بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
موجودہ حکومت کی کارکردگی اگر اچھی ہوتی تو شاید اُسے یہ دن دیکھنا نہ پڑتے
MULTAN:
سیاست بھی ایک عجیب کھیل ہے۔ کس وقت کس لمحہ کیا ہو جائے کسی کو پتا نہیں ہوتا۔ اپوزیشن نے جب مہینہ دو مہینہ پہلے عدم اعتماد کا ڈول ڈالا تو مجھ سمیت کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ یہ تحریک اس قدر طاقتور ہوگی۔
بہت سے تجزیہ نگار اور مبصر حضرات بھی اس کے بارے میں ایسے ہی خیالات رکھ رہے تھے لیکن رفتہ رفتہ حالات نے جس کروٹ رخ بدلا ہے ، سارا منظر نامہ ہی تبدیل ہو چکا ہے۔ حکومت کے اتحادی تو اتحادی اُس کے اپنے لوگوں کی ایک تعداد بھی منحرف ہوچکی ہے اور اب کہا جا رہا ہے کہ یہ حکومت خطرے میں ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کو جو جتنا تاخیر سے بلایاجائے حکومت کے پاس بس اُتنے ہی دن باقی رہ گئے ہیں ، ورنہ عددی اعتبار سے اپنی اکثریت ثابت کرنے میں اس کی راہ میں رکاوٹیں بڑھ رہی ہے۔ آج سے چند دن پہلے تک حکومتی نمایندے اور ترجمان اپوزیشن کو ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری بیانوں میں اکثر چیلنج کرتے دکھائی دیتے تھے کہ اگر تمہارے پاس نمبر پورے ہوچکے ہیں تو دکھائو کہاں ہیں وہ نمبر۔ لیکن 17 مارچ کے روز جب یہ نمبر کھل کر عوام کے سامنے آگئے تو وہی لوگ اپنے منحرف ارکان کے خلاف ہو گئے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ 2018 میں یہ حکومت جب معرض وجود میں آئی تھی تو اس پر بھی بہت سے الزامات لگے تھے ۔ اس وقت ملک کی ایک بڑی طاقت چونکہ تحریک انصاف کی سپورٹ میں تھی اور اپوزیشن خود اپنے خلاف عدلیہ کے فیصلوں کی زد میں گھری ہوئی تھی اس لیے یہ سب کچھ سیاست کا ایک جائز عنصر سمجھ کر برداشت کر لیا گیا۔ اُس وقت مخالف سیاسی پارٹیوں سے جو، جو الگ ہوکر حکمراں جماعت میں شامل ہوتا رہا انھیں PTI کی طرف سے دونوں بانہیں کھول کر ویلکم کیا جاتا رہا۔ کرکٹ کی اصطلاح استعمال کرکے اِسے وکٹوں کا گرنا شمار کیا جاتا رہا۔ لیکن یہی لوگ اب جب حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہوکر واپس جانے لگے ہیں تو انھیں بکاؤ مال اور نجانے کیا کیا کہا جا رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ حکومت اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کو کتنے دنوں تک ٹال سکتی ہے۔OIC کی کانفرنس ایک ایسا معاملہ ہے جو دو دن سے زیادہ نہیں چل سکتا۔ یہ کانفرنس 25 مارچ کو ختم ہوجائے گی اور پھر اسپیکر صاحب کے پاس اور کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔1972 کے میونخ اولمپک میں ہماری ہاکی ٹیم نے جرمنی کے ساتھ فائنل میچ میں اپنی ہار کو تسلیم کرنے کے بجائے احتجاج کرتے ہوئے کچھ نامناسب طرز عمل اختیار کیا تھا۔ یہ درست ہے کہ اُس کے ساتھ اس میچ میں زیادتی کی گئی تھی لیکن اس احتجاج کا نتیجہ کیا نکلا، ہماری قومی ہاکی ٹیم پر کئی سالوں کے لیے بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں حصہ لینے پر پابندی لگادی گئی۔
ہماری ساری قوم نے اس وقت اپنی ہاکی ٹیم کے اس طریقہ احتجاج پر نہ صرف خوشی کا اظہار کیا تھا بلکہ اُسے درست اور جائز سمجھ کر اُسے سراہا بھی تھا ، مگر اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے بہت سے اچھے کھلاڑیوں کی وہ عمریں اسی پابندی کی نذر ہو کر رہ گئیں جس میں وہ اپنے کھیل سے دنیا کو بتلا سکتے تھے کہ پاکستان کی ہاکی ٹیم دنیا کی سب سے بہتر ہاکی ٹیم ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس بھی موقعہ ہے کہ وہ مشکلات سے نہ گھبرائے اور بدلتے حالات کی حقیقت کو قبول کرتے ہوئے معرکہ کے لیے تیار ہوجائے ۔
خان صاحب نے جب 1996 سے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تو انھوں نے اچھی سیرت کے پاک صاٖف لوگ پارٹی میں شامل کیے اور اپنے دعوے اور اُصول کے مطابق انھی کے ذریعے اقتدار میں آنے کی کوششیں کرتے رہے۔ لیکن کئی سالوں کی مشقت کے بعد بھی وہ دو تین نشستوں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ اُن کی ساری جدوجہد سیاست کو کرپشن سے پاک کرنا مقصود تھا ، لیکن 2011 میں یہ ساری جدوجہد اور اُصول روایتی سیاست کی نذر ہو گئے۔
الیکٹیبلز کو پارٹی میں شامل کرنے کو وہ '' راکٹ سائنس '' کا نام دیتے رہے اور انھی کے ذریعے وہ دو تین نشستوں سے بڑھ کراس مقام تک پہنچ گئے کہ 2018 کے الیکشن میں کامیاب ہوگئے ، جن پتوں پر تکیہ کر کے وہ اقتدار میں آئے تھے وہ پتے اب جب ہوا دینے لگے ہیں تو برہم اور خفا نہیں ہونا چاہیے۔ وہ پہلے بھی آپ کے نہیں تھے تو اب کیسے ہوسکتے ہیں، وہ اپنی کسی مجبوری یا پھر کسی دباؤکی وجہ سے آپ کے ساتھ ملے تھے لیکن اب یہ دباؤ جب کم ہونے لگا ہے اور وہ اگلے الیکشن میں عوام کا سامنا کرنے جا رہے ہیں تو موجودہ حکومت کی کارکردگی کے ساتھ کیسے جاسکتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے خود کو اس حکومت سے علیحدہ کرنے ہی کو اپنی خیریت جانا۔
مسلم لیگ (ن) کو بھی 2017 میںکچھ ایسے ہی حالات کاسامنا تھا لیکن اُس کے مخلص اور وفادار کارکن اُس کے ساتھ مضبوطی سے اس لیے جڑے رہے کہ اُس کی کارکردگی ایسی نہ تھی جیسی موجودہ حکومت کی رہی ہے۔ عوام آج بھی اُس حکومت کا موجودہ حکومت سے موازنہ کرتے ہیں تو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بلاشبہ مسلم لیگ حکومت کی کارکردگی اِس حکومت سے بہتر تھی۔
موجودہ حکومت کی کارکردگی اگر اچھی ہوتی تو شاید اُسے یہ دن دیکھنا نہ پڑتے۔ لوگوں کو کوئی شوق نہیں ہے کہ چند سالوں میں حکومت بدلتے رہیں۔ عوام آج اِس حکومت سے اس لیے نالاں ہیں کہ مہنگائی اور بیروزگاری نے اُن کی زندگی اجیرن بنا کے رکھ دی ہے۔
حکومت نے اگر اس جانب خیال کیا ہوتا تو کسی بھی اتحادی کو یہ سوچنا ہرگز نہ پڑتا کہ وہ کس منہ سے عوام کے سامنے جائیں گے۔ وہ اس حکومت کے ساتھ اُسی طرح جڑے رہتے جس طرح سابقہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اُس کے لوگ جڑے رہے ہیں۔ نیب کے کیسز اور بلاجواز قید بھی اُن کی وفاداریوں میں کوئی شق اور شگاف ڈالنے میں کامیاب نہ ہو پائی۔
سیاست بھی ایک عجیب کھیل ہے۔ کس وقت کس لمحہ کیا ہو جائے کسی کو پتا نہیں ہوتا۔ اپوزیشن نے جب مہینہ دو مہینہ پہلے عدم اعتماد کا ڈول ڈالا تو مجھ سمیت کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ یہ تحریک اس قدر طاقتور ہوگی۔
بہت سے تجزیہ نگار اور مبصر حضرات بھی اس کے بارے میں ایسے ہی خیالات رکھ رہے تھے لیکن رفتہ رفتہ حالات نے جس کروٹ رخ بدلا ہے ، سارا منظر نامہ ہی تبدیل ہو چکا ہے۔ حکومت کے اتحادی تو اتحادی اُس کے اپنے لوگوں کی ایک تعداد بھی منحرف ہوچکی ہے اور اب کہا جا رہا ہے کہ یہ حکومت خطرے میں ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کو جو جتنا تاخیر سے بلایاجائے حکومت کے پاس بس اُتنے ہی دن باقی رہ گئے ہیں ، ورنہ عددی اعتبار سے اپنی اکثریت ثابت کرنے میں اس کی راہ میں رکاوٹیں بڑھ رہی ہے۔ آج سے چند دن پہلے تک حکومتی نمایندے اور ترجمان اپوزیشن کو ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری بیانوں میں اکثر چیلنج کرتے دکھائی دیتے تھے کہ اگر تمہارے پاس نمبر پورے ہوچکے ہیں تو دکھائو کہاں ہیں وہ نمبر۔ لیکن 17 مارچ کے روز جب یہ نمبر کھل کر عوام کے سامنے آگئے تو وہی لوگ اپنے منحرف ارکان کے خلاف ہو گئے۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ 2018 میں یہ حکومت جب معرض وجود میں آئی تھی تو اس پر بھی بہت سے الزامات لگے تھے ۔ اس وقت ملک کی ایک بڑی طاقت چونکہ تحریک انصاف کی سپورٹ میں تھی اور اپوزیشن خود اپنے خلاف عدلیہ کے فیصلوں کی زد میں گھری ہوئی تھی اس لیے یہ سب کچھ سیاست کا ایک جائز عنصر سمجھ کر برداشت کر لیا گیا۔ اُس وقت مخالف سیاسی پارٹیوں سے جو، جو الگ ہوکر حکمراں جماعت میں شامل ہوتا رہا انھیں PTI کی طرف سے دونوں بانہیں کھول کر ویلکم کیا جاتا رہا۔ کرکٹ کی اصطلاح استعمال کرکے اِسے وکٹوں کا گرنا شمار کیا جاتا رہا۔ لیکن یہی لوگ اب جب حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہوکر واپس جانے لگے ہیں تو انھیں بکاؤ مال اور نجانے کیا کیا کہا جا رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ حکومت اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کو کتنے دنوں تک ٹال سکتی ہے۔OIC کی کانفرنس ایک ایسا معاملہ ہے جو دو دن سے زیادہ نہیں چل سکتا۔ یہ کانفرنس 25 مارچ کو ختم ہوجائے گی اور پھر اسپیکر صاحب کے پاس اور کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔1972 کے میونخ اولمپک میں ہماری ہاکی ٹیم نے جرمنی کے ساتھ فائنل میچ میں اپنی ہار کو تسلیم کرنے کے بجائے احتجاج کرتے ہوئے کچھ نامناسب طرز عمل اختیار کیا تھا۔ یہ درست ہے کہ اُس کے ساتھ اس میچ میں زیادتی کی گئی تھی لیکن اس احتجاج کا نتیجہ کیا نکلا، ہماری قومی ہاکی ٹیم پر کئی سالوں کے لیے بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں حصہ لینے پر پابندی لگادی گئی۔
ہماری ساری قوم نے اس وقت اپنی ہاکی ٹیم کے اس طریقہ احتجاج پر نہ صرف خوشی کا اظہار کیا تھا بلکہ اُسے درست اور جائز سمجھ کر اُسے سراہا بھی تھا ، مگر اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے بہت سے اچھے کھلاڑیوں کی وہ عمریں اسی پابندی کی نذر ہو کر رہ گئیں جس میں وہ اپنے کھیل سے دنیا کو بتلا سکتے تھے کہ پاکستان کی ہاکی ٹیم دنیا کی سب سے بہتر ہاکی ٹیم ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس بھی موقعہ ہے کہ وہ مشکلات سے نہ گھبرائے اور بدلتے حالات کی حقیقت کو قبول کرتے ہوئے معرکہ کے لیے تیار ہوجائے ۔
خان صاحب نے جب 1996 سے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تو انھوں نے اچھی سیرت کے پاک صاٖف لوگ پارٹی میں شامل کیے اور اپنے دعوے اور اُصول کے مطابق انھی کے ذریعے اقتدار میں آنے کی کوششیں کرتے رہے۔ لیکن کئی سالوں کی مشقت کے بعد بھی وہ دو تین نشستوں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ اُن کی ساری جدوجہد سیاست کو کرپشن سے پاک کرنا مقصود تھا ، لیکن 2011 میں یہ ساری جدوجہد اور اُصول روایتی سیاست کی نذر ہو گئے۔
الیکٹیبلز کو پارٹی میں شامل کرنے کو وہ '' راکٹ سائنس '' کا نام دیتے رہے اور انھی کے ذریعے وہ دو تین نشستوں سے بڑھ کراس مقام تک پہنچ گئے کہ 2018 کے الیکشن میں کامیاب ہوگئے ، جن پتوں پر تکیہ کر کے وہ اقتدار میں آئے تھے وہ پتے اب جب ہوا دینے لگے ہیں تو برہم اور خفا نہیں ہونا چاہیے۔ وہ پہلے بھی آپ کے نہیں تھے تو اب کیسے ہوسکتے ہیں، وہ اپنی کسی مجبوری یا پھر کسی دباؤکی وجہ سے آپ کے ساتھ ملے تھے لیکن اب یہ دباؤ جب کم ہونے لگا ہے اور وہ اگلے الیکشن میں عوام کا سامنا کرنے جا رہے ہیں تو موجودہ حکومت کی کارکردگی کے ساتھ کیسے جاسکتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے خود کو اس حکومت سے علیحدہ کرنے ہی کو اپنی خیریت جانا۔
مسلم لیگ (ن) کو بھی 2017 میںکچھ ایسے ہی حالات کاسامنا تھا لیکن اُس کے مخلص اور وفادار کارکن اُس کے ساتھ مضبوطی سے اس لیے جڑے رہے کہ اُس کی کارکردگی ایسی نہ تھی جیسی موجودہ حکومت کی رہی ہے۔ عوام آج بھی اُس حکومت کا موجودہ حکومت سے موازنہ کرتے ہیں تو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بلاشبہ مسلم لیگ حکومت کی کارکردگی اِس حکومت سے بہتر تھی۔
موجودہ حکومت کی کارکردگی اگر اچھی ہوتی تو شاید اُسے یہ دن دیکھنا نہ پڑتے۔ لوگوں کو کوئی شوق نہیں ہے کہ چند سالوں میں حکومت بدلتے رہیں۔ عوام آج اِس حکومت سے اس لیے نالاں ہیں کہ مہنگائی اور بیروزگاری نے اُن کی زندگی اجیرن بنا کے رکھ دی ہے۔
حکومت نے اگر اس جانب خیال کیا ہوتا تو کسی بھی اتحادی کو یہ سوچنا ہرگز نہ پڑتا کہ وہ کس منہ سے عوام کے سامنے جائیں گے۔ وہ اس حکومت کے ساتھ اُسی طرح جڑے رہتے جس طرح سابقہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اُس کے لوگ جڑے رہے ہیں۔ نیب کے کیسز اور بلاجواز قید بھی اُن کی وفاداریوں میں کوئی شق اور شگاف ڈالنے میں کامیاب نہ ہو پائی۔