تاریخ سے سبق سیکھا جائے

سرد جنگ میں سوویت بلاک کی شکست کے اسباب میں ہمارے بالادست طبقات کے لیے غور و فکر کے پہلو پنہاں ہیں


Zahida Hina March 20, 2022
[email protected]

کراچی: دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں اس جنگ کا آغاز ہوا، جسے سرد جنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہ سرد جنگ تقریباً 40 سال جاری رہی۔ سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں دنیا عملاً دو حصوں بلکہ یوں کہیے کہ دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی تھی۔

اسی حوالے سے اس دور کی دنیا کو دو قطبی دنیا کہا جاتا تھا۔ یہ سرد جنگ دو عظیم طاقتوں اور ان کے حلیفوں کے درمیان لڑی گئی۔ امریکا اور سوویت یونین ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ دونوں ملکوں کا شمار دنیا کی عظیم ترین فوجی طاقتوں میں تھا۔ ان کے پاس جوہری اسلحے اور میزائلوں کے انبار تھے جو کرئہ ارض کو سیکڑوں مرتبہ تباہ کرنے کے لیے کافی تھے۔ سرد جنگ کے چالیس سالہ دور میں سیکڑوں چھوٹی بڑی لڑائیاں لڑی گئیں جن میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بنے اور بہت سے ملکوں کو کھربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔

اس جانی اتلاف اور وسائل کے زیاں کے باوجود دونوں عظیم طاقتوں نے امن اور مفاہمت کا راستہ تلاش کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ اس بات کو ترجیح دی کہ باہمی مخاصمت کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ 1990 ء میں بالآخر یہ طویل سرد جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔ سوویت یو نین کا شیرازہ بکھر گیا اور پورا سوویت بلاک منہدم ہوگیا۔

20 ویں صدی کے خاتمے کے ساتھ ہی اس المناک باب کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن اس اہم سوال پر بحث و تمحیص کا سلسلہ ابھی برسوں جاری رہے گا کہ دو بلاکوں کی اس جنگ میں سوویت بلاک کو شکست کا سامنا کیوں کرنا پڑا اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کو فتح کیوں حاصل ہوئی؟ آج کی دنیا میں یہ بحث بہت سے لوگوں کو غیر متعلق محسوس ہوگی لیکن میرے خیال میں سوویت یونین کی شکست و ریخت میں پوری دنیا اور بالخصوص ترقی پذیر ملکوں کے لیے غور و فکر کے کئی پہلو نمایاں ہیں۔

سرد جنگ دراصل دو متضاد سیاسی اور معاشی نظاموں کے درمیان کشاکش کا نتیجہ تھی۔ اس لیے یہ دیکھنا چاہیے کہ سوویت یونین کے وہ کون سے کمزور پہلو تھے جن کے باعث اس کا شیرازہ بکھر گیا اور اسے مغرب کے ہاتھوں بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ مارکسی نظریے کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ لیکن اس نظریے کو بنیاد بنا کر سوویت یونین میں جو سیاسی نظام اپنایا گیا وہ جمہوری نہیں بلکہ آمرانہ تھا۔ اکتوبر انقلاب کے بانی ولادی میر الیچ لینن کے انتقال کے بعد اقتدار جوزف اسٹالن کے پاس آیا ،جس کے بعد اسٹالن نے سوویت یونین میں ایک بدترین شخصی آمریت قائم کرلی۔ اسٹالن نے پارٹی میں اپنے مخالفین کا صفایا کردیا۔

فوج اور پارٹی بیوروکریسی کے ذریعے ملک پر اتنا بھیانک آمرانہ نظام مسلط کردیا کہ عام شہری تو درکنار اہم نائبین بھی اسٹالن سے اختلاف کرنے کی جرات نہیں کرسکتے تھے۔ اسٹالن کے بعد جب خروشچیف برسر اقتدار آئے تو انھوں نے ملک میں بعض اصلاحات کرنی چاہیں اور ایک اعلیٰ سطح کانفرنس کے دوران اسٹالن کے دور پر تنقید کی۔ اسی دوران شرکاء میں سے کسی نے کہا کہ آپ کو یہ تنقید اسٹالن کے سامنے کرنی چاہیے تھی۔

خروشچیف چند لمحوں کے لیے خاموش رہے پھر انھوں نے کہا کہ جس نے یہ سوال کیا ہے وہ اٹھ کر اپنے سوال کو دہرائے۔ اجلاس پر سکتہ طاری ہوگیا اور کوئی فرد خوف کے مارے اپنی نشست سے کھڑا نہیں ہوا۔ خروشچیف نے کہا '' جس خوف سے یہ بات کہنے والا کھڑ نہیں ہوا ہے، اسی خوف سے میں نے بھی اسٹالن سے اختلاف کرنے کی جرأت نہیں کی تھی۔ ''

خروشچیف نے سوویت نظام میں اصلاحات کی کوششیں کیں لیکن انھوں نے بھی جمہوریت کی اہمیت کو کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ اس نظام کو سرمایہ داروں کی آمریت کا نام دیا۔ جمہوریت کی عدم موجودگی اور آمرانہ نظام کے تسلط نے پورے سوویت یونین کو گھن کی طرح کھانا شروع کردیا۔ پارٹی کا سیکریٹری ملک کے اقتدار اعلیٰ کا بلاشرکت غیرے مالک تھا اور وہ اپنے افکار و خیالات کے مطابق سوویت یونین کو ''مضبوط ومستحکم '' کررہا تھا۔

جمہوری حقوق کے نہ ہونے کے باعث اظہار رائے کی آزادی نہیں تھی۔ نہ کوئی سیاسی جماعت بنائی جاسکتی تھی اور نہ حکومت کے خلاف احتجاج یا مظاہرے کیے جاسکتے تھے۔ کہنے کو تو یہ مزدوروں اور کسانوں کی حکومت تھی لیکن خود مزدوروں اور کسانوں کو ٹریڈ یونین بنانے اور اپنے مطالبات و مسائل کے حق میں آواز بلند کرنے کی آزادی نہیں تھی۔ ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں کو یہ آزادی نہیں تھی کہ وہ ریاستی نظریے اور پالیسی کے خلاف کچھ لکھ یا بول سکیں۔

تمام اخبارات حکومت کی ملکیت تھے اور ان میں صرف پارٹی سربراہ کی اور حکومت کی تعریف میں مضامین شائع ہوسکتے تھے۔ جن چند ادیبوں اور دانش وروں نے انحراف کی جرات کی انھیں سامراجی دلال قرار دے کر ذلیل و رسوا کیا گیا۔ سوویت یونین میں بہت سی قومیتیں آباد تھیں۔ ان کی زبان، تاریخ اور ثقافت جداگانہ تھی لیکن انھیں قومیت اور ثقافت کے حوالوں کو اجاگر کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ عدم ارتکاز کے نام پر کمیون یا ضلع کونسلیں بنائی گئیں لیکن یہ کمیون، مرکز کے تابع تھے جہاں اختیارات صرف ایک آمر کی ذات میں مرتکز تھے۔

آمریت اور جبر کے طویل دور کے باعث سوویت عوام ریاستی امور سے لاتعلق ہوگئے۔ ان کی تخلیقی صلاحیتیں ماند پڑنے لگیں اور ان کے اندر اس جوش اور ولولے کا خاتمہ ہونے لگا جو قوموں کی ترقی کے لیے لازمی ہوتا ہے۔ انھیں کام کرنے یا پیداوار بڑھانے سے کوئی عملی دلچسپی نہیں رہی اور سوویت معیشت رفتہ رفتہ جمود کا شکار ہونے لگی۔ آمروں کا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ انسانوں کا اصل مسئلہ حقوق نہیں بلکہ مادی مسائل ہیں۔ اگر ان کا پیٹ بھر دیا جائے اور حالات زندگی کو بہتر بنادیا جائے تو وہ آزادی اور حقوق کے لیے اصرار نہیں کریں گے۔ یہ نظریہ سوویت یونین میں بھی آزمایا گیا اور ناکام ثابت ہوا۔

انسان اور جانور میں بنیادی فرق بھی یہی ہے کہ جانور کو صرف خوراک چاہیے جبکہ انسانوں کومادی خوشحالی کے ساتھ ساتھ جمہوری اور انسانی حقوق کی بھی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ خود کو آزاد اور بااختیار محسوس کریں اور مادی ترقی کے ثمرات کے ساتھ ساتھ ، جمالیاتی اور تخلیقی لطف سے بھی ہم کنار ہوسکیں۔ جمہوریت ان دونوں عناصر کے بہترین امتزاج کا نام ہے۔ سوویت یونین میں آمریت تھی لہٰذا جب وہاں یہ نظام زمیں بوس ہوا تو وہاں کے لوگوں نے روٹی کپڑا اور مکان کی ضمانت ہونے کے باوجود کسی قسم کا کوئی احتجاج نہیں کیا، بلکہ آمرانہ نظام کے جبر کا شکار ہونے والی قومیتوں نے آزادی کا اعلان کردیا اور دنیا کی یہ عظیم طاقت پندرہ آزاد ریاستوں میں تقسیم ہوگئی۔

سرد جنگ میں سوویت بلاک کی شکست کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ اس ملک نے اپنے زیادہ تر وسائل کو فوج اور اسلحے پر خرچ کیا۔ جوہری اور روایتی اسلحے کی تیاری، فوج کی تعداد میں اضافے اور خلائی پروگرام کو اولیت دی گئی۔ جب زیادہ وسائل غیر پیداواری شعبوں میں صرف ہونے لگے تو عام آدمی کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہونے لگا۔ ڈبل روٹی، دودھ اور گوشت کے لیے ایک ایک کلومیٹر طویل قطاریں لگنے لگیں اور لوگوں کا معیار زندگی گرنے لگا، اگر سوویت یونین میں جمہوریت ہوتی تو عوام اس صورتحال پر احتجاج کرتے، حکومت کو خودکشی پر مبنی اس پالیسی سے ہٹنے پر مجبور کرتے اور سوویت یونین اس الم ناک انجام سے دوچار نہ ہوتا۔

امریکہ اور اس کے اتحادی ملک کے حکمران طبقات بھی نہ صرف دنیا کے غریب ملکوں بلکہ خود اپنے عوام کا استحصال کرتے ہیں، لیکن وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ملکوں اور معاشروں کو انتشار اور شکست و ریخت سے بچانے کا راز معاشی ترقی اور جمہوری آزادیوں میں مضمر ہے اور ان دونوں عوامل کی موجودگی، ملکوں کو جغرافیائی سلامتی اور معاشی خوش حالی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔

سرد جنگ میں سوویت بلاک کی شکست کے اسباب میں ہمارے بالادست طبقات کے لیے غور و فکر کے پہلو پنہاں ہیں۔ آمریت پر اصرار اور وسائل کو خرچ کرتے ہوئے معاشی ترجیحات سے انکار کا رویہ اگر ختم نہ کیا گیا تو یہی سمجھا جائے گا کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں