اسلامو فوبیا
کچھ متعصب یا خریدے ہوئے لوگ ہمارے رسولِ پاکؐ کے بارے میں مسلسل گستاخانہ ا ور انتہائی منفی روّیہ اپنائے ہوئے ہیں
انسانوں کی طرح لفظ بھی پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں مگر ان کے اس عمل کی رفتار اور مقدار نسبتاً بہت سست اور کم ہوتی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں زیادہ تربچے فطری عمل کے بجائے ٹیسٹ ٹیوب کی پیداوارہوتے ہیں اور یہ کسی خاص مقصد کے تحت باقاعدہ پلاننگ کے ذریعے تخلیق کیے جاتے ہیں۔
غورسے دیکھئے تو ''اسلاموفوبیا'' کی اصطلاح بھی ایک ایسا ہی بچہ ہے جسے نائن الیون کی کوکھ سے ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت پیدا کیا گیا کہ نوے کی دہائی میں رُوس کی عارضی شکست کے بعد امریکہ بہادر اور سرمایہ دارانہ معیشت کو ایک Target Enemy کی سخت ضرورت تھی کہ اُس وقت تک ابھی عوامی جمہوریہ چین اُن کیلیے اُس سطح کا خطرہ نہیں بنا تھا جیسا کہ آج ہے۔
سوشامت بیچارے مسلمانوں کی آگئی جو گزشتہ ایک صدی سے اپنی غربت ، جہالت اور پسماندگی سے نکلنے کی آدھی ادھوری کوششیں کر رہے تھے، کہنے کو اُنکی تعداد ڈیڑھ ارب سے زیادہ اور اقوام متحدہ میں مسلم اکثریت والے ممالک کی تعداد57 تھی لیکن عملی طور پر زیادہ آبادی والے ممالک(پاکستان، انڈونیشیا، ملائشیا ،بنگلہ دیش، ایران اور ترکی) مختلف صلاحیتوں کے حامل ہونے کے باوجود معاشرتی اعتبار سے پسماندہ تھے جبکہ باوسائل ملک مثلاً سعودی عرب ، عراق، لیبیا ، شام ، برونائی ، قطر اور یواے ای وغیرہ OIC کے ممبر ہونے کے باوجود مسلم اُمہ کی اجتماعی ترقی کے بجائے زیادہ تر اپنے مفادات کے اسیر تھے، اُن کی بیشتر دولت مغربی بنکوں میں جمع تھی اور ان کے حکمران طبقے مکمل طور پر مغرب کے قبضے میں تھے، ان میں سے صرف تین ملک یعنی لبیا ، عراق اور شام ہی ایسے تھے جن کی وفاداریاں بوجوہ مشکوک تھیں جبکہ واحد ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ملک پاکستان کو بھٹو کی پھانسی کے ذریعے واضح طور پر سمجھایا جاچکا تھا کہ امریکہ بہادر کی حکم عدولی یا اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے، سو اس صورتحال میں بظاہر ''اسلاموفوبیا'' کی کوئی گنجائش موجود نہیں تھی۔
اب یہ کمال اُنکے میڈیا ، سیاسی بازیگروں اور معاشی مفادات کا ہے کہ انھوں نے اسامہ بن لادن، قذافی اورصدام حسین جیسے لوگوںکو ''ہوا'' بنا کر پہلے تو ساری دنیا کے سامنے اس طرح سے پیش کیا جیسے یہ امن عالم کے سب سے بڑے دشمن ہوں اور پھر خود ہی مدّعی ، گواہ اور عدالت بن کر ان کے خلاف ایک ایسا فیصلہ جاری کیا جسکی وجہ سے نہ صرف یہ تینوں افراد بے دردی سے قتل کر دیے گئے بلکہ اُنکے ملکوں پر بے بنیاد اور جھوٹے الزام لگا کر نہ صرف اُن کو تباہ کیا گیا بلکہ اُنکے قیمتی وسائل یعنی پٹرول اور سونے پر اس طرح سے قبضہ کیا گیا کہ ساری دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی جبکہ اس سارے عمل میں ''اسلاموفوبیا'' کے ایک خود ساختہ تصور کو اس قدر ہوا دی گئی کہ نہ صرف اُن کی جارحیت کو لائسنس مل گیا بلکہ براہ راست متاثر ہونے والی مسلم اُمہ بھی سرنگوں ہو کر بیٹھ گئی۔
15مارچ2022ء کو پہلی بار اس ''اسلامو فوبیا'' کے غبارے سے ہوا نکلی ہے اور اس کا کریڈٹ او آئی سی کے 57 ممبرز میں سب سے زیادہ پاکستان کو اور اسکے بعد عمران خان کو جاتاہے۔ یہ بات میں ہر قسم کی سیاست سے بالاتر ہوکر کہہ رہا ہوں، مجھے بھی وزیراعظم کے بعض فیصلوں ، روّیوں اور مخالفین کے ناموں کی بگاڑ کر لینے سے اتفاق نہیں لیکن یہ معاملہ ہمارے قومی اور اندرونی سیاست سے بہت بڑا اور یہ کارنامہ غیر مشروط تعریف اور داد کا حق دار ہے کہ یہ مسئلہ دنیا بھر کے مسلمانوں اور بالخصوص مغربی ممالک میں مقیم لوگوں اور خاندانوں کیلیے ایک مسلسل عذاب کی صُورت اختیار کر چکا تھا اور ایمانداری کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جو جس کا حق ہو وہ اس کو ملنا چاہیے، چاہے وہ آپ کا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اسی ''اسلامو فوبیا'' اور نام نہاد''آزادی ِ رائے'' کی آڑلے کر کچھ متعصب یا خریدے ہوئے لوگ ہمارے رسولِ پاکؐ کے بارے میں مسلسل گستاخانہ ا ور انتہائی منفی روّیہ اپنائے ہوئے ہیں جسکی وجہ سے مغرب کا عام درمیانے درجے کا پڑھا لکھا آدمی اسلام دشمنی کی طرف مائل ہوتا جارہا ہے، اُن کی اس سوچ کو مزید توانائی دینے کیلیے ''اسلاموفوبیا'' کی تشہیر کے ذریعے ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت اس گھٹیا ذہنیت کو پروان چڑھایا جا رہا تھا جس کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان خوفزدہ ہوتے چلے جارہے تھے اور کسی میں اتنی ہمت اور صلاحیت نہیں تھی کہ وہ کسی مناسب اور نتیجہ خیز طریقے سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتا، اس ضمن میں اب تک واحد مؤ ثر ردّعمل بھی پاکستان ہی میں بنائی گئی ایک 13 منٹ کی ڈاکیومینڑی میںدیا گیا ہے جسے یو ٹیوب پر اب تک دو کروڑ سے زیادہ لوگ دیکھ چکے ہیں۔ یو ٹیوب اور فیس بک پر آپ اسے "Blessing for all" کے زیرِ عنوان دیکھ سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ بھٹو کی طرح عمران کو بھی اُ س کے Absolutely not کا مزا چکھانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ میری ذاتی رائے میں 15 مارچ کو اقوام متحدہ کی سطح پر ''اسلامو فوبیا'' کے خلاف عالمی دن قرار دیا جانا ساری اسلامی دنیا کے لیے ایک کامیابی کی خوش خبری ہے، سو اسے ملک کے اندر جاری سیاسی کشمکش اور گرم بازاری سے علاحدہ رکھنا حکومت اور اپوزیشن دونوں کی یکساں ذمہ داری ہے۔
موجودہ حکومت رہے یا نہ رہے اس بحث میں پڑے بغیر میں یہ کہنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اس کارنامے کی حد تک ہم سب کا عمران خان کو آفرین کہنا بنتا ہے ۔ممکن ہے کچھ لوگ میری اس بات کو بھی سیاسی رنگ دینے کی کوشش کریں لیکن میں اپنے ضمیر کی حد تک بالکل مطمئن ہوں کہ میری یہ رائے ربِ کریم کے اُس حکم کے عین مطابق ہے جس کا مفہوم یہی ہے جس بات کو سچ سمجھتے ہو اس کا اظہار کھل کر کیا کرو کہ اس سے نیکی کو فروغ اور استحکام ملتا ہے اور اس کی جزا افراد کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کو بھی ملتی ہے ۔
غورسے دیکھئے تو ''اسلاموفوبیا'' کی اصطلاح بھی ایک ایسا ہی بچہ ہے جسے نائن الیون کی کوکھ سے ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت پیدا کیا گیا کہ نوے کی دہائی میں رُوس کی عارضی شکست کے بعد امریکہ بہادر اور سرمایہ دارانہ معیشت کو ایک Target Enemy کی سخت ضرورت تھی کہ اُس وقت تک ابھی عوامی جمہوریہ چین اُن کیلیے اُس سطح کا خطرہ نہیں بنا تھا جیسا کہ آج ہے۔
سوشامت بیچارے مسلمانوں کی آگئی جو گزشتہ ایک صدی سے اپنی غربت ، جہالت اور پسماندگی سے نکلنے کی آدھی ادھوری کوششیں کر رہے تھے، کہنے کو اُنکی تعداد ڈیڑھ ارب سے زیادہ اور اقوام متحدہ میں مسلم اکثریت والے ممالک کی تعداد57 تھی لیکن عملی طور پر زیادہ آبادی والے ممالک(پاکستان، انڈونیشیا، ملائشیا ،بنگلہ دیش، ایران اور ترکی) مختلف صلاحیتوں کے حامل ہونے کے باوجود معاشرتی اعتبار سے پسماندہ تھے جبکہ باوسائل ملک مثلاً سعودی عرب ، عراق، لیبیا ، شام ، برونائی ، قطر اور یواے ای وغیرہ OIC کے ممبر ہونے کے باوجود مسلم اُمہ کی اجتماعی ترقی کے بجائے زیادہ تر اپنے مفادات کے اسیر تھے، اُن کی بیشتر دولت مغربی بنکوں میں جمع تھی اور ان کے حکمران طبقے مکمل طور پر مغرب کے قبضے میں تھے، ان میں سے صرف تین ملک یعنی لبیا ، عراق اور شام ہی ایسے تھے جن کی وفاداریاں بوجوہ مشکوک تھیں جبکہ واحد ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ملک پاکستان کو بھٹو کی پھانسی کے ذریعے واضح طور پر سمجھایا جاچکا تھا کہ امریکہ بہادر کی حکم عدولی یا اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے، سو اس صورتحال میں بظاہر ''اسلاموفوبیا'' کی کوئی گنجائش موجود نہیں تھی۔
اب یہ کمال اُنکے میڈیا ، سیاسی بازیگروں اور معاشی مفادات کا ہے کہ انھوں نے اسامہ بن لادن، قذافی اورصدام حسین جیسے لوگوںکو ''ہوا'' بنا کر پہلے تو ساری دنیا کے سامنے اس طرح سے پیش کیا جیسے یہ امن عالم کے سب سے بڑے دشمن ہوں اور پھر خود ہی مدّعی ، گواہ اور عدالت بن کر ان کے خلاف ایک ایسا فیصلہ جاری کیا جسکی وجہ سے نہ صرف یہ تینوں افراد بے دردی سے قتل کر دیے گئے بلکہ اُنکے ملکوں پر بے بنیاد اور جھوٹے الزام لگا کر نہ صرف اُن کو تباہ کیا گیا بلکہ اُنکے قیمتی وسائل یعنی پٹرول اور سونے پر اس طرح سے قبضہ کیا گیا کہ ساری دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی جبکہ اس سارے عمل میں ''اسلاموفوبیا'' کے ایک خود ساختہ تصور کو اس قدر ہوا دی گئی کہ نہ صرف اُن کی جارحیت کو لائسنس مل گیا بلکہ براہ راست متاثر ہونے والی مسلم اُمہ بھی سرنگوں ہو کر بیٹھ گئی۔
15مارچ2022ء کو پہلی بار اس ''اسلامو فوبیا'' کے غبارے سے ہوا نکلی ہے اور اس کا کریڈٹ او آئی سی کے 57 ممبرز میں سب سے زیادہ پاکستان کو اور اسکے بعد عمران خان کو جاتاہے۔ یہ بات میں ہر قسم کی سیاست سے بالاتر ہوکر کہہ رہا ہوں، مجھے بھی وزیراعظم کے بعض فیصلوں ، روّیوں اور مخالفین کے ناموں کی بگاڑ کر لینے سے اتفاق نہیں لیکن یہ معاملہ ہمارے قومی اور اندرونی سیاست سے بہت بڑا اور یہ کارنامہ غیر مشروط تعریف اور داد کا حق دار ہے کہ یہ مسئلہ دنیا بھر کے مسلمانوں اور بالخصوص مغربی ممالک میں مقیم لوگوں اور خاندانوں کیلیے ایک مسلسل عذاب کی صُورت اختیار کر چکا تھا اور ایمانداری کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جو جس کا حق ہو وہ اس کو ملنا چاہیے، چاہے وہ آپ کا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اسی ''اسلامو فوبیا'' اور نام نہاد''آزادی ِ رائے'' کی آڑلے کر کچھ متعصب یا خریدے ہوئے لوگ ہمارے رسولِ پاکؐ کے بارے میں مسلسل گستاخانہ ا ور انتہائی منفی روّیہ اپنائے ہوئے ہیں جسکی وجہ سے مغرب کا عام درمیانے درجے کا پڑھا لکھا آدمی اسلام دشمنی کی طرف مائل ہوتا جارہا ہے، اُن کی اس سوچ کو مزید توانائی دینے کیلیے ''اسلاموفوبیا'' کی تشہیر کے ذریعے ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت اس گھٹیا ذہنیت کو پروان چڑھایا جا رہا تھا جس کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان خوفزدہ ہوتے چلے جارہے تھے اور کسی میں اتنی ہمت اور صلاحیت نہیں تھی کہ وہ کسی مناسب اور نتیجہ خیز طریقے سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتا، اس ضمن میں اب تک واحد مؤ ثر ردّعمل بھی پاکستان ہی میں بنائی گئی ایک 13 منٹ کی ڈاکیومینڑی میںدیا گیا ہے جسے یو ٹیوب پر اب تک دو کروڑ سے زیادہ لوگ دیکھ چکے ہیں۔ یو ٹیوب اور فیس بک پر آپ اسے "Blessing for all" کے زیرِ عنوان دیکھ سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ بھٹو کی طرح عمران کو بھی اُ س کے Absolutely not کا مزا چکھانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ میری ذاتی رائے میں 15 مارچ کو اقوام متحدہ کی سطح پر ''اسلامو فوبیا'' کے خلاف عالمی دن قرار دیا جانا ساری اسلامی دنیا کے لیے ایک کامیابی کی خوش خبری ہے، سو اسے ملک کے اندر جاری سیاسی کشمکش اور گرم بازاری سے علاحدہ رکھنا حکومت اور اپوزیشن دونوں کی یکساں ذمہ داری ہے۔
موجودہ حکومت رہے یا نہ رہے اس بحث میں پڑے بغیر میں یہ کہنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اس کارنامے کی حد تک ہم سب کا عمران خان کو آفرین کہنا بنتا ہے ۔ممکن ہے کچھ لوگ میری اس بات کو بھی سیاسی رنگ دینے کی کوشش کریں لیکن میں اپنے ضمیر کی حد تک بالکل مطمئن ہوں کہ میری یہ رائے ربِ کریم کے اُس حکم کے عین مطابق ہے جس کا مفہوم یہی ہے جس بات کو سچ سمجھتے ہو اس کا اظہار کھل کر کیا کرو کہ اس سے نیکی کو فروغ اور استحکام ملتا ہے اور اس کی جزا افراد کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کو بھی ملتی ہے ۔