اسلام آباد میں خوبرو غیرملکی خواتین کی آمد عرصے سے جاری
سیکڑوں غیر ملکی خواتین ملک میں جعلی دستاویزات یا انسانی اسمگلروں کی مددسے داخل ہوئیں اوراب ان کا ویزہ بھی ختم ہوچکا ہے
اسلام آباد ایئرپورٹ سے30جنوری کوبغیرامیگریشن نکالی جانے والی 2ازبک لڑکیوں کی گرفتاری کے لئے چھاپوں میں12 غیر ملکی لڑکیوں کی گرفتاری اسلام آباد پولیس اور وفاقی حکومت کے لئے سوالیہ نشان ہے کہ کچھ افسران اور سیاسی افراد کی مہربانی سے یہ غیرملکی خواتین کس طرح یہاں پہنچ کر غیرقانونی کاموں میں ملوث تھیں۔ایف آئی اے نے بدھ کواسلام آباد کے پوش سیکٹروں ایف 10اورایف11میں چھاپے مارکر ان غیر ملکی لڑکیوں کوگرفتارکیا تھا
ذرائع کے مطابق موجودہ حالات میں دہشت گردی کے سنجیدہ خطرات کے پیش نظروفاقی دارالحکومت میں بڑی تعدادمیں غیرملکیوں، خاص کرنوجوان لڑکیوںکی موجودگی پریشان کن ہے۔ باوثوق ذرائع نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کوبتایاکہ سیکڑوں غیر ملکی لڑکیاں ایسی ہیں جویہاں جعلی دستاویزات یاانسانی اسمگلروں کی مددسے پہنچیں یااب ان کے ویزے کی مدت ختم ہوچکی ہے اور یہ صورتحال امن وامان کیلیے بڑا خطرہ ہے،یہ لڑکیاں اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کیلیے جسم فروشی،منشیات اور جوے جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہوتی ہیں ۔
ذرائع کے مطابق دہشت گردوںکی جانب سے اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے اوراہم عہدوں پرتعینات حکام کودھوکہ دینے کیلیے ان خوبرولڑکیوںکو استعمال کرنے کاخطرہ بھی ہمیشہ رہتا ہے،اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ ایسی لڑکیاں بااثرمقامی ساتھیوںکے تعاون سے کسی بھی حساس علاقے میں داخل ہوسکتی ہیں۔ذرائع کے مطابق 2ازبک لڑکیوںکی آمدکایہ پہلاواقعہ نہیں،اس طرح کے واقعات عرصے سے منظم نیٹ ورک کے تحت جاری ہیں، تشویشناک بات یہ ہے کہ ان میں سے بیشترلڑکیوں کے یا توپاسپورٹ نہیں تھے یا ویزوں کی مدت ختم ہوچکی تھی۔اسلام آبادمیںغیرملکیوںکی غیرقانونی موجودگی حکومتی شخصیات کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔
اس حوالے سے موقف لینے کیلیے آئی جی اسلام آباد سکندر حیات سے رابطہ کیا گیا لیکن ان سے بات نہ ہوسکی۔دوسری طرف آن لائن کے مطابق گرفتار12غیر ملکی لڑکیوں نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ ان کی غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ایف آئی اے کا ایک افسر اور اسلام آباد پولیس کا اہلکار بھی ملوث تھا۔ایف آئی اے کا افسر ظریفہ نامی خاتون سے ماہانہ ساڑھے 4لاکھ روپے لیتا تھا۔پولیس اہلکاران لڑکیوںکو اپنی گاڑی میں ڈپلومیٹک انکلیو پہنچاتا۔آذربائیجان سے تعلق رکھنے والی خاتون ظریفہ انٹرل پول کو مطلوب انسانی اسمگلر ہے۔رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے نے خواتین کی قومیت کے مطابق ان کے سفارتخانوں سے رابطہ کرلیا ہے۔ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے ان تمام خواتین کیخلاف مقدمہ درج کیا ہے اور خواتین کو انسانی اسمگلروںکے ہاتھوں متاثرہ قرار دیا ہے ۔
ذرائع کے مطابق موجودہ حالات میں دہشت گردی کے سنجیدہ خطرات کے پیش نظروفاقی دارالحکومت میں بڑی تعدادمیں غیرملکیوں، خاص کرنوجوان لڑکیوںکی موجودگی پریشان کن ہے۔ باوثوق ذرائع نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کوبتایاکہ سیکڑوں غیر ملکی لڑکیاں ایسی ہیں جویہاں جعلی دستاویزات یاانسانی اسمگلروں کی مددسے پہنچیں یااب ان کے ویزے کی مدت ختم ہوچکی ہے اور یہ صورتحال امن وامان کیلیے بڑا خطرہ ہے،یہ لڑکیاں اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کیلیے جسم فروشی،منشیات اور جوے جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہوتی ہیں ۔
ذرائع کے مطابق دہشت گردوںکی جانب سے اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے اوراہم عہدوں پرتعینات حکام کودھوکہ دینے کیلیے ان خوبرولڑکیوںکو استعمال کرنے کاخطرہ بھی ہمیشہ رہتا ہے،اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ ایسی لڑکیاں بااثرمقامی ساتھیوںکے تعاون سے کسی بھی حساس علاقے میں داخل ہوسکتی ہیں۔ذرائع کے مطابق 2ازبک لڑکیوںکی آمدکایہ پہلاواقعہ نہیں،اس طرح کے واقعات عرصے سے منظم نیٹ ورک کے تحت جاری ہیں، تشویشناک بات یہ ہے کہ ان میں سے بیشترلڑکیوں کے یا توپاسپورٹ نہیں تھے یا ویزوں کی مدت ختم ہوچکی تھی۔اسلام آبادمیںغیرملکیوںکی غیرقانونی موجودگی حکومتی شخصیات کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔
اس حوالے سے موقف لینے کیلیے آئی جی اسلام آباد سکندر حیات سے رابطہ کیا گیا لیکن ان سے بات نہ ہوسکی۔دوسری طرف آن لائن کے مطابق گرفتار12غیر ملکی لڑکیوں نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ ان کی غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ایف آئی اے کا ایک افسر اور اسلام آباد پولیس کا اہلکار بھی ملوث تھا۔ایف آئی اے کا افسر ظریفہ نامی خاتون سے ماہانہ ساڑھے 4لاکھ روپے لیتا تھا۔پولیس اہلکاران لڑکیوںکو اپنی گاڑی میں ڈپلومیٹک انکلیو پہنچاتا۔آذربائیجان سے تعلق رکھنے والی خاتون ظریفہ انٹرل پول کو مطلوب انسانی اسمگلر ہے۔رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے نے خواتین کی قومیت کے مطابق ان کے سفارتخانوں سے رابطہ کرلیا ہے۔ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے ان تمام خواتین کیخلاف مقدمہ درج کیا ہے اور خواتین کو انسانی اسمگلروںکے ہاتھوں متاثرہ قرار دیا ہے ۔