چاہیے خصوصاً وہ لوگ جو قومی اسمبلی جیسے معزز ادارے کے رکن ہیں، انھیں تو کوئی ایسا عمل نہیں کرنا چاہیے جس سے پارلیمنٹیرینز اور پارلیمنٹ پر حرف آئے۔

ارکان قومی اسمبلی کا مقصد ملک کے لیے قوانین بنانا ہے، جب قوانین بنانے والے خود ہی قوانین توڑیں گے اور اپنے حامیوں کو قوانین توڑنے کی ترغیب دلائیں گے تو پھر ملک میں جمہوریت کا اللہ ہی حافظ ہے۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی ہے تو قواعد پر عمل کرتے ہوئے اس کا سامنا کرنا چاہیے ۔ اگر کوئی رکن اسمبلی ڈیفکشن کلاز کی زد میں آتا ہے تو اس کے بارے میں قانون موجود ہے۔ ان کے خلاف قانون کے دروازے پر دستک دینا چاہیے نہ کہ اپنی مرضی کی پالیسی بنا کر گھیراؤ جلاؤ کا آپشن اختیار کرنا چاہیے۔

جمہوریت کا سبق یہ ہے کہ جو برسراقتدار پارٹی دوبارہ اپوزیشن میں بھی ہو سکتی ہے اور اپوزیشن پارٹی اقتدار میں بھی آ سکتی ہے۔ یہ سلسلہ جمہوری اصول اور روایت کا لازمی حصہ ہے، اسی پر عمل کیا جانا چاہیے ۔ یہ ملک کی سیاسی قیادت کے فہم ودانش، تدبر اور حکمت کا امتحان ہے۔
Load Next Story