سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے
کیا ہم اپنے حکمرانوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ سیاسی طور پر مذہب کو کیوں استعمال کرتے ہیں
لاہور:
کرسٹا روڈ نی گوز (Krysta Rodrigeuz) امریکی اداکارہ اور گائیکہ ہے۔ حد درجہ کامیاب خاتون۔ بچپن ہی سے اداکاری کا جنون تھا۔ شوق 2005 میں اسے نیویارک لے آیا جہاں بروڈ وے پر کرسٹا نے مختلف ڈراموں میں اداکاری کرنی شروع کر دی۔ قسمت اور دولت کی دیوی اس پر حد درجہ مہربان رہی۔
ٹی وی ڈرامے' فلمیں اس کے سامنے مسخر ہوتے چلے گئے۔2014تک کرسٹا کے پاس سب کچھ تھا۔ بیورلے ہلز کے علاقے میں مہنگاترین گھر' ذاتی ہوائی جہاز' ملازمین کی پوری فوج' مہنگی ترین گاڑیاں اور حد درجہ زیادہ دولت۔ پوری زندگی کوئی تکلیف دیکھی ہی نہیں تھی۔ 2014 میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے کرسٹا کی زندگی بدل ڈالی۔ سینے میں تکلیف رہنی شروع ہو گئی۔
ڈاکٹرکے پاس گئی تو معلوم ہوا کہ کینسر کی مریض ہے۔ کینسر کا لفظ انسان کے لیے کتنا سوہان روح ہو سکتا ہے۔ پہلی مرتبہ اسے معلوم ہوا۔ بیماری نے کرسٹا کو مکمل تبدیل کرڈالا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اسے بہتر انسان بنا دیا۔ کیموتھریپی کی بدولت سر کے سارے بال گر گئے۔ جسمانی طور پر لاغر سے لاغر ہوتی گئی۔ پر ذہنی طور پر مضبوط سے مضبوط تربنتی چلی گئی۔ اس نے اپنی ساری تکالیف اور مصائب کو اکٹھا کیا ۔ اور ایک ویب سائٹ ترتیب دی۔ جس کا نام Chemocoutureتھا۔ کرسٹا نے اپنے تمام جذبات اس سائٹ پر لکھنے شروع کر دیے۔
کرسٹا نے آٹھ ایسے سوالات لکھے جو کسی بھی کینسر کے مریض سے نہیں پوچھنے چاہیں۔ پہلا تھا کہ آپ کا مرض تھوڑا سا پہلے پتہ چل گیا؟ کرسٹا لکھتی ہے کہ کسی بھی تکلیف کی تشخیص کا کوئی جلدی یا دیر والا وقت نہیں ہوتا۔ یہ جب بھی انسان پر آتی ہے تو وہی وقت قیامت کا ہوتا ہے۔ دوسرا سوال جو نہیں پوچھنا چاہیے کہ کیا آپ خوف زدہ ہو؟لکھتی ہے کہ اس کا کیا جواب دیا جائے۔ بلکہ یہ کیسا عجیب سا سوال ہے۔ لازم ہے کہ کینسر یا کسی بھی مصیبت سے انسان خوف زدہ ضرور ہوتا ہے۔ مگر کسی بھی انسان سے یہ پوچھنا غیر معقول امر ہے۔
تیسرا سوال یہ کہ جب لوگوں کو آپ کی تکلیف کا پتہ چلتا ہے تو ہر انسان' ہر مشورہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ لوگ جو مکمل طور پر جاہل یا حد درجہ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ مشورہ دینے میں بالکل تاخیر نہیں کرتے۔یہ الگ بات ہے کہ انھیں مسئلہ کے متعلق بہت اچھی معلومات نہیں ہوتیں۔چوتھا سوال جو اکثر لوگ برملا کرتے ہیں کہ آپ کو یہ مرض کیسے ہوا؟ کرسٹا لکھتی ہے کہ زندگی میں سب کچھ آپ کے منصوبے کے مطابق نہیں ہوتا۔ حادثات کا کوئی متعین وقت نہیں ہے۔ یہ کسی بھی وقت کسی کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔
ایک سوال جو کبھی نہیں پوچھنا چاہیے کہ یہ مرض تو آپ کے لیے حد درجہ تکلیف کا باعث ہو گا؟ کرسٹا کہتی ہے کہ تکلیف دراصل انسان کو حد درجہ مضبوط کر دیتی ہے۔ انسان اگر اپنے اعصاب پر قابو رکھے تو حد درجہ ضعف میں بھی جینے کا ہنر جان لیتا ہے۔ ہاں آخری بات' تکلیف کو آپ کو مسخر نہیں کرنا چاہیے؟ہر ایک کو بتانا بھی نہیں چاہیے کہ آپ شدید غم میں ہیں۔ اگلے دو سوالات چھوڑ دیتا ہوں۔
کرسٹا کینسر سے ایک برس لڑتی رہی اور دوبارہ شوبز میں آگئی۔ اب وہ پہلے سے زیادہ کامیاب ہوئی۔ کیونکہ لوگ اس کی بہادری' جرأت اور دانشمندی سے متاثر تھے۔کرسٹا آج بھی انتہائی خوبصورتی سے زندگی گزار رہی ہے۔ شاید ذہن میں سوال ہو کہ کرسٹا کے سوالات کا آپ کی زندگی سے کیا تعلق ۔ مگر گہرائی سے دیکھیے تو یہ سوالات ہر انسان' سماج اور معاشرے کے متعلق بالکل درست ہیں۔ دنیا میں کون سا ایسا انسان ہے جس نے کبھی کوئی تکلیف نہ دیکھی ہو۔ کون سا ایسا ملک ہے جس میں شہریوں کی تمام مشکلات حل ہو چکی ہوں۔ کون سا ایسا سماج ہے جہاں ناہمواری نہ ہو۔
دنیا کے ان گنت ممالک میں جانے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ انسانی مسائل کے لحاظ سے تقریباً تمام ملک ایک جیسے ہیں۔ ہاں' نوعیت کا فرق ضرور ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ دراصل دنیا کا کوئی نظام یا انسان یا معاشرہ ہر طریقے سے مکمل نہیں ہے۔ کوئی نہ کوئی کمی رہ ہی جاتی ہے۔ اور یہ کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ سماجی' سیاسی' معاشرتی اعتبار سے ہر خطہ انوکھا ہے اور ہر قوم مختلف بلکہ منفرد ۔ ہاں ایک بات ضرورذہن میں رکھنی چاہیے ۔ ترقی یافتہ ممالک انسانوں کو ہر طور پر ترجیح دیتے ہیں۔
جنگوں' بے اعتدالیوں اور عذابوں سے انھوں نے سیکھ لیا ہے کہ کسی بھی ملک کا اصل کام اپنے شہریوں کی فلاح ہے۔ اس لیے ترقی یافتہ ممالک ایسا نظام بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں جو عام شہری کی بہتری کے لیے مرتب ہوا ہے۔ آسانیاں پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ ایک اہم بات ' جھوٹ اورسچ کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ زندگی میں ممکنہ حد تک حقیقت پسندی کو عیاں رکھا جاتا ہے۔ کوئی تقابلی جائزہ نہیں کر رہا۔ مگر یہ کہنے اور ماننے میں کوئی حرج نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی غلطیوں سے سیکھ کر بہتر سے بہترین ہونے کے سفر پر رواں دواں ہیں۔
یہاں یاد رکھیے کہ وہاں کسی کی ذاتی زندگی کے متعلق سوال وجواب کا کوئی معاملہ ہی نہیں ہے۔ فکری آزادی نے شخصی آزادی کی داغ بیل رکھی ہے اور آہستہ آہستہ وہ معاشرے انسان دوست بن چکے ہیں۔ یہی وہ فرق ہے جس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کی اکثریت' مغربی ممالک میں جانے کے لیے سرد ھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔ اس کوشش میں موت بھی آ جائے تو پرواہ نہیں کرتے۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے جیسے ممالک میں کوئی نہ کوئی ایسی کمی ہے جس سے خلق خدا تنگ ہے اور بہتر چراگاہوں کی طرف ہجرت کرنا چاہتی ہے۔
پر کیا یہاں یہ سوال پوچھنا جائز نہیں کہ ہمارے جیسے ملک سماجی' سیاسی' معاشرتی اور اقتصادی گرداب سے کیوں نہیں نکل پائے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا میں اکثر قومیں ترقی کی طرف گامزن ہیں اور ہم لوگ روز بروز تنزلی کی جانب دوڑ رہے ہیں۔ آخر کوئی تو سوال کرنا چاہیے اور کسی کو تو جواب دینا چاہیے۔ پر کیا ہم درست سوال کر سکتے ہیں یا اس طرح کہہ لیجیے کہ کیا ہم سوال کر بھی سکتے ہیں یا نہیں۔ اور کیا ہمیں سوال کرنے چاہیے؟
یہ وہ مشکل ترین امر ہے جس پر ذہن پر بوجھ ڈالنا ضروری ہے۔ سوال ہے کہ کیا ہم اپنے معاشرے میں خوف کے تحت زندگی نہیں گزار رہے۔ بالکل گزار رہے ہیں۔ امیر کو اپنی دولت کے چھننے کا خوف ہے۔ اور غریب کو یہ ڈر کہ اگلے دن روٹی ملے گی بھی کہ نہیں۔ اس معاشرے میں ہر کوئی خوف زدہ ہے۔ آپ کو امیر اور اہم لوگ' حفاظتی حصاروں میں نظر آتے ہیں۔ ان گنت گن مین ان کے اردگرد ہوتے ہیں۔ اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اہم نظر آنے والے افراد حد درجہ بے یقینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ عوام سے بھی اور اپنے آپ سے بھی گھبرائے ہوئے لوگ ہیں۔انھیں تو یہ بھی ڈر ہے کہ گن مین کے بغیر کوئی انھیں نقصان نہ پہنچا ڈالے ۔ مگر نقصان تو بہر حال پہنچ کر رہتا ہے۔ مگر کیا آپ ان سے سوال کر سکتے ہیں کہ بالآخر آپ کو کس چیز کا خوف ہے۔ یہ ہر وقت اپنے آپ کو بلکہ ہر ایک کو دھوکا دیتے ہیں۔ پر اعتماد نظر آنے کے لیے ہر کام کرتے ہیں۔مگر خوف ان کے چہرے پر بڑے آرام سے پڑھا جا سکتا ہے۔ کتنے حفاظتی اقدامات میں رہتے ہیں۔ عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
چالیس چالیس فٹ اونچی گھروں کی بم پروف دیواریں' سیکڑوں کی تعداد میں محافظ صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ اپنے ڈر سے گھبرائے ہوئے لوگ ہیں۔ طاقت اور دولت ان کے لیے عذاب بنا دی گئی ہے۔ خدا نے ان کو اس عذاب میں مبتلا کیا ہے جس کا یہ ذکر بھی نہیں کر سکتے۔ سرکار کے پیسے سے بنی ہوئی فصیلیں اور دیواریں' الیکٹرانک دروازے اور اسلحہ کی نمائش۔ اس کا مطلب سادہ سا ہے۔ خوش قسمت نظر آنے والے یہ لوگ بھی اندرونی خوف سے لرزے ہوئے ہیں۔ ان کے چہروں پر اعتماد اور خوشی کی لکیر تک نہیں ہے۔ پر یہ کبھی بتائیں گے نہیں کہ یہ کتنے سہمے ہوئے بشر ہیں۔ آپ اپنی زندگی اور مصائب کے باہمی تعلق کو دیکھیے ۔ اس کا کوئی وقت متعین نہیں ہے ۔
کرسٹا نے جو سوالات اٹھائے تھے۔ کیا اس طرح یا ان سے منسلک سوالات ہم کرنے کی استطاعت یا اجازت رکھتے ہیں۔ کیا ہم اپنے حکمرانوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ سیاسی طور پر مذہب کو کیوں استعمال کرتے ہیں۔ شاید اس طرح کی کوئی بات نہیں کی جا سکتی۔ ہمارا پورا سماج شدید ناہمواری ' بے سکونی اور عذاب میں مبتلا ہے۔ یہاں ہر شخص اپنے اپنے مصائب کی آگ میں جل رہا ہے۔ مگر پھر بھی ملک' معاشرے یا اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کرسٹا جو باتیں لکھتی رہی۔ وہ مہذب معاشروں کا خاصہ ہے۔ یہاں تو ہر سوال کا جواب بھی دراصل ایک سوال ہی ہے؟
کرسٹا روڈ نی گوز (Krysta Rodrigeuz) امریکی اداکارہ اور گائیکہ ہے۔ حد درجہ کامیاب خاتون۔ بچپن ہی سے اداکاری کا جنون تھا۔ شوق 2005 میں اسے نیویارک لے آیا جہاں بروڈ وے پر کرسٹا نے مختلف ڈراموں میں اداکاری کرنی شروع کر دی۔ قسمت اور دولت کی دیوی اس پر حد درجہ مہربان رہی۔
ٹی وی ڈرامے' فلمیں اس کے سامنے مسخر ہوتے چلے گئے۔2014تک کرسٹا کے پاس سب کچھ تھا۔ بیورلے ہلز کے علاقے میں مہنگاترین گھر' ذاتی ہوائی جہاز' ملازمین کی پوری فوج' مہنگی ترین گاڑیاں اور حد درجہ زیادہ دولت۔ پوری زندگی کوئی تکلیف دیکھی ہی نہیں تھی۔ 2014 میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے کرسٹا کی زندگی بدل ڈالی۔ سینے میں تکلیف رہنی شروع ہو گئی۔
ڈاکٹرکے پاس گئی تو معلوم ہوا کہ کینسر کی مریض ہے۔ کینسر کا لفظ انسان کے لیے کتنا سوہان روح ہو سکتا ہے۔ پہلی مرتبہ اسے معلوم ہوا۔ بیماری نے کرسٹا کو مکمل تبدیل کرڈالا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اسے بہتر انسان بنا دیا۔ کیموتھریپی کی بدولت سر کے سارے بال گر گئے۔ جسمانی طور پر لاغر سے لاغر ہوتی گئی۔ پر ذہنی طور پر مضبوط سے مضبوط تربنتی چلی گئی۔ اس نے اپنی ساری تکالیف اور مصائب کو اکٹھا کیا ۔ اور ایک ویب سائٹ ترتیب دی۔ جس کا نام Chemocoutureتھا۔ کرسٹا نے اپنے تمام جذبات اس سائٹ پر لکھنے شروع کر دیے۔
کرسٹا نے آٹھ ایسے سوالات لکھے جو کسی بھی کینسر کے مریض سے نہیں پوچھنے چاہیں۔ پہلا تھا کہ آپ کا مرض تھوڑا سا پہلے پتہ چل گیا؟ کرسٹا لکھتی ہے کہ کسی بھی تکلیف کی تشخیص کا کوئی جلدی یا دیر والا وقت نہیں ہوتا۔ یہ جب بھی انسان پر آتی ہے تو وہی وقت قیامت کا ہوتا ہے۔ دوسرا سوال جو نہیں پوچھنا چاہیے کہ کیا آپ خوف زدہ ہو؟لکھتی ہے کہ اس کا کیا جواب دیا جائے۔ بلکہ یہ کیسا عجیب سا سوال ہے۔ لازم ہے کہ کینسر یا کسی بھی مصیبت سے انسان خوف زدہ ضرور ہوتا ہے۔ مگر کسی بھی انسان سے یہ پوچھنا غیر معقول امر ہے۔
تیسرا سوال یہ کہ جب لوگوں کو آپ کی تکلیف کا پتہ چلتا ہے تو ہر انسان' ہر مشورہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ لوگ جو مکمل طور پر جاہل یا حد درجہ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ مشورہ دینے میں بالکل تاخیر نہیں کرتے۔یہ الگ بات ہے کہ انھیں مسئلہ کے متعلق بہت اچھی معلومات نہیں ہوتیں۔چوتھا سوال جو اکثر لوگ برملا کرتے ہیں کہ آپ کو یہ مرض کیسے ہوا؟ کرسٹا لکھتی ہے کہ زندگی میں سب کچھ آپ کے منصوبے کے مطابق نہیں ہوتا۔ حادثات کا کوئی متعین وقت نہیں ہے۔ یہ کسی بھی وقت کسی کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔
ایک سوال جو کبھی نہیں پوچھنا چاہیے کہ یہ مرض تو آپ کے لیے حد درجہ تکلیف کا باعث ہو گا؟ کرسٹا کہتی ہے کہ تکلیف دراصل انسان کو حد درجہ مضبوط کر دیتی ہے۔ انسان اگر اپنے اعصاب پر قابو رکھے تو حد درجہ ضعف میں بھی جینے کا ہنر جان لیتا ہے۔ ہاں آخری بات' تکلیف کو آپ کو مسخر نہیں کرنا چاہیے؟ہر ایک کو بتانا بھی نہیں چاہیے کہ آپ شدید غم میں ہیں۔ اگلے دو سوالات چھوڑ دیتا ہوں۔
کرسٹا کینسر سے ایک برس لڑتی رہی اور دوبارہ شوبز میں آگئی۔ اب وہ پہلے سے زیادہ کامیاب ہوئی۔ کیونکہ لوگ اس کی بہادری' جرأت اور دانشمندی سے متاثر تھے۔کرسٹا آج بھی انتہائی خوبصورتی سے زندگی گزار رہی ہے۔ شاید ذہن میں سوال ہو کہ کرسٹا کے سوالات کا آپ کی زندگی سے کیا تعلق ۔ مگر گہرائی سے دیکھیے تو یہ سوالات ہر انسان' سماج اور معاشرے کے متعلق بالکل درست ہیں۔ دنیا میں کون سا ایسا انسان ہے جس نے کبھی کوئی تکلیف نہ دیکھی ہو۔ کون سا ایسا ملک ہے جس میں شہریوں کی تمام مشکلات حل ہو چکی ہوں۔ کون سا ایسا سماج ہے جہاں ناہمواری نہ ہو۔
دنیا کے ان گنت ممالک میں جانے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ انسانی مسائل کے لحاظ سے تقریباً تمام ملک ایک جیسے ہیں۔ ہاں' نوعیت کا فرق ضرور ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ دراصل دنیا کا کوئی نظام یا انسان یا معاشرہ ہر طریقے سے مکمل نہیں ہے۔ کوئی نہ کوئی کمی رہ ہی جاتی ہے۔ اور یہ کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ سماجی' سیاسی' معاشرتی اعتبار سے ہر خطہ انوکھا ہے اور ہر قوم مختلف بلکہ منفرد ۔ ہاں ایک بات ضرورذہن میں رکھنی چاہیے ۔ ترقی یافتہ ممالک انسانوں کو ہر طور پر ترجیح دیتے ہیں۔
جنگوں' بے اعتدالیوں اور عذابوں سے انھوں نے سیکھ لیا ہے کہ کسی بھی ملک کا اصل کام اپنے شہریوں کی فلاح ہے۔ اس لیے ترقی یافتہ ممالک ایسا نظام بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں جو عام شہری کی بہتری کے لیے مرتب ہوا ہے۔ آسانیاں پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ ایک اہم بات ' جھوٹ اورسچ کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ زندگی میں ممکنہ حد تک حقیقت پسندی کو عیاں رکھا جاتا ہے۔ کوئی تقابلی جائزہ نہیں کر رہا۔ مگر یہ کہنے اور ماننے میں کوئی حرج نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی غلطیوں سے سیکھ کر بہتر سے بہترین ہونے کے سفر پر رواں دواں ہیں۔
یہاں یاد رکھیے کہ وہاں کسی کی ذاتی زندگی کے متعلق سوال وجواب کا کوئی معاملہ ہی نہیں ہے۔ فکری آزادی نے شخصی آزادی کی داغ بیل رکھی ہے اور آہستہ آہستہ وہ معاشرے انسان دوست بن چکے ہیں۔ یہی وہ فرق ہے جس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کی اکثریت' مغربی ممالک میں جانے کے لیے سرد ھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔ اس کوشش میں موت بھی آ جائے تو پرواہ نہیں کرتے۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے جیسے ممالک میں کوئی نہ کوئی ایسی کمی ہے جس سے خلق خدا تنگ ہے اور بہتر چراگاہوں کی طرف ہجرت کرنا چاہتی ہے۔
پر کیا یہاں یہ سوال پوچھنا جائز نہیں کہ ہمارے جیسے ملک سماجی' سیاسی' معاشرتی اور اقتصادی گرداب سے کیوں نہیں نکل پائے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا میں اکثر قومیں ترقی کی طرف گامزن ہیں اور ہم لوگ روز بروز تنزلی کی جانب دوڑ رہے ہیں۔ آخر کوئی تو سوال کرنا چاہیے اور کسی کو تو جواب دینا چاہیے۔ پر کیا ہم درست سوال کر سکتے ہیں یا اس طرح کہہ لیجیے کہ کیا ہم سوال کر بھی سکتے ہیں یا نہیں۔ اور کیا ہمیں سوال کرنے چاہیے؟
یہ وہ مشکل ترین امر ہے جس پر ذہن پر بوجھ ڈالنا ضروری ہے۔ سوال ہے کہ کیا ہم اپنے معاشرے میں خوف کے تحت زندگی نہیں گزار رہے۔ بالکل گزار رہے ہیں۔ امیر کو اپنی دولت کے چھننے کا خوف ہے۔ اور غریب کو یہ ڈر کہ اگلے دن روٹی ملے گی بھی کہ نہیں۔ اس معاشرے میں ہر کوئی خوف زدہ ہے۔ آپ کو امیر اور اہم لوگ' حفاظتی حصاروں میں نظر آتے ہیں۔ ان گنت گن مین ان کے اردگرد ہوتے ہیں۔ اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اہم نظر آنے والے افراد حد درجہ بے یقینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ عوام سے بھی اور اپنے آپ سے بھی گھبرائے ہوئے لوگ ہیں۔انھیں تو یہ بھی ڈر ہے کہ گن مین کے بغیر کوئی انھیں نقصان نہ پہنچا ڈالے ۔ مگر نقصان تو بہر حال پہنچ کر رہتا ہے۔ مگر کیا آپ ان سے سوال کر سکتے ہیں کہ بالآخر آپ کو کس چیز کا خوف ہے۔ یہ ہر وقت اپنے آپ کو بلکہ ہر ایک کو دھوکا دیتے ہیں۔ پر اعتماد نظر آنے کے لیے ہر کام کرتے ہیں۔مگر خوف ان کے چہرے پر بڑے آرام سے پڑھا جا سکتا ہے۔ کتنے حفاظتی اقدامات میں رہتے ہیں۔ عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
چالیس چالیس فٹ اونچی گھروں کی بم پروف دیواریں' سیکڑوں کی تعداد میں محافظ صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ اپنے ڈر سے گھبرائے ہوئے لوگ ہیں۔ طاقت اور دولت ان کے لیے عذاب بنا دی گئی ہے۔ خدا نے ان کو اس عذاب میں مبتلا کیا ہے جس کا یہ ذکر بھی نہیں کر سکتے۔ سرکار کے پیسے سے بنی ہوئی فصیلیں اور دیواریں' الیکٹرانک دروازے اور اسلحہ کی نمائش۔ اس کا مطلب سادہ سا ہے۔ خوش قسمت نظر آنے والے یہ لوگ بھی اندرونی خوف سے لرزے ہوئے ہیں۔ ان کے چہروں پر اعتماد اور خوشی کی لکیر تک نہیں ہے۔ پر یہ کبھی بتائیں گے نہیں کہ یہ کتنے سہمے ہوئے بشر ہیں۔ آپ اپنی زندگی اور مصائب کے باہمی تعلق کو دیکھیے ۔ اس کا کوئی وقت متعین نہیں ہے ۔
کرسٹا نے جو سوالات اٹھائے تھے۔ کیا اس طرح یا ان سے منسلک سوالات ہم کرنے کی استطاعت یا اجازت رکھتے ہیں۔ کیا ہم اپنے حکمرانوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ سیاسی طور پر مذہب کو کیوں استعمال کرتے ہیں۔ شاید اس طرح کی کوئی بات نہیں کی جا سکتی۔ ہمارا پورا سماج شدید ناہمواری ' بے سکونی اور عذاب میں مبتلا ہے۔ یہاں ہر شخص اپنے اپنے مصائب کی آگ میں جل رہا ہے۔ مگر پھر بھی ملک' معاشرے یا اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کرسٹا جو باتیں لکھتی رہی۔ وہ مہذب معاشروں کا خاصہ ہے۔ یہاں تو ہر سوال کا جواب بھی دراصل ایک سوال ہی ہے؟