معاشی چیلنجز اور حکومتی پالیسیاں

قوم مایوس ہے، اسے مایوسی سے نکال کر امید، ترقی وخوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرناحکومت اور ملکی سیاسی قیادت پر فرض ہے


Editorial March 21, 2022
قوم مایوس ہے، اسے مایوسی سے نکال کر امید، ترقی وخوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرناحکومت اور ملکی سیاسی قیادت پر فرض ہے۔ فوٹو : فائل

پاکستان کو عالمی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف سے 96کروڑ ڈالر کی اگلی قسط ملنے میں غیریقینی صورتحال کا سامنا ہے ، کیونکہ آئی ایم ایف کے اسٹاف مشن نے وزیراعظم کی جانب سے گزشتہ ماہ اعلان کردہ امدادی پیکیج کی مالی اعانت پر مزید سوالات اٹھائے ہیں۔

آئی ایم ایف کی جانب سے پٹرول ، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں ریلیف سمیت ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ۔دوسری جانب آئی ایم ایف کے ترجمان جیری رائس نے کہاہے کہ پاکستان کی معیشت کو بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے ۔پاکستان کے لیے تیل کی عالمی منڈی میں بڑھتی ہوئی قیمتیں چیلنج ہیں ، پٹرول مہنگا ہونے سے غذائی اشیاء مہنگی ہوسکتی ہیں اور غذائی اشیا کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی مزید بڑھے گی ۔

معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف بھی اس وقت ملک میں موجودہ سیاسی بحران کو بغور دیکھ رہا ہے اور کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے وہ عدم اعتماد تحریک کے نتیجے کا انتظار کرے گا۔اس وقت وزارتوں میں بہت کم وزیر نظر آرہے ہیں کیونکہ سب کے سب اس وقت سیاسی مسائل کو سلجھانے میں لگے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے ان وزارتوں کی بھی فیصلہ سازی متاثر ہو رہی ہے۔بیورو کریسی نے بھی ''دیکھو اور انتظار کرو'' کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔

اس وقت وزیروں کا اپنی وزارتوں میں اثر و رسوخ نہیں ، بیوروکریٹ کسی وزیر کی جانب سے کیے گئے فیصلے پر عمل درآمد کو بھی لٹکا رہے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ وزرا عدم اعتماد کے بعد رہیں گے یا نئے وزیر ہوں گے۔ملک میں عموماً پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت مالی سال کی آخری سہ ماہی کے شروع یعنی مارچ کے مہینے میں زیادہ فنڈز ریلیز ہوتے ہیں تاہم اس وقت ایسی صورتحال نظر نہیں آرہی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ سیاسی بحران نے حکومت کو ایسا پھنسایا ہوا ہے کہ وہ اس جانب توجہ دینے سے قاصر ہے اور انفرااسٹرکچر منصوبوں پر کام کی رفتار میں اس قدر اضافہ نہیں دیکھا جا رہا، جیسے کہ ماضی میں اس سہ ماہی میں دیکھنے میں آتا تھا۔

دوسر ی جانب وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ حکومتی اقدامات سے معیشت منفی سے اٹھ کر 5.6 کی سطح پر پہنچی، پاکستان کی معیشت اس وقت مستحکم ہوکر آگے بڑھ رہی ہے، اگر معیشت بہتر انداز میں بڑھتی رہے تو آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے، مالیاتی شفافیت لانے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے، عالمی بحران اور مہنگائی سے غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے، ہماری توجہ متاثرین اور کم آمدن طبقے کو پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔

خبروں کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے جائزہ مذاکرات مختلف محاذوں پرمبینہ خلاف ورزیوں کے سبب بے نتیجہ رہے ہیں ،جنھیں فنڈ کے عملے نے آئی ایم ایف کے متفقہ پروگرام سے انحراف قرار دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے عملے نے پٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ صنعتی شعبے کے لیے ٹیکس چھوٹ دینے پر وزیراعظم کے ریلیف پیکیج پر بھی شدید اعتراضات اٹھائے۔

آئی ایم ایف نے یہ شرط رکھی ہے کہ پاکستان کسی قسم کی ٹیکس چھوٹ نہیں دے گا اور یہ ایک مسلسل ساختی معیار کا حصہ ہے تاہم اسلام آباد نے اس مسلسل ساختی معیار کی خلاف ورزی کی جس کے لیے اب ساتویں جائزے کی تکمیل اور اگلی قسط کے اجراء کے لیے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے چھوٹ کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف نے اسلام آباد سے کہا ہے کہ وہ ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافہ کرے، زر مبادلہ کی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دے، کامیاب پاکستان پروگرام (کے پی پی) کو کم کرے اور اسے سمجھدار مالیاتی انتظام کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے ریلیف پیکیج کے اقدامات کو ریورس کرے۔

پاکستان کا اصل مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے جو بڑھتا جا رہا ہے اگر ہمارے پاس ڈالر زیادہ نہیں آتے تو مشکل ہو گی۔ ہمارے ٹریڈ ڈیفیسیٹ میں اہم فیکٹر تیل کی خرید ہے جو پچھلے ایک سال میں45 فیصد بڑھ چکی ہے جہاں آپ پہلے 100 ڈالر کا تیل منگواتے تھے اب وہ150 ڈالر کا منگوا رہے ہیں اگر تیل کی قیمتیں بڑھتی رہیں تو تجارتی خسارہ مزید بڑھے گا۔

دوسرا فیکٹر افغانستان کا ہے جب تک افغانستان میں صورتحال بہتر نہیں ہوتی اس وقت تک غیر ملکی انویسٹمنٹ نہیں آئیگی، پچھلے 10 سالوں میں بہت سی نئی صنعتیں بہت سے نئے شعبے آئے ان میں سرگرمیاں تیز ہوئیں اس میں ڈیٹ تو جی ڈی پی کے حوالے سے اہم ریلیف ہے آگے جو کام کرنا ہے۔اس میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو بڑھانا ہوگا۔جب کہ ٹیکس ٹوجی ڈی پی ریشو 9 سے نیچے ہے اس کا مطلب ہے کہ وہاں پر ابھی بھی پوٹینشل موجود ہے کہ ڈائریکٹ ٹیکسز کو آگے بڑھایا جائے۔

ماہرین کے مطابق اگر گھر کی آمدنی18000ہے اور خرچہ25000ہے تو یہ تشویشناک بات ہے۔ حکومت ہر سال قرضہ لے گی اور اسے اتارنے کے لیے مزید قرضہ لی گی یوں قرضہ بڑھتا جائے گا جب تک آمدنی میں اضافہ نہیں ہو گا بات نہیں بنے گی۔ پاکستان کے ساتھ یہی ہو رہا ہے آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔ ماہرین کے مطابق پچھلے10 سے12سال میں یہی ہو رہا ہے جتنی آمدنی ہوتی ہے اس کا 60 سے70 فیصد قرضوں اور سودکی ادائیگی میں چلا جاتا ہے صرف تین ملک ایسے رہے جن کا فیسکل ڈیفیسٹ نہیں تھا ان میں ناروے،سعودی عرب اور سوئٹزر لینڈ تھا باقی ممالک کا فیسکل ڈیفیسیٹ بڑھا ہے۔

امریکا کا7.8فیصدانڈیا کا 5.9فیصدتھا،پاکستان کا ٹوٹل تخمینہ جو لگایا گیا تھا وہ 4000ارب کا گیپ لگایاگیا تھا وہ اگر چھ ماہ بعد2000 ارب سے کم ہے تو وہ قابل تشویش نہیں ہے۔ اگرچہ ابھی بھی یہ کم ہونا چاہیے پاکستان کااصل مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے جو بڑھتا جا رہا ہے اگر ہمارے پاس ڈالر زیادہ نہیں آتے تو مشکل ہو گی۔ اگرچہ ای سی سی اور دوسرے فورمز نے فیصلے لیے ہیں لیکن ان کے فیصلوں پر اس وقت عمل درآمد نہیں ہو سکتا جب تک وفاقی کابینہ اس کی توثیق نہ کرے جس کا اجلاس گزشتہ تین ہفتوں میں تین بار ملتوی ہوا۔

اس وقت عوام بھاری ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ۔ مزدور طبقہ اور عام آدمی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ روپیہ ڈالر کی محکومیت کا شکار ہے اس معاشی افراتفری میں اشیاء کی قیمتوں کا کنٹرول میں رہنا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ بے شمار ٹیکس بھی قیمتوں میں اضافے کا موجب بن رہے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی ناجائز بلیک مارکیٹنگ اور رسد میں رکاوٹ بھی مہنگائی کا باعث ہوتی ہے۔ بے دریغ لیے گئے غیر ملکی قرضہ جات بھی معیشت کمزور کررہے ہیں ، حکومتی اخراجات اور معاشی خسارہ پورا کرنے کے لیے بے تحاشا نوٹ چھاپنے سے بھی افراط زر پھیلتا ہے۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم بھی مہنگائی کو بڑھاوا دیتی ہے کیونکہ دولت مند افراد کم وسائل کے حامل لوگوں کو لوٹنے لگ جاتے ہیں جو مہنگائی کا باعث بنتے ہیں۔

حکومت جب تک ذاتی مفادات کے برعکس اقتصادی استحکام کو ترجیح نہیں دیتی معاشی عدم استحکام ختم نہیں ہو سکتا۔لوگوں کے ذرایع آمدن پہلے ہی کورونا وائرس کے منفی اثرات کے باعث آدھے سے بھی کم ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر متوسط اور غریب طبقہ ہے جو کرائے کے گھروں میں رہائش پذیر ہے گزشتہ دس سالوں سے مکانوں اور دکانوں کے بڑھتے ہوئے کرائے بھی مہنگائی میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں جن کو کسی بھی حکومت نے کنٹرول کرنے کی کبھی نہ تو کوشش کی نہ ہی اس ضمن میں کبھی کوئی قانون سازی عمل میں آئی۔

پرائیویٹ اسپتالوں ڈاکٹروں اور اسکولوں کی بڑھتی ہوئی فیسیں اور مہنگی ادویات بھی مہنگائی میں اضافے کا اہم ذریعہ ہیں صحت اور تعلیم دونوں حکومت کی ذمے داری ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں جو سرکاری اسپتال یا اسکول ہیں وہاں علاج معالجہ اور تعلیم کا معیار اس قدر پست ہے کہ عوام ان کے حصول کے لیے پرائیویٹ اداروں کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہیں۔عوام سے لیے گئے ٹیکسوں کے عوض ریاست نے عوام کو صحت اور تعلیم کی جو معیاری سہولتیں فراہم کرنی ہوتی ہیں ان سہولتوں کی فراہمی بھی اشرافیہ تک محدود ہے ان حالات میں اشرافیہ نے کم آمدنی والے طبقات کو کچل کر رکھ دیا ہے۔

قوم مایوس ہے، اسے مایوسی سے نکال کر امید، ترقی وخوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرناحکومت اور ملکی سیاسی قیادت پر فرض ہے اور اس فرض کی انجام دہی میں کوتاہی ملک میں معاشی اور اقتصادی مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امرکی ہے کہ ملکی قیادت آپس کے اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملک کے اقتصادی اور معاشی نظام کی بحالی کے لیے عملی طور پر کوشش کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں